مصارف زکوٰة اور اس کی تفصیلات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08

ا س سلسلے میں تاریخ اسلام میں دو دور نمایاں دکھائی دیتے ہیں ایک مکہ کے قیام کا زمانہ جس میں رسول اکرم او رمسلمانوں کی توجہ افراد کی تعلیم و تربیت اورتبلیغ پر لگی ہوئی تھی ۔
دوسرا مدینہ منورہ کا ہے جس میں رسول الہ نے حکومت ِ اسلامی کی تشکیل اور تعلیمات اسلامی کو اس صالح حکومت کے ذریعے عملی صورت دینے اور جاری کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت کی تشکیل کے وقت ایک ابتدائی او رنہایت ضروری مسئلہ بیت المال کی تشکیل ہے تاکہ اس کے ذریعے حکومت کی اتقصادی ضروریات پوری ہوتی رہیں او ریہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کا ہر ایک حکومت کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
البتہ جیساکہ ہم انشاء الہ اس کے بعد اشارہ کریں گے کہ زکوٰة کا حکم پہلے مکہ مکرمہ میں بھی نازل ہوا تھا ۔ لیکن اس میں زکوٰة کی رقم کا بیت المال میں جمع کرنا واجب نہ تھا ۔ بلکہ لوگ اسے خود ادا کرتے تھے ۔ لیکن مدینہ منورہ میں اسے جمع کرنے اور مرکزیت دینے کا حکم خدا وند عالم کی طرف سے سورہ ٴتوبہ کی آیت ۱۰۳ میں نازل ہوا۔
زیر بحث آیت جس کے بارے میں یہ تسلیم شدہ ہے کہ وہ زکوٰة حاصل کرنے کو واجب قرار دینے والی آیت کے بعد ہے ( اگر چہ قرآن میں اس کا ذکر پہلے بھی کیا گیا ہے ) زکوٰة کے مختلف مصارف بیان کرتی ہے ۔
قابل توجہ یہ ہے کہ اس آیت کے شروع میں لفظ ” انما “ ہے وجو حصر پر دلالت کرتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض خود غرض اور جاہل یہ امید رکھتے تھے کہ وہ استحقاق کے بغیر زکوٰة میں سے کچھ حصہ وصول کرلیں مگر لفظ” انما“ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پہلے کی دوآیتوں سے یہی معنی نکلتے ہیں کہ بعض لوگ رسول اللہ پر اعتراض کرتے تھے کہ آپ زکوٰة کا کچھ حصہ ہمارے اختیار میں کیوں نہیں دیتے؟ یہاں تک کہ وہ محرورمی کی صورت میں آگ بگولہ ہو جاتے لیکن اس کے ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ۔
بہر حال مندر جہ بالاآیت واضح طور پر زکوٰة کے واقعی او رذحقیقی مصارف بیا ن کرکے تمام بے جا توقعات کو ختم کرہی ہے اور ان مصارف کی آٹھ قسمیں مقرر کرتی ہے :
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ )۔
( وَالْمَسَاکِینِ)۔
” عاملین “ زکوٰة جمع کرنے والے ( وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا)۔
یہ جماعت اس عملہ اور کار کنان کی ہے جو زکوٰة جمع کرتے اور اسلامی بیت المال کا انتظام و انصرام کرتے ہیں ۔ جو کچھ ان کو دیا جاتا ہے وہ در حقیقت ان کی مزدوری ہے ۔
”موٴلفة قلوبھم “ یعنی وہ لوگ جس میں اسلام کی ترقی کے لئے کوئی مضبوط روحانی جذبہ نہیں ہے لیکن مالی تشویق کے ذریعے ان کی تالیف ِ قلوب ہوسکتی ہے ان کی محبت حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ”وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُہُمْ“ کی مزید توضیح بعد میں آئے گی ۔
( وَفِی الرِّقَابِ)۔
یعنی زکوٰة کا ایک حصہ ایک حصہ غلامی کے خلاف جہاد کرنے او را سکے خلاف انسانیت کام کو ختم کرنے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے ۔ نیز جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ غلاموں کے بارے میں اسلام کا پروگرام ان کی تدریجی آزادی ہے ۔ جس کا آخری نتیجہ تمام غلاموں کو آزادی دلانا ہے ۔ بغیر اس کے کہ معاشرے کی طرف سے کوئی ناپسند یدہ ردِّ عمل کیاجائے یہ بھی اسی پروگرام کا ایک حصہ ہے کہ زکوٰة کا ایک حصہ اس مقصد کے لئے مختص کیا جا تا ہے ۔
( وَالْغَارِمِینَ)
( وَفِی سَبِیلِ اللهِ )۔
جیسا کہ ہم مذکورہ آیت کے آخر میں اشارہ کریں گے کہ اس سے مراد تمام راستے ہیں جن سے دین الہٰی کو وسعت ملتی ہو اور تقویت ملتی ہو، مثلاً جہاد اور تبلیغ وغیرہ۔
(وَاِبْنِ السَّبِیلِ)۔
۱۔ فقراء : سب سے پہلے واضح کرتی ہے ” صدقات و زکوٰة فقیروں کے لئے “ ۲۔ مساکین ۳۔ ۴۔ ۵۔ غلاموں کو آزاد کرنے والے کے لئے ۶۔ ایسے قرض داروں کے قرض کی ادائیگی جو کسی جرم و خطا کے بغیر قرض کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور اسے ادا رکر نے کی طاقت نہیں رکھتے ۷۔ خدا کے راستے میں ۸۔ وہ جو سفر میں محتاج ہو جائیں
یعنی ایسے مسافر جو کسی وجہ سے راستے میں رہ جائیں اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے حسب ضرورت زاد راہ اور سواری رکھتے ہوں۔
اگر چہ وہ فقیر اور نادار نہ ہوں ۔ مگر وہ چوری ، بیماری یامال گم ہونے یا کسی اور سبب سے اس حالت میں مبتلا ہوں ۔ اس قسم کے افراد کو زکوٰة سے اس قدر رقم دی جائے کہ وہ اطمنان سے منزل ِ مقصود تک پہنچ سکیں ۔
آیت کے آخر میں تاکید کے
عنوان سے گذشتہ مصارف کے بارے میں فرمایا گیا ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے ( فَرِیضَةً مِنْ اللهِ)۔
اس میں شک نہیں کہ یہ فریضہ انتہائی جچا تلا ہے جو فر اور معاشرے دونوں کی بہتری کے لئے جامع ہے کیونکہ خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے

( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ)۔

 

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma