نزدیک ہے آسمان پھٹ جائیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

اس سور ت میں ایک بار پھر ہم ” حروف مقطعات “ کی تلاوت کررہے ہیں اوراب کی مرتبہ نسبتاًزیادہ تعداد میں انہیں دیکھ رہے ہیں . یعنی پانچ حروف کی تعداد میں ( حم عسق ).
” حٰم “ قرآن مجید کی ساتھ سور توں ( موٴ من،حٰم سجدہ ،شورٰی،زخرف،دخان،جاثیہ اوراحقاف ) کے آغاز میں آیا ہے لیکن اس سور ت ( شورٰی ) میں ” عسق “ کااس کے ساتھ اضافہ ہے۔
ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ قرآن پاک کے حروف مقطعات کے بار ے میں بہت کچھ کہاجاچکاہے،اورہر مفسر نے اس بار ے میں لمبی چوڑی گفتگو کی ہے . عظیم مفسرین مرحوم طبرسی کے بقول قرآن کے حروف مقطعات کی گیارہ تفسیریں بیان ہوئی ہیں.جن میں سے اہم تفسیر وں کو ہم سورہٴ بقرہ،آ ل عمران ،اعراف،اور مریم میں بیان کرچکے ہیں اور چونکہ باقی تفسیر یں چنداں قابل توجہ نہیں تھیں،لہذا ہم نے انہیں ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
البتہ ان میں کچھ ایسی تفسیر یں ہیں جو کسی حد تک قابل ذکر ہیں ہرچند کہ کوئی دلیل قطع ان کے ثبوت میں نہیں ملتی ۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ” حروف مقطعات “ کفار کوخاموش کرنے اور لوگوں کی توجہ قرآن کی جانب مبذول کرانے کے لیے ذکر کئے گئے ہین . کیونکہ ہٹ دھرم مشرکین نے خاص طور پر ایک دوسرے کوہدایت کررکھی تھی کہ جب بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت کریں کوئی شخص بھی اس کو کان لگاکر نہ سنے . بلکہ اس حد تک شور و غل برپاکر یں کہ دوسرے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نہ سُن سکیں لہٰذا خداو ند عالم نے قرآن مجید کی بہت سی سور توں ( تقریباً۲۹سورتوں ) میں حرو ف مقطعات کوذکر کیا فرمایاہے جن میں تازہ مطالب تھے اورلوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا رہے تھے ۔
علامہ طباطبائی (رضوان اللہ علیہ ) نے ایک اوراحتمال کوذکر کیا ہے جسے ان حرو ف کی بار ہویں تفسیر کہاجاسکتاہے ہرچند کہ خودانہوں نے بھی اسے ایک احتمال کے طور پر ذکر کیاہے جس کاخلاصہ یہ ہے۔
جب ہم ان سورتوں میں غور کرتے ہیں جن کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوتی ہے تو معلوم ہوتاہے کہ ایسی سورتیں جن کاآغاز ایک جیسے حروف مقطعات سے ہوتاہے ان کے مطالب بی ایک جیسے ہوتے ہیں . مثال کے طور پر جوسورتیں ” حٰم “ سے شروع ہوتی ہیں تو اس کے فوراًبعد ” تنزیل الکتاب من اللہ ...کا جملہ یااس سے ملتا جلتا ذکر ہوا ہے اورجوسو رتیں ” الرٰ “ سے شروع ہوتی ہیں تو اسکے فوراً بعد ” تلک اٰیات لکتاب “ یااس کے مانند کوئی اور جملہ ہوتاہے۔
جن سورتوں کاآغاز ” الم“ سے ہوتاہے ”ذلِکَ الْکِتابُ لا رَیْبَ فیہِ “ یااس جیسا کوئی اورجملہ بھی اسی کے ساتھ آیا ہے۔
یہاں سے یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ حروف مقطعات اور ان سورتوں کے درمیان ایک خاص قسم کارابط ہے . حتٰی کہ مثلاً سورہٴ اعراف کہ جس کاآغاز ” المص “ سے ہوتا ہے،” الم “ کے ساتھ شروع ہونے والی سورتوں اور سورہ ” ص “ کے مضامین کی جامع ہے . یعنی ان تمام سورتوں کے مضامین سور ہٴ اعراف مین جمع ہیں۔
البتہ ایسارابط نہایت ہی گہرا اور دقیق ہوسکتاہے جس تک عام معمولی اذہان کی رسائی ناممکن ہے اور شاید اگران سورتوں کی آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رکھ کران کاآپس میں تقابل کریں توہمیں کوئی نئے مطالب مل جائیں ( ۱)۔
ایک اور تفسیر کہ جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں یہ ہے کہ ممکن ہے یہ حروف خدا وند عالم کے ناموں اوراس کی نعمتوں وغیرہ کی طرف اشارات اوران کے رموز ہوں ، مثال کے طور پر اسی سورہٴ شورٰی میں بعض مفسرین نے ” ح“ کو ” رحمن “ ” م “ کو” مجید“ ” ع “ کو” علیم “ ” س “ کو ” قدوس “ اور ” ق “ کو” قاھر“ کی طرف اشارہ سمجھا ہے ( ۲)۔
اگر چہ بعض مفسرین نے اس جنگ پراعتراض کیاہے کہ اگراسرار اور رموز سے مرا د یہ ہے کہ ان سے کوئی دوسراشخص آگاہ نہ ہ تو یہ تعریف حروف مقطعات کے بار ے میں صادق نہیں آتی، کیونکہ خدا وند متعال کے یہ عظیم نام دوسری آیات میںصراحت کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔
لیکن ان معترضین کومعلوم نہیں کہ اشاروں اور رموزکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کوئی بات ہمیشہ کے لیے محرمانہ رہے بلکہ بعض اوقات سے مراد اختصاد بھی ہوتاہے اوریہی چیزگز شتہ زمانے مین مروج تھی اور آج بھی رائج ہے ،بلکہ اس دور میں تو اس کارواج بڑی وسعت اختیار کرچکاہے اور وہ اس طرح کہ بہت سے اداروں م انجمنوں اورمحکموں وغیرہ کے ناموں کوبھی حروف مقطعہ کی صورت میں لکھتے اور بولتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ہرلفظ کے پہلے ایک حرف کولے کر انہیں آپس میںملا دیتے ہیں۔
حروف مقطعات کے بعد حسب معمول وحی اورقرآن کی بات شروع ہوتی ارشاد ہوتاہے : اسی طرح خداوند عزیز وحکیم تیری طرف اورتجھ سے پہلے انبیاء کی طر ف و حی کرتاہے (کَذلِکَ یُوحی إِلَیْکَ وَ إِلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکَ اللَّہُ الْعَزیزُ الْحَکیم).
” کذالک “ کاکلمہ درحقیقت اس سورہ کے عظیم مطالب اور مضامین کی طرف اشارہ ہے۔
وحی کا سرچشمہ توہر جگہ ایک ہی ہے اور وہ ہے خداوند عالم کا علم اوراس کی قدرت اور تمام ابنیاء کی وحی کے مطالب ومضامین بھی اصولی اورقواعد بھی ایک جیسے ہوتے ہیں . ہرچند کہ ان کی خصوصیات زمانے کی ضر ورتوں کے مطابق اورانسان کے ارتقائی مراحل کے پیش نظر بدلتی رہتی ہیں ( ۳).
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انہی آیات میں خدا وند متعال کی صفات کما لیہ میں سے سات صفتوں کی طرف اشارہ ہواہے جن میں سے ہر ایک کاکسی نہ کسی طرح وحی سے تعلق ہے . جن میں سے دوصفات اسی آیت میں ہیں ، ایک عزیز اور دوسری حکیم۔
اس کی ناقابل شکست عزت اور قدرت کاتقاضا ہے کہ وہ وحی اوراس کے عظیم مضامین پرقدرت رکھتاہو ۔
اس کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وحی ہرلحاظ سے حکمت پر مبنی اورانسان کی ار تقائی ضرو ر توں سے ہم آہن ہو ، ” یوحی “ ( وحی بھیجتا ہے ) فعل مضا رع ہونے کی بنا پر آغاز خلقت آدم علیہ السلام سے لے کر عصر پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک استمر ار اور تسلسل پردلالت کررہا ہے۔
پھرفر مایاگیا ہے : جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے صرف اس کے لیے ہے اور وہ بلند مرتبے اور عظمت کامالک ہے (لَہُ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظیمُ).
زمین اور آسمان میں اس کی ملکیت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اپنی مخلوق اوراس کے انجام سے بے خبر نہ ہو ، بلکہ ان کے امور کوسنبھالے اوروحی کے ذریعے ان کی ضروریات کوپورا کرے اوریہ خداکی مذ کورہ سات صفات میں سے تیسری صفت ہے۔
اس کے مقام کی بلندی او ر عظمت جوا س آیت میں خدا کی چوتھی اورپانچویں صفتیں ہیں اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ اُسے بندوں کی اطاعت اوربندگی کی قطعاً احتیاج نہیں .اگر اس نے بندوں کے لیے عبادت کے پروگرام مرتب کئے ہیں اورو حی کے ذریعے ان کے لیے نازل کئے ہیں توصرف بندوں پر جو دوسخا کے لیے ہیں۔
بعد کی آیت میں فر مایاگیا ہے : قریب کہ (خدا کی طرف سے باعظمت وحی کے نزول یامشرکین کی خدا کی ذات پاک کی طرف ناروا تہمتوں اور بتوں کے شریک بنانے کی وجہ سے ) آسمان اوپرسے پھٹ جا ئیں (تَکادُ السَّماواتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِن).
جیساکہ ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ اس جملے کی دوطرح سے تفسیر کی جاتی ہے کہ جن میں سے ہرایک کے لیے شاہد موجود ہے پہلی تویہ کہ اس کاتعلق مسئلہ وحی سے ہے جو گزشتہ آیات میںزیر بحث رہ چکاہے اور درحقیقت یہ آیت سور ہٴ حشر کی ۲۱ویں آیت سے ملتی جلتی ہے جس میں ارشاد ہوتاہے :
لَوْ اٴَنْزَلْنا ہذَا الْقُرْآنَ عَلی جَبَلٍ لَرَاٴَیْتَہُ خاشِعاً مُتَصَدِّعاً مِنْ خَشْیَةِ اللَّہِ
یعنی اگرہم اس قرآن کو پہاڑ پرنازل کرتے تو تم دیکھتے کہ خوف خدا کی وجہ سے خاشع ہوجاتے اور پھٹ جاتے ۔
جی ہاں ! یہ کلام خداہی ہے ، آسمان سے جس کانزول پہاڑوں پرلرز ہ طاری کردیتاہے اور قریب ہے کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردے . اگرواقعاًیہ پہاڑوں پرنازل ہوتاتوا نہیں ریز ہ ریزہ کردیتا کیونکہ یہ خدا وند حکیم کا عظیم کلام ہے . یہ توصرف اس ضدی مزاج اورہٹ دھرم انسان کادل ہے جو نہ تونرم ہوتاہے اور نہ ہی اس کے آگے جھکتاہے۔
جبکہ دوسری تفسیر یہ ہے کہ نزدیک ہے کہ ان مشر کین کے شرک اور بت پرستی کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑے کیونکہ وہ پست ترین مخلوق کو کا ئنات کے عظیم مبداٴ کاشریک بناتے ہیں۔
لیکن پہلی تفسیر وحی کےسلسلے میں زیر تفسیر آیات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اور دوسری تفسیرسورہٴ مریم کی آیت ۹۰، ۹۱ سے مناسبت رکھتی ہے.جن میں خداوند عالم نے ان کفار کی نامناسب گفتگو کے ذکر کے بعد فرمایاہے جو خدا کی اولاد کے قائل ہیں :
تَکادُ السَّماواتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاٴَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبالُ ہَدًّا ،اٴَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمنِ وَلَداً
نزدیک ہے کہ اس بات کی وجہ سے آسمان ٹکڑ ے ٹکڑے ہوجائیں ، زمین پھٹ جائے اور پہاڑ زور سے ٹوٹ پڑیں کیونکہ وہ خداوند رحمان کے لیے اولاد کے قائل ہوچکے ہیں۔
یہ دونوں تفسیر یں ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہے اورآیت کے مفہوم میں جمع بھی ہوسکتی ہیں ، سوا ل پیداہو تاہے کہ آسمان اورپہاڑ دوتھوس چیزیں ہیں وہ وحی کی عظمت یاکفار ومشرکین کی ناہنجار گفتگو کے سامنے کیسے پھٹ سکتی ہیں ؟اس بار ے میں متعدد تفسیریں ملتی ہیں. جن کی تفصیل ہم سورہ ٴ مریم کی آیت۹۰،۹۱ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں اورجن کا خلاصہ یہ ہے :
عالم ہستی جوکہ جمادات اور نباتات وغیر ہ کامجموعہ ہے ایک طرح کے عقل وشعور کاحامل ہے خواہ ہم اس کا اور اک نہ بھی کرسکیں اوراسی بنا پر وہ خدا کی حمد وتسبیح کرتے ہیں اوراس کے کلام کے آگے سر جھکا ئے ہوئے ہیں۔
یایہ کہ یہ تعبیراس مطلب کی اہمیت اورعظمت کیلئے کنایہ ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں حادثہ اس قدر عظیم تھا گو یا آسمان زمین پرٹوٹ پڑا ۔
سلسلہ آیت کوآگے بڑھاتے ہوے فرمایاگیا ہے : فرشتے اپنے رب کی تسبیح اورحمد بجالاتے ہیں اور زمین میںرہنے والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں (وَ الْمَلائِکَةُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَ یَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِی الْاٴَرْض).
اس جملے کاپہلے حصّے سے رابط پہلی تفسیر کی بنا پر یوں ہوگا کہ اس عظیم آسمانی وحی کے حامل فرشتے ہمیشہ خداکی حمد او ر تسیبح بجالاتے ہیں اوراس کی ہر کمال کے ساتھ ستائش کرتے ہیں اوراسے ہر نقص سے منزہ و مبر ا سمجھتے ہیں اور چونکہ اس وحی کے مضامین میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ فرائض اوران کی ادائیگی کاحکم ہے اورہوسکتاہے اس با ر ے میں موٴ منین سے کسی قسم کی لغزش سرزد ہوجائے . لہٰذا قرآن کہتا ہے کہ فرشتے موٴ منین کی امداد کے لیے آگے بڑھتے ہیں اوران کی لغزشوں کی معافی چاہتے ہیں اورخدا سے ان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
لیکن دوسری تفسیر کی بنا پر ملائکہ کی حمد و تسبیح خدا وند عالم کی دی جانے والی شرک کی نسبت کے سلسلے میں ہے اور ان کی استغفار بھی مشر کین کے لیے . کہ وہ بیدار ہو کر ایمان لے آئیں ، توحید کی راہ پر گامزن ، ہو کروحدہ لاشریک خدا کی طرف لوٹ جائیں۔
جب فرشتے موٴ منین کے بار ے میں ان کے اس عظیم گناہ کے لیے استغفار کرتے ہیں تودوسرے گناہوں کے لیے توبطریق اولی استغفاربھی مشرکین کے لیے ہے . کہ وہ بیدار ہو کر ایمان لے آئیں . توحید کی راہ پر گامزن ہو کر وحدہ لاشریک خداکی طر ف لوٹ جائیں۔
جب فرشتے موٴ منین کے بار ے میں ان کے اس عظیم گناہ کے لیے استغفار کرتے ہیں تو دوسرے گناہوں کے لیے توبطریق اولی استغفار کریں گے اور آیت میں استغفاکامطلق ہونا بھی شایدا سی بات کی طرف اشارہ ہے۔
اس عظیم خوشخبری کے مانند سورہٴ موٴ من کی ساتویں آیت میں بھی ایک ایک بشارت ہے :
الَّذینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَ یَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذینَ آمَنُوا رَبَّنا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْء ٍ رَحْمَةً وَ عِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذینَ تابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبیلَکَ
حاملین عرش اور جو فرشتے عرش کے اطراف میں ہیں اپنے پروردگار کی حمد وتسبیح بجالاتے ہیں اورموٴ منین کے لیے استغفار کرتے ہیں اورکہتے ہیں پر وردگا را! تیری رحمت اورعلم نے ہر چیز کا احاطہ کیاہوا ہے جن موٴ منین نے تیرے راستے کی پیروی کی ہے انہیں بخش دے ۔
آخر میں خدا وند عالم کی چھٹی اور ساتویں صفات کا ذکر فرمایاگیاہے جورحمت اورمغفرت کے بار ے میں ہے اور مسئلہ وحی اوراسکے مطالب و مضامین اورموٴ منین کے فرائض کے سلسلے میں ہے اور ارشاد فرمایاگیاہے : آگاہ رہو! خدا وند عالم بخشنے والا مہربان ہے ( اٴَلا إِنَّ اللَّہَ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ).
توا س طرح سے مسئلہ وحی سے متعلق خداوند عالم کے اسمائے حسنہ بیان ہوئے ہیں اوران کے ضمن میں موٴ منین کے بار ے میں فرشتوں کی دعا کی قبولیت بلک اس پررحمت الہٰی کے اضافے کی طرف اشارہ ہے جو اس کا فضل عظیم ہے۔
” وحی “ کی حقیقت کے بار ے میں اسی سورت کے آخرمیں ۵۱ ، ۵۲ ویں آیات کی تفسیر میں سے گفتگو کریں گے ۔
آیافرشتے سب کیلئے استغفار کرتے ہیں ؟
یہاں پر ایک سوال پیدااوروہ یہ کہ ” وَ یَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِی الْاٴَرْض“ کاجملہ مطلق ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ تمام روئے زمین پر رہنے والوں کے لیے فرشتے استغفار کرتے ہیں ، خواہ وہ موٴ من ہوں یا کافر ، آیا یہ بات ممکن ہے؟
اس سوال کاجواب سورہٴ مو من کی ساتویں آیت میں دیاجاچکاہے جہاں فرمایاگیاہے ”وَ یَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذینَ آمَنُوا “وہ بایمان لوگوں کے لیے استغفار کرتے ہیں اور پھر یہ کہ فرشتے معصوم ہیں اوران لوگوں کے لیے ہرگزمحال چیز کا تقاضا نہیں کرتے جوبخشش کی لیاقت نہیںرکھتے ۔
۱۔ تفسیر المیزان ،جلد ۱۸ ،ص ۵ تا ۶۔
۲۔ یہ تفسیر امام جعفرصادق علیہ السلام کی ایک حدیث سے منقول ہے . ( ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی جلد ۹ ،ص ۵۸۲۲) ۔
۳۔ اگرچہ مفسرین نے ” کذالک “ کے مشارالیہ کے بار ے میں مختلف احتما لات اور مختلف تفسیریں بیان کی ہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس کا مشارالیہ یہی آیات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرنازل ہوئی ہیں. اسی لیے آیات کامفہوم یوں ہوگا ” وحی اسی اندازکی ہے جو مجھ پراور تجھ سے پہلے انبیا ء پرناز ل کرتاہے “ اور مشارالیہ کے نزدیک ہونے کے باوجود دور کااشارہ اس کی عظمت اور احترام کے لیے ہے . جیساکہ پہلے بتایا جاچکاہے۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma