حضرت موسیٰ کی رسالت کا آغاز

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 16 - 22سوره شعراء / آیه 10 - 15
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس سورت میں خدا کے سات عظیم انبیاء کا تذکرہ ہے جو تمام مسلمانوں خصوصاًاوائل اسلام کے مسلمانوں کے لئے ایک درس ہے ۔
سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داستان شروع ہوتی ہے ،اس داستان میں ان کی زندگی کے مختلف پہلو وٴں ، فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ ان کی لڑائی اور فرعون کی غرقابی تک کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
اب تک ( سورہ ٴ بقرہ ، مائدہ ، اعراف، یونس ، بنی سرائیل اور سورہٴ طٰہ ٰ جیسی ) قرآن مجید کی سورتوں میں بنی اسرائیل ،حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے بارے میں میں گفتگو ہو چکی ہے اور بعض سورتوں میں آئندہ بھی یہی ذکر آئے گا ۔
اگر چہ یہ مباحث مکرر ہیں اور انھیں بار بار دہرایا گیا ہے لیکن اگر ان میں ذرا سا غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر بحث میں اس داستان کے کسی خاص حصے پر زور دیا گیا ہے اور کسی مخصوص مقصد کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
مثال کے طور پر مندرجہ بالا آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمان بہت اقلیت میں تھے اور ان کے مخالف اور دشمن نہایت طاقتور اور زور آور تھے اور کسی صورت میں بھی ان کی طاقت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ تو یہاں پر لازم تھا کہ خدا وند عالم گزشتہ اقوام کے ایسے واقعات پیش کرے جن سے ان کی ڈھارس بندھ جائے اور انھیں معلوم ہو جائے کہ دشمن کی عظیم طاقت اور ان کی ظاہری کمزوری کسی بھی صورت میں ان کی شکست کا سبب بن سکتی ۔اس طرح سے ان کے حوصلے بلند اور قوت بدافعت اوراستقامت میں اضافہ ہو جاتا اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ ساتواں انبیاء میں سے ہر ایک کی سر گزشت کے بعد ”وماکان اکثرھم موٴمنین و ان ربک لھو العزیز الرحیم“ ( ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے اورتمہارا پر وردگار عزیز اور رحیم ہے )کو دہرایا گیا ہے یہ بعینہ وہی عبارت ہے جو ہم نے پیغمبر اسلام کے بارے میں سورةکے آغاز میں پڑھی ہے اس طرح کی ہم آہنگی اس حقیقت پر زندہ گواہ ہے کہ انبیاء کی داستانوں کا یہ حصہ اس خاص زمانے میں مسلمانوں کی اجتماعی اور نفسیاتی کیفیات کے پیش نظر تھا اور ان کایہ دور ان انبیاء کے مذکورہ ادوار سے ملتا جلتا تھا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : اس وقت کو یاد کرو جب تیرے پر وردگار نے موسیٰ کو ندا دی کہ اس ظالم قوم کے پاس جاوٴ( وَإِذْ نَادَی رَبُّکَ مُوسَی اٴَنْ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ )۔
اسی قوم ِ فرعون کے پاس ، آیا وہ ظلم وستم اور پر وردگار ِ عالم کے حکم کی نافرمانی سے پرہیز نہیں کرتے (قَوْمَ فِرْعَوْنَ اٴَلاَیَتَّقُونَ )۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قومِ فرعون کی جس بری خصلت کو زور دے کر بیان کیا گیا ہے وہ ظلم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ ظلم کا ایک وسیع مفہوم ہے اور شرک اس کے ظاہری مصداقوں میں سے ایک ہے ۔
ان الشرک لظلم عظیم (لقمان :۱۳)۔
اس طرح بنی اسرائیل کا لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو نا، انھیں غلام بنانا، انھیں انواع و اقسام کے شکنجوں میں جکڑ نا اور تشدد کا نشانہ بنا نا بھی ایک اور مصداق ہے اس کے علاوہ وہ احکام الہٰی کی خلاف ورزی کرکے دوسرے لوگوں سے پہلے خود اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے ۔
اس لحاظ سے انبیاء کرام کی دعوت و تبلیغ کے مقصد کوظلم کے خلاف نبرد آزمائی میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس دوران میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی عظیم مشکلات خدا کی بار گاہ میں پیش کرکے اس سے قوت اور طاقت کی در خواست کی تاکہ اس طرح سے وہ رسالت کے عظیم بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہو جائیں ۔”عرض کیا خدا وندا ! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے “( قَالَ رَبِّ إِنِّی اٴَخَافُ اٴَنْ یُکَذِّبُونِی)۔
قبل اس کے کہ میں تبلیغ ِ رسالت کا فریضہ انجام دوں ، شور و غوغا بر پا کر کے اور مجھے جھٹلا کر میری راہ کو مسدود کر دیں گے اور یہ مقصد حاصل نہ ہو سکے گا ۔
یہ بات کرنے میں موسیٰ علیہ السلام یقینا حق بجانب تھے کیونکہ فرعون اور اس کے چیلے چانٹے سر زمین مصر پر اس قدر مسلط تھے کہ کوئی بھی ان کی مخالفت کی جراٴت نہیں کرسکتا تھا اور جہاں کہیں سے بھی کوئی مخالفت کی آواز بلند ہو تی اسے سختی کے ساتھ دبا دیا جاتا اور افراد کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا۔
اس کے علاوہ ” میرا سینہ کار رسالت کی ادائیگی کے لئے اس قدر وسعت بھی نہیں رکھتا“(وَیَضِیقُ صَدْرِی)۔
اور پھر یہ کہ ”میری زبان بھی کوئی ایسی گویا نہیں ہے “ (وَلاَیَنْطَلِقُ لِسَانِی)۔
اس لئے میری درخواست یہ ہے کہ ”(میرے بھائی )ہارون کو بھی منصب ِرسالت عطا کردے تاکہ وہ میرے ساتھ مل کر اس فریضے کو ادا کرے “( فَاٴَرْسِلْ إِلَی ھَارُونَ )(1) ۔
تاکہ ہم ایک دوسرے کی معاونت سے ان خود سر ظالموں تک تیرے اس عظیم فرمان کو پہنچا سکیں ۔
ان سب باتوں کے علاوہ ( ان کے اپنے نظر ئے کے مطابق ) ان لوگوں کا مجھ پر ایک جرم کا الزام ہے ( وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ )۔
میں نے ایک طالم فرعونی کو اس وقت مکّامار کر ہلاک کردیاتھا جب وہ ایک مظلوم بنی اسرائیل سے لڑرہا تھا ۔
لہٰذا میں ڈرتا ہوں کہ قصاص کے طور پر وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے اور پھر یہ عظیم فریضہ ادا نہ ہو سکے گا (فَاٴَخَافُ اٴَنْ یَقْتُلُونِی)۔
در حقیقت موسیٰ علیہ السلام کو اس عظیم فریضے کی ادائیگی کے لئے چار بڑی مشکلات آڑے آرہی تھیں جن کے حل کے لئے انھوں نے اپنے خدا سے دعا مانگی (تکذیب کی مشکل ،تنگی سینہ کی مشکل ، عدم فصاحت کی مشکل اور انتقام کی مشکل )۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ذات کو خوف نہیں تھا بلکہ انھیں یہ خوف در پیش تھا کہ منزلِ مقصودپہنچنے سے پہلے ہی یہ مقصد فوت نہ ہو جائے ۔لہٰذا انھوں نے اس معرکے کے لئے خدا سے زیادہ سے زیادہ طاقت اور قوت کی در خواست کی ۔
جس قسم کے وسیلے کی انھوں نے خدا وند عالم سے درخواست کی اس حقیقت پر ”شاہد ناطق“ کی درخواست تھی۔اس نے ”شرح صدر“ ( وسیع اور کشادہ روح)کی درخواست کی۔ اسی طرح زبان کی ہر قسم کی گر ہوں کے کھولنے کی درخواست کی اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو منصب رسالت عطا کرنے کی تاکہ وہ اس کام میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں چنانچہ اس آخری درخواست کا ماجرا سورہٴ طٰہٰ میں زیادہ تفصیل سے درج ہے ، موسیٰ علیہ اسلام عرض کرتے ہیں :۔
رب اشرح لی صدری ویسرلی امری و احلل عقدة من لسانی یفقھوا قولی و اجعل لی وزیراً من اھلی ھارون اخی اشدد بہ ازری و اشرکہ فی امری کی نسبحک کثیراً
پروردگارا ! میراسینہ کشادہ کردے ،میرے کام کو مجھ پر آسان فرما،میری زبان کی گروہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں اورمیرے خاندان سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا ، اس کے ذریعے میری کمر کو مضبوط کر دے، اسے میرے کاموں میں میرا شریک بنا تاکہ ہم تیری بہت تسبیح کر سکیں اور تجھے بہت یاد کرسکیں ۔(طٰہٰ/۲۵ تا ۳۴)
خدا وند عالم نے موسیٰ علیہ السلام کی صدقِ دل پر مبنی اس درخواست کو منظور فرمالیا اور ”فرمایا ایسا ہر گزنہیں ہو سکتا“کہ وہ تمہیں قتل کردیں یا تیرا سینہ تنگ ہو یا تیری زبان میں کوئی گرہ ہو اور توبول نہ سکے ( قَالَ کَلاَّ)۔
تمہارے بھائی کے بارے میں تمہارے دعا کو مستجاب کیا اور اسے بھی حکم دیا ہے ”تم دونوں ہماری آیات لے کر جاوٴ“(اس کی گمراہ قوم کو میری طرف دعوت دو) (فَاذھَبَا بِآیَاتِنَا )۔
اور یہ نہ سمجھنا کہ میں تم سے دور ہوں اور تمہارا ماجرا مجھے معلوم نہیں ہے ، بلکہ ”ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہاری باتوں کو اچھی طرح سن رہے ہیں (ا ِنَّا مَعَکُمْ مُسْتَمِعُون)۔
ہم بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور سخت حوادث میں بھی تمہاری مدد کریں گے ۔تم بالکل مطمئن ہو کر آگے بڑھو اور بڑھتے چلے جاوٴ۔
تو اس طرح سے خدا وند عالم تین جملوں کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کو کافی اطمینان دلادیا اور ان کی درخواست کو عملی جامہ پہنا یا۔” کلا“ کے لفظ کے ساتھ انہیں اطمینان دلادیا کہ وہ لوگ انھیں ہر گز قتل نہیں کر سکیں گے ۔نیز سینے کی تنگی اور زبان کی مشکل بھی پید انہیں ہوگی اور”فَاذھَبَا بِآیَاتِنَا“کے جملے کے ساتھ ان کے بھائی ( ہارون ) کو ان کی کمک کے لئے بھیجا اسی طرح” ا ِنَّا مَعَکُمْ مُسْتَمِعُون“کے ساتھ انھیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلادیا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخری جملے میں ضمیر کو جمع کی صورت میں لایا گیا ہے اور خدا نے فرمایا ہے :” ا ِنَّا مَعَکُم“(ہم تمہارے ساتھ ہیں ) ممکن ہے یہ تعبیر اس لئے ہو کہ تم دونوں بھائی جہاں جہاں اور جس جس میدان میں بھی ظالم و جابر گروہ کا سامنا کروگے ، ہم وہیں وہیں موجود ہوں گے اور تم سب لوگوں کی باتوں کوسنیں گے ، تم دوبھائیوں کی امداد کرکے ان پر کامیاب کریں گے۔
اس مقام پر بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوا کہ چونکہ ”مع“ کاکلمہ حمایت اور امداد پر دلالت کرتا ہے لہٰذا یہاں پر یہ فرعون اور فرعون والوں کے لئے نہیں ہوگا ، یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔کیونکہ ”مع“کا معنیٰ ہے خدا وندعالم کا ہر موقع و محل پر حاضر اور ناظر ہونا لہٰذا وہ گناہ گاروں کے لئے بھی ہو گا بلکہ اس میں بے جاں چیزیں بھی شامل ہوں گی کیونکہ وہ توہر جگہ موجود ہے اور کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے ۔
”استماع“ کا معنیٰ ہے کسی چیز کو غور سے سننا اور یہ کلمہ بھی اسی واقعیت کی تاکید ہے ۔
 1۔ در حقیقت اس جملے کی ایک تقدیر ہے اور وہ یہ ہے ”فاسل جبرئیل الیٰ ھارون“۔
سوره شعراء / آیه 16 - 22سوره شعراء / آیه 10 - 15
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma