بے حیا قوم !

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 160 - 166

چھٹے پیغمبر کہ جن کی اپنی گمراہ قوم کی زندگی کاایک گوشہ اس سورت میں بیان ہوا ہے ، حضرت لوط علیہ السلام ہیں ، باوجودیکہ جناب لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ہم عصر ہیں ۔ لیکن ان کا ماجرا ابراہیم علیہ اسلام کی داستان کے بیان ہوا، کیونکہ قرآن کوئی تاریخ کی کتاب تو نہیں کہ واقعات کو بالترتیب بیان کرے بلکہ اس کے پیش نظر تربیتی اور انسان سازی کے پہلو ہوتے ہیں جو دوسری مناسبتوں کے متقاضی بھی ہوتے ہیں ۔جناب لوط کی زندگی اور ان کی قوم کا ماجرا ایسے انبیاء کی داستان سے زیادہ ہم آہنگ ہے جن کا ذکر ابھی بیان ہوا ہے ۔
سب سے پہلے فرمایا گیا ہے :۔ لوط کی قوم نے خدا کے بھیجے ہوئے افراد کی تکذیب کی ( کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِینَ )۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ”مر سلین “ کوجمع کی صورت میں بیان کرنے کی وجہ تو یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت ایک ہوتی ہے ۔لہٰذکسی بھی پیغمبر کی تکذیب شمار کی جاتی ہے یاپھر اس لئے ہے کہ وہ گزشتہ کسی بھی پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔
پھر جناب لوط علیہ السلام کی دعوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی دعوت بھی گزشتہ انبیاء جیسی تھی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : جبکہ ان کے بھائی لوطعلیہ اسلام نے انھیں کہا کہ آیا تقویٰ اختیار نہیں کرتے ہو ( إِذْ قَالَ لَھُمْ اٴَخُوھمْ لُوطٌ اٴَلاَتَتَّقُونَ )۔
ان کی گفتگو کا اندازاور حد سے زیادہ اور گہری محبت و ہمدردی بتارہی ہے کہ وہ بھائی کی مانند ان سے باتیں کرتے تھے ۔
پھر فرمایا گیا ہے : میں تمہارے لئے امین ہو (إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ اٴَمِینٌ )۔
کیا اب تک تم نے مجھ سے کوئی خیانت دیکھی ہے ؟اس کے بعد وحی الٰہی اور تمہارے رب کا پیغمام پہنچانے میں بھی یقینا امانت کو مد نظر رکھوں گا ۔
”اب جبکہ صورت ِ حال یہ ہے کہ تو پر ہیز گاری اختیار کرو، خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو“ کیونکہ میں راہ ِ سعادت کا رہبر ہوں (فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِ)۔
یہ نہ سمجھو کہ یہ دعوت ِ الہٰی میرے گزار اوقات کا ایک ذریعہ ہے یا کسی مادی مقصد کو پیش نظر رکھ کر ایسا کام کر رہا ہوں ، نہ ، نہ میں تو ذرہ بھر بھی تم سے اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرت عالمین کے رب کے پاس ہے (وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ)۔
پھر وہ ان کے ناشائستہ اعمال اور ان کی کچھ اخلاقی بے راہروی کی باتوں کو بیان کرتے ہیں اور چونکہ ان کا بڑا انحراف جنسی انحراف اور اور ہم جنس بازی تھا لہٰذا اسی بات پر زیادہ زور دے کر کہتے ہیں: آیا تم ساری دنیا میں صرف مردوں کے پاس ہی جوتے ہو (اٴَتَاٴْتُونَ الذُّکْرَانَ مِنْ الْعَالَمِین)۔
یعنی باوجودیکہ خدا وند عالم نے اس قدر جنس مخالف تمہارے لئے خلق فرمائی ہے جن سے صحیح طریقے سے شادی کرکے پاک و پاکیزہ اور اطمینان بخش زندگی بسر کرسکتے ہو ۔ خدا کی اس پاک اور فطری نعمت کو چھوڑ کر تم نے خود کو اس طرح کے پست اور حیا سوز کام سے آلودہ کرلیا ہے ۔
آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ ” من العالمین “ کاجملہ خود اس قوم کے لئے ہو یعنی تمام جہان والوں میں صرف تم ہی ہو جنہوں نے یہ کج روی اختیار کی ہوئی ہے اور یہ بات بعض تاریخوں سے بھی ہم آہنگ ہے کہ قوم ِ لوط ہی سب سے پہلی قوم ہے جس نے ہم جنس بازی کا وسیع صورت میں ارتکاب کیا ہے (1)۔
لیکن بعد والی آیت سے پہلی تفسیر زیادہ ہم آہنگ ہے ۔
پھر ازدواج کو ترک کردیتے ہو جنھیں خدا نے تمہارے لئے خلق فرمایا ہے ( وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اٴَزْوَاجِکُمْ )۔
تم تو تجاوز کرنے والی قوم ہو(بَلْ اٴَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ)۔
یقینا کسی روحانی یا جسمانی فطری ضرورت نے تمہیں اس بے راہروی پر آمادہ نہیں کیا بلکہ یہ تمہاری سرکشی ہے جس نے تمہارے دامن کو اس شرمناک فعل کی گندگی سے آلودہ کردیا ہے ۔
تمہارے کام کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص خوشبو دار میوے ،مقوی اور صحیح سالم غذائیں چھوڑ کر زہر آلود اور مار ڈالنے والی غذاوٴں کو استعمال کرے ۔ یہ فطری خواہش نہیں بلکہ سر کشی ہے ۔
 1۔اس بے شرم قوم کے انحراف کی وجہ ایک داستان ہے جو تاریخوں میں موجود ہے اور جسے ہم تفسیر نمونہ جلد ۹ میں سورہ ٴ ہو د کی آیت ۸۱ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں ۔
سوره شعراء / آیه 160 - 166
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma