۲۔ مجادلہ ،قرآن کی روسے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 7- 9۱۔ کافروں کی ظاہری شان و شوکت

اسی سورت میں پانچ مرتبہ ” مجادلہ “ کی بات ہوئی ہے جوسب کی سب ” مجادلہٴ باطل “ کے ذکر پر مبنی ہے ، ( ملاحظہ ہوں آیات ۴ ، ۵ ، ۳۵، ۵۶ اور ۶۹) لہذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ قرآنی نکتہ نظر سے ” جدال “ کے بار ے میں کچھ تفصیل سے گفتگو کی جائے ۔
” جدال“ اور ” مراء “ دوایسے عنوان ہیں جن کے بار ے میں قرآنی آیات اور اسلامی روایات میں کافی گفتگو ہوئی ہے بہترمعلوم ہوتاہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے ان کلمات کے مفہوم کوواضح کیاجائے پھرجدال کی قسمیں ( جدالِ حق اور جدالِ باطل ) اور ان کی علامات کو بیان کیاجائے اور آخر میں جدالِ باطل کے نقصانات اور جدالِ حق کے فوائد اور کامیابی کے اسباب کی توضیح اور تشریح کی جائے ۔
الف : ” جدال“ اور ” مراء “ کیاہیں ؟
واضح ہے کہ ” جدال “” مراء“ اور ” مخاصمہ“ تین ایسے الفاظ ہیں جن کامفہوم ایک دوسرے سے ملتا جلتاہے لیکن ان کا آپس میں بہت فرق ہے (1)۔
” جدال “ دراصل رسّی کوبل دینے اور لپیٹنے کے معنی میں ہے بعد ازاں اس کااستعمال فریق مخالف کوبحث و گفتگوکے ذریعے اس پر غلبہ پانےکے مفہوم میں ہونے لگا ۔
” مراء“ (بروزن حجاب ) ایسی چیز کے بار ے میں گفتگو کے معنی میں آتا ہے جس میں” مر یہ “ یعنی شک پایا جاتاہو ۔
”خصو مت“ اور ” مخاصمہ“ دراصل دوآدمیوں کاایک دوسرے کے گلے پڑجانے اورایک کادوسرے کے پہلو کوپکڑنے کے معنی میں ہے . بعد ازاں اس کااطلاق زبانی کلامی لڑائی جگڑے پر ہونے لگا ۔
علامہ مجلسی مرحوم ” بحاراانوار “ فرماتے ہیں کہ ” جدال“ اور ” مراء“ الفاظ اکثر و بیشتر علمی مسائل کے بار ے میں بولے جاتے ہیں جبکہ ” مخاصمہ “ کااطلاق دنیاوی امور کے بار ے میں ہوتاہے ۔
بعض لوگ ” جدال “ اور ” مراء“ میں یہ فرق بتاتے ہیں کہ ” مراء “ میں فضیلت اور کمال کااظہار مقصود ہوتا ہے جبکہ ” جدال“ میں فریق مخالف کوحقیر اور عاجز کرنا موردِ نظر ہوتاہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ” جدال“ علمی مسائل میں ہوتاہے کہ جب کہ ” مراء“ علمی اورغیرعلمی دونوں کے لیے عام ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ ” مراء “ فریق مخالف کے حملوں کادفاع کرنے کا نام ہے جبکہ ” جدال“ کااطلاق مدافعانہ اور جارحانہ دونوں طرح کے حملوں پر ہوتاہے ( 2)۔
جیساکہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ اس لفظ کے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر استعمال سے بخوبی بتہ چلتاہے کہ ” جدال “ کا ایک وسیع مفہوم ہے اور فریقین کے درمیان ہونے والی ہرقسم کی گفتگو اس کے مفہوم میں شامل ہے خواہ وہ حق پر مبنی ہو یاباطل پر ۔
چنانچہ سورہ نحل کی آیت۱۲۵ میں خدا وند عالم اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوحکم دیتے ہوئے فر ماتاہے :
و جادلھم بالتی ھی احسن
آپ ان لوگوں کے ساتھ اچھے انداز سے گفتگو اور مجادلہ کریں ۔
سورہ ٴ ہود کی آیت۷۴ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بار ے میں ہے :
جب وہ ابراہیم سے خوف دور ہو اور انہیں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری مل چکی تو قومِ لوط کی سزا کے سلسلے میں ہم سے مجادلہ کرنے لگے ۔
گویا ان کے مجادلات ،مجادلہ ِ حق ہی کی ایک قسم تھے ۔
لیکن قرآن مجید کے اکثر مقامات پریہ لفظ جدالِ باطل کے معنی میں استعمال ہواہے،جیساکہ اس سورہ ٴ (مومن ) میںیہ لفظ پانچ مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔
بہرحال دوسروں کے ساتھ گفتگو میں بحث ،استد لال اور مناقشہ سے اس لیے استفادہ کیاجائے کہ اس سے حق بات کی وضاحت اور جاہل وبے علم لوگوں کوہدایت اور راہ ِ حق کی نشاندہی مقصود ہوتو یہ نہایت ہی پسند یدہ اور لائقِ قدر ہے بلکہ بعض مواقع پر واجب بھی ہو جاتا ہے ۔
قرآن مجید نے حق بات بیا ن کرنے اورحق کوثابت کرنے کے لیے بحث و گفتگو کی ہرگز مخالفت نہیں کی بلکہ بہت سی آیات میں اس امر کی عملاً تائید بھی کی گئی ہے ۔
بہت سے مقامات پرمخالفین سے بر ہان اور دلیل کامطالبہ کرتے ہوئے قرآن کہتاہے :
ھاتو ابرھانکم
اپنااستد لال پیش کرو ( 3)۔
بہت سی جگہوں پر دلیل کے تقاضوں کے پیشِ نظر قر آن نے خود مختلف دلائل پیش کئے ہیں جیساکہ سور ہ یٰس کے آخرمیں ہم نے پڑھاہے کہ جب وہ عرب پرا نی اور بوسیدہ ہڈی ہاتھ میں لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا :
من یحی العظام و ھی رمیم
ان گلی سڑی ہڈیوں کواز سرنوکون زندہ کرے گا ( یٰس . ۷۸)۔
تو اس کے جواب میںمعاد کے مسئلے اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے بار ے میں خداکی قدرت پر کئی دلائل پیش کردیئے گئے ہیں ۔
اس طرح سورہ ٴ بقرہ کی آیت ۲۵۸ میں نمرود کے سامنے جناب ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو اوران کے دندان شکن دلائل ،سورہ ٴ طٰہٰ کی آیات ۴۷ تا ۵۴ میں فرعون کے سامنے جناب موسٰی علیہ السلام کااحتجاج بیان فر مایاگیاہے جن سے مجادلہٴ حق کے واضح نمونوں کی نشاندہی ہوتی ہے . اسی طرح بت پرستوں ، مشرکوں اور حیلے بہانے بنانے والوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پُرمغزدلائل سے قرآن مجید چھلک رہاہے ۔
لیکن اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے نمونوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ باطل پر ستا راپنی بے بنیاد باتوں کو سچاثابت کرنے کے لیے باطل مجادلات کاسہارا لیتے تھے اورحق کو باطل ثابت کرنے اور سادہ لوح عوام کوفریب دینے کے لیے فریب کاریوں ،حیلوں اور بہانوں سے کام لیتے تھے . انبیائے الہٰی کے مقابلے میں گمراہ اور سرکش اقوام کے لیے مذاق، دھمکی ،افتر ا پر وازی اور بغیر دلیل کے انکار کردینا تومعمولی کام تھا ، جبکہ ابنیائے خدا کاکام مہرو محبت سے بھرپور منطقی دلائل پیش کرناہوتاتھا ۔
اسلامی روایات میں بھی مخالفین کے سامنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہلِ بیت علیہم السلام کے مباحث اور مناظر ات بڑی تعداد میں ملتے ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کرلیاجائے تو ایک بہت ضخیم کتاب بن جائے ( یاد رہے کہ ان حضرات کے سب کے سب اور تمام مناظر ے اور مباحثے حیطِ تحریر میں نہیں لائے گئے )۔
نہ صرف یہ ذوات مقدسہ بلکہ ان کے اصحاب و انصار بھی انہی بزرگواروں کی حمایت و تائید کے ساتھ مخالفین سے مناظر ے اور مباحث کرتے رہے . البتہ اس کام کی اجازت صرف ایسے لوگوں کودی جاتی جو ان باتوں کی کافی صلاحیت رکھتے تھے. کیونکہ اگر یہ چیزمدنظر نہ رکھی جائے تو بجائے اس کے کہ حق تقویت پہنچنے الٹا اس کے کمزور ہونے کاخطرہ ہوتاہے اور مخالفین کی جراٴ ت اور جسارت بڑھانے کا سبب ہوتاہے ۔
اسی لیے تو ایک روایت میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک دوست حمزہ محمد طیّار کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی :
بلغنی انک کرھت مناظرة الناس
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ مخالفین کے ساتھ مناظرے کوناپسند فرماتے ہیں ؟
تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :
اما مثلک فلا یکرہ ،من اذا طار یحسن ان یقع ، وان وقع یحسن ان یطیر،فمن کان ھذا لانکرھہ
اگر تمہارے جیسے افراد ہوں تو ان کے لیے کوئی حرج نہیں ہے یعنی ایسے لوگوں کے لیے اجازت ہے جو پرواز کرکے بلندی تک پہنچ جائیں تو اچھے طریقے سے اتر ناجا نتے ہوں اوراگر بیٹھے ہوئے ہوں تو بخوبی پر واز کر کے بلند ی تک پہنچ جائیں . تو ہم ایسے لوگوں کے مناطرہ کرنے کو ناپسند نہیں کرتے ( 4)۔
یہ خوبصورت تعبیر استد لال میں اوج کمال کو پہنچنے اور پھر بحث کو سمیٹنے اوراسے خاتمہ دینے کی صلاحیت کی طرف اشارہ ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ میدان مناظرہ میں ایسے لوگوں کوقدم رکھنا چا ہیے جن کا استدلال مباحث پر مکمل تسلط اوران پر پوری طرح عبور حاصل ہو . تاکہ ایسا نہ ہو کہ ان کی کمزوری کوان کے مذہب کی کمزوری پر محمول کیاجائے ۔
ج۔ مجادلہٴ باطل کے غلط نتائج
یہ ٹھیک ہے کہ بحث و مباحثہ حل مشکلات کے لیے کلیدی حیثیت رکھتاہے لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوگا جب بحث کے دونوں فریق طالب حق ہوں اور راہ ِ حقیقت کے متلاشی ہوں یاکم از کم اگرایک فریق ہٹ دھرمی اورضد بازی سے کام لے تو دوسرافریق حق کے ثابت کرنے اورحقیقت تک پہنچنے کی فکر میں ہوں لیکن . اگر ہر دوفریق خود غرضی،بالا دستی اورصرف اپنی ہی بات منوانے کے لیے مجادلہ کریں توحق سے دور ہو جانے ، دل کے تاریک ہونے ،لڑائی جھگڑوں اور کینوں کے بڑھ جانے کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں ہوگا ۔
اسی لیے اسلامی روایات میں ” مراء “ اور ” باطل مجادلہ“ سے رو کاگیاہے اوراس قسم کے مجادلات کے نقصانات کی طرف بھی انہی روایات معنی خیز اورلطیف اشارے ملتے ہیں .چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
من ضن بعر ضہ فلیدع المرآء
جیسے اپنی عزت پیاری ہے اسے مجادلہ اور زبانی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرناچاہیئے (5)۔
کیونکہ اس قسم کی بحث مباحثوں سے بات پڑھ کر بے عزتی ،تو ہین حتٰی کہ گالی گلوچ رکیک اور نارواتہمتوں تک پہنچ جاتی ہے ۔
چنانچہ ایک اور حدیث میں آپ علیہ السلام ہی کا فرمان ہے کہ
ایاکم و المرآء والخصومة فانھما یمر ضان القلوب علی الاخوان ، و ینبت علیھما النفاق
مجادلہ اور زبانی لڑائی جھگڑوں سے پر ہیز کر و کیونکہ یہ دونوں چیزیں بر ادران دینی کے بار ے میں دلوں کوبیمار کردیتی ہیں اور انفاق کے بیج کوپودے کی صورت میں پروان چڑھاتی ہیں ( 6)۔
کیونکہ اس قسم کے لڑائی جھگڑے جو عموماً بحث و استد لال کے صحیح اصولوں سے عارزی ہوتے ہیں لوگوں کے اندر ہٹ دھرمی ، ضدبازی اورتعصب کی روح کو اس قدر تقویت پہنچاتے ہیں کہ ہرشخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے فریق پر غلبہ پانے کے لیے ہر قسم کے جھوٹ ، فریب ،تہمت اور ہتک عزت سے کام لیاجائے. جس کا نتیجہ کینہ پروری اور دلوں میں نفاق کابیج بونے کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا ۔
” جدال باطل “ کاایک اور بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ دونوں فریق اپنے انحراف ،گمراہی اورغلط فہمی میں پہلے سے زیادہ سخت اور بختہ ہو جاتے ہیں . کیونکہ ہرشخص کو اپنے مقصود کے ثابت کرنے کے لیے ہرباطل دلیل کاسہارا لیناپڑتاہے حتٰی کہ اس کامقابلہ اگر حق بات بھی کہے تو اسے ٹھکرادیتا ہے یااسے قبول ہی نہیں کرتاجو بذات خود غلطی اور گمراہی کی تقویت کاموجب ہے ۔
د۔ مجادلہٴ احسن کاطریقہ ٴ کار :
جدال حق میں ہدف اور مقصد یہ نہیں ہوتا کہ فریق مخالف کی توہین کی جائے یااس پر فوقیت اوربرتر ی حاصل کی جائے بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے افکار اور روح کی گہرائیوں پر تاثیر پیدا کی جائے اسی وجہ سے مجادلہ ٴ احسن کا طریقہ کار جدال باطل سے ہرلحاظ سے مختلف ہوتاہے ۔
اس موقع پر جدال کرنے والے شخص کوفریق مخالف کے اندر معنوی طو ر پرنفوذ اورسوخ پیداکرنے کے لیے مندرجہ ذیل وسائل سے کام لیناچاہیے جن کی طرف قرآن مجید میں بڑے پیارے انداز سے ارشاد کئے گئے ہیں :
۱۔ اس کی یہ کوشش نہیں ہوی چاہیئے کہ فریق مخالف اس کی باتوں کو حق سمجھ کر قبول کرلے بلکہ اگر ممکن ہو تو اسے یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ فریق ثانی اس کی باتوں کو اپنا نتیجہ ٴ فکر سمجھے تو نہایت ہی موٴثر بات ہوگی .دوسرے لفظوں میں فریق مخالف یہ خیال کرے کہ یہ مطلب اورسوچ خود اس کے اند رونِ قلب سے اٹھی ہے اوراس کے اپنے غور و فکر کی پیدا وار ہے تاکہ اسے مزید سوچنے اور سمجھنے کاموقع مل جائے ۔
یہ جوقرآن مجید نے توحید اورشرک کی نفی جیسے اہم حقائق سے لے کردوسرے تمام مسائل استفہام کے اندر میں پیش فرمائے ہیں مثلاً توحید کے دلائل بیان کرنے کے بعد قرآن فرماتاہے :
ء الٰہ مع اللہ
آیاخدا کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے (نمل . ۶۰)۔
۲۔ ہر اس چیزسے پر ہیز کرناچاہیئے جس سے فریقِ مخالف کے جذ بات مجروح ہوتے ہوں اوراس سے اس کی ہٹ دھرمی بڑھ جاتی ہو ، قرآن کہتاہے :
و لاتسبو االذ ین ید عون من دون اللہ
وہ لوگ خداکے بجائے جن معبود ون کو پکارتے ہیں انہیں بُرا بھلانہ کہو ۔ ( انعام . ۱۰۸)
مباد اوہ بھی ضد میں آکر خدا وندبزرگ و برتر کو بر ا بھلا کہنا شروع کردیں ۔
۳۔ ہرفرد یاگروہ کے مقابلے میںبحث و مباحثہ کرتے وقت انصاف کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ ناچاہیئے تاکہ فریق مخالف کواس بات کااحساس ہوکہ بحث کرنے والاصحیح معنوں میں حقائق سے پردہ اٹھاناچا ہتاہے .بطور مثال جب قرآن مجید شراب اور جوٴا کے نقصانات بیان کرتاہے تو اس کے جزو ی مادی اور اقتصادی منافع کو بھی بیان کرتاہے جوکچھ لوگوں کوحاصل ہوتے ہیں فرماتاہے :
قُلْ فیہِما إِثْمٌ کَبیرٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمُہُما اٴَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِما
کہہ دیجئے شراباور جوئے میںبہت بڑا گناہ ہے اورلوگوں کے لیے کچھ فوائد بھی ہیں لیکن ان کاگناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہے ( بقرہ . ۲۱۹)۔
اس طرح کی طرزِ گفتگو سننے والے کے دل پر گہرااثر ڈالتی ہے ۔
۴۔ بُری اور ناخوشگوار باتوں کااسی انداز میں جواب نہ دے . بلکہ محبت ،نرمی اور درگزر سے کام لے اس طرح کے طر زِ عمل سے ہٹ دھرم اورضدی مزاج دشمنوں کے دل نرم کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے ،جیسا کہ قرآن مجید فر ماتاہے :
ادْفَعْ بِالَّتی ہِیَ اٴَحْسَنُ فَإِذَا الَّذی بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَداوَةٌ کَاٴَنَّہُ وَلِیٌّ حَمیمٌ
بہترین طریقے سے برائیوں کو دور کرو کیونکہ اس طرح تمہاری جس شخص سے دشمنی ہے اس قدر نرم ہو جائے گا گو یا وہ تمہاراایک پکادوست ہے ۔ (حٰم السجدہ .۳۴)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید میں بیان شدہ انبیاء کی اپنے جابر اور سر کش دشمنوں کے ساتھ اندازِ گفتگو کو ملا حظہ کرتے ہیں یاپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصو مین علیہم السلام کی اپنے دشمنوں سے عقیدتی مباحث کامطالعہ کرتے ہیں تو اس سلسلے میں ہمیں نہایت ہی قیمتی سبق ملتے ہیں جو بہت اہم نفسیاتی مسائل کو احسن انداز میں حل کررہے ہوتے ہیں اوران سے دوسروں کے دلوں تک پہنچنے کی راہ صاف اور ہموار ہوتی ہے ۔
خاص کر اس سلسلے میں علاّمہ مجلسی ۺ نے ایک مفصل روایت نقل کی ہے جس میں حضرت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس طویل مناظرے کا تذ کرہ ہے جو آپ نے عرب کے یہودیوں ،ثنویوں ( دوگانہ پرستوں ) اور مشرکوں کے ساتھ کیاتھا . آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مناظرہ ایسے احسن اور پیارے انداز میں تھا کہ دشمنوں کے لیے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہاتھا . یہ ایک ایساسبق آموز مناظرہ ہے جو ہمارے مناظروں کے لیے نمونہ ٴ عمل بن سکتا ہے ( ۷)۔
1۔یہ تینوں الفاظ ” باب مفاعلہ“ کامصدر ہیں ۔
2۔ بحارالا نوار جلد ۷۳ ، ص ۳۹۹۔
3۔بقرہ .۱۱۱ ، انبیاء . ۲۴ ، نمل .۶۴اور قصص. ۷۵ ۔
4۔ رجال کشی ، ص ۲۹۸۔
5۔نہج البلاغہ کلمات قصار . کلمہ ۳۶۲۔
6۔ ”اصول کافی “ جلددوم (باب المراء والخصو مة ) حدیث ۱۔
7۔بحارالانوار جلد ۹ ،ص ۲۵۷ کے بعد کے صفحات ملاحظہ ہوں ۔
سوره مؤمن/ آیه 7- 9۱۔ کافروں کی ظاہری شان و شوکت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma