یہ بات کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت ان کے کارکنان حکومت پر کتنی مدت تک مخفی
رہی ،صحیح طور پرواضح نہیں ہے ، ایک سال ؟ ایک ماہ ؟ یاچند روز ۔
مفسرین کااس سلسلہ میں ایک نظریہ نہیں ہے ۔
کیایہ اخفا اور کتمان ان کے اصحاب اور ارکان سلطنت کی جانب سے صورت پذیر ہوا تھا ؟
کیا انہوں نے جانتے بوجھتے اس غرض سے کہ کہیں امورِ سلطنت کارشتہ وقتی طور پر بکھر
نہ جائے ، ان کی موت کو پوشیدہ رکھا ؟
یا یہ کہ اصحاب وارکان سلطنت بھی اس امر سے آگاہی نہیں رکھتے تھے ۔
یہ بات بہت ہی بعید نظر آتی ہے کہ ایک طولانی مدت تک ، یہاں تک کہ ایک دن سے زیادہ
ہی سہی ، ان کے اطراقبان ، ( گرد وپیش رہنے والے اصحاب وارکان ِ سلطنت ) بھی آگاہ
نہ ہوں ، کیونکہ یہ بات تومسلّم ہے ، کہ کچھ لوگ ان کاکھانا لے جانے پرمامورتھے
اوران تک دوسری ضروریات پہنچاتے تھے ، تووہ تواس واقعہ سے ضرو ر آغاہ ہوجاتے ، اس
بنا پر بعید نہیں ہے ... جیساکہ بعض مفسرین نے کہاہے کہ وہ اس امر سے آگاہ تھے ،
لیکن اسے کچھ مصلحتوں کی بناپر مخفی رکھا، اسی لیے بعض روایات میں آیا ہے کہ اس
مدت مین ” آصف بن برخیا“ ان کے وزیر ِ خاص ملک کے امور کی تدبیر کرتے اور نظم و
نسق چلاتے رہے ۔
کیاسلیمان علیہ السلام کھڑے ہوئے عصاکے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے یا بیٹھے ہوئے اپنے
ہاتھ عصا پررکھے ہوئے تھے ، اور سرکوہاتھوں پر ٹکا ئے ہوئے تھے اور اسی حالت میں ان
کی روح قبض ہوگئی اوروہ ایک مدت تک اسی طرح رہے ؟ اس سلسلے میں مختلف احتمالات ہیں
، اگرچہ آخری احتمال زیادہ نزدیک نظر آتاہے ۔
اگر یہ دمد طولانی تھی تو کیاغذا کانہ کھانا اورپانی کانہ پینا دیکھنے والوں کے لیے
کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا تھا ۔
چونکہ سلیمان علیہ السلام کے تمام کام عجیب وغریب تھے لہذاوہ شاید اس مسئلہ کوبھی
عجیب و غریب شمار کرتے تھے ، یہں ک کہ ایک روایت میں یہ بیان کیاگیاہے کہ آہستہ
آہستہ ایک گروہ کے درمیان یہ زمز مہ پیدا ہو ا کہ سلیمان علیہ السلام کی پرستش
کرنا چاہیئے ، کیاایسا نہیں ہے کہ وہ ایک عرصہ سے ایک ہی جگہ پر ثابت وبرقرار ہے ؟
نہ تووہ سوتاہے ، نہ کھا ناکھاتا ہے اور نہ پانی پیتاہے ( 1) ۔
لیکن جس وقت عصاٹوٹا او رسلیمان علیہ السلام نیچے گرے ، تویہ تمام رشتے ایک دوسرے
سے ٹوٹ گئے ، اوران کے خیالات نقش برآب ہوگئے ۔
لیکن بہرحال جوکچھ بھی تھا سلیمان علیہ السلام کی موت کے اظہار میں اس تاخیر نے بہت
سی چیزوں کوفاش کردیا :
۱۔ سب پرواضح وروشن ہوگیاکہ اگر انسان قدرت و طاقت کی بلندی تک بھی پہنچ جائے تو
پھر بھی حادثات کے مقابلہ میں ایک ضعیف و کمزور وجود ہے ، اورایک پرکاہ کی مانند ہے
کہ جو طوفان کے راستہ میں ہر طرف اُڑ تارہتاہے ۔
امیرالمومنین علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :
فلو ان احدً ایجدالی البقا ء سلما ً او ر لد فع الموت سبیلاً لکان ذالک سلیمان ابن
داؤد (ع) الذی سخر لہ ملک الجن والانس مع النبوة وعظیم ولزلفة ۔
اگر کوئی شخص اس جہان میںعالمِ بقا کی طرف کوئی سیڑھی پاتا ، یااپنے آپ سے موت
کودُور کرسکتا ،تو و ہ سلیمان علیہ السلام تھے ، کہ جن کے لیے نبّوت و مقام ِ بلند
کے ساتھ ساتھ جِنّوں اورانسانوں پرحکومتب بھی فراہم تھی ( 2) ۔
۲۔ سب لوگوں پر یہ حقیقت واضح و روشن ہوگی کہ جِنّوں کو غیب کاعلم نہیں ہے ، اور
نادان و بے خبر انسان کہ جو ان کی پرستش کرتے تھے ، انتہائی خطا اورغلطی پرتھے ۔
۳۔ تمام لوگوں کے سامنے یہ حقیقت کھل کرسامنے آگئی کہ کس طرح کس ملک کانظام او ر
شیر ازہ ایک چھوٹے سے موضوع کے ساتھ وابستگی پیدا کرلے تواس کے وجود کے ساتھ قائم
رہ سکتا ہے اور اس کے گرِجانے سے گرِجاتا ہے ، اوران امور کے پیچھے پروردگار کی بے
انتہائی قدرت جلوہ گر ہے ۔
1۔ تفسیر برہان ، جلد ۳ ، ص ۳۴۵ ۔
2۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۲ ۔