ہم نے انھیں باہر نکال دیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۱۔ بنی اسرائیل نے مصر میں حکومت کی ہے ؟سوره شعراء / آیه 52 - 59
ہم گزشتہ آیات میں دیکھ چکے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میدان ِمقابلہ میں فرعون پر غالب آگئے اور سر خرو اور سرفراز ہو کر میدان سے باہر آئے اگر چہ فرعون اور اس کے تمام درباری ان پر ایمان نہیں لائے لیکن اس کے چند نتاء بر آمد ہو ئے ، جن میں سے ہر ایک اہم کامیابی شمار ہوتا ہے ۔
۱۔ بنی اسرائیل کا اپنے رہبر اور پیشوا پر عقیدہ مزید پختہ ہو گیا اور انھیں مزید تقویت مل گئی چنانچہ ایک دل اور ایک جان ہو کر ان کے گرد جمع ہو گئے کیونکہ انھوں نے سالہا سال کی بد بختی اور در بدرکی ٹھوکریں کھانے کے بعد اب اپنے اندر کسی آسمانی پیغمبر کو دیکھا تھا جو کہ ان کی ہدایت کا بھی ضامن تھا اور ان کے انقلاب ، آزادی اور کامیابی کا رہبر بھی تھا۔
۲۔موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں اور قبطیوں کے درمیان ایک اہم مقام حاصل کرلیا ۔ کچھ لوگ ان کی طرف مائل ہو گئے اور جو مائل نہیں ہوئے تھے وہ کم از کم ان کی مخالفت سے ضرورگھبراتے تھے اور جناب موسیٰ کی صدائے دعوت تمام مصر میں گونجنے لگی۔
۳۔سب سے بڑھ کر یہ کہ فرعون عوامی افکار اور اپنی جان کو لاحق خطرے سے بچاوٴکے لئے اپنے اندر ایسے شخص کے ساتھ مقابلے کی طاقت کھوچکا تھا جس کے ہاتھ میں اس قسم کا عصا اور منہ میں اس طرح کی گویا زبان تھی۔
مجموعی طور پر یہ امورموسیٰ علیہ السلام کے لئے اس حد تک زمین ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوئے کہ مصریوں کے اندر ان کے پاوٴں جم گئے اور انھوں نے کھل کر اپنا تبلیغی فریضہ انجام دیا اور اتمام ِ حجت کی ۔
اس روش کو کئی سال گزرگئے اور ا س دوران میں موسیٰ علیہ السلام نے اپنے منطقی دلائل کے ساتھ ساتھ انھیں کئی معجزے بھی دکھائے جن کی طرف ہم سورہ ٴ اعراف کی آیت ۱۳۰ سے ۱۳۵تک کے ذیل میں اشارہ کر چکے ہیں ۔حتیٰ کہ خدا وند عالم نے اہل مصر کو کئی سال تک قحط اور خشک سالی میں مبتلا رکھا تاکہ جو لوگ بیدارہو جائیں ۔
(اس بارے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی چھٹی جلد میں مذکورہ آیات کی تفسیر ملاحظہ ہو )۔
جب جناب موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت کر چکے اور مومنین و منکرین کی صفیں ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں تو موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا گیا چنانچہ یہی آیات اس منظر کی تصویر کشی کر رہی ہیں ۔
سب سے پہلے فرمایا گیا: ہم نے موسیٰ علیہ اسلام پر وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو ( مصر سے باہر) نکال کر لے جاوٴ، کیونکہ وہ تمہارا پیچھا کرنے والے ہیں ( وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی مُوسَی اٴَنْ اٴَسْرِ بِعِبَادِی إِنَّکُمْ مُتَّبَعُونَ) ۔
یہ ایک خدا ئی منصوبہ ہے کہ تم رات کو سفر کرو اور وہ بھی باخبر ہو جائیں اور تمہارے پیچھے چل پڑےں پھر کیا ہو گا ؟ یہ بعد میں دیکھا جائے گا ۔
”عبادی“ ( میرے بندے) کی تعبیر،( باوجودیکہ اس سے پہلے ”اوحینا“ یعنی ”ہم نے وحی بھیجی “ جمع کی صورت میں آیا ہے )،خدا کی اپنے مومن بندوں سے نہایت محبت پر دلالت کر تی ہے ۔
موسیٰ علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور دشمن کی نگاہوں سے بچ کر طبنی اسرائیل کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد کوچ کا حکم دیا اور حکم ، خدا کے مطابق رات کو خصوصی طور پر منتخب کیا تاکہ یہ منصوبہ صحیح صورت میں تکمیل کو پہنچے ۔
لیکن ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعدا د کی روانگی ایسی چیز نہیں تھی جو زیادہ دیر تک چھپی رہ جاتی ۔ جاسوسوں نے جلد ہی اس کی رپوٹ فرعون کو دے دی اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے :فرعون نے اپنے کارندے مختلف شہروں میں روانہ کر دئے تاکہ فوج جمع کریں (فَاٴَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ )۔
البتہ اس زمانے کے حالات کے مطابق فرعون کا پیغام تمام شہروں میں پہچانے کے لئے کافی وقت کی ضرورت تھی لیکن نزدیک کے شہروں میں یہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئی او رپہلے سے تیار شدہ لشکر فوراً حرکت میں آگئے اور مقدمة الجیش اور حملہ آور لشکر کی تشکیل کی گئی اور دوسرے لشکر بھی آہستہ آہستہ ان سے آملتے رہے ۔
ساتھ ہی لوگوں کو حوصلہ بلند رکھنے اور نفسیاتی اثر قائم رکھنے کے لئے اس نے حکمدیا کہ اس بات کا اعلان کردیا جائے کہ ” وہ تو ایک چھوٹا سا گروہ ہے ( تعداد کے لحاظ سے بھی کم اور طاقت کے لحاظ سے بھی کم( إِنَّ ھَؤُلاَءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیلُونَ)۔
لہٰذا اس چھوٹے سے کمزور گروہ کے مقابلے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ کیونکہ طاقت اور قوت ہمارے پاس زیادہ ہے لہٰذا فتح بھی ہماری ہی ہو گی ۔
”شرذمة“در اصل چھوٹے سے گروہ اور کسی چیز سے کچھ بچ رہنے کو کہتے ہیں ۔کٹے پھٹے لباس کو ”شراذم“ کہتے ہیں بنابریں اس کلمہ میں کم ہو نے کے معنی کے علاوہ پراکندگی اور انتشار کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے گویا اس طرح سے فرعون یہ باور کرانا چاہتاتھا کہ وہ لوگ صرف تعداد ہی میں ہم سے کم نہیں بلکہ ان میں انتشار اور افتراق بھی پایا جاتا ہے ۔
فرعون نے یہ بھی کہا آخر ہم کس حد تک بر داشت کریں اور کب تک ان سر کش غلاموں کے ساتھ نر می کابر تاوٴکرتے رہیں ؟
انھوں نے تو ہمیں غصہ دلا یا ہے “( وَإِنَّھُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ )۔
آخر کل مصر کی کھیتیوں کی کون آبپاشی کرے گا ؟ہمارے گھر کون بنائے گا ؟ اس وسیع و عریض مملکت کا کون لوگ بوجھاٹھائیں گے ؟اور ہمار ی نوکری کون کرے گا ؟
اس کے علاوہ ”ہمیں ان لوگوں کو سازشوں سے خطرہ ہے ( خواہ وہ یہاں رہیں یا کہیں اور چلے جائیں ) اور ہم ان سے مقابلہ کے لئے مکمل طور پر آمادہ اور اچھی طرح ہو شیا ر ہیں “(وَإِنَّا لَجَمِیعٌ حَاذِرُونَ )
بعض مفسرین کے مطابق ”حاذرون“ ”حذر“ سے ہے جس کا مطلب ہے ان کی سازشوں سے خطرہ اور بعض ”حذر“ کو افرادی قوت اور اسلحہ کے لحاظ سے مکمل ہوشیاری ، بیداری اور تیاری کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔
لیکن ان دونوں تفسیروں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے فرعون والے کائف بھی ہوں اور ان سے مقابلے کے لئے مکمل طور پر تیار بھی ہوں ۔
پھر قرآن پاک فرعونیوں کے انجام کا ذکر کرتا ہے اور اجمالی طور پر ان کی حکومت کے زوال اور بنی اسرائیل کے اقتدار کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ہم نے انھیں سر سبز باغات اور پانی سے لبریز چشموں سے باہر نکال دیا:(فَاٴَخْرَجْنَاھمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ )۔
اور خزانوں ، خوبسورت محلات اور آرام و آسائش کے مقامات سے بھی نکال دیا ( وَکُنُوزٍ وَمَقَامٍ کَرِیمٍ )۔
ہاں ہاں!ہم نے ایسا ہی کیا اور بنی اسرائیل کو بغیر کسی مشقت کے یہ سب کچھ دے دیا اور انھیں فرعون والوں کا وارث بنا دیا ( کَذَلِکَ وَاٴَوْرَثْنَاھَا بَنِی إِسْرَائِیلَ )۔
”مقام ِ کریم “کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کچھ لوگوں کے نزدیک اس سے بلند و بالامحلات اور قیمتی عمارتیں مراد ہیں اور بعض لوگوں نے اس سے عیش و نشاط کی محفلیں مراد لی ہیں کچھ مفسرین اس سے حکمرانوں اور اہل اقتدار کی مجالس مراد لیتے ہیں کہ جن کے آگے نو کر چاکر سر تسلیم خم کئے منتظر ِ فرمان ہوتے ہیں اور بعض اسے وہ منبر مراد لیتے ہیں جن پر بیٹھ کر خطباء تقریریں کرتے ہیں (یعنی وہ منبر جن پر بیٹھ کر فرعون اور اس کی حکومت کے حق میں پروپیکنڈا کیا جاتا تھا)۔
البتہ پہلا معنی سب سے مناسب معلوم ہوتا ہے اگر چہ ان تمام معانی کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام معانی آیت کے مفہوم میں جمع ہو ں یعنی ان سے محلات بھی لے لئے گئے ہیں ، قدرت و طاقت، حکومت و دولت اور شان و شوکت بھی چھین لئے گئے اور محافل ِ سرور و نشاط کی بساط بھی لپیٹ لی گئی۔
۱۔ بنی اسرائیل نے مصر میں حکومت کی ہے ؟سوره شعراء / آیه 52 - 59
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma