کِس انتظار میں ھو ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گذشتہ آ یات میں رسُولِ اسلام کے زمانے کے ہٹ دھرم بُت پرستوں نیز اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُمت میں سے گمراہ اور مُشر ک لوگوں کے بارے میںگفتگو تھی . زیر ِ نظر آ یات میں ان کے انجام کو مجسم کر پیش کیا جارہا ہے ۔
فر مایا گیاہے : وہ لو گ کِس انتظام میں ہیں سوائے اس کے کہ اچانکہ ہی ان پر قیامت آ جائے اوران کو خبر تک نہ ہو (ھَلْ یَنْظُرُونَ إِلاَّ السَّاعَةَ اٴَنْ تَاٴْتِیَہُمْ بَغْتَةً وَ ہُمْ لا یَشْعُرُونَ) ۔
یہ سوال جو استفہام انکاری کی صُورت میں پیش کیاگیاہے درحقیقت اس قسم کے افراد کی حقیقتِ حال واضح کرنے کے لیے ہے ،جیسے کِسی ایسے شخص کی ندمت میں جو کسی بھی خیر خواہ کی نصیحت کو نہیں سنتااوراپنی تباہی کے اسباب خُود فراہم کرتاہے، یہ کہاجاتاہے کہ وہ تو صرف اپنی موت کامنتظر ہے ۔
اس آ یت میں بھی بہت سی دوسری قرآنی آ یات کے مانند ” ساعتہ “ سے مراد قیامت کادن ہے ، کیونکہ اس کے حوادث بہت جلد عملی جا مہ پہن لیں گے گو یاایک ہی گھڑ ی میں سب کچھ ہوجائے گا ۔
البتہ یہ کلمہ کہیں پر دُنیاکے خاتمے کے آخر لمحے کے لیے بھی استعمال ہواہے اور چونکہ ان دونوں کاآپس میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے لہذا ممکن ہے اس قسم کی تعبیران دونوںمراحل کے بارے میں ہو ۔
بہرحال قیامت کا قیام جودُنیاکے ناگہانی طورپرخاتمے کے ساتھ شروع ہو جا ئے گا ، کے بار ے میںمندرجہ بالاآ یت میں دو صفات بیان کی گئی ہیں ایک یہی ” بغتة “( اچانک طور پر )اوردوسر ے اس کے وقوع پذ یر ہونے سے لوگوں کی لاعلمی۔
مُمکن ہے کوئی ایسی چیز اچانک او ر ناگہانی صُورت میں واقع ہو کہ جس کا ہمیںپہلے سے انتظار تھااوراس کاسامناکرنے کے لیے ہم پہلے سے تیار ہوں ،لیکن مصیبت یہ ہے کہ قیامت کا عظیم ترین، تباہ کن اور طاقت فرسا حادثہ اچانک اور ناگہانی صُورت میں واقع ہوگا اور ہم بالکل اس سے غافل ہوں گے ۔
ان مجر موں کا حال بھی با لکل ایساہی ہے . وہ اس حد تک غفلت میں پڑ ے ہوںگے کہ پیغمبر ِ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے مروی ایک حدیث کے مطابق :
” تقوم السا عة والرّ جلان یحلبان النعجة ، والرّجلان یطویان الثو ب ثُمّ قراٴ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم” ھل ینظر ون الاّالسّا عةان تاٴ تیھم بغتة وھم لا بیشعرون “
” قیامت اچانک واقع ہوگی ، جب کہ ( ہرشخص اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوگا ) کچھ لوگ گو سفند کا دودھ دوہ رہے ہوں گے اور کچھ ( خرید و فروخت کے لیے ) کپڑا پھیلا رہے ہوں گے ) ۔
پھر آ نحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے یہ آ یت تلاوت فرمائی ۔ ”ہَلْ یَنْظُرُونَ إِلاَّ السَّاعَةَ اٴَنْ تَاٴْتِیَہُمْ ...“( ۱) ۔
کس قدر دردناک با ت ہو گی کہ ایسے حالات میں انسان واپسی کی راہیں کھو بیٹھے گا .اس قدر غفلت کاشکار ہوجائے گا کہ کہ کسی قسم کی تیار ی کے بغیر اس کی موجوں میں غر ق ہوجائے گا ۔
بعد کی آ یت میں ان دوستوں کی صُورت حال بیان کی جارہی ہے جوجرم و گناہ اور دُنیا کی چکا چوند زندگی کے لیے ایک دوسر ے کے ساتھ دوستی کی پینگیں پڑھائے ہُو ئے ہیں ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے :
اس دن دوست ایک دوسر ے کے دشمن ہوں گے ،مگر پرہیز گار ( کہ وہ دوست ہی رہیں گے ) (الْاٴَخِلاَّء ُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلاَّ الْمُتَّقین) (۲) ۔
یہ آ یت چونکہ عرصہ محشر کی تصوریر کشی کررہی ہے لہذااس سے بخو بی معلوم ہوتاہے کہ گذ شتہ آ یت میں بھی ” ساعة “ سے مُراد قیامت کادن ہے کہ جس دن دوستی کے سب رستے ٹوٹ جائیں گے ، لیکن جورشتے خداکے لیے اورخد ا کے نام پر استوار کئے گئے ہوں وہ بر قرار ہیں گے ۔
اس دن اس قسم کی دوستیوں کادشمنی میں تبدیل ہوجانا فطری بات ہے ، کیونکہ اس دن ہردوست اپنے دوست کواپنی تباہی اور بر بادی کاسبب سمجھے گا گو یا اس سے کہے گا کہ تونے ہی مجھے یہ راستہ دکھایا تھااوراور مجھے اس کی دعوت دی تھی ، تونے ہی دُنیا کومیری آنکھوں میں بنا سجاکر پیش کیاہے اورمجھے اس کی ترغیب دلائی تھی تو ہی توتھا جس نے مجھے غفلت اورغرور کے سمندر میں غرق کردیاتھا اورمجھے میرے انجام سے بے خبر رکھّا تھا، ہرایک اپنے دوست سے یہی کہے گا ۔
صرف پرہیز گاروں کی دوستی پائیدار اور جاودانی ہوگی ، کیونکہ ان کی دوستی کے معیار اوراقرار پائیدار ہوتے ہیں جس کے نتائج بروز قیامت آشکار ہوں گے اور دوستی کو مزید استحکام ملے گا ۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ دوست اُمور زندگانی میں ایک دوسرے کے معاون مددگار ہوتے ہیں . اگر دوستی شروفساد کی بنیاد پراستوار ہوتو ایک دوسرے کے جرم میں شریک ہوتے ہیں اوراگر خیر و صلا ح کی بنیاد وں پر قائم پر تو ثواب میں شریک ہوتے ہیں .بنابریں اگرپہلی قسم کی دوستی بروز قیامت دشمنی میں بد ل جائے تواس پر تعجب نہیں کرنا چاہیئے اور اگر دوسر ی قسم کی دوستی مستحکم ترہو توبھی باعث تعجب نہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
” الاکُل خلة کانت فی الدّنیا فی غیراللہ عز ّو جلّ فانّھا تصیر عد اوة یوم القیامة “ ۔
” تمہیں معلوم ہوناچاہیئے کہ دُنیا میں جو بھی دوستی خداکے لیے نہ ہوگی وہ قیامت میں عداوت اور دشمنی میں بدل جائے گی ( ۳) ۔
اس دن خداوند عالم انہیں فرمائے گا : اے میرے بند و ! آج نہ تو تمہارے لیے کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غمگین ہوگے (یا عِبادِ لا خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَ لا اٴَنْتُمْ تَحْزَنُونَ) ۔
کس قدر دلکش پیغام ہے ، خدا کی جانب سے براہ ِ راست پیغام ، ایسا پیغام جو بہتر ین اوصاف کے ساتھ شروع ہوتاہے یعنی اسے میرے بندو ! ایساپیغام جوپریشان کُن دن میں ہرقسم کی پریشانی دوُر کردے گا . ایساپیغام جس سے تمام گز شتہ رنج وغم کافور ہو جائیں گے جی ہاں اس پیغام میں مذ کورہ چاروں خوبیاں موجود ہیں ۔
زیر تفسیر آیات کے سلسلے کی آخر ی آ یت میں ان پرہیز گار وں اور خداکے مکرم ومحترم بندوں کودو اورصفات کے ساتھ نمایاں فر ما رہاہے کہ ” یہ وہ لوگ ہوںگے جوہمار ی آیات پرایمان لے آ ئے اورہمار ے فر ما نبردار تھے “ (الَّذینَ آمَنُوا بِآیاتِنا وَ کانُوا مُسْلِمین) ۔
جی ہاں ! ایسے موٴ من لوگ ہی خدا کے قابل افتخار خطاب کے مخاطب اوراس قسم کی نعمتوں کے حقدار ہوں گے ۔
درحقیقت مندرجہ بالا دونوں جُملے ان کے اعتقاد و عمل کی مُنہ بولتی تصو یر ہیں ، ” ایمان “ ان کی اعتقادی بنیاد وں پر استوار عمار ت کو واضح کر رہا ہے اور ” اسلام “ ان کے فرمان الہٰی کو عملی جامہ پہنانے کی نشاندہی کررہاہے ۔
۱۔ تفسیر ” رُوح البیان “ جلد ۲۵ ،ص ۸۹۔
۲۔ ” اخلاء “ ” خلیل “ کی جمع ہے اور ” خلة “ کے مادہ سے ہے . جس کامعنی ” موّدت “ اور ” دوستی “ ہے اوراس کی بنیاد ” خلل “ ( بروزن ”شرف “ ) ہے جس کامعنی ” دوجسمُوں کادرمیانی فاصلہ ہے “ اور چونکہ محبت اوردوستی گو یاانسانی دل میں راسخ ہوجاتی ہے ، لہذا یہ لفظ اس کے لیے استعمال کیاگیاہے ۔
۳۔ تفسیر ” علی بن ابراہیم “ ( جیساکہ تفسیرنور الثقلین جلد ۴ ،ص ۶۱۳ پردرج کیاگیاہے ) ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma