جابر حکمرا ن صحیح فہم سے محروم ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 36- 37سوره مؤمن/ آیه 34- 35

ان آیات میں موٴ من آل فرعون کی گفتگو کاسلسلہ جاری ہے ۔
گزشتہ ، موجود ہ اور آئندہ آیات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ” موٴمن آل فرعون نے فرعون اوراس کے ساتھیوں کے سیاہ اور تاریک دل میںاثر کرنے اوران سے متکبر اور کفرکازنگ دور کرنے کے لیے اپنی گفتگو کوپانچ مرحلوں میں بیان کیا :
پہلے مرحلے میں اس نے ذو معنی اوراحتیاط پر مبنی گفتگو کی اوراس کافر اور سرکش قو م کواحتمال نقصان سے بچنے کی دعوت دی اور کہا : اگرموسٰی جھوٹ بولتے ہیں تو جھوٹ خودانکے اپنے دامن کوپکڑے گااور اگرسچ کہتے ہیں توعذاب ہمیں دامن گیر ہوگالہذا خدا سے ڈر وا وراحتیاط کادامن ہاتھ سے نہ جانے دو ۔
دوسرے مرحلے میں انہیں گزشتہ اقوام کے حالات اورانجام کے بار ے میں غور اور مطالعے کی دعوت دی اورانہیں اس قسم کے انجام سے بچنے کی دعوت دی ۔
تیسرے مرحلے میں موجودہ آیات میں ان کی کچھ اپنی تاریخ انہیں یاددلائی جس کاان سے زیادہ فاصلہ بھی گزراتھا اورانکے باہمی رابطے بھی اس سے ابھی تک نہیںٹوٹے تھے اور یہ تھا حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوت کامسئلہ جوکہ حضرت موسٰی کے جدا مجد تھے اوران کی دعوت کے انداز کوپیش کرتے ہوئے کہتاہے :
اس سے پہلے یوسف تمہاری ہدایت کے لیے واضح اور روشن دلائل لے کرآئے ( وَ لَقَدْ جاء َکُمْ یُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّناتِ)(۱)۔

لیکن تم نے اسی طرح ان کی دعوت میں بھی شک کیا( فَما زِلْتُمْ فی شَکٍّ مِمَّا جاء َکُمْ بِہِ)۔
اس وجہ سے نہیں کہ ان کی دعوت میں کسی قسم کی پیچیدگی تھی یاان کی آیات ودلائل ناکافی تھے بلکہ صرف اپنی اناپرقائم رہتے ہوئے تم نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور ہمیشہ شک وشبہ کااظہار کرتے رہے ۔
پھر ہر قسم کی ذمہ داری اور فرائض کی انجام دہی سے جان چھڑانے ، اپنی اناکو قائم رکھنے اورخواہشات نفسانی کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جب یوسف اس دنیا سے چلے گئے تو تم نے کہناشروع کردیاان کے بعد خداہرگز کسی کورسول بناکر نہیں بھیجے گا (حَتَّی إِذا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَبْعَثَ اللَّہُ مِنْ بَعْدِہِ رَسُولاً)۔
تمہاری اس غلط روش کی وجہ سے ہدایت الہٰی تمہارے شامل حال نہ ہوسکی ، جی ہاں ” اسی طرح خداہر اسرا ف کرنے والے اورشک کرنے اوروسوسہ ڈالنے والے کوگمراہ کرتاہے (کَذلِکَ یُضِلُّ اللَّہُ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ مُرْتابٌ )۔
تم نے ایک طرف تو اسراف اورخدائی حدود سے تجاوز کرنے کاراستہ اختیار کیااوردوسری طرف ہرچیز میں شک و شبہ اور و سواس سے کام لی. تمہارے دونوں کام اس بات کاسبب بن گئے کہ خداوندعالم اپنے لطف وکرم کی نگاہ تم سے پھیر لے او رتمہیں ضلالت و گمراہی کی وادی میں چھوڑ دے اور تمہاراانجام اس کے علاوہ اورکیاہوسکتاہے ؟
اب اگرموسٰی کے بار ے میں بھی تم نے اسی روش کواپنایااور تحقیق وجستجو سے کام نہ لیا توممکن ہے کہ وہ خداکی طرف سے نبی ہولیکن اس کی ہدایت کانور تمہارے چھپے ہوئے حجابوں میںپڑے ہوئے د ل پرنہ چمکے ۔
بعد کی آیت ” مسرف مرتاب “ کی تشریح کرتے ہوئے کہتی ہے:یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کی ایسی دلیل کے جوان کے پاس آئی ہوخداکی آیات مجادلہ کرتے ہیں (الَّذینَ یُجادِلُونَ فی آیاتِ اللَّہِ بِغَیْرِ سُلْطانٍ اٴَتاہُمْ ) (۲)۔
اپنی گفتگو میں کوئی عقلی او ر نقلی واضح دلیل رکھے بغیر خداکی آیات کامقابلہ کرتے ہیں اوراٹکل بچوؤں ، بے بنیاد وسوسوں اور مختلف حیلے بہانوں سے اپنی مخالفت جاری رکھتے ہیں ۔
یہ کتنی بُری بات ہے کہ” حق کے مقابلے میںاس قسم کے بے بنیاد جدال خداکے اوران لوگوں کے عظیم غضب کا سبب بنتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں “ (کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّہِ وَ عِنْدَ الَّذینَ آمَنُوا ) (۳) ۔
کیونکہ جدالِ باطل اورخداکی آیات کے مقابلے میں بغیرکسی دلیل ومنطق کے محاذ آرائی ایک تومجادلہ کرنے والوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہے اور دوسرے عوام الناس کی بے راہر وی اورضلالت کا یہ روش معاشرے میں نورحق کوخاموش اورحکومت باطل کی بنیاد وں کی مستحکم کرتی ہے ۔
اور آخر میں ان کے حق کے آگے نہ جھکنے کی وجہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : خد ا اسی طرح ہر متکبرجبار کے دل پرمہرلگا دیتاہے (کَذلِکَ یَطْبَعُ اللَّہُ عَلی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ ) (۴)۔
جی ہاں ! جولوگ تکبر اور جبا ر یت جیسی دوسری صفات کی وجہ سے حق کے مقابلے میںڈٹ جانے کافیصلہ کرچکے ہیں اور کسی حقیقت کوقبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے توخدا بھی حق جوئی اورحق خواہی کی روح ان سے سلب کرلیتاہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ حق ان کے ذائقے میں کڑ وااور باطل میٹھا ہوجاتاہے ۔
ان بیا نات کے ذریعے موٴ من آ ل فرعون نے جوکچھ کرناتھا کردکھا یاچنانچہ بعد کی آیات سے معلوم ہوگاکہ اس نے فرعون کوجناب موسٰی علیہ السلام کے قتل کی تجویز بلکہ فیصلے کے بار ے میں ڈا نو اڈول کردیا یاکم از کم اسے ملتوی کروادیا اوراسی التواء سے قتل کاخطرہ ٹل گیا اور یہ تھا اس ہوشیار ، زیرک اور شجاع مرد خدا کافریضہ جواس نے کماحقہاداکر دی.جیساکہ بعد کی آیات سے معلوم ہوگا کہ اس سے اس کی جان کے بھی خطرے میں پڑنے کااندیشہ ہوگیاتھا ۔
۱۔ واحد آیت جوجناب یوسف علیہ السلام کی نبوت پردلالت کرتی ہے یہی آیت ہے ہرچندکی سور ہ ٴ یوسف میں اس بات کے اشارے توملتے ہیں لیکن اس میں صراحت کے ساتھ یہ بات بیان نہیں ہوئی ۔
۲۔ یہاں پر ” الذین “ ” مسرف مرتاب “ کابدل ہے . جب کہ مبدل منہ مفرداور بدل جمع ہے کیونکہ کسی معین فردپرنظر نہیں ہے بلکہ جنس مدنظر ہے ۔
۳۔ ” کبر“ کافاعل ” الجال “ ہے جو پہلے جملے سے سمجھ میںآتا ہے اور” مقتا“ اس کی تمیز ہے،بعض مفسرین نے سمجھا ہے کہ شاید اس کافاعل ” مسرف مرتاب “ ہو . لیکن پہلامعنی بہتر معلوم ہوتاہے ۔
۴۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں” متکبر اور جبا ر “ قلب کی صفت کے طورپر ذکرہوئے ہیں ( ہرچندکہ اضافت کی صورت میںہیں ) نہ کسی شخص کی صفت ، اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کبراور جبار یت کی بنیاد قلب ہے اور وہیں سے یہ انسان کے باقی تمام وجود میں سرایت کرجاتے ہیں . اور تمام اعضاء تکبر اورجبار یت کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں ۔
سوره مؤمن/ آیه 36- 37سوره مؤمن/ آیه 34- 35
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma