جادو گروں کے دل میں نور ایمان چمک اٹھا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 52 - 59سوره شعراء / آیه 43 - 51
جب جادو گروں نے فرعون کے ساتھ اپنی بات پکی کرلی اور اس نے بھی انعام ، اجرت اور اپنی بار گاہ کے مقرب ہونے کا وعدہ کرکے انھیں خوش کردیا اور وہ بھی مطمئن ہو گئے تو اپنے فن کے مظاہرے اور اس کے اسباب کی فراہمی کے لئے تنگ و دَوکر نی شروع کردی ، فرصت کے ان لمحات میں انھوں نے بہت سی رسیاں اور لاٹھیاں اکھٹی کرلیں اور بظاہر ان کے اندر کھوکھلا کر کے ان میں ایسا کو ئی کیمیکل مواد (پارہ وغیرہ کے مانند)بھر دیا جس سے وہ سورج کی تپش میں ہلکی ہو کر بھاگنے لگ جاتی ہیں ۔
آخر کار وعدہ کا دن پہنچ گیا اور لوگوں کا انبوہِ کثیر میدان میں جمع ہو گیا ۔تاکہ وہ اس تاریخی مقابلے کو دیکھ سکیں فرعون اور اس کے درباری ، جادوگر اور موسیٰ علیہ اسلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ اسلام سب میدان میں پہنچ گئے ۔
لیکن حسب ِ معمول قرآن ِ مجید اس بحث کو حذف کرکے اصل بات کو بیان کرتا ہے ۔
یہاں پر بھی اس تاریخ ساز منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتا ہے : موسیٰ نے جادوگروں کی طرف منہ کر کے کہا جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو پھینکو اور جو کچھ تمہارے پا س ہے میدان میں لے آوٴ(قَالَ لَھُمْ مُوسَی اٴَلْقُوا مَا اٴَنْتُمْ مُلْقُونَ)۔
سورہ اعراف کی آیت ۱۱۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے یہ بات اس وقت کی جب جا دو گرو ں نے انھیں کہا: آپ پیش قدم ہو کر اپنی چیز ڈالیں گے یا ہم؟
موسیٰ علیہ السلام کی یہ پیش کش در حقیقت انھیں اپنی کامیابی پر یقین کی وجہ سے تھی اور اس بات کی مظہر تھی کہ فرعون کے زبر دست حامیوں اور دشمن کے انبوہِ کثیر سے وہ ذرہ بھر بھی خائف نہیں چنانچہ یہ پیش کش کر کے آپ نے جادو گروں پر سب سے پہلا کامیاب وار کیا جس سے جادو گروں کو بھی معلوم ہو گیا کہ موسیٰ علیہ اسلام ایک خاص نفسیاتی سکون سے بہرہ مند ہیں اور وہ کسی ذات خاص سے لَو لگا ئے ہو ئے ہیں کہ جو ان کا حوصلہ بڑھا رہی ہے ۔
جا دو گر تو غرورو نخوت کے سمندرمیں غرق تھے انھوں نے اپنی انتہائی کو ششیں اس کام کے لئے صرف کر دی تھیں اور انھیں اپنی کامیابی کا بھی یقین تھا لہٰذا انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور کہا فرعون کی عزت کی قسم ہم یقینا کامیاب ہیں (فَاٴَلْقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِیَّھُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ )(1) ۔
جی ہاں !انھوں نے دوسرے تمام چاپلوس خوشامد یوں کی مانند فرعون کے نام سے شروع کیا اور اس کے کھوکھلے اقتدار کا سہا را لیا ۔
جیسا کہ قرآن مجید ایک او رمقام پر کہتا ہے : اس موقع پر انھوں نے جب رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں تو وہ چھوٹے بڑے سانپوں کی طرف زمین پر حرکت کرنے لگیں ( طٰہٰ۶۶) انھوں نے اپنے جادو کے ذرائع میں سے لاٹھیوں کا انتخاب کیا ہوا تھا تاکہ وہ بزعم خود موسیٰ علیہ اسلام کی عصا کی برابری کر سکیں اور مزید بر تری کے لئے رسیوں کو بھی ساتھ شامل کر لیا تھا ۔
اسی دوران حاضرین میں خوشی کی لہریں دوڑ گئی اور فرعون اور اس کے درباریوں کی آنکھیں خوشی کے مارے چمک اٹھیں اور وہ مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے تھے یہ منظر دیکھ کر ان کے اندر وجد و سرور کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ جھوم رہے تھے۔
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے اس کیفیت کو زیادہ دیر نہیں پنپنے دیا وہ آگے بڑھے اور اپنے عصا کو زمین پر دے مارا تو وہ اچانک ایک اژدھے کی شکل میں تبدیل ہو کر جادو گروں کے ان کرشموں کو جلدی جلدی نگلنے لگا اور انھیں ایک ایک کر کے کھا گیا ۔
( فَاٴَلْقَی مُوسَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَاٴْفِکُون)(2) ۔
اس موقع پر لوگوں پر یکدم سکوت طاری ہو گیا حاضرین پر سناٹا چھا گیا ، تعجب کی وجہ سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ، آنکھیں پتھرا گئیں گویا ان میں جان ہی نہیں رہی لیکن بہت جلد تعجب کے بجائے وحشت ناک چیخ و پکار شروع ہو گئی ، کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہو ئے کچھ لوگ نتیجے کے انتظار میں رک گئے اور کچھ لوگ بے مقصد نعرے لگا رہے تھے لیکن جادو گروں کے منہ تعجب کی وجہ سے کھلے ہوئے تھے ۔
اس مرحلے پر سب کچھ تبدیل ہو گیا جو جادوگر اس وقت شیطانی راستہ پر گامزن ، فرعون کے ہم رکاب اور موسیٰ علیہ اسلام کے مخالف تھے یکد م اپنے آپے میں آگئے اور کیونکہ جادو کی ہر قسم ٹونے ٹوٹکے اور مہارت و فن سے واقف تھے اس لئے انھیں یقین آگیا کہ ایسا کام ہر گز جا دو نہیں ہو سکتا بلکہ یہ خدا کا ایک عظیم معجزہ ہے لہٰذا اچانک وہ سارے کے سارے سجدے میں گر پرے ( فَاٴُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن یہاں پر ”القی“کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے گرادئے گئے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ بے اختیار زمین پر سجدے میں جا پڑے ۔
اس عمل کے ساتھ ساتھ جو ان کے ایمان کی روشن دلیل تھا انھوں نے زبان سے بھی کہا :ہم عالمین کے پر وردگار پر ایمان لے آئے ( قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ )۔
اور ہر قسم کا ابہام و شک دور کرنے کے لئے انھوں نے ایک اور جملے کا بھی اضافہ کیا تاکہ فرعون کے لئے کسی قسم کی تاویل باقی نہ رہے ،انھوں نے کہا : موسیٰ اورہارون کے رب پر :(رَبِّ مُوسَی وَھَارُونَ )۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عصا زمین پر مارنے اور ساحرین کے ساتھ گفتگو کر نے کا کام اگر چہ موسی علیہ اسلام نے انجام دیا لیکن ان کے بھائی ہارون علیہ اسلام بھی ان کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت اور مدد کر رہے تھے ۔
یہ عجیب و غریب تبدیلی جادو گروں کے دل میں پیدا ہو گئی اور انھوں نے ایک مختصر سے عرصے میں مطلق تاریکی سے نکل کر روشنی اور نور میں قدم رکھ دیا اور جن جن مفا دات کا فرعون نے ان سے وعدہ کیا تھا ان سب کو ٹھکرا دیا۔یہ بات تو آسان تھی۔انھوں نے اس قدام سے اپنی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے پاس علم و دانش تھا جس کے باعث وہ حق و باطل میں تمیز کرنے میں کامیاب ہو گئے اور حق کا دامن تھام لیا ۔
انھوں نے باقی ماندہ راہ کو ”عقل“ کے پاوٴں سے ” طے نہیں کیا بلکہ ” عشق کے راہوار“ پر سوار ہو کر آگے بڑھے اور بوئے گل نے انھیں ایسا مَست کیا کہ وہ خود سے بے گانہ ہو گئے اور ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ اسی بنا ء پر انھوں نے فرعون کی زبر دست دھکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کے ہر ظلم و ستم کا شجا عانہ اور مردانہ وار مقابلہ کیا۔
پیغمبر اسلام کی ایک حدیث ہے :۔
ما من قلب الا بین اصبعین من اصابع الرحمن ان شاء اقامہ و ان شاء ازاعہ
ہر ایک دل خدا وند رحمن کے پنجہٴ قدرت میں ہے اگر چاہے تو اسے راہ ِ راست پر لگادے اور اگر چاہے تو اسے پھیر دے(3) ۔
)ظاہر ہے کہ ان دونوں مراحل میں منشائے ایزدی خود انسان کی آمادگی پر منحصر ہے اور اس قسم کی تو فیق یا سلب ِ تو فیق دلوں کی مختلف آمادگی کی بدولت حاصل ہو تی ہے اور کسی حساب و کتاب کے بغیر حاصل نہیں ہوتی )۔
اس موقع پر ایک طرف تو فرعون کے اوسان خطا ہو چکے تھے اور دوسرے اسے اپنا قتدار بلکہ اپنا وجود خطرے میں دکھائی دے رہا تھا خاص طور پر وہ جانتا تھا کہ جا دو گروں کا ایما ن لانا حاضرین کے دلوں پر کس قدر موٴثر ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کافی سارے لوگ جادو گروں کی دیکھا دیکھی سجدے میں گر جائیں لہٰذا اس نے بزعم خود ایک نئی ایچ نکالی اور جا دوگروں کی طرف منہ کر کے کہا :تم میری اجازت کے بغیر ہی اس پر ایمان لے آئے ہو( قَالَ آمَنْتُمْ لَہُ قَبْلَ اٴَنْ آذَنَ لَکُمْ )(4) ۔
کیونکہ وہ سالہاسال سے تخت ِ استبداد پر براجمان چلا آرہا تھا لہٰذا اسے قطعا یہ امید نہیں تھی کہ لوگ اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام دیں گے بلکہ اسے تو یہ توقع تھی کہ لوگوں کے قلب و عقل اور فکر و اختیار اس کے قبضہ ٴ قدرت میں ہیں ، جب تک وہ اجازت نہ دے وہ نہ تو کچھ سوچ سکتے ہیں اور نہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔جابر حکمرانوں کے طریقے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔
یہ مغرور سر کش تو اس بات کا روادار بھی نہ تھا کہ خدا یا موسیٰ علیہ السلام کا نام ہی زبان پر لے آئے بلکہ اس نے حقارت اور نفرت کے اظہار کی صورت میں صرف”لہ“ پر ہی اکتفا کیا۔
لیکن اس نے اسی کا کافی نہیں سمجھا بلکہ دو جلے اور بھی کہے تاکہ اپنے زعم باطل میں اپنی حیثیت اور شخصیت کو بر قرار رکھ سکے اور ساتھ ہی عوام کے بیدار شدہ افکار کے آگے بند باندھ سکے اور انھیں دوبارہ خواب ِ غفلت میں سلادے ۔
اس نے پہلے جادو گروں سے کہا : موسیٰ سے یہ پہلے لگی بندھی سازش ہے بلکہ مصری عوام کے خلاف ایک خطر ناک منصوبہ ہے اس نے کہا وہ تمہارابزرگ اور استاد ہے جس نے تمہیں جادو کی تعلیم دی ہے اور تم سب نے جادو گری کی تعلیم اسی سے حاصل کی ہے (إِنَّہُ لَکَبِیرُکُمْ الَّذِی عَلَّمَکُمْ السِّحْرَ )۔
تم نے سب سے طے شدہ منصوبے کے تحت یہ ڈرامہ رچا یا ہے تاکہ مصر کی عظیم قوم کو گمراہ کر کے اس پر اپنی حکومت چلاوٴاور اس ملک کے اصلی مالکوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دو اور ان کی جگہ غلاموں اور کنیزوں کو ٹھہراوٴ۔
لیکن میں تمہیں کبھی اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ تم اپنی سازش میں کامیاب ہو جاوٴ، میں اس سازش کو پنپنے سے پہلے ہی ناکام کر دوں گا ، تم بہت جلد جان لو گے کہ تمہیں ایسی سزا دوں گا جس سے دوسروں لوگ عبرت حاصل کریں گے تمہارے ہاتھ اور پاوٴ ں کو ایک دوسرے کے مخالف سمت میں کاٹ ڈالوں گا (دایاں ہاتھ اور بایاں پاوٴں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاوٴں )اور تم سب کو (کسی استثناء کے بغیر )سولی پر لٹکا دوں گا :(فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَاٴُقَطِّعَنَّ اٴَیْدِیَکُمْ وَاٴَرْجُلَکُمْ مِنْ خِلاَفٍ وَلَاٴُصَلِّبَنَّکُمْ اٴَجمَعِینَ )۔
یعنی صرف یہی نہیں کہ تم سب کو قتل کر دوں گا بلکہ ایسا قتل کروں گا جس میں دکھ ، درد ، تکلیف اور شکنجہ بھی ہو گا اور وہ بھی سر عام کھجور کے بلند درختوں پر ۔کیونکہ ہاتھ پاوٴں کے مخالف سمت کے کاٹنے سے احتمالا ً انسان کی دیر سے موت واقع ہوتی ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے ۔
ہر دَور کے ظالم اور جابر حکمرانوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ پہلے تو وہ خدا کے مصلح لوگوں پر عوام کے خلاف سازش کا الزام لگاتے ہیں پھر تہمتوں اور الزام تراشیوں کے ھر بے آزماتے ہیں آخر میں تلوار کا حربہ ہوتا ہے تاکہ اس طرح حق کے طلب گار افراد کی پہلے تو پوزیشن کمزور ہو اور پھر انھیں وہ اپنی راہ سے آسانی کے ساتھ ہٹا دیں ۔
لیکن فرعون یہاں پر سخت غلط فہمی میں مبتلا تھا کیونکہ دیر قبل کے جادو گر اور اس وقت کے مومن افراد کے دل نورِ ایمان سے اس قدر منور ہوچکے تھے اور خدائی عشق کی آ گ ان کے دل میں اس قدر بھڑک چکی تھی کہ انھوں نے فرعون کی دھمکیوں کوں ہر گز ہر گز کوئی وقعت نہ دی بلکہ بھرے جمع میں اسے دو ٹوک جواب دے کر اس کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
انھوں نے کہا: کوئی بڑی بات نہیں اس سے ہمیں ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو ہم اپنے پرورداگار کی طرف لوٹ جائیں گے (قَالُوا لَا ضَیْرَلاََّا إِلَی رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ)۔
اس کام سے نہ صرف نہ کہ کہ تم ہمارا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکو گے بلکہ ہمیں اپنے حقیقی معشوق اور معبود تک پہنچا دو گے، تمہاری یہ دھمکیان ہمارے لئے اس وقت موٴثر تھیں جب ہم نے خود کو نہیں پہچا نا تھا ، اپنے خدا سے ناآشنا تھے اور راہ ِ حق کو بھلا کے زندگی کے بیابان میں سر گرداں تھے لیکن آج ہم نے اپنی گمشدہ گراں بہا چیز کو پا لیا ہے جو کرنا چاہو کر لو۔
انھوں نے اس سلسلہ ٴ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہم ماضی میں گناہوں کا ارتکاب کر چکے ہیں اور اس میدان میں بھی اللہ کے سچے رسول جناب موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں پیش پیش تھے اور حق کے ساتھ لڑنے میں ہم پیش قدم تھے لیکن ”ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا پر وردگار ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں “ ( إِنَّا نَطْمَعُ اٴَنْ یَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَایَانَا اٴَنْ کُنَّا اٴَوَّلَ الْمُؤْمِنِینَ) ۔
ہم آج کسی چیز سے نہیں گھبراتے نہ تو تمہاری دھمکیوں سے اور نہ ہی بلند و بالا کھجور کے درختوں پر سولی پر لٹک جانے کے بعد ہاتھ پاوٴں مار نے سے ۔
اگر ہمیں خوف ہے تو اپنے گزشتہ گناہوں کا اور امید ہے کہ وہ بھی ایمان کے سائے اور حق تعالیٰ کی مہر بانی سے معاف ہو جائیں گے ۔
یہ کیسی طاقت ہے کہ جب کسی انسان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کی نگاہوں میں حقیر ہو جاتی ہے اور وہ سخت سے سخت شکنجوں سے بھی نہیں گھبراتا اور اپنی جان دے دینا اس کے لئے کوئی بات ہی نہیں رہتی۔

یقینا یہ ایمانی طاقت ہوتی ہے ۔

یہ عشق کے روشن و درخشان چراغ کا شعلہ ہوتا ہے جو شہادت کے شربت کو انسان کے حلق میں شہد سے بھی زیادہ شیریں بنا دیتا ہے اور محبوب کے وصال کو انسان کا ارفع و اعلیٰ مقصد بنا دیتا ہے ۔
یہ وہی طاقت ہے جس سے پیغمبر اسلام نے استفادہ کیا اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی اسی سے تربیت کی جس کی وجہ سے ایک پسماندہ قوم بہت جلد اعزاز و افتخار کی بلندیوں کو چھونے لگی ، ایسے مسلمان جن پر تاریخ بشریت تا ابد ناز کر تی رہے گی ۔
بہر حال یہ منظر فرعو ن اور اس کے ارکان سلطنت کے لئے بہت ہی مہنگا ثابت ہوا ہر چند کہ بعض روایات کے مطابق اس نے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ بھی پہنا دیا اور تازہ ایمان لانے والے جادو گروں کوشہید کر دیا لیکن عوامل کے جوجذبات موسیٰ علیہ اسلام کے حق میں اور فرعون کے خلاف بھڑک اٹھے تھے وہ انھیں نہ صرف دبا نہ سکا بلکہ اور بھی بر انگیختہ کر دیا۔
اب جگہ جگہ اس خدائی پیغمبر کے تذکرے ہونے لگے اور ہر جگہ ان با ایمان شہداء کے چر چے تھے بہت سے لوگ اس وجہ سے ایمان لے آئے ۔ جن میں فرعون کے کچھ نزدیکی لوگ بھی تھے حتی کہ خود اس کی زوجہ ان ایمان لانے والوں میں شامل ہو گئی ۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ توبہ کرنے والے تازہ مومن جادوگروں نے اپنے آپ کو پہلے مومن کیوں کہا ؟ آیا ان کی مراد یہ تھی کہ وہ اس میدان میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ؟
یا فرعون کے حامیوں میں سے سب سے پہلے مو من ہیں ؟
یا شربت شہادت نوش کرنے والے سب سے پہلے مومن ہیں ؟
ان سب امور کا احتمال ہو سکتا ہے اور ان کا آپس میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے ۔
یہ تمام تفسیریں اس صورت میں ممکن نہیں جب ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ ان سے پہلے بنی اسرائیل یا غیر بنی اسرائیل میں سے کچھ اور لو گ بھی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکے ہوں گے لیکن اگر یہ کہیں کہ موسیٰ علیہ اسلام اور ہارون علیہ اسلام کو بعثت کے فوراً بعد حکم دے دیا گیا تھا کہ وہ براہ راست فرعون سے بات چیت کریں اور سب سے پہلی ضرب اس کے پیکر پر لگائیں تو ایسی صورت میں بعید نہیں ہے کہ وہ واقعاً پہلے مومنین ہوں اور پھر کسی دوسری تفسیر کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔
1۔”حبال“ ”حبل“( بروزن”طبل“) کی جمع ہے جس کا معنیٰ ہے رسی اور ’عصی“ ” عصا“ کی جمع ہے ۔
2 ۔”تلقف“ ”لقف“( بر وزن”سقف“کسی چیز کا جلدی جلدی پکڑنا کے معنی میں ہے خواہ وہ ہاتھ سے ہو یا منہ سے اور ظاہر ہے کہ یہاں منہ سے پکڑ نے کے معنی میں ہے اور ”یاٴفکون“ ”افک“( بر وزن”کذب“ بمعنی جھوٹ ہے یہاں پر جھوٹے کرشموں اور ذرائع کی طرف اشارہ ہے ۔
3 ۔ تفسیر فی ظلا ل القرآن جلد ۶ ص ۲۰۸۔
4 ۔ یہاں پر سورہ ٴ طٰہ ٰ کی آیت ۷۱ میں ”اٰمنتم لہ“آیا ہے جبکہ سورہ ٴ اعراف کی آیت ۱۲۳میں ”اٰمنتم بہ“ آیا ہے چنانچہ بعض ارباب لغت کے مطابق اگر ”ایمان “ ”لام “ کے ساتھ متعدی ہو تو خضوع و خشوع کا معنی دیتا ہے اور اگر ”باء “ کے ساتھ متعدی ہو تو تصدیق کا معنی دیتا ہے ۔
سوره شعراء / آیه 52 - 59سوره شعراء / آیه 43 - 51
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma