1. موجودات عالم کا صحیح اندازہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
2 ـ تناسب و تعادلمعرفت کا بہترین معیار
نہ صرف عالم ہستی کا جچاتلا پختہ نظام ، خدا کی توحید اور اس کی معرفت کے محکم دلائل میں سے ایک دلیل ہے بلکہ اس کا صحیح صحیح اندازہ بھی اس کی وحدایت کی ایک اور واضح دلیل ہے ہم کسی بھی صورت میں اس کائنات کی مختلف چیزوں کے اندازے، مقدار اور تعداد کو”اتفاق“کا نتیجہ نہیں مان سکتے کہ یہ کائنات اور اس پر موجوداشیاء بس اتفاقیہ طور پر معرضِ وجود میں آگئی ہیں نہیں اور ہر گز نہیں ، کیونکہ یہ چیز تو ”احتمالات کے قاعدہ“سے بھی میل نہیں کھاتی ۔
ماہرین نے اس سلسلہ میں بہت مطالعہ کیا ہے اور کئی اسرار و رموز کا انکشاف کیا ہے جس سے انسان ورطہٴ حیرت میں پڑ جاتا ہے اور زبان سے بے ساختہ اپنے پروردگار کی قدرت و عظمت کے گیت گانے لگتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ان تحقیقات کے نتائج کا ایک گوشہ ۔
جیالوجی( علم ریاضیات) کے ماہرین کاکہنا ہے کہ زمین کی یہ ظاہری سطح اگر موجودہ حالت میں دس فٹ مزید بلند اور موٹی ہوتی تو زندگی کا اصل مواد یعنی آکسیجن گیس کا وجود ہی عمل میں نہ آتا یا گر سمندروں کی گہرائی موجودہ حالت سے بیشتر اور کئی گناہ ہوتی تو زمین کی تمام آکسیجن (Oxygen)اور کار بن(Carrbon)گیس جذب ہو کر رہ جاتیںاور زمین کی سطح پر کسی حیوانی اور نباتی زندگی کے قطعاً امکانات نہ ہوتے اور قوی احتمال یہ ہے کہ موجودہ تمام آکسیجن کو زمین کی سطح اور سمندروں کا پانی جذب کرلیتے اور انسان کا اپنی نشو ونما کے لئے نباتات کے اگنے اور پروان چڑھنے کا انتظار کرنا پڑتا تاکہ وہ آکسیجن خارج کریں اور انسان اس سے استفادہ کرے ۔
صحیح صحیح حساب و کتاب کے بعد اور تحقیقات کے نتیجے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تنفس کو بحال رکھنے کے لئے آکسیجن از حد ضروری ہے اور وہ مختلف ذرائع سے حاصل ہوتی ہے لیکن جو بات زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے تنفس کے لئے آکسیجن کی ضروری اور لازمی مقدار اس فضا میں موجود ہے ۔اگر زمین کی موجودہ حالت سے مزید ہلکی ہوتی تو آسمان سے تعلق رکھنے والے اجرام ِفلکی اور شہابئے جو روزانہ کروڑوں کی تعداد میں ہوا سے ٹکراکر پاش پاش ہو جاتے ہیں مسلسل زمین پر گرتے رہتے جس سے یقینا بے حد و حساب نقصان ہوتا۔
یہ شہاب ثاقب چھ سے چالیس میل فی سکینڈ کے حساب سے حرکت کرتے رہتے ہیں اور جس چیز سے بھی ٹکراتے ہیں وہیں پر دھماکہ کے ساتھ پھٹ کر آگ لگا دیتے ہیں چنانچہ ان اجرام کی رفتار موجودہ افتار سے کم ہوتی ہے مثلاً ایک گولی کی رفتار کے برابر ہوتی تو وہ سب کے سب زمین پر آگرتے اور اس کے نتیجے میں جو تباہی پھیلتی اسے خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔
اگر خود انسان ان اجرام فلکی میں سے کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے جِرم کی راہ میں ہوتا تو اس کی زبر دست حرارت اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی جبکہ اس کی رفتار گولی کی رفتار سے نوے گناہ زیادہ ہوتی ہے ۔
زمین کی فضا میں ہوا کا دباوٴ اس حد تک مناسب اور موزوں ہے کہ یہ ہوا سورج کی شعاعوں کو صرف اس مقدار میں زمین پر آنے دیتی ہے جو نبا تات کی نشو ونما کے لئے ضروری ہوتی ہے اور ضرر رسا جراثیموں کو اسی فضا مین نیست و نابود کر دیتی ہے اور مفید مٹا من پیدا کرتی ہے ۔
زمین کی گہرائیوں سے صدیوں سے اٹھنے والے مختلف بخارات فضا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر زہریلی گیسیں ہیں اس کے باوجود فضا میں کسی قسم کی آلودگی پیدا نہیں ہوتی اور یہ فضا ہمیشہ متواز ن اور موزوں رہتی ہے تاکہ انسانی زندگی کے لئے مناسب ماحول مہیا رہے ۔
جس مشیزی نے اس عجیب و غریب توازن کو بر قرار رکھا ہوا ہے وہ سمندر ہی تو ہیں جو خوراک ، بارش ، اعتدال ہوا، حیات نباتات بلکہ خود انسان کے وجود کا منبع فیض ہیں ۔ جو شخص ان مطالب کا ادراک کرتا ہے وہ سمندروں کی عظمت کا اعتراف کرتا ہے اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔
2 ـ تناسب و تعادلمعرفت کا بہترین معیار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma