تمام پیغمبر ایسے تھے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 21 - 24شان نزول

گذشتہ چند آیات میں مشرکین کی مکاری اور اعتراضات کا ذکر ہے کہ پیغمبر کیوں کھا نا کھاتا ہے اور کیوں بازاروں میں آتاجاتا ہے ؟پھر ان اعتراضات کا مجمل اور مختصر سا جواب بھی دیا گیا ہے لیکن اس آیت میں مندرجہ بالا اعتراضات کا واضح اور صریح تر جواب دیا گیا ہے ۔
ار شاد ہو تا ہے :تجھ سے پہلے ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان سب کا تعلق نوعِ انسانی سے تھا وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی آیا جایا کرتے تھے ( اور لوگوں سے بھی ان کا میل ملاپ تھا)(وَما اٴَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ الْمُرْسَلِینَ إِلاَّ إِنَّہُمْ لَیَاٴْکُلُونَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْاٴَسْوَاقِ)۔
اس کے ساتھ ساتھ ”ہم نے تم میں سے بعض کو دوسرے بعض لوگوں کے لئے آزمائش و امتحان کا ذریعہ قرار دیا“ ( وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً )۔
یہ آز مائش ممکن ہے کہ اس وجہ سے ہو کہ انبیاء کا انتخاب نوع ِ انسانی سے کیا گیا ہے اور وہ بھی ان انسانوں سے جن کا تعلق معاشرے کے غریب اور محروم طبقے سے ہے اوریہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہم نوع افراد کا کہنا ماننے سے گھبراتے ہیں خاص کر ان لوگوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں اور ان کا اپنا تعلق معاشرتی لحاظ سے اونچے گھرانوں سے ہوتا ہے یا ان کی عمر زیادہ ہوتی ہے یا معاشرے میں خوب جانے پہچانے ہوتے ہیں ۔
آز مائش سے متعلق یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد عام لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے آزماناہے کیونکہ جو افراد کام کرنے سے عاجز ہوتے ہیں ، بیمار، یتیم اور مصیبت زدہ ہوتے ہیں وہ ضعیف و ناتواں افرادکے لئے آزمائش ہوتے ہیں کہ اوّل الذکر اپنے انسانی فریضے کو دوسرے گروہ کے ساتھ کیسے پورا کرتا ہے اور ثانی الذکر خدا کی رضا پر کیونکر راضی ہوتا ہے ۔
جہاں تک ان دونوں تفاسیر کا تعلق ہے ان کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ دونوں تفسیریں آیت وسیع مفہوم میں جمع کی جائیں اوروہ مفہوم ہے لوگوں کی ایک دوسرے کے ذریعے آزمائش ۔ اسی کے ساتھ ساتھ قرآن سب کو خطاب کرتے ہوئے سوال فرماتا ہے : آیاصبر کروگے (اٴَتَصْبِرُونَ)۔
کیونکہ ایسی تمام آزمائشوں میں کامیابی کا اہم ترین عنصر صبر و شکیبائی ہے ۔ ایسی سر کش خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و استقامت ہی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو قبول ِحق میں مانع ہوتی ہیں اور صبر و استقامت ہی کے ذریعے ان مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے جو فرض کی ادائیگی میں حائل ہوتی ہیں ۔اسی طرح صبر ہی کے ذریعے ان مصائب اور سخت حوادث کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جو قدم قدم پر ان کو در پیش ہوتے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صبر ہی کے ذریعے اس عظیم امتحان میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے(2) ۔
آخر میں تنبیہ کی صورت میں ارشاد فرمایا گیاہے :تمہارا پر وردگار ہمیشہ سے اورہمیشہ کے لئے بصیر اور دیکھنے والاہے ( وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیرًا )۔
مبادا وہ یہ تصور کرلیں کہ خدائی آزمائش کے سلسلے میں کوئی چیز اس کی دیدہٴ بینا اور علم مطلق سے پوشیدہ رہ گئی ہے نہیں نہیں وہ ہر ایک چیز کو اچھے طریقے سے جانتا ہے اور دیکھتا ہے ۔

ایک اور سوال اور اس کا جواب

یہاں پر ایک سوال پیش آتا ہے کہ آیاتِ بالا میں قرآن مجید نے انبیاء کے بارے میں مشرکین کے جن اعتراضات کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ سب نوعِ انسانی میں سے تھے اس سے نہ صرف مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اشکال اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ اس طرح سے وہ اپنے اعتراض کو پیغمبر اسلام کی ذات تک محدود رکھنے کے بجائے تمام دوسرے انبیاء پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں (کہ وہ کیسے پیغمبر تھے کہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی آتے جاتے تھے )۔
قرآنی آیات کی رو سے ان کا اعتراض صرف پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی کی ذات گرامی تک ہی محدود نہیں تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ آپ نے یہ روش اور طریقہ کار اپنا رکھا ہے لہٰذا وہ کہتے تھے ۔
مال ھٰذا الرسول
یہ رسول اس طرح کیوں ہے ؟
قرآن اس کے جواب کا اعتراض دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” یہ صرف تجھی پر منحصر نہیں کہ تو کھا نا بھی کھا تا ہے اور بازاروں میں بھی آتا جاتا ہے بلکہ انبیاء ماسلف بھی یونہی کیا کرتے تھے بالفرض اگر وہ اپنے اعتراضات کا دائرہ تمام انبیاء علیہم السلام تک وسیع کرتے ہیں تو قرآن اس کا بھی جواب دے رہا ہے اور وہ یہ کہ :
ولو جعلناہ ملکاًلجعلناہ رجلا ( انعام۹)
فرض کرلیا کہ ہم پیغمبر کو فرشتہ بناتے تو پھر بھی ناگریز تھا کہ ہم اسے انسانی صورت میں بھیجتے(تاکہ وہ تمام حالات میں بنی نوع ِ انسان کے لئے ایک نمونہ عمل ہوتا)۔
اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسانوں کی رہبری اور پیشوائی صرف انسان ہی کرسکتا ہے جو ان کی ہر قسم کی ضروریات ، مشکلات اور مسائل سے آگاہ ہوتا ہے ۔
2 ۔ خدائی آزمائش کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ جلد اول سورہ بقرہ کی آیت ۱۵۵کی تشریح ۔
سوره فرقان / آیه 21 - 24شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma