تناسخ انسانوں کی جہل و نادانی کا سبب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
روحوں سے رابطہ کی حقیقت
علم اسپریتسم
سوال:کہتے ہیں کہ تناسخ جو ایک تاریخی مسئلہ ہے ایک خاص فلسفہ کے افکار کا زائیدہ ہے اور اگر اسپریٹ (روحوں کی بازگشت کا عقیدہ رکھنے والے) جس کی آج کی دنیا میں حمایت کی جارہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ بہت سی مشکلات کا حل ہے ۔
جواب: گذشتہ ایام میں جو اسباب عقیدہ تناسخ کی پیدائش کا سبب تھے وہ آج علمی اصول کے ذریعہ واضح ہوگئے ہیں اور اب تناسخ کی کوئی ضرورت نہیں رہی ہے ۔
وضاحت: تاریخ عقائد اور مذاہب کے مطالعہ کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ تناسخ قدیمی عقائد میںسے ہے جو (عصر افسانہ) تک پہنچتا ہے،قوی احتما ل یہ ہے کہ یہ عقیدہ ہند اور چین میں رائج ہو ااور وہیں سے پھیلنا شروع ہوا ،آج بھی ہند کے بت پرستوں میں یہ عقیدہ پایاجاتا ہے اوراسطرح ان کی زندگی سے اجین ہوگیا ہے کہ اسے جدا کرنا غیر ممکن ہے ۔
بت پرستوں کا حیوانات بلکہ حشرات کا احترام کرنا ،اسی عقیدہ کا نتیجہ ہے ، سبزیجات کا گوشت سے زیادہ استعمال بھی اسی عقیدہ کازائیدہ ہے ۔
غرب کے مشہور مورخ ویل ڈورانٹ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں :
واقعی بت پرست حتی الامکان حشرات کو مارنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں ، ان لوگوں میں حتی وہ لوگ جو فضیلت کے خواہاں نہیں ہیں ،وہ بھی حیوانات کے ساتھ گونگے اور پست لوگوں کے جیسا سلوک روا رکھتے ہیں، نہ پست مخلوق کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کے جیسا کہ جن پر فرمان خدا کے مطابق مسلط ہیں، بت پرست تناسخ کووہ خواہ روحوں کی بازگشت انسانوں کے بدن میں ہو یا حیوانوں کے بدن میں، ہر دو کو کار ما کہتے ہیں ۔
یہ عقیدہ بھی دوسرے بیہودہ عقیدوں کی طرح انسانوں کی جہالت اور نا دانی کی بنا پر طبیعت اور اجتماع کی غلط تفسیر کا نتیجہ ہے ۔
وضاحت
اس دور کے بہت سے لوگوں کی طر ح قدیم زمانہ کے لوگ جب کسی حادثہ سے روبرو ہوتے تھے کہ جسے فلسفی یا علمی اعتبار سے تفسیر کرنے سے عاجز ہوجاتے تو چونکہ بشری طبیعت میں جستجو گری کی حس پائی جاتی ہے لہذا اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی سوال بدون جواب رہ جائے، پس ایسے حوادث کی تفسیر کے لئے خیال پردازی کیا کرتے تھے اور اس طرح بہت سی بدعتوں کو جنم ملا ۔
جیسے کہ آپ لوگوں نے یہ جملہ بارہا سنا ہوگا کہ جو عوام الناس کا عقیدہ ہے کہ جب گھوڑے راتوں میں دوڑتے ہیں تو ان کے پیروں سے جو چنگاریاں نکلتی ہیں وہ جنوں کا کام ہے جوان کے پیروں میں چراغ روشن کرتے ہیں، اب آپ ہی بتائیں وہاں چراغ جلانے سے جنوں کا کیا فائدہ؟ کیا جن اتنے بے کار ہیں جو گھوڑے کے پیروں میں چراغ جلاتے پھریں؟
وہ لوگ ایسے حوادثات سے برخورد کرتے تھے ا ور حقیقت کے انکشاف سے عاجز ہونے کی وجہ سے ایک خیالی سبب ڈھونڈھ لیا کرتے تھے یا جیسا کہ گھر وں میں بدون دلیل آتش سوزی کیلئے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ جنوں کا کام ہے ۔
لیکن آج ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ جب دو چیزیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو چنگاری وجود میں آتی ہے جس کا تعلق نہ گھوڑوں کی سموں سے ہے اور نہ ہی رات کی تاریکی سے اور اس کی علمی تفسیر بھی روشن ہے کہ بعض ایسے کیمیکل ہیں جو شرائط کے مہیا ہوتے ہی شعلہ ور ہوجاتے ہیں اور اگر عمداً یا سہواً کسی چیز کو ان سے ملا دیا جائے تو وہ بھی ان کے ساتھ جل جایا کرتی ہے ۔
آج فیزیکی اور کیمیائی کشفیات کی وجہ سے ایسے عقائد کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے البتہ ہم جن کے منکر نہیں ہیں لیکن جن اپنے صحیح معنوں میں وہی ہے کہ جس کی فلسفہ بھی تائید کرتا ہے اور جس کے تذکرے قرآن میں موجود ہیں ، اگرچہ عوام کے درمیان جنوں کے سلسلہ میں مختلف عقائد پائے جاتے ہیں ، تناسخ کے مسئلہ کا بھی بالکل یہ حال ہے ۔
گذشتہ ادوار میں لوگوں نے اپنے سماج میں بہت سے اپاہج بچوں کومشاہدہ کیا اور بہت سے لوگوں کو عمر کی آخری سانس تک رنج وبلا میں مبتلا پایا، اسی طرح کچھ لوگوں کودیکھا کہ ایک وقت کے کھانے سے بھی محروم ہیں ۔
بعض کے امور آپ ہی آپ حل ہوتے جاتے ہیں اور بعض برابر شکست سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔
چونکہ وہ لوگ واقعی اسباب سے آگاہ نہ تھے اور ان میں اتنا شعور نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر ایسی بے عدالتیوں کی تفسیر کرتے لہذا تنا سخ کا سہارا لیا اور کہنے لگے کہ یہ اپاہج لوگ گذشتہ زندگی میں گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں کہ جس کی وجہ سے آج سزا بھگت رہے ہیں تاکہ اس طرح پاک ہو جائیں ،پس یہ عین عدالت ہے ۔
ویل ڈورنٹ اپنی کتاب کے مشرق زمین گہوراہ تمدن جلد ٢ میں ذکر کرتے ہیں :
عقیدہ کا رما ہندوستان کے لوگوں کے بہت سے مبہم حقائق اور غیر عادلانہ امور کی توجیہ و تفسیر کرتا ہے ۔
مختلف مصیبتیں اور بلائیں جو زمین کو تیرہ و تاریک اور تاریخ کو خون آلودہ بتادیتی ہیں ، وہ تمام رنج و آلام جو ایک انسان کے جنم لینے کے بعد پایاجاتا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک ساتھ ساتھ رہتاہے ،پس جن لوگوں نے کارما کو مان لیاہے، ان لوگوں کے لئے ایسے امور کا تحمل آسان ہے ۔
یہ مصیبتیں، بے عدالتیاں ، ذکاوت و بلاہت میں اختلاف، فقیر و غنی ، یہ سب کا سب گذشتہ زندگی کا نتیجہ جسے انسان کی حیات میں ایک لحظہ کے لئے غیرعادلانہ سمجھاگیا لیکن آخر الامر سب کچھ عادلانہ ظہور میں ایا۔
کارما بھی بشری ذہن سے جنم لینے والے بے شمار عقائد میں سے ایک عقیدہ ہے تاکہ ا سکے ذریعہ رنج ومصیبت پر صبر کیا جاسکے ۔
اگر ہندوستان کے لوگوں نے یا گذشتہ ادوار میں جینے والوں نے ایسے حوادثات کی توجیہ کرنے کے لئے روحوں کی بازگشت کے فرضیہ کو بنایاتھا تو آج علم نفسیات اور علم اجتماعی کی تحقیقات کی وجہ سے حوادثات کی تفسیرکے لئے روحوں کی بازگشت کے فرضیہ کو ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
اس لئے کہ بالکل واضح ہے، اگر جسم کی سلامتی کا پورا خیال رکھا جائے اور ماں باپ جنین کی سلامتی کے لئے تمام اصول و قوانین کی رعایت کریں تو پیدا ہونے والا بچہ بالکل سالم ہوگا اور اسطرح معیوب اور اپاہج بچوں کی پیدا ئش صفر تک پہنچ جائے گی کیونکہ جب بھی انسانی خلقت میں تمام اصول و قوانین کی رعایت ہوتی ہے تونتیجہ بھی سو فیصدی سالم ہوتا ہے ۔
پرانے زمانے کے کسان یہ خیال کیا کرتے تھے کہ کیڑوں کی وجہ سے ان کی زراعت یا باغ کے پھل عیب دار یا کم ہوتے ہیں، ان کا گمان تھا کہ یہ کیڑے خود انہیںزراعتوں اور پھولوں سے وجود میں ا تے ہیں حالانکہ آج یہ تصور باطل قرار دے دیا گیا ہے ، ایسی دوائیں اور کھادو غیرہ وجود میں آگئی ہیں کہ اگر ان سب کا لحاظ رکھا جائے تو اناج اور باغ کے پھل سو فیصدی سالم رہیں گے ۔
لہذ ابچہ کے اپاہج اور عیب دار ہونے میں ماں باپ قصور وار ہیں یا وہ سماج ہے جس میں وہ جی رہے ہیں
کہ جس نے زندگی کے معمولی اسباب بھی فراہم نہیں کئے تاکہ بچہ سالم پیدا ہوتاجس طرح ایک انسان جب کسی کی آنکھ کوزخمی کر کے اسے اندھا بنا دیتا ہے تو اس کی کوری کا سبب وہی انسان قرار پاتا ہے نہ کوئی دوسرا ، اسی طرح مادر زاد اندھوں کے سلسلہ میں یہی فیصلہ ہوگا کہ اس کے اصلی سبب یا ماں باپ ہیںیا سماج نہ کہ خالق حقیقی۔
رہا مسئلہ بعض لوگوں کی بے پناہ دولت کا اور بعض کی نہایت فقر و تنگدستی کا تو اس مسئلہ میں یہ بھی واضح ہے کہ آج کے دور میں یہ سب کچھ غلط اقتصادی نظام اور غیر عادلانہ ثروت کی تقسیم ہے اور اس میں تناسخ وغیر کی کوئی دخالت نہیں ہے ، کارما کا سہارا لینا قدیم بت پرستوں کے لئے ایک وسیلہ رہا ہوگاجو جامعہ شناسی اور جدید اقتصادی نظام سے ناآشنا تھے لیکن آج یہ مسئلہ ہمارے لئے بالکل واضح و روشن ہے ۔
علم اسپریتسم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma