عاد وثمود کی طرح صا عقہ سے ڈرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں توحید اور معرفت الہٰی کے بار ے میں مئوثر گفتگو ہوچکی ہے . اب ان آیات میں ان ہٹ دھرم اور ضدی مزاج مخا لفین کوزبردست تنبیہ کی جارہی ہے جو ان تمام واضح اور روشن دلائل اور آیات کودیکھنے کے باوجود صاف انکار کردیتے ہیں . ان آیات میں انہیں خبردار کرتے ہوئے فر مایاگیاہے : اگر ان تمام واضح اور روشن دلائل کے باوجود وہ روگردانی کریں توانہیں کہہ دے کہ میں تمہیں ویسی ہی بجلی سے ڈراتا ہوں جیسی عاد و ثمود پرٹری تھی (فَإِنْ اٴَعْرَضُوا فَقُلْ اٴَنْذَرْتُکُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَ ثَمُودَ)۔ 
اس بات سے ڈرو کہ ہو لناک آگ دینے والی تباہ کن بجلیاں تم پر آسمان سے ٹوٹ پڑیں او ر تمہارے شرمناک زندگی کاخاتمہ کردیں ( ۱)۔
ہم ا سی سورت کے آغاز میں پڑ ھ چکے ہیں کہ قرآن مجید اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے بار ے میں تحقیقات کے لیے ولید بن مغیرہ ( بر وایتے عتبہ بن ربیعہ ) جیسے مشرکین مکہ کے کچھ سر دار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور کچھ سوال کئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سوالوں کاجواب دیتے ہو ئے اس سورہ کی کچھ ابتدائی آیات کی تلاوت کی جب زیر نظر آیات پر پہنچے اورانہیں قوم عاد و ثمود جیسی صاعقہ سے ڈرایا تووہ اس حد تک لرزگئے اوروحشت واضطرا ب کاشکار ہوگئے کہ ان میں بولنے کی طاقت نہ رہی . وہ اٹھ کھڑے ہوئے اوراپنے دوستوں کے پاس آکر اپنی اضطرابی اور ہیجانی کیفیت بیان کی۔
راغب نے مفر دات میںلکھاہے کہ ”صاعقہ “ اس ہیبت ناک آواز کوکہتے ہیں جوآسمانی فضا میں پیدا ہوتی ہے جس میں آگ ، موت یاعذاب بھی ہوتا ہے ( یہی وجہ ہے کہ کبھی اس لفظ کااطلاق ” موت “ پر اور کبھی ” آگ “ پربھی ہوتاہے۔
اور آج کے سائنسد انون کی تحقیقا ت کے مطابق ” صاعقہ “ الیکڑسٹی کے اس عظیم انگارے کو کہتے ہیں جوبادل کے مثبت اور زمین کے منفی پول کی وجہ سے پیدا ہوتاہے اور عام طور پر پہاڑ وں کی مخروطی چوٹیوں ،درختوں ،بلند جگہوں ،ہموارصحراؤں ، بیابانوں ، انسانوں اورحیوانوں پرگرتاہے . اس بجلی کی حرارت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ جس چیز پر بھی گر تی ہے اسے جلا کربھسم کردیتی ہے اوراس جگہ پر ایک ہیبت ناک آواز اور زبردست زلزلہ پیدا ہوجاتاہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خدا وند عالم نے گزشتہ اقوا م میں سے کچھ گروہوں کواس کے ذ ریعے عذاب دیااور پھر قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں سائنس کی تمام ترتر قیوں کے باوجود آج تک کوئی ایسا ذریعہ ایجاد نہیں ہوسکا جس سے انسان اس عظیم بلا کونازل ہونے سے پہلے روک دے . آ ج کاانسان اس کے مقابلے سے عاجز ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دیگر تمام معذّب اقوام کوچھوڑ کرقوم عاد وثمود کاذکر کیاگیاہے ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کوان کے حالات کااچھی طرح سے علم تھااوروہ ان کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجودکھنڈرات کواپنی آنکھوں سے ملا حظہ کرچکے تھے اور چونکہ یہ صحرانشین اورخانہ بدوش لوگ تھے لہذا ” صاعقہ “ کے خطرات سے اچھی طرح باخبر تھے۔
مزید فرمایاگیاہے ہے : اس وقت کو یاد کر و جب اللہ کے رسول ان کے آگے ،پیچھے غرض ہرطرف سے ان کے پاس آئے اورانہیں خدائے واحد کی طرف دعوت دی (إِذْ جاء َتْہُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اٴَیْدیہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ اللَّہَ )۔
” مِنْ بَیْنِ اٴَیْدیہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِم“ کی تعبیر ممکن ہے کہ اسی بات کی طرف اشارہ ہوجس کی طرف ہم پہلے ہی اشارہ کرچکے ہیں . یعنی خدا کے رسولوں نے ہدایت اور تبلیغ کے تمام وسائل استفادہ کیااور ہر ممکن کوشش کی کہ ان سیاہ دلوں کوکسی نہ کسی طرح اپنی بات منواسکیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان پیغمبروں کی طرف اشارہ ہوکہ جو مختلف ادوار میں ان قوموں کے پاس آتے ور توحید کی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کے ان ابنیاء کی عظیم کوششوں کا ان لوگوں نے کیاصلہ دیا اورانہیں کیاجواب دیا ؟
خدا فرماتاہے :” اگر ہماراپر ور دگار چاہتا توفرشتے نازل کردیتاتاکہ اس کی دعوت ہم تک پہنچا ئیں “ نہ کہ ہمارے جیسے انسان (قالُوا لَوْ شاء َ رَبُّنا لَاٴَنْزَلَ مَلائِکَةً َ)۔ 
اب جبکہ صورت حال یہ ہے ” توہم یقینا ان چیزوں کو نہیں مانتے جنہیں لے کر تم نازل ہوئے ہو “ اورانہیں بالکل خداکی طرف سے نہیں سمجھتے (فَإِنَّا بِما اٴُرْسِلْتُمْ بِہِ کافِرُون)۔ 
اس کامقصد یہ نہیں ہے کہ تم تواللہ کے رسول ہولیکن ہم تمہاری رسالت کو نہیں مانتے بلکہ مراد یہ ہے کہ تم سرے سے رسول ہی نہیں ہو اور رسالت کے بے بنیاد دعو یدار ہواسی لے ہم تمہاری باتوں کوقطعاً نہیں مانتے (اسی لیے” ما ارسلتم بہ “ کاجملہ یاتو ٹھٹھا مذاق کی صورت میں ہے یاپھر یہ مقصود ہے کہ تم اپنے دعویٰ کے مطابق رسول ہو )۔ 
یہ وہی بہانہ ہے جسے قرآن مجید کئی مرتبہ دعوت انبیاء کے منکرین کی زبانی نقل کرچکاہے جنہیں یہ توفع تھی کہ خداکے پیغمبرکوہمیشہ فرشتہ ہونا چاہیئے ، گو یا بشراس مقام اور مرتبے کی بالکل لیاقت نہیں رکھتا . جیساکہ سورہ فرقان کی آیت ۷ میں ہے :
وَ قالُوا ما لِہذَا الرَّسُولِ یَاٴْکُلُ الطَّعامَ وَ یَمْشی فِی الْاٴَسْواقِ لَوْ لا اٴُنْزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذیراً
انہوںنے کہا: یہ پیغمبر کھانا کیوں کھاتاہے اوربازار میں کیوں چلتا پھرتاہے ؟ کم از کم اس پر فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتاکہ اس کے ساتھ مل کرلوگوں کوڈراتا ؟
لیکن وہ اس بات سے بے خبرتھے کہ انسان کاہادی اور رہنماانسان ہی کو ہو نا چاہیئے . تاکہ دوسرے انسانوں کے دیکھ درد ، ضر وریات زندگی ، مشکلات اور زندگی کے مختلف مسائل سے آشنا ہوتاکہ وہ انسانوں کے لیے نمونہ عمل اوراسوہ حسنہ قرار پائے چنانچہ سورہ انعام کی آیت ۹ میں صراحت کے ساتھ فرمایاگیاہے :
وَ لَوْ جَعَلْناہُ مَلَکاً لَجَعَلْناہُ رَجُلاً
اگرہم اسے فرشتہ بناتے بھی یقینااسے انسانی صورت میں ہی روانہ کرتے۔
قرآن مجید اپنی روش کے مطابق قوم عاد وثمود کے بار ے میں اجمالی ذکر کے بعد تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتاہے : قوم عاد نے بہر صورت زمین میں تکبر کیا ( اور ہر تکبرناحق ہوتاہے ) حتٰی کہ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم سے بڑھ کر کون طاقتور ہوسکتا ہے ؟ (فَاٴَمَّا عادٌ فَاسْتَکْبَرُوا فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قالُوا مَنْ اٴَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً )۔ 
معلوم ہے کہ قوم عاد وہ تھی کہ جو جزیرة العرب کے جنوب میںحضرت موت کے علاقے احقاف میں رہتی تھی . جسمانی طاقت، مالی اقتدار اور مادی تمدن کے لحاظ سے ان کی نظیر نہیں تھی . وہ خوبصورت محلات ، محکم اورمضبوط قلعے بنایا کرتے تھے ، پہاڑوں کی چوٹیوں اوربلند مقامات پراپنے مکانات بنایا کرتے تھے تاکہ اس طرح سے وہ اپنے دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ اورجاہ وجلال کامظاہرہ کرسکیں . وہ نہایت سخت دل اور جنگجوں لوگ توتھے ہی مگر اس ظاہر ی شان وشوکت نے انہیں اوربھی مغرور کردیاتھا لہذا وہ اپنے آپ کو ایک ناقابل تسخیر قوم اورسب سے برتر وبالا ملت سمجھنے لگ گئے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوںنے خدااور اس کے پیغمبر جناب ہود علیہ السلام کے خلاف اعلان بغاوت کردیااورطغیان وسر کشی اور تکذیب وانکار پرکمر باندھ لی۔
لیکن قرآن مجید اس دعو ے کے جواب میں کہتاہے : وہ یہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے انہیںپیدا کیاہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے (اٴَ وَ لَمْ یَرَوْا اٴَنَّ اللَّہَ الَّذی خَلَقَہُمْ ہُوَ اٴَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّةً)۔ 
وہ صرف انہی کاخالق نہیں بلکہ زمین و آسمان کابھی خالق ہے دراصل ان دونوں طاقتوں کا آپس میں تقابل ہی نہیں ہوسکتا ۔
کہاں ناچیز اور فانی قدرت اورکہاں بے انہتاپائیدار اورحق کی ذاتی طاقت ؟خاک کوخالقِ افلاک سے کیانسبت ؟” ماللتراب ورب الارباب “ ( ۲)۔ 
اورآیت کے آخر میں فر مایاگیا ہے : و ہ اپنی بے بنیاد سوچ اور فکر کی وجہ سے ہمیشہ ہماری آیات کانکار کرتے رہتے تھے.(وَ کانُوا بِآیاتِنا یَجْحَدُون)۔ 
جی ہاں ! بے بضا عت اور کم ظرف انسان جب تھوڑی سی بھی طاقت اپنے اندر محسوس کرتاہے تو سرکشی پراتر آتاہے .حتٰی کہ بعض اوقات اپنی جہالت کی بناء پر خداکے ساتھ بھی محاذ آرائی پراتر وٴتاہے . لیکن خداوندعالم نہایت ساد گی کے ساتھ اک ہی اشارے سے ان کی زندگی کے اسباب کو ان کی موت کے اسباب میں تبدیل کردیتاہے . جیساکہ قوم عاد کے اسی ماجر ا میں بعد کی آیت میں ارشاد فرمایاگیاہے : آخر کار تند وتیز ،گرجدار ، ہولناک ،سر داورسخت ہو اکو نحس اور غبار آلود ایام میں ان پ بھیجا تاکہ ان کورسواکرنے والاعذاب اسی دنیا وی زندگی میں چکھائیں (فَاٴَرْسَلْنا عَلَیْہِمْ ریحاً صَرْصَراً فی اٴَیَّامٍ نَحِساتٍ لِنُذیقَہُمْ عَذابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا )۔ 
یہ عجیب تیزوتند آندھی قرآن کے الفاظ میں انہیں زمین سے یوں اٹھاتی اور دوبارہ زمین پر دے مارتی جس طرح کھجور کے درخت کوتنے سے اکھاڑ کرپھرزمین پرماراجائے ( ۳)۔ 
یہ تیزوتند آندھی ان پر سات راتیں اور آٹھ دن متواتر چلتی رہی اوراس نے اس مغرور ، سرکش اورخود پرست قوم کی زندگی اجیرن کردی اور پھر اس کاہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا ، اور پرشکوہ محلات وقصور کے چند کھنڈروں اورخوشحال زندگی اورمال و دولت کے نشان کے علاوہ اورکچھ نہیں چھوڑا ۔
آیت کے آخر میں فرمایاگیاہے:یہ تو دنیاوی عذاب ہے لیکن ” آخر ت کاعذاب تواس سے بھی زیادہ رسواکن ہوگا “ (وَ لَعَذابُ الْآخِرَةِ اٴَخْزی )۔ 
دنیا میں اس قدر عظیم اوردرد ناک عذاب تواس عذاب کے مقابلے میں ایسے ہوگا جیسے آگ کے سمندر کے مقابلے میں ایک چنگاری۔
اس سے بھی بڑھ کریہ کہ ” کوئی بھ شخص ان کی مدد کونہیں پہنچے گا ،اوراکہیں سے بھی ان کی مدد نہیں کی جائے گی (وَ ہُمْ لا یُنْصَرُونَ)۔ 
جی ہاں وہ ساری زندگی اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ اپنے آپ کوبڑا بنا کردنیا کے سامنے پیش کریں لیکن خداوند عالم نے بھی عذاب کے وقت انہیں اس دنیا میں رسواکن اورذلیل کرنے والی سزا سے دوچار کردیا اورآخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب مہیا کررکھاہے تاکہ ایسے مغرور اور سرکش افراد کودنیا اور آخرت میں رسواکرے۔
” صَرصَر “ ( بروزن ”دفتر “ ) دراصل ” صَرّ “ (بروزن شَرّ) کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ” اچھی طرح باندھ دینا “ اسی لیے جس تھیل میں رقم ڈال کراس کے منہ کواچھی طرح باندھ دیتے ہیں اسے ”صُرّہ “ ( بروزن ” طُرَّہ “ ) کہتے ہیں بعد ازاں اس کااطلاق زبردست سرد ،چیخنے چلانے والی ، مسموم اور قاتل ہواؤں پرہونے لگا . شاید جس تند وتیز ہوانے قوم عاد کو ہلا ک کیاتھاان تینوں صفات کی حامل تھی۔
” ایام نحسات “ کامعنی منحوس اور بُرے دن ہیں.بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد گردو غبار سے بھر پورا یام میں جب کہ بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں اس کامعنی ہے ” بہت ہی سر دایام “ ان تینوں معانی کوان آیات میں جمع کیاجا سکتاہے۔
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے ایک خطبے میں بیدار کن اخلاقی درس کے لیے اسی قوم عاد کی داستان کوپیش فر مایاہے یہ خطبہ نہج البلاغہ میں موجود ہے . ارشاد فرماتے ہیں :
واتعظو افیھابالذین قالوا : من اشد مناقوة ؟ حملو االی قبور ھم ، فلا یدعون رکبانا ً ، وانرّ لواالاجداث فلا یدعون ضیفا ناً ،وجعل لھم من الصفیح اجنان ، ومن التراب اکفا ن ، ومن الرفات جیران
اس دنیا میں ان لوگوں کے حال سے نصیحت حاصل کرو جو کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر کون طاقتور ہوسکتاہے ؟ لیکن انہی کوان کی قبور کی طرف اس وقت لے جایاگیا،جب کہ ان کااپنا کوئی بس نہیں چلتا تھا اوروہ قبروں کے اندر داخل کردیئے گئے،جب کہ وہ بن بلائے مہمان تھے اور پتھر وں کے دل میں ان کے لیے قبریں تیار کی گئیں ، مٹی کے کفن بنے اور گلی سڑی ہڈیاں ان کی ہمسایہ تھیں ( ۴)۔ 
۱۔ ” فان اعرضوا “ میں ” فاء “ بقولے ” فاء تفر یع “ ہے جواس زبردست انداز کوگزشتہ توحید ی آیات سے رو گر دانی کی فرع قرار دے رہی ہے۔
۲۔ یہ تعبیردرحقیقت ” اللہ اکبر“ کے مشابہ ہے . جس میں خدا کے تمام موجو دات عالم سے بلند تر اور بالاتر ہونے کا پتہ چلتا ہے . جب کہ یہ دونوں جملے آپس میں کسی بھی صورت میں تقابل کے قابل نہیں ہیں . لیکن چونکہ خداوند عالم ہماری زبان میں ہم سے گویا ہے لہذا ایسی تعبیرات کو استعمال کیاہے۔
۳۔ ملاحظہ ہوسورہ ٴ قمرکی آیات ۱۹، ۲۰ اور سورہ الحاقہ کی آیت ۶ کے بعد کی آیات ۔
۴۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۱۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma