۳۔عالم ِ برزخ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 47- 50۲۔مسئلہ تفویض
” برزخ “ جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس دنیا اوراُس جہان کے درمیان ایک واسط ے . قرآن مجیدمیں جس قدر قیامت کے بار ے میں کثرت سے گفتگو ہوئی ہے اس کی نسبت سے برزخ کے بار ے میں بہت کم بات ہوئی ہے . اسی وجہ سے اس پرابہام کے کچھ پردے پڑے ہوئے ہیں اوراس کی خصوصیات اور تفصیلات کے بار ے میں صحیح طور پر علم نہیں ہے اورحقیقت الامر یہ ہے کہ برزخ کی خصوصیات کاعلم ، اعتقادی مسائل میں زیادہ مئوثر نہیں ہے . لہذاکتاب خدامیں بھی اس کے با ر ے میں بہت کم گفتگو ہوئی ہے . البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ قرآن نے عالم برزخ کے وجود کوصراحت کے ساتھ نہیں ہے ۔
جوآیات عالمِ برزخ کی نشاندہی کرتی ہیں ان میں سے زیرتفسیر آیات بھی ہیں جن میں کہاگیاہے ” قیام قیام “ سے پہلے آل فرعون کوہرصبح وشام آگ کے سامنے پیش کرکے انہیں سزادی جاتی ہے “ اور یہ سزا ” عذاب برزخ “ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
دوسری طرف جوآیات مرنے کے بعد شہداء کی حیات جاو ید اوران کے خصوصی اور بے وحساب اجر کے بار ے میں دلالت کرتی ہیں وہ بھی ” برزخ کی نعمتوں “ پر شاہد ناطق ہیں ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پیغمبر اسلام علیہ وآلہ وسلم الصلوٰة والسلام کی ایک حدیث ہے :
” ان احدکم اذامات عرض علیہ مقعدہ بالغداة والعشی ،ا ن کان من اھل الجنة فمن الجنة ، وان کان من اھل النار فمن النار ، یقال ھٰذ امقعدک حیث بیعثک اللہ یوم القیامة “
جب تم میں سے کوئی شخص اس دنیا سے کوچ کرجاتاہے توا سے پرصبح وشام اپنا ٹھکانا دکھایا جاتاہے. اگر تووہ بہشتی ہے اس کا ٹھکانا بہشت میں ہے اگرجہنمی ہے تو اس کا مقام جہنم میں ہے اوراسے کہاجاتاہے کہ قیامت کے دن تمہاری رہائش یہیں ہوگی ( اور یہی چیزروح کی خوشی یاعذاب کا سبب بنے گی ) ( 1)۔
حضر ت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
” ذالک فی الدنیا قبل یوم القیا مة لان فی نار القیامة لا یکون غدووعشی ، ثم قال ان کانو ا یعذ بون فی النار غد وًّ ا وعشیًّا فقیھا بین ذالک ھم من السعداء ،لا ولکن ھٰذا فی البرزخ قبل یوم القیامة الم تسمع قولہ عزو جل: ویوم تقوم الساعة ادخلوااٰل فرعون اشد العذا ب “
یہ سب کچھ روزقیامت سے پہلے کی دنیا میں ہوتا ہے کیونکہ قیامت کی آگ می ںتوصبح وشام کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتاپھر فر مایا : اگروہ قیامت میںصرف صبح و شام عذاب جہنم سے دوچار ہوں تو اس درمیانی عرصہ میں تو وہ سعادت مندٹھہر ے . لہذا یہ بات نہیں ہے اوراس عذاب کاتعلق برزخ ہے سے ہے جوقیامت سے پہلے کاعرصہ ہے . آیا (اس جملے کے بعد) خداکا فرمان نہیں سنا کہ فرماتا ہے : ” جب قیامت برپاہوگی تو کہاجائے گا کہ آل فرعون کوسخت ترین عذاب میں بھیج دو “ ( 2)۔
امام علیہ السلام یہ نہیں فرماتے کہ قیامت میں صبح و شام نہیں ، بلکہ جہنم کی آگ ہمیشہ ک لیے ہے اس کے لیے صبح وشام کاسوال پیدا نہیں ہوتا ، جہاں پرصبح و شام سزا ملے گی وہ عالم ِ برزخ ہے . پھر آپ علیہ السلام نے آیت کے بعد والے جملے کواستد لال کے طور پر پیش فرمایا ہے جوقیامت کی بات کررہاہے اوراس بات کاقرینہ ہے کہ اس سے پہلے کاجملہ عالم ِ برزخ پر دلالت کررہا ہے ۔
عالم ِبرزخ اوراس کے دلائل کے سلسلے میں ہم نے تفسیر نمونہ جلد ۱۴ (سورہ ٴ مومنون کی آیت ۱۰۰ کے ذیل میں ) تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔
1۔ اس حدیث کوبخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ( منقو ل ازطبرسی ، در منثور اور قرطبی انہی آیات کے ذیل میں ) کتاب ” صحیح مسلم “ میں تو اس موضوع پرپورا باب لکھاگیا ہے جس میں متعدد روایات نقل کی گئی ہیں . دیکھئے صحیح مسلم جلد چہارم ،ص ۲۱۹۹۔
2۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۸ ،ص ۵۲۶ ۔
سوره مؤمن/ آیه 47- 50۲۔مسئلہ تفویض
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma