سب راز اسی کے پاس ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آخری آیت میں یہ بات ہو رہی تھی کہ نیک اور بد اعمال کی باز گشت ان کے انجام دینے والوں کی طرف ہوتی ہے اورضمنی طور پر روز قیامت کی جزااور سزا کے بار ے میں اشارہ تھا ۔
اب یہاں پر مشرکین کی طرف سے کیے گئے اس سوال کا جواب دیاجارہاہے کہ جس قیامت کے بار ے میں تم کہتے ہ وہ کب آ ئے گی۔
قرآن مجید ان آیات میں پہلے توا ن کے اس سوا ل کے جواب میں کہتاہے کہ قیامت کے زمانے سے آگاہی خداہی کے ساتھ خاص ہے اور ” اس کاعلم صرف خدا کی طرف لوٹ جاتا ہے “ (إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ )۔ 
اس سے نہ تو کوئی نبی مرسل آگاہ ہے اورنہ ہی ملک مقرب اور انہیں آگاہ ہونا بھی نہیں چاہیئے کہ تا سب لوگ ہر لمحے اس کے واقع ہونے کو ممکن سمجھیں اوراس انتظار کاایک خاص اثر تمام مکلفین کے درمیان محفوظ ر ہے۔
پھر فرمایاگیا ہے کہ صرف قیام قیامت کے زمانے کاعلم ہی خدا کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کائنات اور موجودات عالم کے ظاہر ی اور باطنی رازوں کاعلم بھی اسی کے پاس ہے ” کوئی پھر اپنے چھلکے سے باہر نہیں نکلتا ، کوئی عورت یامادہ جانور حاملہ نہیں ہوتی اور وضع حمل نہیں کرتی مگر خدا کے علم اوراس کی آگاہی کے ساتھ “ (وَ ما تَخْرُجُ مِنْ ثَمَراتٍ مِنْ اٴَکْمامِہا وَ ما تَحْمِلُ مِنْ اٴُنْثی وَ لا تَضَعُ إِلاَّ بِعِلْمِہ) (۱)۔ 
نباتات ،حیوانات کی دنیا اور عالم انسانیت میں جونطفہ بھی منعقد ہوتاہے اور ثمر آورہو کر متولد ہوتاہے خداوندعالم کے فرمان اوراس کے علم وحکمت کے ساتھ ہی ہوتاہے۔
” اکمام “ ( بروزن ’ ’ کِم“ )بروزن ” جِن “ کی جمع ہے جس کامعنی وہ چھلکاہوتاہے جوپھل کو چھپائے ہوئے ہوتا ہے اور ” کُم“ ( بروزن ” قُم“ اس آستین کوکہتے ہیں جو ہاتھ کو چھپائے ہوتی ہے اور” کمہ“ ( بروزن ” قُبہ “ ) اس ٹوپی کو کہتے ہیں جوسر کوڈھ نپے ہوتی ہے( ۲)۔
طبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ جب انسان اپنے آپ کو لباس میں ڈھانپ لیتاہے تو اس وقت کہتے ہیں . ” تکمم الرجل فی ثوبہ“ ۔
فخر رازی نے اپنی تفسیرمیں کہاہے کہ ” اکمام “ اس چھلکے کوکہتے ہیں جوپھلوں کے اُوپر ہوتاہے۔
بعض مفسرین نے اسے ” وعاء الثمرة “ ( میو ے کابرتن ) سے بھی تفسیر کیاہے ( ۳)۔ 
ظا ہر یہ ہے کہ یہ سب تفسیریں ایک ہی معنی کی طرف پلٹ جاتی ہیں ، کیونکہ اس کائنات میں سب سے ظریف اوراہم ترین مسائل میں سے نطفے اور رحم میں انعقاد اورا س کا تولد ہے . قرآن پاک نے بھی خاص کراسی چیز پر زور دیا ہے خواہ یہ حیوانات میں ہو یا نباتا ت میں۔
جی ہاں ! یہ خداہی ہے جو جانتاہے کہ کونسا نطفہ ، کس رحم میں کب منعقد ہوگا اور کب متولہ ہوگا ؟کونسل پھل بار آورہوگا اور کب اپنے چھلکے سے باہر سر نکا لے گا ؟
پھر فرمایاگیا ہے کہ یہ لوگ جوقیامت کاانکار کرتے ہیں یااس کامذاق اڑاتے ہیں ” جس دن کہ قیامت برپا ہوگی انہیں خدا پکار کر کہے گا کہاں ہیں وہ شریک جوتم میرے لیے قرار دیتے تھے ؟ تووہ کہیں گے ، خدا وندا ! ہم نے عرض کردیاہے کہ ہم اپنی باتوں پر کوئی گواہ نہیں رکھتے “ (وَ یَوْمَ یُنادیہِمْ اٴَیْنَ شُرَکائی قالُوا آذَنَّاکَ ما مِنَّا مِنْ شَہیدٍ )(۴) (۵)۔ 
ہم جو کچھ کہتے تھے وہ سب بے اساس اور بے بنیاد باتیں تھیں . ایسی باتیں تھیں جو جہالت ، لاعلمی اوراندھی تقلید کانتیجہ تھیں . آج ہمیں اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ یہ سب باطل اور بے بنیاد عو ے تھے۔
اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ اس سے پہلے وہ جن معبودوں کو پکار اکرتے تھے آج ان میں سے کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا ” سب مٹا گئے اور نیست و نابود ہوگئے ہیں “ (وَ ضَلَّ عَنْہُمْ ما کانُوا یَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ )۔  
اصولی طور پر قیامت کامنظران کے لیے اس حد تک وحشتناک ہوگاکہ بتوں کی یاد گار یں ان کی نگا ہوں اور ذہنوں سے مٹ جائیں گی ، وہی معبود کہ ایک دن وہ جن کے آستان پراپنا سرجھکایاکرتے تھے ، جن کے لیے قربانی کیاکرتے تھے ، حتٰی کہ اگر ضرورت پڑجاتی توا ن کی راہ میں اپنی جان تک کی بازی بھی لگا دیاکرتے تھے اوراپنی مشکلات ومصائب کے دنوں کے لیے انہیں اپنی ا ئے پناہ اورحلال مشکلات جانتے تھے وہ سب کے سب سراب کے مانند نیست و نابود ہوجائیں گے۔
جی ہاں ! ” اس دن انہیں معلوم ہوگاکہ کوئی جائے پنا پ اور راہ فرا ران کے لیے موجود نہیں ہے “ (وَ ظَنُّوا ما لَہُمْ مِنْ مَحیص)۔ 
” محیص “ ”حیص“ (بروزن ” حیف “ ) کے مادہ سے ہے جس کامعنی ، لوٹنا رو گردانی کرنااور کسی چیز سے علیٰحدہ ہوجانا ہے اور چونکہ ” محیص “ اسم ِ مکان ہے لہذا ہ کلمہ جائے فرار اورجائے پناہ کے معنی میں بھی آتاہے ( ۶)۔ 
”ظنو ا “ ” ظن“ کے مادہ سے ہے جس کالغوی طور پر وسیع معنی ہے . کبھی یقین کے لیے اور کبھی گمان کے معنی میں آتاہے اور زیر نظر آیت میں یقین کے معنی میں ہے کیونکہ وہ اس دن یقین پیداکرلیں گے کہ عذاب الہٰی سے نہ تو کوئی فرار کاراستہ ہے اور نہ ہی کو ئی راہ نجات ہے۔
” راغب“ ” مفرادت “ میں کہتے کہ ”ظن“ اس عقیدے اور نظر یے کوکہتے ہیں جو دلیل اور قرینے سے حاصل ہو . یہ عقیدہ کبھی توقوی ہو کر یقین کے مرحلے تک جا پہنچتا ہے اور کبھی کمزور ہوکرگمان سے آگے نہیں پڑ ھتا ۔
۱۔ ” من ثمرات “ ، ” من انثی “ اور” من شہید “ میں ” من “ زائد ہ اور تاکید کے لیے آ یاہے۔
۲۔ مفردات راغب ۔
۳۔ تفسیرالمیزان اور تفسیرمراغی۔
۴۔ ” اذ ناک “” ایذان“ کے مادہ سے ہے جس کامعنی اعلان ہے اور” ویوم ینادیھم “ کا جملہ ایک مخذوف سے متعلق ہے جو تقدیراًہوں ہے اذ کر یوم ینادیھم ... ہے۔
۵۔ اس جملے کی تفسیرمیں ایک اوراحتمال کاذکر بھی کیاگیا ہے اوروہ یہ کہ ہمارے درمیان میں سے کوئی بھی آج تیر ے شریک کے وجود کی گواہی نہیں دیتااور وہ سب اس چیز کاانکار کریں گے۔
۶۔ تفسیرنمونہ جلد دہم صفحہ ۲۶۴ پریہ کلمہ ” محص “ کے مادہ کے طورپر ذکر ہوا ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma