جانوروں سے بھی گمراہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۱۔ ہوس پرستی اور اس کا دردناک انجام:سوره فرقان / آیه 41 - 44

یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید نے اس سورت میں مشرکین کی باتوں کو ایک جگہ بیان نہیں کیا بلکہ کچھ حصہ بیان کیا پھر اس بات کا جواب دیا اور وعظ و نصیحت کی پھر دوسرا حصہ بیان کیا اسی طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔
زیر نظر آیات میں مشرکین کی منطق اور آنحضرت کے ساتھ ان کے سلوک اور دعوت اسلام کے مقابلے میں ان کا ردّ عمل بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے فرمایا گیا : جب بھی وہ تجھے دیکھتے ہیں تو سب سے پہلا کام یہ انجام دیتے ہیں کہ آپ کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں اورکہتے ہیں یہ وہی شخص ہے جسے خدا نے پیغمبر کے طور پر مبعوث کیا ہے ( وَإِذَا رَاٴَوْکَ إِنْ یَتَّخِذُونَکَ إِلاَّ ھُزُوًا اٴھَذَا الَّذِی بَعَثَ اللهُ رَسُولً)(1) ۔
کتنا بڑا دعویٰ کررہا ہے ؟ کیا عجیب باتیں کررہا ہے ؟ واقعاًمضحکہ خیز باتیں کررہا ہے ؟
یہ بات قطعا ً فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ پیغمبر اسلام وہی تو ہیں جو قبل از اعلان رسالت چالیس سال تک ان میں رہ چکے ہیں ، اس دوران میں آپ کی امانت صداقت اور عقل و شعورکے ڈنکے بجتے تھے لیکن جب کفر کے سر داروں کے مفادات خطرے میں پڑ گئے تو انہوں نے آپ کی تمام خوبیان بھی بھلا دیں اور ٹھٹھا مذاق شروع کردیا ،آنحضرت کی دعوت اسلامی ِکا شواہد اور دلائل کے باوجود ہنسی مذاق کے ذریعہ انکار کرنے لگے یہاں تک کہ خود سر کار ِ رسالت مآب کو جنون کی تہمت سے متہم کرنے لگ گئے ۔
قرآن مجید مشرکین کی بات کو ان کی اپنی زبانی اگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے :اگر ہم اپنے خدا وٴں کی پرستش پر ڈٹے نہ رہیں تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ میں گمراہ کر ڈالے اور ہمارا رابطہ ان سے منقطع کردے ( إِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِھَتِنَا لَوْلاَاٴَنْ صَبَرْنَا عَلَیْھَا )(2) ۔
لیکن قرآن اس بات کئی طریقوں سے جواب دیتا ہے پہلے تو اس غیر منطقی ٹولے کو من توڑ جواب دیتا ہے :جب وہ عذاب الہٰی کو دیکھیں گے تو انھیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ کون گمراہ تھا (وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اٴَضَلُّ سَبِیلًا)۔
ہوسکتا ہے اس عذاب سے مراد قیامت کا عذاب ہو جیسا کہ طبرسی مرحوم کی مانند کئی مفسرین اس بات کے قائل ہیں اور طبرسی نے مجمع البیان میں یہ لکھا ہے یا دنیا وی عذاب ہو جیسا کہ بدر وغیرہ کے دن کی عبرتناک اور دردناک شکست ،جیسا کہ قر طبی نے اپنی مشہور تفسیر میں بیان کیا ہے ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر دو طرف اشارہ ہو ۔
پھر مزے کی بات یہ ہے کہ یہ گمراہ لوگ اپنی گفتگومیں متضاد باتیں کررہے ہیں ایک طرف تو پیغمبر اسلام اور ان کی اسلامی دعوت کو حقیر سمجھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت کی شخصیت اور مشن کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں دوسری طرف وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اپنے باپ دا دا کے طریقے پر مضبوطی سی کار بند نہ رہیں تو ممکن ہے کہ رسول اللہ کی باتیں انھیں اس راہ سے بھٹکا دیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کی باتوں کو اہمیت دیتے تھے اور آپ کے کام کو نہایت ہی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہم اقدام کرتے تھے اور اس طرح کی پریشانی خیالی اورتضادگوئی اس سے پھرے اور ہٹ دھرم گروہ سے بعید بھی نہیں ہے ۔
پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ حق کے دشمنوں کو جب خدائی رہبروں کی منطق کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ہنسی مذاق میں اس کو ٹال جاتے ہیں جو ان کی ایک قسم کی حکمت عملی ہوتی ہے تاکہ وہ اس طرح سے اسے حقیر اور ناقابل ِ توجہ ظاہر کریں جبکہ در پردہ اس سے خائف ہوتے ہیں یا پھر اسے حقیقی خطرہ سمجھ کر کھلم کھلا اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔
ان کی گفتگو کا دوسرا جواب بعد والی آیت میں پیش کیا گیا ہے جس میں پیغمبر اکرم کو مخاطب کر کے ایک تو ان کی دلجوئی کی گئی ہے اور دوسرا مشرکین کی دعوت حق کو قبول نہ کرنے کی اصل وجہ بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
آیا تو نے اسے دیکھا ہے جس میں اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود مان لیا ہے (اٴَرَاٴَیْتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَھَہُ ھَوَاہُ )۔
تو کیا ایسی حالت میں تو اسے ہدایت کرسکتا ہے یا اس کا دفاع کرسکتا ہے (اٴَفَاٴَنْتَ تَکُونُ عَلَیْہِ وَکِیلًا )۔
یعنی اگر انہوں نے آپ کی دعوت اسلامی کے مقابلے میں استہزاء ، انکار اور ہنسی مذاق کی پالیسی اپنا رکھی ہے تو اس لئے نہیں کہ آپکی منطق کمزور اور دلائل قانع کنندہ نہیں یا آپ کے دین و آئین میں کسی قسم کا شک و شبہ ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ عقلی اور منطقی بات کی پیروی نہیں کرتے ان کا معبود ان کی نفسیاتی خواہشات ہوتی ہیں تو کیا ایسے لوگوں سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کی دعوت کو قبول کریں یا آپ ان پر کوئی اثر و رسوخ استعمال کر سکیں ۔
”اٴَرَاٴَیْتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَھَہُ ھَوَاہُ “کے بارے میں بعض بزرگ مفسرین کی مختلف آراء ہیں ۔
کچھ مفسرین تو یہ کہتے ہیں جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ان کا ایک بت ہے جسے خواہشات ِ نفسانی کہا جاتا ہے اور ان کے تمام کام اسی کے حکم سے انجام پاتے ہیں۔
جبکہ کچھ مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد یہ ے کہ کافر لوگ پرستش کے لئے بت کے انتخاب تک میں بھی عقل و خرد سے کام نہیں لیتے اور کسی منطقی دلیل کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ جب بھی ان کی نگاہ کسی پتھر یا اچھے سے درخت پر جاپڑتی ہے یا کسی ایسی چیز کو دیکھ لیتے ہیں جو دل لبھا نے والی ہوتی ہے تو اسے اپنا معبود بنا لیتے ہیں ان کے آگے زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں ، قربانیاں پیش کرتے ہیں اور ان کے اپنی مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں ۔
اتفاق سے اس آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے جو ہمارے اس مدعا کی تائید کرتی ہے روایت یہ ہے :۔
ایک مرتبہ قریش مکہ پر سخت قحط سالی کا دور آیا اور و ہ ادھر اُدھر منتشر ہو گئے کچھ لوگ ایسے تھے جو سکی خوبصورت پتھر یا کسی اچھے سے درخت کو دیکھ لیتے اس کی پوجا پاٹ شروع کردیتے اگر وہ پتھر ہو تا تو اسے ” سعادت کی چٹان “ کا نام دیتے اس کے لئے قربانی کرکے ، قربانی کے خون سے اسے رنگین کردیتے حتی کہ اپنے جانوروں کی بیماری کے لئے دوا بھی اسی سے طلب کرتے ۔
ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ ایک عربی اپنے اونٹ اس پتھر کے ساتھ مس کرنے اور بر کت حاصل کرنے کی غرض سے لے آیا لیکن اونٹ بھاگ کر جنگل کو چلے گئے اور اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے اس نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا :
میں ”سعادت کی چٹان “ کے پاس اس غرض سے آیا تھا کہ وہ ہمارے اندر موجود انتشار کو دور کرے لیکن اس نے تو ہمارے اجتماع میں انتشار ڈال دیا ہے ۔
سعادت کا یہ پتھر کیا ہے ؟ زمین کی طرح کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے جو نہ تو انسان کو گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت کی جانب۔
ایک اور عرب نے دیکھا کہ اس پتھر پر لومڑی پیشاب کررہی ہے تو اس نے یہ شعر پڑھا :
اٴرب یبول الثعلبان براٴسہ لقد ذل مابالت علیہ الثعالب
آیا وہ چیز بھی معبود ہو سکتی ہے جس پر لومڑی پیشاب کرے ؟یقینا وہ چیز ذلیل ہے جس پر لومڑیاں پیشاب کریں(3) ۔
اوپر والی دونوں تفسیروں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ بت پرستی پیداوارہی خرافات کی ہے جو خواہشات ِ نفسانی کی ایک قسم ہے کسی دلیل و منطق کے بغیر مختلف بتوں کا انتخاب بھی خواہشات کی تکمیل کا ایک حصہ ہے ۔
”ہواو ہوس “ کے سلسلے میں نکات کی بحث میں تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی ۔ انشاء اللہ ۔
آخر میں قرآن مجید اس گرماہ گروہ کے اعتراض کا تیسرا جواب یوں دے رہا ہے :
آیا تو سمجھتا ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ( اٴَمْ تَحْسَبُ اٴَنَّ اٴَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُونَ اٴَوْ یَعْقِلُونَ)۔
جو چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیاد ہ گمراہ ہیں ( إِنْ ھُمْ إِلاَّ کَالْاٴَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اٴَضَلُّ سَبِیلًا )۔
یعنی اے پیغمبر !آپ ان کے ٹھٹھا، غیر منطقی اور ناگوار باتوں سے ہر گز پریشان نہ ہوں کیونکہ یا تو انسان کے پاس اپنی عقل ہونی چاہئیے جس سے وہ سوچ سکے اور” یعقلون “کا مصداق بنے اگر اس کے پاس اپنی عقل نہیں تو دانشوروں اور صاحبان عقل کی باتوں کو سنے اور ”یسمعون“ کا مصداق قرار پائے ۔ لیکن یہ لوگ نہ تو پہلے زُمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی دوسرے میں اسی لئے ان میں اور چوپایوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور چوپایوں سے سوائے چیخنے چلانے، لاتیں مارے اور غیر معقول کا م کے اور توقع ہی کیا کی جا سکتی ہے ؟
بلکہ یہ دونوں جانوروں سے بھی بد تر ہیں کیونکہ جانوروں سے عقل و اندیشہ کی وتو توقع نہیں رکھی جا سکتی جبکہ ان میں عقل بھی ہے اور شعور بھی لیکن وہ اس سے کام نہیں لیتے لہٰذا انھیں یہ دن دیکھنا پڑے۔
پھر قابل غور یہ بات بھی ہے کہ قرآن نے یہاں پر ”اکثرھم“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور حکم کو عمومیت نہیں دی ،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں کچھ فریب خوردہ لوگ بھی ہو ں جب حق ان کے سامنے آجائے تو ان کی آنکھوں کے آگے سے غفلت اور غلط فہمی کے پردے ہٹ جائیں اور وہ حق کو قبول کرلیں اور یہ بات قرآن کی بحثوں میں اصول عدل مدنظر رکھنے پر ایک واضح دلیل ہے ۔
1”ھزواً“مصدر ہے اور یہاں مفعول کے معنی میں آیا ہے نیز یہ احتمال بھی مصدر ہے کہ تقدیر طور پر مضاف کا مضاف الیہ ہویعنی ” موضع ھزو“ اور ھٰذا “ کی تعبیر کفار کی طرف سے آنحضرت کی حقارت اور توہیں کی طرف اشارہ ہے ۔
2۔” إِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا“میں ”ان“مخففہ اور تاکید کے لئے ہے اور تقدیر میں”انہ کاد“ تھا اور اس کی ضمیر شان ہے ۔
3 ۔ تفسیر علی بن ابراہیم ( منقول از تفسیر نور الثقلین جلد ۴ ص۲۰) ۔
۱۔ ہوس پرستی اور اس کا دردناک انجام:سوره فرقان / آیه 41 - 44
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma