ایک مشہور فلسفی کا نظریہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
روحوں سے رابطہ کی حقیقت
دوسری دلیل : ایک روح صرف اپنے بدن کے ساتھ زندگی گذار سکتی ہے عقیدہ تناسخ کے باطل ہونے پر پہلی دلیل : باز گشت غیر ممکن ہے
ایک مشہور فلسفی کا نظریہ

جناب ملا صدرا شیرازی اپنی مشہور کتاب اسفار میں عقیدہ تناسخ کے محال ہونے پر دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
روح اپنی خلقت کے آغاز میں ایک خالص استعداد اورقوة اور ہر قسم کی فعلیت سے آزاد ہوتی ہے بلکہ بدن بھی اپنے آغاز میں ایسا ہی ہوتاہے یعنی اس کا سب کچھ استعداد کے مرحلہ میں ہوتا ہے ۔
یہ دونوں روح و بدن ساتھ ساتھ قدم بڑھاتے ہیں اور جو کچھ ان دونوں میں قوة اور استعداد کی صورت میں پوشیدہ ہوتاہے ،وہ آہستہ آہستہ فعلیت اور ظہور کے مرحلہ میں پہنچتاہے ،ایک جسم فعلیت کے مرحلہ میں قدم رکھنے کے بعد محال ہے کہ وہ دوبارہ قوة و استعداد کے مرحلہ میں لوٹ جائے یا مثلاً کبھی بھی ایک کامل جنین کانطفہ یا علقہ کی منزل میں پلٹ جانا ، یا تولد کے بعد رحم میں لوٹ جانا غیر ممکن ہے ۔
بالکل اسی طرح روح فعلیت کے مرحلہ میں پہنچنے کے بعد قوةکی جانب نہیں لوٹ سکتی ، اس لئے کہ ان دونوں کی حرکت قوةسے فعلیت کی جانب حرکت جوہری کی ایک قسم ہے جو اشیاء کے درمیان پائی جاتی ہے اور حرکت جوہری میں بازگشت غیر ممکن ہے ۔
الغرض اگر یہ مان لیا جائے کہ روح فعلیت کے مرحلہ میں پہنچنے کے بعد ایک ایسے بدن میں لوٹ جائے جو جنین ہے یعنی محض استعداد اور قوة ہے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ایک مقام پر دو متضاد چیزیں اکھٹا ہوجائیں یعنی وہ بدن جو استعداد و قوت کی منزل میں ہے ، روح کے ساتھ متحد ہوجائے جو فعلیت و ظہور کی منزل میں ہے اوریہ اتحاد بدون تردید محال ہے ...
لیکن تناسخ کا عقیدہ بالکل اس قانون کے خلاف ہے ، یہ عقیدہ اس با ت کا قائل ہے کہ انسان جب مرجاتا ہے توا س کی روح ناقص یا باکمال ہوکر اس کے بدن سے جدا ہوجاتی ہے اور پھر کسی دوسرے بدن میں حلول کر کے کمال کے تمام مراحل کو شروع سے طے کرتی ہے ۔
پہلے مرحلہ میں نطفہ کی شکل اختیار کرتی ہے ا ور پھر جنین کے مرحلہ میں وارد ہو کر دوبارہ متولد ہوتی ہے اور طفولیت کے مراحل کو تمام مشکلات ، تلخیوں اور شیرینیوں کے ساتھ گذارتی ہے ، وہ روح جو پہلے سب کچھ جانتی تھی ، کھانا ، پینا ، سونا ، جاگنا ، وغیرہ اسے سب کچھ آتا تھا لیکن اب وہ کچھ بھی نہیں جانتی ، اب دوبارہ اس کی ماں اسے چلنا اور بولنا سکھائے ، اسے لباس پہننے کا طریقہ بتائے ، اس کو الفباء یا د کرائے اور ساری چیزیں دوبارہ سکھائے ، یہ ایک واضح بازگشت ہے اور ماضی میں لوٹ جانا ہے ، یہ ایک ایسا مطلب ہے جسے کوئی بھی فلسفی یا دانشمند کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرسکتا۔
جب کہ ایک خدا پرست کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ کائنات کا نظام ایک موجود ازلی کے ارادہ کے مطابق اور ایک منظم قوانین کے سایہ میں متحرک ہے ، یہ کیونکر ممکن ہے کہ تناسخ کو خالق ہستی سے نسبت دے کر یہ کہا جائے کہ وہ موجود ازلی ،موجودات کو کمال کے مراحل طے کرنے کے بعد انہیں دوبارہ پہلے والی حالت پر پلٹا دے گا اور وہ دوبارہ شروع سے تمام منزلوں کو طے کرے گا ۔
کیا اگر کسی یونیورسٹی کے طالب علم کو اسکول کے ابتدائی کلاس میں بٹھا کر شروع سے الفباء پڑھایا جائے تو کیادنیا اس پر نہیں ہنسے گی ، اگرچہ وہ طالب علم کتنا ہی ضعیف کیوں نہ ہو، دنیا اسے ایک احمقانہ عمل سمجھے گی ،اس صورت میں کیونکر خدا کی طرف ایسی نسبت دی جاسکتی ہے ؟
ہاں! حق تو یہ ہے کہ روح بدن سے جدا ہونے کے بعد کبھی بھی اس دنیا اور رحم میں نہیں لوٹ سکتی بلکہ اس کا ظہوراسکے بعد کی دنیا میں ہوگااور جس طرح ہماری یہ دنیا،دنیائے رحم کے مقابلہ میں ایک کامل مرحلہ ہے اسی طرح اس دنیا کے مقابلہ میں اس کے بعد کا جہان کامل ہوگا پس ہماری یہ دنیا ،آئندہ دنیا کے مقابلہ میں دنیا ئے رحم کی طرح تنگ و تاریک ہے ،بہرحال دوبارہ لوٹنے کا مسئلہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے ۔
دوسری دلیل : ایک روح صرف اپنے بدن کے ساتھ زندگی گذار سکتی ہے عقیدہ تناسخ کے باطل ہونے پر پہلی دلیل : باز گشت غیر ممکن ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma