مغرور او ر عہد شکن فرعونی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ان آ یات میں خدا کے رسول حضرت ” موسٰی بن عمران “ کے کچھ حالات اوران کی فرعون کے ساتھ ملاقات کی طرف اشارہ کیاگیاہے تاکہ مشر کین کی ان بے بنیاد باتوں کاجواب دیاجائے کہ جووہ کہتے تھے ” اگر چہ ، خدا نے کوئی پیغمبرہی بھیجنا تھا تو مکہ یا طائفہ کے کسی دولت مندشخص کواس عظیم منصب پر فائز کیوں نہیں کیا؟ ۔ “
فرعون نے بھی موسیٰ علیہ السلام پریہی اعتراض کیاتھااو ر اس کی بھی بالکل یہی منطق تھی .فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی بھی اُو نی لباس اور سونے چاندی کے زیورات نہ رکھنے کی بناپر طعن و تشنیع کی تھی ۔
چنانچہ زیر نظر پہلی آ یت میں فر مایاگیا ہے :اور ہم ہی نے موسیٰ کواپنی نشانیاں دے کرفرعون اوراس کے در بار یوں کی طرف بھیجا (وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا مُوسی بِآیاتِنا إِلی فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِہ) ۔
( تو مُوسیٰ نے ان سے ) کہا: میں سار ے جہانوں کے پالنے والے خداکا رسُول ہوں “ (فَقالَ إِنِّی رَسُولُ رَبِّ الْعالَمین) ۔
” آ یات “ سے مراد وہ معجزے ہیں جومُوسیٰ کے پاس تھے اور وہ اپنی حقانیّت کو انہی معجزات کے ذریعے ثابت کیاکرتے تھے .ان میں سے دواہم معجزات تھے : ایک ” عصا “ اوردوسرا ا” ید بیضاء “ ۔
اور جیساکہ ہم پہلے بتاچکے ہیں ” ملاء “ (بروزن ” خلاء “ ) ” ملا“ ( بروزن ” خلع “ ) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے ایسا گروہ جس کے تمام افراد کاایک ہی مشترک ہدف ہو اور دیکھنے میں بہت بڑی تعداد نظر آ ئے ، قرآ ن مجید میں عمو ماً اشراف ،دولت مندوں یادر بار یوں کے لیے یہ لفظ بولاگیاہے ۔
” رب العالمین “ کاتذکرہ درحقیقت دعویٰ کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے ہے . کیونکہ صرف وہی عبودیت کے لائق ہے جو تمام جہانوں کاپروردگا ر اوران کامالک اور مربی ہے ،نہ کہ فرعون اور بتوں جیسی محتاج اور نیاز مند مخلوق ۔
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ موسٰی علیہ السلام کے منطقی دلائل اورواضح معجزات کے مقابلے میں فرعون اور فرعونیوں کاپہلا ردّ عمل کیاتھا .اس بارے میں قرآن بعد کی آیتوں میں فر ماتاہے : لیکن جب موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس ہمارے معجزے لے کر آئے تووہ سب اس پرہنستے تهے (فَلَمَّا جاء َہُمْ بِآیاتِنا إِذا ہُمْ مِنْہا یَضْحَکُونَ ) ۔
سچّے راہنماؤ ں کے خلا ف تمام طاغو توں اور مستکبر وں کا یہی پہلا ردّعمل ہے .ان کے دعوت اوردلائل کوسنجیدہ اور سب کا ہنسی مذاق اُڑا کران کی دعوت کاجواب دیناان کاشیوہ ہوتاہے تاکہ اس طرح سے وہ دوسر ے لوگوں کوسمجھا سکیں کہ سرے سے اور رہبروں کی دعوت نہ تو کسی قسم کے غور کے قابل ہے اورنہ ہی اس کے لیے کسی جواب کی ضرورت ہے اورنہ ہی اس کاسنجیدہ گی سے نوٹس لینے کی ضر ور ت ہے ۔
لیکن ہم اتمام ِ حجت کے طورپر اپنی آ یات اور نشانیاں یکے بعد دیگر ے بھیجتے رہے ہیں ” اورہم جوآ یت ( اورمعجزاہ ) ان کو دکھا تے تھے و ہ دوسرے سے بڑھ کر ( اور اہم تر ) ہو تاتھا “ (وَ ما نُریہِمْ مِنْ آیَةٍ إِلاَّ ہِیَ اٴَکْبَرُ مِنْ اٴُخْتِہا ) (۱) ۔
غرض ہم نے اپنی نشانیاں انہیں دکھا ئیں جن میں سے ہرایک دوسر ے سے زیادہ اہم ، زیادہ واضح اور زیادہ دندان شکن تھی ، تاکہ ان کی طرف سے کوئی بہانہ باقی نہ رہ جائے اور وہ غرور ، نحوت اورخود خواہی کوترک کردیں ۔
اس طرح سے ہم نے ’’ عصا “ اور یدِ بیضا“ جیسے معجزوں کے بعد طوفان ، ٹڈی دل ، جوؤں اور مینڈکوں وغیرہ جیسے معجزے انہیں دکھائے ( ۲) ۔
اس کے بعد فر مایاگیاہے : ہم نے انہیں متنبہ کرنے والے عذابوں اور سزاؤں میں مبتلا کردیاشاید کہ وہ بیدار ہوجائیں اور راہ حق کی طرف لوٹ آ ئیں(وَ اٴَخَذْناہُمْ بِالْعَذابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُون) ۔
خشک سالی ، قحط اور پھلوں کی کمی نے انہیں آ لی. جیسا کہ سورہٴ اعراف کی آ یت ۱۳۰ میں ہے :
”وَ لَقَدْ اٴَخَذْنا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنینَ وَ نَقْصٍ مِنَ الثَّمَرات“
کبھی دریائے نیل کا پانی خون کارنگ اختیار کر لیتا جو نہ تو پینے کے قابل ہوتا اور نہ ہی آپ پاشی کے اور کبھی زرعی آفات ان کے اناج کونیست و بابُود کردیتیں ۔
یہ تلخ اوردردناک حوادث اگرچہ وقتی طورپر ان کوبیدار کردیتے تھے اور وہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کادامن پکڑ تے تھے لیکن جب مصیبت ٹل جاتی تووہ سب کچھ بھلا دیتے تھے اورموسٰی علیہ السلام پر تہمتوں کے تیر چلاتے تھے ۔
جیساکہ بعد کی آیت میں ہے : انہوں نے کہااے جادوگر ! اس عہد کے مطابق جوتیر ے پروردگار نے تجھ سے کیاہے ہمارے واسطے دُعا کرتاکہ وہ ہمیں اس درد و رنج اور بلا ومصیبت سے نجات دے اور مطمئن رہ کرہم ہدایت کی راہ کوضرور اختیار کریں گے (وَ قالُوا یا اٴَیُّہَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّکَ بِما عَہِدَ عِنْدَکَ إِنَّنا لَمُہْتَدُونَ) ۔
یہ عجیب بات ہے ، ایک طرف حضرت موسیٰ کو ساحر کہتے ہیں اور دوسری طرف بلاؤں اور مصیبتوں کے دُور کرنے لیے ان کے دست بد اماں ہوتے ہیں او ر تیسری طرف ان سے ہدایت اپنانے کا وعدہ کرتے ہیں ۔
ان تینوں امور کاظاہری باہمی عدم ِ تناسب مختلف تفسیر وں کاسبب بن گیا ہے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں پر ” ساحر “ بمعنی ” عام “ کے ہے کیونکہ اس زمانے میں خاص کرمصرِ کے علاقے ہیں ساحروں کومحترم سمجھا جاتاہے اور انہیں دانشور کی حیثیت سے دیکھا جاتاتھا ۔
بعض کاخیال ہے کہ یہاں پر ”سحر “ کامعنی ایک اہم کام بجا لاناہے . جیسے ہم اپنی روز مرّہ کی گفتگو میں کہتے ہیں کہ ”فلاں شخص اپنے کام میں اس حد تک ماہر ہے گو یا جادُو کرتا ہے “ ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے عام لوگوں کے ذہن میں جادو گر مراد ہے .اس طرح کی کئی دوسری تفسیر یں بھی ہیں ۔
لیکن خود پسند باتیں ملتی ہیں اور کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پہلے انہوں نے حضرت مُوسیٰ علیہ السلا م کو جادو گرکہاہو ، پھران کے دامن سے متمسک ہو ئے ہوں اور آخر میں ہدایت قبول کرنے کاوعدہ کیاہو ۔
اس طرح آ یت کی تعبیرات باقی رہتی ہیں اور دوسری توجیہوں اور تفسیروں کی ضر ورت نہیں پڑ تی ۔
بہرحال ان کے اندازِ گفتگو سے ظاہرہوتاہے کہ وہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کی ضرور ت کے احساس کے باوجود ان سے جھوٹے وعدے کیا کرتے تھے ، حتی کہ بے چار گی اور سخت ضرورت کو بیان کرتے وقت بھی وہ غرور کو نہیں چھوڑتے تھے . اس لیے انہوں نے ” ربّک “ ( تیرارب ) اور ” بما عھد عندک “ (اس نے جو وعدہ تجھ سے کیاہے ) کے الفاظ استعمال کیے اور کبھی نہیں کہا ” ہمارا پروردگار “ یا ” جو وعدہ اس نے ہم سے فرمایا ہے ۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں واضح طورپر کہہ دیا تھاکہ ” میں سارے جہانوں کے پرور دگار کا رسُول ہوں “ نہ کہ ” اپنے پروردگار “ کا ۔
جی ہاں ! جب سرپھر ے مغرور ، تخت اقتدار پر متمکن ہوجاتے ہیں توان کی منطقی ایسی ہی ہوتی ہے ۔
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے اس قسم کی چھبتی اورتو ہین آمیز گفتگو کی وجہ سے کبھی ان کی ہدایت سے دست کشی نہیں کی اوران کی خیرہ سری پرمایوس نہیں ہُو ئے اورنہ ہی تھکنے کا نام لیابلکہ اپناکام برابر جاری رکھّا .بار ہا دُعا کی کہ طوفانِ بلاتھم جائے اور وہ تھم جاتا، لیکن جیساکہ بعد کی آ یت میں فر مایاگیاہے : جب بھی ہم ان سے عذاب ہٹادیتے ہیں وہ اپنا عہد توڑ ڈالتے ہیں .اوراپنی ہٹ دھرمی اور للکار پرقائم رہتے (فَلَمَّا کَشَفْنا عَنْہُمُ الْعَذابَ إِذا ہُمْ یَنْکُثُونَ ) ۔
یہ سب مسلمانوں کے لیے زندہ اورگو یادرس ہیں اور پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دِل جوئی اورتسلی کاباعث ہیں کے وہ مخالفوں کی ہٹ دھرمی اورمخالفت سے ہرگز گھبرائیں بلکہ اپنی انتھک کوششوں کوجاری رکھیں . خدا چاہتا ہے اُن کے قلب ورُوح پر مایُوسی اور نااُمید ی کی گرد نہ پڑ ے اورانہیں معلوم ہوناچاہیے کہ
رگ رگ است ایں آ ب شیریں وآب شود
لہذا انہیں استقامت اورپا مردی کے ساتھ پہلے سے زیادہ پیش قدمی کرنی چاہیئے . جیساکہ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نے کہا .اور انجام کار وہ فر عون اور فر عونیوں پر غالب آ ئے ۔
نیزیہ سخت اورہٹ دھرم اوردشمنوں کے لیے ایک سخت تنبیہ ہے کہ وہ فرعون اوراس کے ساتھیوں سے نہ تو زیادہ طاقت ور ہیں اور نہ ہی ان جیسے صاحبِ اقتدار ، لہذاان کے کاموں کاانجام بھی دیکھ لیں اوراپنے کاموں کی عاقبت کے بارے میں بھی سوچ لیں ۔
۱۔ ” اخت “ (بہن ) لغت عرب میں ہم قدم اور ہم جنس چیزوں کے لیے استعمال ہوتاہے ، جس طرح دو بہنوں کی آپس میں نسبت ہوتی ہے ۔
۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران کے نو معجزات کی تفصیل تفسیرنمونہ جلد ۱۲ میں سورہٴ بنی اسرائیل کی آ یت نمبر ۱۰۱ کے ذیل میں بہان ہو چکی ہے ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma