۱۔ اسلام غلط اقدار کی نفی کرتا ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
حقیقت یہ ہے کہ جھوٹی اورغلط اقدار کی نفی اوران پر خط تنسیخ کھینچنے کے لیے مندرجہ بالا آ یات میں موجُود تعبیر ے بڑھ کرکوئی اور تعبیر نہیں ہوسکتی .اسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوایسے معاشر ے کومنقلب کرنے اور اس میں تبدیلی لانے کے لیے بھیجاگیا جس میں افراد کی شخصیت کامعیار اونٹوں کی تعداد ،درہم و دینار کی مقدار ،غلاموں اورکنیزوںکی تعداد اور زینت وآرائش کے وسائل اور گھر تھے . حتی کہ وہ اس بات پر بھی تعجب کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بن عبداللہ جو یتیم اورمادی لحاظ سے غریب انسان ہے ، اسے نبوّت کے لیے منتخب کرلیاگیاہے .سب سے پہلا اور بنیاد ی کام ایسے معاشر ے میں تبدیلی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ اس کے ایسے غلط معیاروں کومسمارکرکے اس پرصحیح انسانی اقدار کی بنیاد رکھی جائے جس میں تقویٰ اور پرہیزگا ری علم اور دانش ،ایثار و فدا کاری اور شجاعت و بہادری جیسی صفات پائی جائیں و گرنہ ہراصلاح ظاہری ،سطحی اور ناپائیداری ہوگی ۔
یہ وہی کام ہے جسے اسلام ، قرآن اورخود رسُول اللہ نے اعلیٰ ترین صورت میں انجام دیاہے جس کی وجہ سے خرافات پر مبنی ایک پسماندہ ترین انسانی معاشر ہ مختصر سے عرصے میں اس قدر ترقی کرگیا کہ اس کاشمار دُنیا کے صف اوّل کے معاشر وں میں ہونے لگا . یہ بات لائق توجہ ہے کہ اسی پرو گرام کی تکمیل کے لیے ، پیغمبرخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی ایک حدیث ہے :
” لو وزنت الدنیا عنداللہ جناح بعو ضة ماسقی الکا فر منھا شر بة ماء “ ۔
اگر خداکے نزیک دُنیا کاوزن مچّھر کے بَرا بر بھی ہوتاتواس سے کافر کو پانی کے ایک کھونٹ تک نہ پلاتا ( 1) ۔
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اس بارے میں بات کونہایت کمال سے بیان فرمایاہے :
” مُو سٰی (علیہ السلام )اپنے بھائی ہارون ( علیہ السلام )کوساتھ لے کر اس حالت میںفرعون کے پاس آ ئے کہ ان کے جسم پر اُونی کرتے اورہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اوراس سے قول وقرار کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کرے تواس کاملک بھی باقی رہے گا اوراس کی عزت بھی بر قرار رہے گی .تواس نے ( اپنے حاشیہ نشینوں سے )کہا کہ تمہیں اس پر تعجب نہیں ہوتا کہ یہ دونوں مُجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرار رہے گی اورمیر ا ملک بھی باقی رہے گا اور جس طرح کے خستہ حا ل اورذلیل صُورت میں یہ ہیں تم دیکھ ہی رہے ہو ( اگران میں اتنا دم خم تھا تو پھر )ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے ؟یہ اس لیے کہ وہ سُونے کو اوراس کی جمع آوری کو بڑی چیزسمجھتا تھا اوراونی کپڑوں کوحقارت کی نظر سے دیکھتا تھا “ ۔
” اگرخدا یہ چاہتا کہ جس وقت اس نے نبیوں کومبعوث کیاان کے لیے سُونے کے خزانوں اورخالص طلاٴ کی کانوں کے مُنہ کُھول دیتا اور ان کے لیے مہیّا کردیتا اورفضا کے پرندوں اورزمین کے صحرائی جانوروں کوان کے ہمراہ کردیتا توکر سکتا تھااوراگر ایساکرتا توپھرآزمائش ختم اور جزا ؤ سزا بے کارہوجاتی اسی خُطبے کے دوسر ے حِصّے میں فر ماتے ہیں ۔
” تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آدم سے لے کر اس جہاں کے آخر تک کے اگلوں پچھلوںکوایسے پتھروں سے آز مایاہے کہ جونہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ ، نہ سن سکتے ہیں .اس نے ان پتھروں ہی کواپنا محترم گھر قرار دیا کہ جسے لوگوں کے لیے(امن کے ) قیام کاذریعہ ٹھہرایاہے .پھر یہ کہ اس نے اِسے زمین کے رقبوں میں ایک سنگلاخ رقبہ اور دُنیا میں بلندی پرواقع ہونے والی آبادیوں میں سے ایک کم مٹی والے مقام اور گھاٹیوں میں سے تنگ اطراف کی گھاٹی میں قراردیاکُھرے اور کُھردے پہاڑوں ،نرم ریتلے میدانوں ،کم آب چشموں اور بکھرے ہُوئے دیہاتوںکے درمیان کہ جہاں اونٹ ،گھوڑا، گائے بکری نہیں پل سکتے ،پھر بھی اُس نے آدم اوران کی اولاد کوحکم دیا کہ اپنارُخ اس کی طرف موڑیں .چنانچہ وہ ان کے سفر سے فائدہ اُٹھانے کا مرکز اور پالا نوں کے اترنے کی منز ل بن گیا .... “ ۔
اسی خُطبے کے ایک اورحِصّے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
” اگر خدوند عالم یہ چاہتا کہ وہ اپنا محترم گھراوربلند پایہ عبادت گا ہیں ایسی جگہ پر بنائے کہ جس کے گرد باغ وچمن کی قطاریں اور بہتی ہوئی نہریں ہوں ،زمین نرم وہموار ہو کہ ( جس میں ) درختوں اور ( ان میں)جُھکے ہُوئے پھلوں کے خوشے ہوں جہاں عمارتوں کاجال بچھا ہوٴا اور آبادیوں کاسلسلہ ملاہو ،جہاں سُرخی مائل گیہوں کے پودے ، سرسبز مرغزار ، چمن درکنار سبزہ زار ، پانی میں شرابوں میدان ، لہلہاتے ہُو ئے کھیت اور آباد گزر گا ہیں ہوں توالبتہ وہ جزاٴ وثواب کواسی اعتبار سے کم کردیتاہے کہ جس قدر اتبلاء وآ زمائش میں کمی واقع ہوئی ہے (اور لوگ دلفریب ظاہری اقدار کے ساتھ مانوس ہوجاتے ہیں اور حقیقی اورخدائی اقدار سے غافل ہوجاتے ہیں ( ۲) ۔
بہرحال اسلامی انقلاب ،اقدار کا انقلاب ہے اور اگرمسلمان آج سخت اورناخوشگو ار حالات سے دو چار ہیں اور بے رحم اور خونخوار دشمن کے پنچوں میں پھنسے ہوئے ہیں تواس کی جہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے اصل اقدار کوچھوڑ کرایک بار پھر زمانہ ٴ جاہلیّت کی قد روں کواپنا لیاہے اور یہ قدریں ان میں خوب پروان چڑھ رہی ہیں .انسانی شخصیت کامعیار دنیاوی مال ومقام قرار پاچکا ہیں اور جب تک ان کی یہی حالت رہے گی اس عظیم غلطی کاانہیں خمیازہ بھی بھگتناپڑے گا . جب تک اپنے وجُود پرخدائی اقدار کی حکمرانی کاآغاز نہیں کریں گے اس وقت تک خدا کالطف وکرم ان کے شامل ِ حال نہیں ہوگا . کیونکہ
” إِنَّ اللَّہَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا ما بِاٴَنْفُسِہِمْ “
اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتاجواپنے آپ میں تبدیلی نہ لائے ( رعد ۔ ۱۱) ۔
1۔تفسیر کشاف ، جلد ۴،ص ۳۵۰۔
۲۔نہج البلاغہ خُطبہ نمبر ۱۹ (خطبہ قاصعہ ) (اردو ترجمہ از مرحوم علامہ مفتی جعفرحسین ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma