’ ’ ثم کی تعبیر : یہ عام طور پر زمانے میں تاخیر کے لیے آتی بھی آجاتی ہے۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

۱۔ ’ ’ ثم کی تعبیر : یہ عام طور پر زمانے میں تاخیر کے لیے آتی بھی آجاتی ہے۔
اگرپہلے معنی میں ہو تو اس کامفہوم یہ ہوگا کہ آسمانوں کی تخلیق ،زمین ،پہاڑ ، معادن اور غذائی مواد کی تخلیق کے بعد عمل میں آئی . لیکن اگر دوسرے معنی میں ہوتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آسمانون کی تخلیق پہلے عمل میں آئی ہو اور زمین کی اس کے بعد . لیکن بوقت بیان پہلے زمین غذائی مواد اوران کے منابع کاذکر کیاکہ جو انسان کی ضرورت اور توجہ کامرکز ہے پھر تخلیقِ آسمان کی تفصیل بیان کی۔
دوسرامعنی جہاں سائنسی انکشافات سے زیادہ ہم آہنگ ہے وہاں قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی زیادہ موافقت رکھتاہے ،کیونکہ سورہٴ ناز عات میں فرمایاگیاہے :
اٴَ اٴَنْتُمْ اٴَشَدُّ خَلْقاً اٴَمِ السَّماء ُ بَناہا رَفَعَ سَمْکَہا فَسَوَّاہا وَ اٴَغْطَشَ لَیْلَہا وَ اٴَخْرَجَ ضُحاہا وَ الْاٴَرْضَ بَعْدَ ذلِکَ دَحاہا اٴَخْرَجَ مِنْہا ماء َہا وَ مَرْعاہا وَ الْجِبالَ اٴَرْساہا مَتاعاً لَکُمْ وَ لِاٴَنْعامِکُمْ
آیا تمہارامرنے کے بعد زندہ کرنازیادہ اہم ہے یاآسمان کی تخلیق ؟خدا نے اسے بنایا پھیلا یااور منظم کی.ا س کے بعد زمین کوبچھایا اس کے اندرونی پانیوں ، نباتات چراگاہ ہوں کو اس سے نکالا . بعد ازاں پہاڑوں کو محکم بنایا تاکہ تمہارے اپنے لیے اور تمہارے چوپاؤں کے لیے زندگی کے وسائل فراہم ہوں ( نازعات . ۲۷ تا ۳۳)۔ 
ان آیات سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ زمین کابچھانا،چشموں کاابلنا ،درختوں اور دوسرے غذائی مواد کی پیدائش غرض سب کچھ آسمانوں کی تخلیق کے بعد وجود میں وٴی. جب کہ اگر ” ثم “ سے تاخیر زمانی مراد لیں توپھر کہناپڑے گا کہ یہ سب آسمان کی تخلیق سے پہلے موجود تھے اور چونکہ ” بعد ذالک “ کاکلمہ ان سب کو اس کے بعد شمار کرتاہے . لہذا ” ثم “ سے تاخیر بیانی مراد لینا زیادہ واضح اور روشن ہے ( 1)۔ 
۲۔ ” استوٰی “ کامفہوم:یہ استواء کے مادہ سے ہے جودراصل اعتدال یا دوچیزوں کے ایک دوسرے کے برابرہونے کے معنی میں آتاہے ، لیکن جیسا کہ بعض ارباب لغت اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ماہ جب” علیٰ “ کے ساتھ متعدی ہوتو ” کسی چیزپر غلبہ پانے اور مسلط ہونے “ کے معنی میں آتاہے . جیسے :
الرحمن علی العرش الستوٰی
خدائے رحمن عرش پر مسلّط ہوگی۔ ( طٰہٰ . ۵)
اور جب ” الیٰ “ کے ساتھ متعدی ہوتو ” قصد وارادہ “ کے معنی میں آتا ہے . جیسے زیر تفسیر آیت میں ہے :
ثم استوٰی الی السماء
پھر آسمان کی تخلیق کاارادہ کی. ( رحم سجدہ . اا)
۳۔ ھی دخان سے مراد: اس کا معنی ہے کہ آسمان اوائل میںدھوئیں کی صورت میں تھے . یہ بتاتا ہے کہ آسمانوں کی تخلیق کاآغاز گیسوں کے بڑے بڑے مجموعوں سے ہوا . اور یہ آغاز آفرینش کے بار ے میں سائنس کی تازہ تحقیقا سے پورے طو ر پر ہم آہنگ ہے۔
اب بھی بہت سے آسمانی ستار ے گیس اور اور دھوئیں کے بڑے بڑے مجموعوں کی صورت میں موجود ہیں۔
۴۔ ” فقال لھا و للا رض ائتیا طوعاً او کرھاً “ خدا نے آسمان اور زمین سے فرمایا وجود میں آؤ اور صورت اختیار کرو خواہ ازروئے اطاعت یااز راہ مجبوری . اس معنی میں نہیں ہے کہ بات کو نفظو ں سے ادا کیاگیا ہوبلکہ خداکے قول تخلیق کے لےے فر مان تکوینی اوراس کا ارادہ ہی ہے اور ” طوعاً ا او کرھاً “ کی تعبیراس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان و زمین کے صورت اختیار کرنے کے بار ے میں خداکا قطعی ارادہ تھا اور انہیں ہرحالت میں ایک مطلوب صورت اختیار کرنا ہی تھی چاہے وہ یہ بات چاہتے یا نہ چاہتے۔
۵۔ ” اتینا طائعین “ ( ہم نے از روئے اطاعت یہ صورت اختیار کی ہے ) . یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان اور زمین کوتشکیل دینے والامواد تکوینی اور تخلیق لحاظ سے مکمل طو ر پر اس کے ارادے اور فر مان کے تابع تھااس نے فوراً ا پنی لازمی صورتیں اختیار کرلیں اور فرمان الہٰی کی ذرہ بھر بھی نافر مانی نہیں کی۔
بہرحال ظاہر ہے کہ وہ ” امر “ اور یہ ” تعمیل امر ‘ ‘ تشریعی حیثیت کاحاصل نہیں تھا بلکہ ان کی صرف تکوینی صورت تھی۔
۶۔ ” فقضاھن سبع سماوات فی یومین “ (انہیں سات آسمانوں کی صورت میں دونوں میں پیدا کیا) یہ جملہ آسمانوں کی تخلیق کے سلسلے میں دو دورانیوں کی طرف اشارہ ہے جس کاہر دو رانیہ کروڑوں سال پر مشتمل ہے اور ہردور اپنے لحاظ سے کئی اور ادوار میں تقسیم ہوجاتاہے . ممکن ہے یہ دونوں دورانیے تہ درتہ گیسوں سے مانع اورپگھلی ہوئی صورت میں تبدیل ہونے اور پگھلی ہوئی صورت سے ٹھوس صورت میں تبدیل ہونے کے دورانیے ہوں۔
ہم پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ لفظ ” یوم “ ( کہ فارسی میں جسم کاہم لفظ رو ز ہے ) دوسری زبانوں میں ” دوران “ کے معنی میں بہت ہی رائج اور مستعمل ہے . حتٰی کہ ہماری روز مرہ کی گفتگو میں بھی بڑی حد تک استعمال کیاجاتاہے . مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ” زندگی میں انسان ایک دن ناکامی کاشکار ہوتاہے تودوسرے دن ساحل کامرانی سے ہمکنار ہوتاہے “ یہ زندگی کے کامیابی اور ناکامی کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ ہے۔
اس سلسلےمیں مزیدتفصیل تفسیر نمونہ کی چھٹی جلد ( سورہ اعراف کی ۵۴ ویں آیت کے ذیل ) میں بیان ہوچکی ہے۔
۷۔ ”سبع“ (سات ) کا عدد ممکن ہے یہاں پر تکثیر کے معنی میں ہو . یعنی ہم نے بہت سے آسمان اور بے شمار کرّات پیدا کئے ہیں . یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تعداد کاعدد ہو . یعنی آسمانوں کی صحیح تعداد صرف سات ہے اور یہ جوکواکب اور ستارے ثوابت اور سیارے ہمیں نظر آتے ہیں آیت کے بعد کے حصے کی گواہی کے مطابق اسی آسمان ِ اول کاجز و ہیں . اس طرح سے عام آفرینش سات عظیم مجمو عوں سے تشکیل پایا ہے جن میں سے صرف ایک مجموعہ انسانی نگاہوں کے سامنے ہے اورانسان کے سائنسی ، علمی اور تحقیق وسائل اور ذ رائع پایا ہے جن میں سے صرف ایک مجموعہ انسانی نگاہوں کے سامنے ہے اور انسان کے سائنسی ، علمی اور تحقیقی وسائل اور ذرائع اسی آسمان اوّل سے آگے نہیں پڑھ سکے ، باقی چھ عالم کیسے ہیں ؟اور کن چیزوں سے تشکیل پائے ہیں ؟خداکے سوا کسی کواس بات کا علم نہیں ہے۔
یہی تفسیر زیادہ صحیح معلو م ہوتی ہے . اس کی مزید تفصیل ، تفسیر نمونہ کی پہلی جلد سورہ ٴ بقرہ کی آیت ۲۹ کی تفسیر میں ملا حظہ فرمائیں۔
۸۔ ” واوحیٰ فی کل سماء امرھا “ ( ہر آسمان میں اپنے امر کی وحی کی اور اسے ضروری نظم وضبط عطاکیا ) یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان کامسئلہ صرف تخلیق پر ہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ان میں سے ہر ایک میں اللہ نے کچھ مو جودات اور مخلوقات کو بھی پیدا کیاہے اوران میںخاص قسم کانظم و ضبط مقرر فرمایا ہے جن میں سے ہرایک اپنی جگہ پرخداکی عظمت علم اور قدرت کی مستقل نشانی ہے۔
۹۔ ” و ز یّنّا السماء الدنیا بمصابیح وحفظا ً “ ( اورہم نے نچلے آسمان کوستاروں کے چراغوں سے زینت بخشی اوراس شہاب پیداکئے جوآسمان کوشیاطین سے بچائے ہوئے ہیں ) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام شتارے آسمان اول کی زینب میں اور لوگوں کی نظر میں ایسے قمقموں کے مانند ہیں جو اس نیلگوں آسمان کے شامیانے سے لٹکا ئے گئے ہیں . یہ ستارے نہ صرف آسمان کی زینت ہیں جو اپنی خاص چمک دمک سے عاشقان اسرار آفرینش کے قلوب کواپنی طرف جذب کررہے ہیں اورزبان حال سے توحید کا نغمہ سُنارہے ہیں بلکہ تاریک راتوں میں صحراؤں میں سفر کرنے والوں کے لیے چراغ راہ بھی ہیں جو اپنی روشنی کے ذریعے ان کی راہنمائی بھی کرتے ہیں اور راستے کی جہت اور سمت کابھی تعین کرتے ہیں۔
” شھب “ جوستارے ہمیں تیز رفتار ی کے ساتھ آسمان میں تیرتےپھر نظر آتے ہیں درحقیقت ایسے تیرہوتے ہیں جو شیطانوں کے سینوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور اس قدچوڑے چکلے آسمان کی ان سے حفاظت کرتے ہیں . ( اس موضوع کی مزید تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ کی جلد ۱۱ سورہ ٴ حجر کی آیت ۷ ۱ اور اس کی تکمیلی تشریح جلد ۱۹ سورہ ٴ صافات کی آیا ۷ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں )۔ 
۱۰۔ ”ذ الک تقدیر العزیز العلیم “ ( یہ خداند قادر اور عالم کی تخلیق ،صحیح تقدیر اور اندازہ ہے ) یہ در حقیقت مذ کورہ نویں نکتے کی تکمیل ہے اور یہ ” عشرہ کاملہ “ تشکیل دے رہاہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ ” آغاز آفرینش سے لے کرصورت اختیار کرنے اور منظم ہونے تک سب سوچے سمجھے منصوبے اور جچے تلے انداز میں پیدا کیاگیاہے جواس بے حدو حساب علم اور قدرت کے مالک مبداٴ کی جانب سے مرتب کیاگیاہے اوران میں سے ہرایک چیز کے بار ے میں غور وفکر انسان کواسی بزرگ کی طرف راہنمائی کرتاہے۔
1۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان سے پہلے ہوئی ہے لیکن ( دحوالا رض ) بعد میں ہوااس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوت. گویا ابن عباس نے آیت کے آخر کی طرف توجہ نہیں فر مائی جس میں پہاڑوں اورغذائی مواد کی بات ہورہی ہے (غور کیجئے گا )۔  
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma