شیاطین کاساتھی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
گزشتہ آ یات میں ان دُنیا پرستوں کی با ت ہو رہی تھی جوتمام چیزوں کومادی پیمانے سے ناپتے ہیں اور زیر ِ نظر آیات میں ان کے مہلک آثا رمیں سے ایک اثر کے بار ے میں گفتگو ہو رہی ہے جو دُنیا کے ساتھ قلبی لگاؤ اورخدا سے یکسر اجنبیت ہے ۔
ارشاد ہوتاہے : اورجوشخص یاد رحمن سے رو گردانی کرتاہے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جوہر دم اُن کے ساتھ ہوتاہے (وَ مَنْ یَعْشُ (۱)عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمنِ نُقَیِّض(۲)ْ لَہُ شَیْطاناً فَہُوَ لَہُ قَرینٌ ) ۔
جی ہاں ! ذکرِ خدا سے غفلت اور دنیاوی لذات میںکھوجانے اور دُنیاوی چکا چوندی سے دِل بستگی اس بات کاسبب بن جاتی ہے کہ ایک شیطان انسان پر مسلط ہوجاہے اوروہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتاہے .وہ اس کے گلے میں ایک ایساپٹہ ڈال دیتاہے جس کے ذ ریعے اس ہرجگہ کھینچے پھرتاہے ۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس آیت سے جبر کاتصوّر نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ یہ ان کے اپنے ہی اعمال کانتیجہ ہوتاہے جو وہ انجام دیتے ہیں .ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ انسان کے اپنے اعمال خاص کہ دُنیا وی لذتوں میںکھو جانے اورمختلف گناہوں سے آلودہ ہونے کی سب سے پہلی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل ، آنکھ اورکان پرپردے پڑجاتے ہیں ، جس سے وہ خدا سے بے گانہ ہو جاتاہے اوراس پر شیاطین مسلط ہوجاتے ہیں اور شیطانی افکار اسے ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور یہ انسان کے اپنے ہی اعمال کی نتیجہ ہوتاہے .اگر چہ اس کی خدا کی طرف نسبت ” مسبب الاسباب “ کے اعتبار سے صحیح ہے . یہی وہ چیز ہے جِسے قرآن مجید کے دوسر ے مقاما ت پر ” تز میٴن شیطان “ کے عنوان سے ذکر کیاگیاہے .جیسے سورہٴ نحل کی ۶۳ ویں آ یت میں ہے ۔
فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطانُ اٴَعْمالَہُمْ
یا شیطان کی سر پرستی کا نام دیاگیاہے جیسے سُورہ ٴ نحل ہی کی اسی آیت میں ہے ” فَہُوَ وَلِیُّہُمُ الْیَوْمَ “ ۔
یہ با ت بھی قابل توجہ ہے کہ ” نقیض “ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے ایک تو انسان پر شیطان کے تسلط پردلالت کرتاہے اوردوسر ے اس کے ساتھی ہونے پر اس کے باو جُود ” فھولہ قرین “ کا جُملہ جواس کے بعد آیاہے .اس بات کی تاکید کے لیے ہے کہ اس قسم کے لوگوں سے شیطان کبھی جُدا نہیں ہوسکتا۔
اور لفظ ” رحمان “ اس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ اس خداسے کیوں رو گر دانی کرتے ہیں اوراس خدا کی یاد سے کیوں غافل رہتے ہیں، جس کی رحمت سب پر چھائی ہوئی ہے ۔
آ یاایسے لوگوںکاانجام اس کے سواکچھ اورہونا چاہیئے کہ وہ شیطان کے ساتھی اوراس کے حکم کے غلام ہوں ۔
بعض مفسرین نے اس احتمال کااظہار کیاہے کہ یہاں پر” شیاطین “ کے ووسیع معانی مراد ہیں یہاں تک کہ اس کا مفہوم انسانی شیطان پر بھی محیط ہے اوراس سے وہ ” گمراہی کے سر داروں اور سر غنوں ” کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو یادِ خدا سے غافل افراد پر غالب ، مسلّط اوران کے ہمراہی ہوتے ہیں.اور سیع مفہوم پر مبنی یہ احتمال بھی بعید نہیں ہے ۔
پھرایسے دو اہم امور کی طرف اشارہ کیاگیاہے جوان غافلوں کے بارے میں یہ شیطان انجام دیتے ہیں . ارشاد ہوتاہے :وہ ( شیاطین )ان لوگوںکوخد ا کی راہ سے روکتے ہیں (وَ إِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبیلِ )(۳) ۔
جب وہ خدا کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ کرتے ہیں توشیاطین ان کی راہوں میں روڑے اٹکاتے اوررکا وٹیں کھڑ ی کردیتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی صورت میں صراطِ مستقیم کی طرف نہ لوٹ آ ئیں ۔
وہ گمراہی کے راستوں کوان کی آنکھوں میں اس قدر وعمدہ کرکے پیش کرتے ہیں کہ ” وہ گمان کرتے ہیں کہ صرف وہی لوگ راہ ِ ہدا یت پر ہیں (وَ یَحْسَبُونَ اٴَنَّہُمْ مُہْتَدُونَ ) ۔
جبکہ سورہ ٴ عنکبوت آ یت ۳۸ میں قومِ عاد وثمود کے بار ے میں ہے :
وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطانُ اٴَعْمالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبیلِ وَ کانُوا مُسْتَبْصِرینَ
” شیطان نے ان کے اعمال کوان کی نگاہوں میں مز ین کردیاہے اورانہیں سیدھی راہ سے ردک دیاہے حالانکہ وہ راہ تلاش کرچکے تھے “ ۔
خلاصہ کلام یہ کیفیت اسی صُورت میں بر قرار رہے گی ، غافل اور بے خبرانسان اپنی گمراہی میں اور شیاطین اسے گمراہ کرنے میںلگے رہیں گے ، یہاں تک کہ تمام پردے ہم ہٹ جا ئیں گے اورانسان کی حقیقت بین نگاہیںکھلیں گی اور ” جب وہ ہمار ے پاس آ ئے گا اوراس کاساتھی بھی اسی طرح اس کے ہمراہوگا ، وہی ساتھی جواس کی تمام تر تباہیوں کا باعث تھا ، تووہ پکار پکار کر کہے گا کہ اے کاش ! مجھ میں اور تجھ میں مشر ق اورمغرب کا فاصلہ ہوتا اور تو کیاہی بُراسا تھی (حَتَّی إِذا جاء َنا قالَ یا لَیْتَ بَیْنی وَ بَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرین) ۔
تمام عذاب ایک طرف اوراس بُر ے ساتھی کی صحبت ایک طرف ،ایسے شیطان کی صحبت جواسے ہروقت نفرت کی نگا ہوں سے دیکھتا رہتاہے ، گمراہی اور بد بختی کی تمام یادیں اس کی نگاہ کے سامنے مجسم ہوکرآ جائیں گی . وہی شیطان جو تمام برائیوں کواس کے سامنے اچھائیان بناکر اورغلط راہ کوصحیح کی صُورت میں اور گمراہی کوہدایت کی صُورت میں پیش کرتاتھا ہائے افسوس ! وہی اس کاہمیشہ کاساتھی اور ہم رکاب ہے ۔
جی ہاں اس دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کو قیامت کے میدان میں وسیع ترصُورت میں مجسم کرکے پیش کیاجائے گا اور جو ساتھی ،دولت اور راہنما یہاں پر ہوگا وہاں پرگا .حتٰی کہ بعض مفسرین کے بقول وہاں پردونوں دوست ایک ہی زنجیر میں جکڑے ہوں گے ۔
ظاہرسی بات کہ ” مشر قین “ ( دو مشرق )سے مراد مشرق اورمغرب ہیں کیونکہ عربوں کی عادت ہے کہ جب وہ دو مختلف ہم جنس چیزوں کوتثنیہ بناناچاہتے ہیں توان میں سے ایک لفظ کولے کوتثنیہ بنادیتے ہیں . جیسے ” شمسین “ (سُورج اور چاند کی طرف اشارہ ہے ) ” ظہرین “ (تماز ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے )اور ” عشائین “ ( نماز مغرب وعشاء کی طرف اشارہ ہے ) ۔
مفسرین نے اس بار ے میں اور بھی تفاسیر ذکر کی ہیں لیکن زیرِ تفسیر آ یت میں کوئی بھی تفسیر مناسب معلوم نہیں ہوتی . مثلاًسر دیوں کے آغاز کی مشرق یاگر میوں کی ابتداکی مشرق ، اگرچہ دوسر ے مقامات پر مناسب ہے ۔
صُورت حال خواہ کُچھ ہو یہ تعبیر دور ترین قابل تصور فاصلے کوبیان کررہی ہے .کیونکہ ” مشر ق و مغرب کی دو ری “ اس بار ے میں ایک مشہور محاورہ ہے ۔
لیکن یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی اور ان لوگوں کے اور شیطانوں کے درمیان کبھی جدائی واقع نہیں ہو گی .اسی لیے بعد کی آ یت میں فر مایا گیاہے : آ ج اس قسم کی گفتگو اور پشیمانی ہرگز تمہیںکوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ تم ظلم کرچکے ہو اور نتیجے کے طورپر تم عذاب میں شریک ہو(وَ لَنْ یَنْفَعَکُمُ الْیَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ اٴَنَّکُمْ فِی الْعَذابِ مُشْتَرِکُون) ۔
تمہیں چاہیئے کہ تم اس بُرے ساتھی کے عذاب کے ساتھ اور عذاب کامزہ بھی ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو ( ۴) ۔
اس طرح سے ان کی شیا طین سے جدائی کی آ رزو ہمیشہ کے لیے نااُمید ی میں بدل جائے گی اوراس ساتھی کی صحبت کِس قدر رُوح فر سا ہوگی ۔
اس آیت کی تفسیر میں اور بھی کئی احتما ل ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ جب انسان اپنے ہمد ردوں کودیکھتاہے تواس کادُکھ درد بھی کسی حد تک کم ہوجاتاہے کیونکہ شل مشہور ہے کہ ۔
” البلیة اذ اعمت طابت “ ۔
جب مصیبت عمومی حیثیت اختیار کرلیتی ہے تو قابلِ قبول بن جاتی ہے “ ۔
لیکن اس موقع پر بھی ان سے کہا جائے گا ” یہاں پراس قسم کی تسلّی بھی تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ تم عذاب میں اس حد تک غرق ہو چکے ہو کہ تمہارے ہم رکاب شیطان کاعذاب بھی تمہیںقلبی سکون فراہم نہیں کرسکتا ( ۵) ۔
ایک احتما ل یہ بھی ہے کہ کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے توانسان اس کے نتائج کو اپنے دوستوں میں بانٹ دیتاہے ، جس سے کسی حد تک مصیبت کابوجھ ہلکا ہوجاتاہے ،لیکن یہ بات بھی وہاں نہیں ہوگی کیونکہ ہرایک کے لیے عذاب الہٰی کااپناحِصّہ اس حد تک زیادہ ہوگاکہ دوسر ے کابوجھ نہیں اُٹھا سکے گا ۔
لیکن چونکہ یہ آ یت اپنے سے ما قبل آ یت کے لیے تتمہ کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذاو ہی پہلی تفسیر کہ جِسے ہم نے منتخب کیاہے زیادہ مناسب ہے ۔
یہاں پر قرآن مجید نے ان لوگوں کواپنے حال پر چھوڑتے ہُو ئے رو ئے سخن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف کرلیا ہے اور اِن دل کے اندھے غافل افراد کے بار ے میں گفتگو شروع کردہی ہے جوہمیشہ آ پ کوجھٹلا تے تھے او ر گزشتہ آیات میں مذکور لوگوں کی قسم سے تھے . چنانچہ فرماتاہے :
’ ’ آ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہروں کو سناسکتے ہیں ؟یاندھوں کوہدایت کرسکتے ہیں یاان لوگوں کوراہ راست کی دعوت دے سکتے ہیں جو کھلم کُھلا گمراہی میں ہیں اوراس گمراہی کااحساس بھی نہیں کرتے “ (اٴَ فَاٴَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اٴَوْ تَہْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ کانَ فی ضَلالٍ مُبینٍ) ۔
اس طرح کاایک اور تذ کرہ بھی قرآن مجید کی دوسر ی آ یات میں آچکاہے جن میں ہٹ دھرم ، ناقابل ہدایت ، بے بصیرت اور گناہوں میں مستغرق ہوس پر ستوں کو اندھوں ، گونگوں ، بلکہ مُردوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، چنانچہ سورہٴ ہونس کی آ یت ۴۲ میں ہم پڑھتے ہیں :
اٴَ فَاٴَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَ لَوْ کانُوا لا یَعْقِلُونَ
تو کیاآپ اپنی آ واز کو بہروں تک بھی پہنچا سکتے ہیں ، اگرچہ وہ عقل سے کام نہ بھی لیں ؟
سورہ ٴ نمل کی آ یت ۸۰ میں ہے کہ :
إِنَّکَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتی وَ لا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاء َ إِذا وَلَّوْا مُدْبِرینَ
” آ پ (ص) نہ تو مُردوں کے کانوں تک اپنی آواز پہنچاسکتے ہیں اورنہ ہی بہروں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں کہ جب وہ مُنہ پھیر کر پیٹھ کرلیتے ہیں “ ۔
اسی طرح کی اور بھی کئی آ یات ہیں ۔
اس قسم کی تصریحات اس لیے ہیں کیونکہ قرآن مجید کے نزدیک انسان کے لیے ” دوقسم کے کان ،دوقسم کی آنکھیں اور دو قسم کی زندگیا ں ہوتی ہیں .ایک ظا ہری اور دوسر ی باطنی .ان میں سے دوسر ی قسم زیادہ اہم ہے .کیونکہ اگرانسان کے باطنی ادراک اورحیات بے کار ہوجائیں تو نہ تو اس میں کوئی وعظ ونصیحت موٴ ثر ہوسکتی ہے اورنہ ہی تنبیہ اور دھمکی !!
یہ با ت بھی قابلِ توجہ ہے کہ گزشتہ آ یات میں ایسے لوگوں کواِن افراد سے تشبیہ دی گئی تھی جن کی آنکھوںکمزور اور نگا ہ مُحدود ہوتی ہے . لیکن اس آخری آیت میں انہیں بہروں اوراندھوں سے تشبیہ دی گئی ہے . اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان دُنیا کے ساتھ مشغول ہوجاتاہے توا س وقت اس شخص کی مانند ہوتاہے کہ جس کی آنکھ تھوڑی بہت حد تک دیکھتی ہیں . لیکن جُوں جُوں دنیا کے ساتھ اس کی مشغولیّت بڑھتی جاتی ہے ، مادیات کی طرف اس کے رجحان میں اضافہ ہوتاجاتاہے اور روحانیت سے بے اعتنائی زیادہ ہوجاتی ہے تونگاہ میں کمی کے مراحل بھی بڑ ھتے جاتے ہیں ، مختصر دور سے پہلے تونگا ہ میں کمی کا مرحلہ آ تاہے اور پھر نابینائی تک جاپہنچتی ہے . یہ وہی چیز ہے جس نے ان قطعی دلائل کوپایہٴ تکمیل تک پہنچا دیاہے کہ انسان کاکسِی عمل پر اصرار تکرار اس کے وجُود میں مثبت یامنفی اثرات کی شدّت او رملکہ کے راسخ ہونے کاسبب بنتاہے اور قرآن پاک نے بھی اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے ( ۶) ۔
۱۔” یعش “ ”عشو“ ( بروزن نشر ) کے مادہ سے مشتق ہے ، جب ” الیٰ “ کے ساتھ متعدی ہو جیسے ” عشوت الیہ “ تواس کا معنی ہے کمز ور آنکھ کے ساتھ کسی چیز کے ذریعے ہدایت پانا اور جب ” عن “ کے ساتھ متعدی ہو جیسے ” عشو عنہ “ تو اس کامعنی ہوگا کسی چیز سے رو گردانی کرنا ، زیرتفسیر آ یت بھی اسی معنی میں ہے ( دیکھیئے کتاب لسان العرب مادہ ”عشو “ ) ۔
۲۔” نقیض “ ” قبض “ (بروزن ” فیض “ )کے مادہ سے ہے جس کامعنیٰ ہے انڈے کاچھلک.بعد ازاں اس کااستعمال کسِی دوسر ی چیز پرچھا ئے رہنے کے لیے ہونے لگا ہے ۔
۳۔” انھم “ اور بعد کے جُملے میں جمع کی ضمیر ” شیاطین “ کی طرف لوٹ رہی ہے . اگر چہ اس سے پہلے یہ ضمیر مُفرد کی صُورت میں آچکی ہے ،کیونکہ درحقیقت اس میں جمع کامعنی پایاجاتاہے ۔
۴۔اس طرح ” ینفع “ کافاعل وہی سابقہ گفتگو ہے جس میں انہوں نے اپنے اور شیطان کے درمیان مشرق ومغرب کے فاصلے کی آرزو کی ہے اور ” اذ ظلمتم “ کانفع نہ پہنچا نے کاسبب بیان کررہاہے اور ”اٴَنَّکُمْ فِی الْعَذابِ مُشْتَرِکُون “کا جُملہ اسی ظلم کانتیجہ ہے ۔
6۔ اس تفسیر کی بناء پر ” انکم فی العذاب مشتر کون “کا جُملہ ” ینفع “ کافاعل بنے گا نہ کہ اس کانتیجہ ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma