قبیح تہمتیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 161 - 170سوره صافات / آیه 149 - 160

گذ شتہ ابنیا ء کی چھ داستانوں اوران میں سے ہر ایک میں جواصلاح و تربیتی درس پوشیدہ تھا، اسے ذکر کرنے کے بعدموضوعِ سخن تبدیل کرتے ہوئے ایک اورمطلب شروع کیاجارہا ہے کہ جو مشر کین ِ عرب کے ساتھ شدید ارتباط رکھتاہے ،ان کے شرک کی مختلف شکلوں کوپیش کرکے ان سے سخت اور شدید باز پرس کی جارہی ہے . اور مختلف دلائل کے ذ ریعے کے بے ہودہ اور خرافاتی انکار کی سرکوبی جارہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مشر کین ِ عرب کی ایک جماعت انحطا ط فکر ی اور کس قسم کاعلم ودانش نہ ہونے کی بنا پر خدا کواپنے جیسا قیاس کرتے تھے اوراس کے لیے اولاد اور کبھی بیوی کے بھی قائل تھے ۔
ان میں سے جہینہ ،سلیم ، خزا عہ اوربنی ملیح و غیرہ قبیلے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور بہت سارے مشرکین ِ عرب جنّوں کو بھی خداکی اولاد سمجھتے تھے یابعض پروردگار کے لیے جنّات میں سے بیوی کے قائل تھے ۔
اس قسم کے بے بنیاد ، بے ہود ہ اور خرافاتی خیالا ت و تصوّرات نے انہیں بالکل راہ ِ حق سے منحرف کردیاتھا .اس طرح سے کہ توحید اورخدا کی یگا نگی کے آثار ان کے ہاں سے ختم ہوگئے تھے ۔
حدیث میں آ یا ہے کہ چیو نٹی یہ خیال کرتی ہے کہ اس کا پر وردگار اس کی طرح دوڈنگ رکھتا ہے۔
ہاں ، کوتاہ نظری ،انسان کوموازنہ کرنے کی طرف کھینچ لے جاتی ہے ، خالق کامخلوق کے ساتھ موازنہ اور خدا کی شناخت اور معر فت کے سلسلے میں یہ قیاس گمراہی کابدترین سبب ہے۔
بہرحال قرآن پہلے ان کی طرف توجہّ کر تاہے جوفرشتوں کو خدا کی بیٹیاںخیال کرتے تھے . اورانہیں تجر باتی ، عقلی اورمنقول تینوں طریقوں سے جواب دیتاہے۔
پہلے فر ماتاہے : ان سے پوچھ ، کیاتیرے پروردگار کی توبیٹیاں ہیں اوران کے بیٹے ہیں (فَاسْتَفْتِہِمْ اٴَ لِرَبِّکَ الْبَناتُ وَ لَہُمُ الْبَنُونَ) (۱) ۔
جس چیز کوتم خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہو، اسے خدا کے لیے قرار دیتے ہو ( یہ گفتگو ان کے باطل عقیدہ ک مطابق ہے کیونکہ وہ لڑ کی سے سخت متنفرتھے اور لڑ کے سے شدید لگا ؤ رکھتے تھے کیونکہ لڑکے ان کی جنگوں اور غار ت گریوں میں نما یاں کر دار ادا کرتے تھے جبکہ لڑ کیاں ان کی کچھ مددنہیں کر پاتی تھیں ۔
بلاشک لڑ کے اورلڑ کیاں انسانی نکتہ نظر سے اورخدا کی بار گاہ میں قد ر و قیمت کے لحاظ سے ،یکساں اور بر ا بر ہیں ، دونوں کی شخصیت کا معیار پاکیز گی او ر تقویٰ ہے لیکن یہاں پرقرآن کا استد لال اصطلاح کے مطابق” مسلمات خصم“ ( ۲) کو بیان کرنے کے طورپر ہے کہ طر ف مقابل کے مطالب کو لے کر خود اسی کی طرف پلٹا ئے جا ئیں ۔
اس معنی کی نظیر قرآن کی دوسری صورتوں میں بھی آئی ہے مثلاً سورہٴ نجم کی آ یہ ۲۱،۲۲، میں بیان ہوا ہے :
اٴَ لَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الْاٴُنْثی تِلْکَ إِذاً قِسْمَةٌ ضیزی
کیاتمہار ے لیے تو بیٹا ہے اوراس کے لیے بیٹی ، یہ توایک غیرعادلانہ تقسیم ہے۔
اس کے بعد اس مسئلے کی حسّی دلیل پیش کی گئی ہے . پھر استفہام ِ انکاری کی صورت میں قرآن کہتاہے : کیا ہم نے فرشتوں کو لڑ کیوں کی صورت میں پیدا کیاہے اور وہ اس کے شاہد وناظر تھے ؟ (اٴَمْ خَلَقْنَا الْمَلائِکَةَ إِناثاً وَ ہُمْ شاہِدُون) ۔
بلاشک وشبہ اس سلسلے میں ان کا جواب منفی تھا . کیونکہ ان میں سے کوئی بھی خلقتِ ملائکہ کے وقت اپنے حضور و شہود کادعویٰ نہیں کرسکتاتھا ۔
یار دیگردلیل عقلی کے جوان کے مسلّمات ِ ذہنی سے لی گئی ہے کی طرف رجوع کرتے ہوئے قرآن کہتاہے :جان لوکہ وہ اپنی اس قبیح اوربہت بڑی تہمت کے ساتھ کہتے ہیں (اٴَلا إِنَّہُمْ مِنْ إِفْکِہِمْ لَیَقُولُونَ ) ۔
خداصاحب اولاد ہے (جبکہ ) وہ قطعاًجھوٹے ہیں (وَلَدَ اللَّہُ وَ إِنَّہُمْ لَکاذِبُونَ ) ۔
کیا اس نے بیٹوں کوبیٹیوں پرترجیح دی ہے ؟ (اٴَصْطَفَی الْبَناتِ عَلَی الْبَنینَ)۔
تمہیں کیاہوگیا ہے ؟ یہ کیسے فیصلے کررہے ہو ؟! کچھ سمجھتے بھی ہو کہ کیاکہہ رہے ہو (ما لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) ۔
کیاابھی اس بات کاوقت نہیں آ یا کہ تم ان مہمل ، فضول اورقبیح و رسو ا خرافات سے دستبر دار ہوجاؤ ؟کیا تم متوجہ نہیں ہوتے ؟ (اٴَ فَلا تَذَکَّرُونَ ) ۔
س یہ باتیں اس قدر باطل اور بے بنیاد ہیں کہ اگرانسان تھوڑی سی بھی عقل اورسمجھ بوجھ رکھتا ہو اور اس بار ے میں غور کرے تو ان کے باطل ہونے کاادراک کرلے گا ۔
ایک حسّی اورایک عقلی دلیل کے ساتھ ان کے بیہود ہ اور خر افاتی دعوے کو باطل کرنے کے بعد قرآن تیسر ی دلیل پیش کرتا ہے جو منقولا ت سے متعلق ہے . کہتاہے : اگر اس قسم کی کوئی بات جو تم کہتے ہو صحیح ہوتی تو اس کاکوئی اثر ونشان گزشتہ کتابوں میں ہونا چاہیے کیا تمہارے پاس ا س سلسلے میں کوئی واضح دلیل موجود ہے ؟ (اٴَمْ لَکُمْ سُلْطانٌ مُبین) ۔
” اگر تمہارے پاس کوئی ایسی دلیل موجود ہے تو اپنی کتاب لے آ ؤ، اگرتم سچ کہتے ہو “ (فَاٴْتُوا بِکِتابِکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقین) ۔
کس کتاب میں ؟ کس تحر یر میں ؟اور کس وحی آسمانی میں اس قسم کی چیز آئی ہے اورکس پیغمبرپر نازل ہوئی ہے۔ ؟ایسی ہی بات قرآن میں بُت پرستوں کے لیے موجود ہے . اس ضمن میں قرآن کہتاہے کہ انہوں نے فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں بیٹیاں قرار دے دیاہے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر خدانہ چاہتا توہم ان کی پرستش نہ کرتے . قرآن مزید کہتاہے :
اٴَمْ آتَیْناہُمْ کِتاباً مِنْ قَبْلِہِ فَہُمْ بِہِ مُسْتَمْسِکُون
کیاہم نے اس سے پہلے ان کے پاس کوئی ایسی کتاب بھیجی ہے جس سے وہ اپنے دعوے میں سہارا لیتے ہیں ۔ (زخرف . ۲۱)
نہیں ! یہ باتیں کُتب ِ آسمانی سے اخذ نہیں کی گئیں . یہ تو وہ خرافات ہیں جو ایک نسل سے دوسر ی نسل کی طرف اور کچھ جاہلو ں سے دوسر ے جاہولوں کی طرف منتقل ہوئی ہیں اوراس کی عقل کے اعتبار سے کوئی بنیاد نہیں ہے . جیساکہ سُورہٴ زخرف کی اسی آ یہ کے ذیل میں بھی اشارہ ہوا ہے۔
بعد والی آیت میں مشرکین ِ عرب کی خر افات میں سے ایک اور بے ہود گی بیان کی گئی ہے اور وہ وہ نسبت ہے جو وہ ” خدا “ اور” جن “ کے درمیان سمجھتے تھے.اس موقع پر گفتگو خطا ب کی صُورت سے نکل کرغائب کی صورت میں آگئی ہے.گو یا وہ اس قدر بے قدر و قیمت ہیں کہ آمنے سامنے بات کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں. فر مایا گیا ہے : وہ اس کے اور جن کے درمیا ن رشتہ داری اور نسبت کے قائل ہوگئے ہیں (وَ جَعَلُوا بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً ) ۔
یہ کون سی نسبت تھی جس کے وہ خدا اورجن کے درمیان قائل تھے ؟ اس سوال کے جواب میں کئی تفاسیر بیان کی گئی ہیں۔
بعض نے تویہ کہاہے کہ وہ دوگانہ پرست تھے اور یہ عقید ہ ر کھتے تھے کہ ( نعوذباللہ ) خد ااور شیطان بھائی بھائی ہیں خدا تو نیکیوں کاخالق ہے اور شیطان برائیوں کاخالق ہے۔
یہ تفسیر بعید نظر آ تی ہے کیونکہ دوگانہ پرست اور ثنوئین دنیائے عرب میں مشہور نہیں تھے . البتہ سانیوں کے دور میں ایران کے مانند کچھ علا قوں میں یہ بے ہود ہ عقیدہ موجود تھا ۔
بعض دوسرے مفسّرین نے جن اور مَلک کو ایک ہی معنی میں سمجھناہے .کیونکہ جن اصل میں اس موجود کے معنی میں ہے جو نگا ہوں سے پوشیدہ ہو . وہ کہتے ہیں کہ فرشتے چونکہ آنکھ سے نظر نہیں آتے لہذ ایہ لفظ انہی کے لیے بو لاجا تاہے . اس بنا پر وہ یہ کہتے ہیں کہ نسب سے مراد وہی نسبت ہے جس کی زمانہ ٴ جاہلیّت کے عر ب ان کے لیے قائل تھے اور نہیں خداکی بیٹیاں کہتے تھے ۔
مشکل ہے کہ یہ تفسیر بھی صحیح ہو چونکہ زِ یر بحث آ یات ظاہری اعتبار سے دوالگ الگ مطالب بیان کررہی ہیں . علاوہ ازیں لفظ ” جن “ کا ” ملائکہ “ پراطلاق معمولی و مانوس نہیں ہے،خصو صا ًقرآن مجید میں ۔
تیسر ی تفسیر جو بعض نے اس آ یہ کے بار ے میں بیان کی ہے کہ وہ جنّوں کو خدا کی بیویاں خیال کرتے تھے اورملائکہ کو خدا کی بیٹیاں ۔
یہ تفسیر بھی بعید نظر آتی ہے چونکہ لفظ ِ ” نسب “ کا ” زوجیت “ پر اطلاق بھی بعید ہے۔
وہ تفسیر جو سب سے زیادہ مناسب ہے یہ ہے کہ ” نسب “ سے مراد ہر قسم کی نسبت و رابط ہے . چاہے رشتہ داری کا کوئی پہلو اس میں نہ ہو اور ہم جانتے کہ بعض مشرکین ِ عرب جنّوں کی پرستش کرتے تھے اورانہیں خدا کاشریک سمجھتے تھے اوراسطرح سے وہ ان کے اورخدا کے درمیان ایک نسبت اور رابطے کے قائل تھے ۔
بہرحال قرآن مجید اس بے ہودہ اور خر افاتی عقیدے کاشدّت کے ساتھ انکار کرتاہے اور کہتاہے : وہ جن . جنہیں خرافاتی بُت پرست اپنا معبود خیال کرتے تھے یا انہیں خدا کارشتہ دار سمجھتے تھے . ہاں ! وہی جن اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بے ہودہ بت پرست خداکی عدالت میں حساب و کتاب اورعذاب و سزا کے لیے ضر ور حاضر ہوں گے (وَ لَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّہُمْ لَمُحْضَرُونَ)۔
بعض نے اس آیت کی تفسیرمیں ایک اوراحتمال بھی ذکر کیا ہے وہ یہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ گمراہ کرنے والے جنّات انتے ہیں کہ وہ خود عدالت ِ خداوند ی میں حساب وکتاب اور عذ اب کے لیے حاضر کیے جائیں گے . لیکن پہلی تفسیرزیادہ مناسب لگتی ہے ( ۳) ۔
اس کے بعد مزید فرمایاگیاہے : خدااس تعریف و توصیف سے جو یہ ( جاہل و گمراہ ) گر وہ کرتا ہے ، پاک و منزّ ہ ہے ( سُبْحانَ اللَّہِ عَمَّا یَصِفُونَ ) ۔
اس توصیف کے سوا جوخداکے مخلص بندے ( از روئے آ گاہی و معرفت اس کے بار ے میں کرتے ہیں ) کو ئی توصیف اس مقدس ذات کے لیے شایان نہیں ہے (إِلاَّ عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین) ۔
اس طرح ہرقسم کی توصیف جولوگ خدا کے بار ے میں کرتے ہیں درست نہیں ہے اورخدا اس سے پاک ومنزّ ہ ہے . سوائے اس توصیف کے جو مختلف بندے اس کی کر تے ہیں . وہ بندے ہر قسم کے شرک ، ہوائے نفس ، جہالت اور گمراہی سے مبّر اہیں اور خدا کی اس کے سواجس کی اس نے خود اجازت دی ہے تو صیف نہیں کر تے ( ۴) ۔
” عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین“ کے بار ے میں ہم نے اسی سُورہ کی آ یہ ۱۲۸کے ذیل میں بحث کی ہے۔
ہاں ! خداکی شناخت اور معرفت کے لیے ان خرافات کے پیچھے نہیں جانا چاہیے جوزمانہٴ جاہلیّت کی اقوام سے باقی رہ گئی ہیں اورانسان کو انہیں بیان کرتے ہوئے بھی شرم آ تی ہے بلکہ مخلص بندوں کی پیروی کرنا چاہیے . جن کی گفتار انسان کی روح کو آسمانوں کی بلندی کی طرف لے جاتی ہے اوراس کے نور ِ وحد انیت میں محو ر کر دیتی ہے .شرک کے ہرطرح کے شک وشبہات کواس کے دل سے دھودیتی ہے اور ہر قسم کے تجسّم و تشبیہ کوذہن سے مٹادیتی ہے۔
پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ارشادات علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ کو خطبات اور صحیفہ سجادیہ میں امام سجاد علیہ السلام کی پُر مغز دعاؤں کی طرف رجوع کر ناچاہیے اوران بندگانِ خداکی توصیفوں سے خدا کوپہچاننا چاہیے . امیر الموٴ منین علیہ السلام ایک مقام پر فر ماتے ہیں :
لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ ،ولم یحجبھا عن واجب معر فتہ ، فھوالذی تشھد لہ اعلام الوجود اعلی اقرار قلب ذی الجحود ، تعالی اللہ عما یقولہ المشبھون بہ والجاحدون لہ علوً ا کبیراً
نہ تو اس نے عقلوں کواپنی صفات کی کنہ وحقیقت سے آگاہ کیاہے اور نہ ہی انہیں اپنی معرفت و شناخت سے باز رکھاہے . وہ وہی توہے جس کے وجود کے اقرار پرعالمِ ہستی کی نشانیاں منکرین کے دلوں کوابھار تی ہیں اوروہ ان لوگوں کی بات سے بر تر و بالا ہے جو اسے اس کی مخلوقات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں یااس کے انکار کاراستہ اختیار کرتے ہیں (۵) ۔
ایک دوسر ی جگہ پر وردگار کی تعریف وتوصیف اس طرح فرماتے ہیں :
لاتنالہ الاو ھام فتقدرہ ، ولاتتو ھمہ الفطن فتصورہ ، ولاتد رکہ الحواس فتحسہ ،ولا تلمسہ الا یدی فتمسہ ،ولایتغیر بحال ،و لا یتبد ل فی الا حوال ، ولاتبلیہ اللیالی و الا یام ، ولایغیرہ الضیاء والظلا م،و لا یوصف بشی ء من الاجزاء ولابالجوارح و الا عضاء ، ولابعرض من الاعراض ، ولابالغیر یة والا بعاض ،ولا یقا لہ حد و لانھا یة ، ولا انقطاع و لاغایة
بلند اوہام اوراندیشوں کے ہاتھ اس کی دامنِ کبریائی تک نہیں پہنچ سکتے کہ اسے کسی حد میں محدود کردیں اور صاحب ِ ہوش و خرد اس کے نقش کے اپنے خیال میںتصویر کشی نہیں کرسکتے . حواس اس کے ادراک سے عاجز ہیں اورہاتھ اسے چھونے سے قاصر ہیں. تغیّر وتبدّل اس کے لیے نہیں ہے . زمانہ گزرنے سے اس کے وجود میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی . راتوں اوردنوں کا آ نا جانا اسے کہنہ اور پر انا نہیں کرتا . روشنی اور تاریکی اس میں تغیّر پیدانہیں کرتے . اس کی نہ تو اجز اء اوراعضاء و جوارح کے ساتھ توصیف ہوسکتی ہے اور نہ ہی عوارض و ابعاض کے ساتھ . اوراس کے لیے کوئی حد بندی اور انہتا نہیں ہے . اوروہ کوئی نقطاع وانہتا نہیں رکھتا (۶) ۔
ایک اور جگہ فر ماتے ہیں :
ومن قال فیما ؟فقد ضمنہ ،ومن قال علام ؟ فقد اخلی منہ ، کائن لاعن حدث ،موجود لا عن عدم مع کل شی ء لابمقا رنہ و غیر کل شی ء لا بمز ایلہ
جوشخص یہ کہے کہ خدا کہاں ہے ؟اس نے اس کاکسی چیز میں تصوّر کیاہے اور جو کوئی یہ پوچھے کہ وہ کس چیزپر برقرار ہے،اس نے کسی جگہ کو اس سے خالی سمجھاہے،وہ ہمیشہ سے تھا اورکسی چیز سے وجود نہیں آ ی. وہ ایسا وجود ہے کہ جس سے پہلے عدم ہے ہی نہیں،اورو ہ ہرچیز کے ساتھ ہے لیکن اس کاقرین ہوکرنہیں اورہر چیز سے الگ اور غیر ہے،لیکن اس سے بیگانہ اورجُد ا ہوکرنہیں (۷) ۔
امام علی بن الحسین سید الساجدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں فر ماتے ہیں :
الحمد اللہ الاول بد اول کان قبلہ ،والاٰ خر بلا اٰخر یکو ن بعدہ الذی قصر ت عن رؤ یتہ ابصار النا ظر ین و عجزت عن نعتہ اوھام الواصفین
حمد وستائش مخصوص ہے اس خدا کے لیے جس کی ہستی مبداٴ آفرینش ہے بغیر اس کے کہ اس کی ذات ِ ازلی کی کوئی ابتداء ہو اور وجود میں آخر ی ہے بغیر اس کے کہ اس حقیقت ِ ابدی کے لیے آخر و انتہا کا کوئی تصوّر ہوسکے . کوئی موجود اس سے پہلے اوراس کے بعد نہیں ہوسکتا . وہ ایسی ذات ہے کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں اسے دیکھنے سے قاصر ہیں اور تو صیف کرنے والوں کی عقل وفہم اس کی حمد و ثناسے عاجز ہے ( ۸) ۔
ہاں خداکی معرفت او رشناخت ان ” عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین“ کے مکتب سے حاصل کرنا چاہیے . اوراس مدرسہ سے خدا شناسی کاسبق پڑھنا چاہیے ۔
۱۔ ” استفتھم “ مادہ” استفتاء “ سے اصل میں ” فتویٰ “ سے لیاگیا ہے جومشکل مسائل کا جواب دینے کے معنی میں ہے۔
۲۔ مخالف کی تسلیم شدہ بات سے استد لال کرنا مراد ہے۔
۳۔ پہلی صورت میں ” ھم “ کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہے اوردوسر ی صورت میں ” جن “ کی طرف ۔
۴۔اس تفسیر کی بنا ( إِلاَّ عِبادَ اللَّہ) کاجملہ ( یَصِفُونَ ) کی ضمیر سے استثناء ہے لیکن بعض اسے ” محضر ون “ کی ضمیر سے استثناء ہیں اور اسکی مختلف تفسیر یں کرتے ہیں . البتہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آ تی ہے اور ہرحالت میں استثناء ” منقطع“ ہے۔
۵۔نہج البلاغہ خُطبہ ۴۹۔
۶۔ نہج البلاغہ خُطبہ ۱۸۶۔
۷۔ نہج البلاغہ ، خُطبہ ۱ ۔
۸۔ صحیفہ سجادیہ ،پہلی دُعا ۔
سوره صافات / آیه 161 - 170سوره صافات / آیه 149 - 160
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma