تناسخ اور روحوں کی بازگشت کا سر چشمہ اور اس کی تاریخ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
روحوں سے رابطہ کی حقیقت
تناسخ کے تاریخی اسبابمقدمہ
تناسخ اور روحوں کی بازگشت کا سر چشمہ اور اس کی تاریخ

مو ت کے بعد روحوں کا دیگر اجسام میں لو ٹ جانے کا مسئلہ ہمیشہ سے انسانوں کے درمیان رائج رہا ہے جسے عقائد اور فلسفہ کی رو سے تناسخ کا نا م دیا جا تا ہے اگر چہ اس عقیدہ کے ماننے والے اس نا م کو قبول کرنے سے بیزار ہیں لیکن دانشمندوں اور علمی اصطلاحات میں روحوں کا مو ت کے بعد دوسرے اجسام میں حلول کر نا صرف اور صرف تناسخ کے نام سے یاد کیا جا تا ہے لہٰذا اس اصطلاح کے مخالفین کا انکاربے بنیاد اور کسی بھی فلسفی یا کلامی گفتارسے سازگار نہیں ہے مثلاً علامہ حلی اپنی کتاب (تجرید الاعتقاد ) میں خواجہ نصیر الدین طوسی کی بحث تناسخ کی وضاحت دیتے ہوئے فر ماتے ہیں:
تناسخ یہ ہے کہ روح جو کسی شخص کی شخصیت اور اس کی مو جو دیت کا مبدأ ہے وہ کسی دوسرے کے بدن میں داخل ہو کر اس کی مو جو دیت کی اساس کو تشکیل دے ۔
مو ضوع تناسخ کے تحت اشارات میں شیخ الرئیس ابو علی سینا اور اسی طرح شرح اشارات میں خواجہ نصیرالدین طوسی اور اسفا رمیں صدر المتالہین کی گفتگو سے اس معنی کے علاوہ کو ئی دوسرا معنی سمجھ میں نہیں آتا۔
کتاب گو ہر مراد میں معروف و مشہور فلسفی ملا عبد الرزاق لا ہیجی اور شرح منظومہ میں حکیم مشہور ملاہادی سبزواری کی تحریر سے یہی مطلب واضح و رو شن ہے ۔
بیسویں قرن کی دائرة المعارف میں فرید وجدی (جلد ١٠،صفحہ ١٧٢) پرتناسخ کے متعلق فر ما تے ہیں :
تناسخ ان لو گوں کا مذہب ہے کہ جوا س بات کے معتقد ہیں کہ روح بدن سے جدا ہو کر کسی دوسرے انسانی بدن میں حلول کر تی ہے تا کہ ایک نئی حیات پاسکے اور اس طرح اس میں عالم قدس میں رہنے والی روحوں کے درمیان رہنے کی لیاقت آجائے
ہم نے جو کچھ یہاں تناسخ کے سلسلہ میں بیان کیا ہے وہ بزرگ فلاسفہ کی گفتگو کا ایک گو شہ ہے اور ہمیں اس کے خلاف ایک شاہد بھی نہیں ملا لیکن یہ نکتہ ضرور مو جودہے کہ تناسخ کاایک معنی رو ح کا انسانی بدن میں بازگشت کے ہیں اور دوسرا معنی انسانی اور غیر انسانی اجسام میں روح کے حلول کر نے کے ہیں ،بعض فلاسفہ نے اس معنی کو وسعت دی ہے اور اس کے لئے چار مر حلے بیان کئے ہیں:
١۔نسخ:یعنی روح کا کسی دوسرے کے بدن میں حلول کرنا۔
٢۔مسخ:یعنی روح کاکسی دوسرے حیوان کے بدن میں حلول کرنا۔
٣۔فسخ :یعنی روح کا کسی خاص گیاہ میں سماں جانا۔
٤۔رسخ:یعنی روح کاکسی جماد میں داخل ہونا ۔

البتہ آئندہ جتنی دلیلیں بھی تناسخ کے بطلان میں ذکر کی جائیں گی و ہ تناسخ کے مذکورہ چار اقسام کو بھی شامل ہیں، دانشمندوں اور مؤرخوں کاکہنا ہے کہ اس عقیدہ کا منشأ ہند اور چین ہے جو ہمیشہ سے ان کے ادیان کا ایک جزء رہا ہے اور آج بھی اسی شکل و صورت میں مو جود ہے اور پھر وہاں سے بقیہ اقوا م و ملل میں پہنچا،کتاب ملل و نحل کے مصنف علامہ شہرستانی کے قول کے مطابق اس عقیدہ کے تمام مذاہب میں اکثر وبیشتر یہ عقیدہ پا یا جا تا ہے ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بت پرست لوگ کتنے لگاؤ سے حیوانات کی تعظیم کرتے ہیں، یہ تعظیم اسی عقیدہ کا نتیجہ ہے لیکن مسلمانوں کے تمام فرقوں میں کوئی بھی ایسا فر قہ نہیں ہے جو اس عقیدہ کا قائل ہو اس لئے کہ روح کا پلٹنا او پھر کسی دوسرے کے بدن میں حلول کرکے حیات کو ادامہ دینا قرآن کی کسی بھی آیت سے سازگارنہیں ہے ۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان کتاب ملل و نحل کے مطابق تناسخیہ فرقہ کا نام ملتا ہے لیکن آج اس فرقہ کاکو ئی نام و نشان نہیں ہے ۔
آج یورپ کی سرزمین پر اس عقیدہ کو بڑے آب و تاب کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے اور اس کے دفاع میں تمام تر کو ششیں صرف کی جارہی ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے اسلامی سماج میں کچھ افراد ان لو گوں کی اندھی تقلید کر تے ہو ئے انہیں کے ساتھ ہم عقیدہ ہو گئے ہیں ۔
تناسخ کے تاریخی اسبابمقدمہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma