قرآن کی عظمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

اسلامی روایت میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ مشرکین کے بتوں کی مذ مت کیا کرتے تھے اوران لوگوں کے سامنے قرآن پڑھ کرتے تھے تاکہ وہ توحید کی راہ پرآجائیں لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ خدا کی آیات نہیں بلکہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشعار ہیں . بعض کہتے تھے کہ یہ ” کہانت “ ہے - . ” ( کہانت “ غیب کی ان باتوں کوکہتے تھے جن کاکچھ لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ جنات کی مدد سے انہیں معلوم ہوتی ہیں ) بعض کہتے ہیں تھے کہ یہ اس کے دلچسپ خطبے ہیں جن کا نام اس نے قرآن رکھ لیا ہے۔
ولیدبن مغیرہ قریش کے مشہور افراد میں سے تھا اور عرب اپنے اختلافات اسی سے حل کرایاکرتے تھے اوراپنے مسائل کاحل اسی سے پوچھا کرتے تھے۔
ایک دن ابوجہل نے ولید سے پوچھا : اے ابو عبدشمن ! ( ولید کی کنیت ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یہ جوکچھ کہتاہے آیاجادو ہے ، کہانت ہے یاخطبہ ؟
ولید : پہلے مجھے اس کی باتیں سننے دوپھر بتاؤں گاکہ کیاہے۔
چنانچہ وہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت حجراسماعیل کے پا س بیٹھے ہوئے تھے . ولید نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : ” محمد ! اپنے کچھ اشعار تومجھے سناؤ ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:شعر نہیں بلکہ خدا کاکلام ہے جسے وہ اپنے ابنیاء اور رُسل پرنازل کرتاہے۔
اس نے کہا :جو کچھ بھی ہے،پڑھو ۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت شروع کی ، جب اس نے ” بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ “ کو سناتو مذاق کرتے ہوئے کہا؛ کیا یہ وہی رحمان ہے جو یمامہ ہیں رہتاہے ( رحمن نامی آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) ؟
فر مایا : نہ ، خدا کوپکاررہاہوں جو” رحمن “ اور ” رحیم “ ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلاوت جاری رکھی جب اسی سورت کی ۱۳ ویں آیت ”فَإِنْ اٴَعْرَضُوا فَقُلْ اٴَنْذَرْتُکُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَ ثَمُود “ پر پہنچے تو ولید یہ سُن کر لرزہ براندام ہوگیا اور اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اوراپنے گھر کی طرف چل دیا پھرقریش کے پاس نہیں گی۔
قریش ، ابوجہل سے کہنے لگے ، ایسامعلوم ہوتا کہ ولید بن مغیرہ محمد کے دین کی طرف جھک گیاہے کیونکہ اب تک وہ ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آیا . شاید محمد کی باتوں میں آگیا ہے اوراسی کے گھر چلاگیاہے . بہرحال قریش سخت پریشان اورمغموم ہوگئے۔
دوسرے دن ابوجہل ، ولید کے پاس گیا اوران کے درمیان کچھ یوں گفتگو کاتبادلہ ہوا :
ابو جہل : چچاجان ! ( ولید ، ابوجہل کاچچاتھا ) آپ نے تو ہمیں شرمشار اور ذلیل و رسوا کردی۔
ولید : بھتیجے ! آخر کس وجہ سے ؟
... : ” آپ تومحمد کے دین پر فریفتہ ہوگئے “ ۔
... : ” میں اس کے دین پرفریفتہ نہیں ہوابلکہ اپنے قبیلے اور بزرگوں کے اسی دین پر برقرار ہوں ، البتہ اس سے کچھ ایسی سخت اور پیچیدہ باتیں سنی ہیں جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے “ ۔
... ” کیاوہ شعر تھے -؟ “
...: ” قطعاً شعرنہیں تھے “ ۔
... ” موزون خطبات تھے ؟ “
... : ” نہ ! خطبہ ایساکلام ہوتاہے جو باہم پیو ستہ اور یکساں ہوتاہے ، لیکن یہ ایسا کلام ہے جواس سے جدااورایک دوسرے کے وزن پربھی نہیں ہے لیکن اس کی اپنی ایک خاص ہے “ ۔
... : ” پھرتوکہانت ہی ہوگی ؟ “
.. .: ” نہ ، کہانت بھی نہیں ہے “ ۔
... : ” تو پھرکیاہے ؟“
... : ” مجھے کچھ مہلت دو تاکہ سوچ کربتاؤں “ ۔
دوسرے دن لوگوں نے ا س سے پوچھا ،
: ” ولید ! تمہاری فکر نے کہاں تک رسائی کی ہے “ ۔
: ” پس کہہ دو کہ وہ سحر ہے کیونکہ دلوں کواپنی طرف کھینچ کرلے جاتاہے “ ۔
اسی موقع پرسورہ ” مدّثر “ کی کچھ آیات ( ۱۱ تا ۳۰ ) کے بار ے میں نازل ہوئیں ( ۱)۔ 
اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ اس سورت کی آیات کس قدر پر کشش اورلرزادینے والی ہیں حتٰی کہ عرب کے متعصب دور اندیش شخص پران کااس قدر اثر ہوا ۔
اب ہم آیات کی تفسیر کی طرف آتے ہیں۔
ا س سورت کے آغاز میں ایک بار پھر ہم حروف مقطعات کی تلاوت کررہے ہیں ( حم) قرآنی سورتوں کے آغاز میں یہاں پر دوسری بار سامنے آرہاہے . حرورف مقطعات کے بار ے میں ہم بار ہا تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں یہاں پر اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے . البتہ یہاں پر صرف اتنابتا دینا کافی ہے کہ بعض مفسرین اس ” حٰم “ کوسورت کانام دیتے ہیں اور بعض کے نزدیک حرف ” ح “ ”حمید “ اورحرف ” م “ ” مجید “ کی طرف اشارہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عظیم ناموں میں سے ہیں۔
پھر قرآن پاک کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : یہ وہ کتاب ہے جو خداوند رحمان ورحیم کی طرف سے نازل ہوئی ہے (تَنْزیلٌ مِنَ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ)۔ 
اس خداکی رحمت عامہ اوررحمت خاصہ ہاتھ میں ہاتھ دے کران آیات کے نزول کاسبب بنیں ، ایسی آیات جودوست اور دشمن دونوں کے لیے رحمت کاباعث ہیں اور اولیاء ِ خدا کے لیے خاص برکتیں اور رحمتیں اپنے اندر لیے ہوئے ہیں . درحقیقت اس آسمانی کتاب کی واضح اور نمایا صفت وہ رحمت ہی ہے جوآیات قرآنی کے اندر ایسے سموئی ہوئی ہے جس طرح پھول کی پتیوں میں عطر کے ذ رات ہو تے ہیں . یہ ان لوگوں کے لیے رحمت ہے جو اس کے راستے پر گامزن ہوں اوراس کی تعلیمات سے ہدایت حاصل کریں۔
قرآن کے بار ے میں مندرجہ بالا اجمالی بیان کے بعداب اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے . اوراس آسمانی کتاب کی پانچ صفات کابیان ہے . یہ پانچ ایسی صفات ہیں جو قرآن مجید کے اصلی چہرہ کی تصویرکشی کرتی ہیں اور اس کی ایک منہ بولتی تصویرہیں۔
سب سے پہلے فر مایاگیاہے : یہ ایسی کتاب ہے جس کی تمام آیات روشن ہیں اور جس کا ہرمطلب اپنے مقام پر بیان ہواہے اورانسان کی تمام ضرورتوں کوپورا کرتی ہیں ( کِتابٌ فُصِّلَتْ آیاتُہُ ) (۲)۔ 
ایسی کتاب ہے جو فصیح بھی ہے اورمنہ بولتی بھی (قُرْآناً عَرَبِیًّا َ)۔  
ایسے لوگوں کے لیے جوصاحبان ِ علم اور جُو یائے حقیقت ہیں (لِقَوْمٍ یَعْلَمُون)(۳)۔ 
قرآن ، جوکہ بشیرو نذیر ہے ، اُمید بخش اورخوف آور ہے . نیک لوگوں کوخوش خبری دیتاہے اور بد کاروں کوڈراتاہے (بَشیراً وَ نَذیراً )۔ 
لیکن ان میں سے اکثرنے رو گردانی کرلی ہے لہذا وہ کچھ بھی نہیں سنتے (فَاٴَعْرَضَ اٴَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لا یَسْمَعُونَ)۔ 
اس طرح سے اس آسمانی کتاب کاسب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ اس میں انسانی ضروریات کے مختلف مسائل کو اس انداز میں بیان کیاگیاہے کہ جوشخص بھی جس سطح کے فکر و فہم کامالک ہوگااوراسے جس مرحلے پررو حانی احتیاج ہوگی اپنی فکر کی اتنی مقدار اوراپنی ضرورت کی اسی حد تک بہرہ اندوز ہوگا ۔
اس کی دوسری بڑی صفت یہ ہے کہ یہ کتاب ایک مکمل مجموعہ ہے کیونکہ ” قرآن “ کے مادہ سے ہے جس کااصل معنی مختلف اجزائے سخن کو یکجاکرنا ۔
اس کی تیسری صفت یہ ہے کہ اس کی خاص فصاحت اوربلاغت ہے کہ جس کے ذ ریعے حقائق کوصحیح صحیح ، صراحت کے ساتھ بغیر کسی کم و کاست کے واضح طور پر نہایت ہی دلکش انداز اور جاذب پیرائے میں پیش کیاگیاہے۔
اس کی چوتھی اور پانچویں صفت یہ ہے کہ خوشخبری دینے والی اور متنبہ کرنے والی ہونے کے باعث یہ کتاب گہراتربیتی اثر رکھتی ہے . کبھی ایساہو تا ہے کہ اس کی آیات نیک اورپاک لوگوں کی ترغیب اور انہیں شوق دلانے کے لیے اس قدر حوصلہ بڑھاتی ہیں کہ انسان جُھوم اٹھتا ہے اور کبھی مفسد اور مجرم لوگوں کوتنبیہ کرنے اور ڈرانے میں اس حد تک لرزادیتی ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اوران دونوں تربیتی اصولوں کی انہی آیات میں ایک دوسرے کے دوش بد وش بیان کیاگیاہے۔
لیکن افسوس کہ ہٹ دھرم متعصب افراد کے پاس سننے والے کان نہیں ہیں . گو یاوہ بہرے ہیں اور کچھ بھی نہیں سن پاتے ان کے ظاہری کان صحیح سالم ، ہیں لیکن سننے کی صلاحیت اورحقائق کے ادراک کی توانائی کھو چکے ہیں۔
اور پھر یہ کہ ان دل کے اندھوں کارد عمل یہیں پرختم ہوجاتا ، بلکہ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اور تبلیغ سے محروم کردیں اور یہ ثابت کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کوسننے والاکان اس دھرتی میں کہیں نہیں ہے لہذا آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس قسم کی کوششیں بے فائدہ ہیں . جیساکہ بعد کی آیت میں فر مایاگیاہے : انہوںنے کہا: تیری دعوت کے بار ے میں ہمارے دل پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان پروہ حائل ہے (وَ قالُوا قُلُوبُنا فی اٴَکِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونا إِلَیْہِ وَ فی آذانِنا وَقْرٌ وَ مِنْ بَیْنِنا وَ بَیْنِکَ حِجابٌ )۔
جب صورت حال یہ ہے توتجھے ہم سے کوئی سرو کار نہیں ہوناچاہیئے ، تو اپنا کام کرہم اپنے عقائد اورمذہب کے مطابق عمل کریں گے (فَاعْمَلْ إِنَّنا عامِلُون)۔ 
بالکل ویسے ہی جیسے نادان اور بیوقوت مریض ، مسیحا نفس طبیب سے دور بھاگتاہے اوراس کی کوشش ہوتی ہے کہ اور جیسے بھی موخود کواس سے دوررکھے۔
پہلے وہ کہتے تھے کہ گو یا ہماری عقول و افکار پر دوں میں لپٹی ہوئی ہیں جن میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔
خیال رہے کہ ” اکنة “ ” کنان “ کی جمع ہے جس کامعنی ہے پردہ ، نہ صرف ایک درحقیقت جہل وتعصب ،ہٹ دھرمی و عناد ، اندھی تقلید اوراس نوع کے دوسرے بہت سے پر دوں نے ان کے دلوں کواپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا ۔
وہ کہاکرتے تھے کہ نہ صرف یہ کہ ہماری عقل کسی چیز کاادراک نہیں کرسکتی ، ہمارے کان بھی بہرے ہیں لہذاہم تیری باتوں کو نہیں سن سکتے .یعنی اصل مرکز بھی بیکار ہوچکاہے اوراس کے وسائل اورذرائع بھی کام نہیں کرپاتے۔
ان سب باتوں سے قطع نظر یہ بھی سمجھ رکھ کہ گو یاہمارے اور تیرے درمیان بڑے ضخیم پردے حائل ہوچکے ہیں . اگر ہمارے ٹھیک بھی ہوں پھر بھی تیری آواز ہمار کا نوں تک نہیں پہنچ سکتی لہذا تواپنے آپ کو اس قدر کیوں پر یشان کرتاہے ، فریاد کرتاہے ہمدرد ی کااظہار کرتاہے ، دن رات تبلیغ میں مصروف رہتاہے ! چھوڑ ہمیں اپنے حال پر کیونکہ یہاں پر تیری جنس کاکوئی خریدار نہیں ہے . تواپنے دین پر ہم اپنے دین پر ۔
یہ بے شرمی ، بے حیائی ، ڈھٹائی اور بے وقوفی کی انتہا ہوگی کہ انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ حق سے اس قدر گریز پاہو ۔
درچشم ایں سیاہ دلان صبح کاذب است درروشنی اگرید بیضاکندکسی
” اگر کوئی شخص یدبیضاء سے بھی روشنی کردے ، پھر بھی ان دل کے اندھوں کے سامنے یہ صبح کاذب ہی ہوگی “ ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ وہ ” و بیننا وبینک حجاب “ (ہمارے اور تیرے درمیان حجاب ہے ) نہیں کیاکرتے تھے بلکہ لفظ ” من “ کا بھی اضافہ کرتے تھے ” وَ مِنْ بَیْنِنا وَ بَیْنِکَ حِجاب“ تاکہ زیادہ سے زیادہ تاکید کااظہار کرسکیں کیونکہ لفظ ” من “ کے ضافے سے مفہوم یوں ہوجائے گا ” ہمارے درمیان کے فاصلے کو پردے نے بھردیا ہواہے “ اور ظاہرسی بات ہے کہ جس پردے نے اس درمیانی فاصلے کو بھردیاہو اسے بہت ضخیم ہوناچاہیئے اور فطری سی بات ہے کہ اس قدر ضخیم حجاب کی اوٹ میں بات کرنے کاذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوگا ۔
ممکن ہے ” فَاعْمَلْ إِنَّنا عامِلُون“ کا جملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مایوس کرنے کے لیے کفار کی طرف کہاگیاہوکہ تم اپنے کام کو جاری رکھو اور ہم اپناکام جاری رکھتے ہیں۔
یہ بھی امکان ہے کہ کفار کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دھمکی دی گئی ہو کہ تم جوکچھ کرسکتے ہو کرو ، ہم بھی تمہاری ذات اور تمہارے دین کے خلاف اپنی تمام توانائیاں صرف کریں گے اوران کایہ نظر یہ ان کی ہٹ دھرمی ، ضد اور تعصب کی انتہا کوبیان کرتاہے۔
۱۔ بحارالانوار جلد ۱۷ ،ص۲۱۱ . یہ روایت کچھ فرق کے ساتھ بعض دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے جن میں سے تفسیر قرطبی (جلد ص ۵۷۸۲ اسی سورت کے آغاز ) میں بھی درج کی گئی ہے۔
۲۔ ” کتاب “ خبر کے بعد خبرہے وہ یوں کہ ” تنزیل “ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور کتاب اس کے بعد کی خبر ہے۔
۳۔ ” تقوم یعلمون “ ممکن ہے کہ ”فصلت “ کے متعلق ہو یا پھر پوسکتاہے ” تنزیل “ کے متعلق ہو ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma