آیا واپسی کی کوئی سبیل ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں ظالموں ، ستمگار وں اور تجاوز کاروں کے بار ے میں گفتگو تھی ، زیرنظر آیات میں ان کے انجام اور کچھ سزاؤں کی بات ہورہی ہے۔
پہلے توا نہیں ایسا گمراہ قرار دیاگیاہے جن کا کوئی ولی اور سرپرست نہیں ہوتا ، ارشاد ہوتاہے : جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے ، اس کے بعد اُس کا کوئی ولی مدد گا ر نہیں ہوگا (وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَما لَہُ مِنْ وَلِیٍّ مِنْ بَعْدِہِ).
جولوگ ہدایت اورضلالت کے بار ے میں قرآنی تعبیرات سے آشناہیں ان کے لیے یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ نہ تو ہدایت کاپہلو جبری ہوتاہے اورنہ ہی ضلالت کا . بلکہ یہ انسانوں کے اپنے اعمال کا براہ راست نتیجہ ہوتاہے . بعض اوقات انسان ایسے کام انجام دیتے ہیں جن کی وجہ سے خداان کی توفیق سلب کر لیتاہے اورنور ِ ہدایت ان کے دل میں خاموش کردیتاہے اورانہیں گمراہی کی تار یکیوں میںچھوڑ دیتاہے۔
یہ انسان کاعین اختیار ہے . جس طرح اگرکوئی شخص زبردست مے خواری کی وجہ سے گوناگوں بیما ر یوں میں مبتلا ہوجاتاہے ، یہ براانجام اس شخص نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے فراہم کیاہے ، چونکہ خدا کاکام اشیاء کواسباب فراہیم کرنا ہوتاہے . یہی وجہ ہے کہ نتیجہ اسی کی طرف منسوب کر تے ہیں ( ۱).
بہرحال یہ ان ظالموں کی دردناک سزاؤں میں سے ایک ہے . پھر فر مایاگیاہے : تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب الہٰی کامشاہدہ کریں گے توسخت پشیمان ہوکرکہیں گے کہ آیا واپسی اوران گناہوں کی تلافی کی کوئی سبیل ہے ؟ (وَ تَرَی الظَّالِمینَ لَمَّا رَاٴَوُا الْعَذابَ یَقُولُونَ ہَلْ إِلی مَرَدٍّ مِنْ سَبیلٍ ).
قرآن مجیدنے کئی مرتبہ کافروں اور ظالموں کی واپسی کی درخواست کاذکر کیاہے ،کبھی تویہ درخواست موت کے قریب ہونے کے وقت ہوتی ہے جیسا کہ سور ہٴ موٴ منو ن کی آیات ۹۹ تا ۱۰۰ میں ہے کہ :
حَتَّی إِذا جاء َ اٴَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ،لَعَلِّی اٴَعْمَلُ صالِحاً فیما تَرَکْت
جب ان میں سے کسی ایک کے پا س موت آجاتی ہے توکہتاہے کہ پروردگار ا ! مجھے لوٹادے تاکہ میں نے جو کو تاہی کی تھی . اس کے لیے کوئی عمل صالح بجالاؤں۔
کبھی یہ تقاضا عرصہ محشر میں ہوگا ، جب وہ جہنم کے کنارے لاکھڑ ے کئے جائیں گے ، جیساکہ سورہ ٴ انعام کی ۲۷ ویں آیت مین ہے :
وَ لَوْ تَری إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ فَقالُوا یا لَیْتَنا نُرَدُّ وَ لا نُکَذِّبَ بِآیاتِ رَبِّنا وَ نَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنین
جب وہ آگ کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے اگر تم دیکھو تووہ کہیں گے اے کاش ! ہم دنیا کی طرف لوٹ جاتے اوراپنے رب کی آیات کونہ جھٹلا تے اورمومنین میں سے ہوتے ۔
لیکن ان کی درخواست خواہ کسی بھی صورت میں ہو ، مسترد کردی جائے گی . کیونکہ واپسی کے سب امکانات ختم ہوچکے ہوں گے اور یہ خدا کاایک اٹل فیصلہ ہے . جس طرح انسان بڑ ھاپے سے جوانی کی طرف، جوانی سے بچپن کی طرف اوربچپن سے شکم مادر کی طرف واپس نہیں جاسکتا ، اسی طرح عالم برزخ اورآخرت سے بھی رجعت قہقر ائی قطعاً ناممکن ہے۔
بعد کی آ یت اس گروہ کی تیسر ی سزا کو یوں بیان کرتی ہے :اس دن تم ان کو دیکھو گے کہ جب وہ جہنم کی آگ کےسامنے پیش کئے جائیں گے توسخت ذلت کی وجہ سے سرجھکائے ہوئے کنکھیوں سے اس کی طرف نگاہ کریں گے (وَ تَراہُمْ یُعْرَضُونَ عَلَیْہا خاشِعینَ مِنَ الذُّلِّ یَنْظُرُونَ مِنْ طَرْفٍ خَفِی) (۲) ۔
وحشت اوراضطراب کی حالت ان کے تمام وجود پر مسلّط ہوگی اورذلت انہیں سرتاپا گھیرے ہوئے ہوگی اب نہ تو تکبر کانام ونشان ہوگا، نہ ہی مقابلہ بازی . سرکشی ،ظلم استبداد اورمظلوموں کے لیے اذیت اورآ زار کاکوئی موقع ہوگا اوروہ کنکھیوں سے آتش جہنم کو دیکھیں گے اوربس ۔
یہ اس شخص کی صورت حال ہوتی ہے جو کسی چیز سے زبردست ڈرجاتاہے اور پوری آنکھ سے اسے انہیں دیکھنا چاہتا اور اس سے غافل بھی نہین رہنا چاہت. مجبوراً اسے اس چیز کاخیال بھی ر کھناپڑتاہے اور با ر بار اسے دیکھنا بھی پڑتا ہے لیکن پوری آنکھ سے نہیں بلکہ نظر بچاکے ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں پر ” طرف خفی “ کامعنی نیم باز آنکھوں کے ساتھ دیکھنا ہے ،کیونکہ وہ سخت گھبراہٹ اور زبردست خوف کی وجہ سے پوری آنکھ کھولنے پر قادر نہیں ہوں گے یااس حدتک ہلکے اور سوا ہوجائیں گے کہ پو ری آنکھ بھی نہیں کھول سکیں گے ۔
جب جہنم میں داخل ہونے سے پہلے یہ حال ہوگا تو جب وہ اس کے اندر چلے جائیں گے تو ان کی کیا کیفیت ہوگی اور جب وہ عذا ب میں مبتلا ہوجائیں گے تو پھر ان کا کیا حال ہوگا ؟
آخر ی سزا جو یہاں پربیان ہوئی ہے وہ موٴ منین کی طرف سے سخت ملامت اور درد ناک سرزنش ہوگی . جیساکہ آیت کے آخر میں ہے : ایماندار لوگ کہیں گے صحیح معنوں میں وہ لوگ خسارے میں ہیں جواپنے وجود کاسرمایہ اوراپنے اہل خاندان کوقیامت کے دن کھوچکے ہیں اورنقصان اٹھا چکے ہیں (وَ قالَ الَّذینَ آمَنُوا إِنَّ الْخاسِرینَ الَّذینَ خَسِرُوا اٴَنْفُسَہُمْ واٴَہْلیہِمْ یَوْمَ الْقِیامَةَِ).
اس سے بڑ ھ کر اور کیا نقصان ہوگاکہ انسان اپنی ہستی کو کھو دے اورپھر اپنے بیوی بچوں اورقریبی عزیزوں سے جدا ہوجائے اور عذاب الہٰی میں گرفتار ہو کرحسرت اورجدائی کی آگ میں بھی جلتارہے ؟
پھرفر مایاگیاہے : اے اہل محشر ! تم سب کو معلوم ہوجانا چاہیئے کہ آج سے تمام ظالم اور ستمگر دائمی عذاب میں ہوں گے (اٴَلا إِنَّ الظَّالِمینَ فی عَذابٍ مُقیمٍ ).
ایسا عذاب جس کے ختم ہونے کی کوئی امید نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مدت مقرر ہے . ایسا عذاب جوجسم وجان کے اندرونی اوربیر ونی حصوں کوجلاتا اوربھسم کرتارہے گا ۔
بعید نہیں ہے کہ یہ الفاظ کامل الایمان مومنین کے ہوں کہ جن میں سر فہرست ابنیاء اللہ وائمہ اہلبیت علیہم السلام اورخدا کے اولیاء اورخاص بندے ہیں، کیونکہ وہ گناہوں سے پاک اورسربلند ہوتے ہیں اورانہیں ایسی باتیں کہنے کاحق بھی پہنچتاہے وہ ایسے مظلوم ہیں جوان ظالموں کے ہاتھوں بہت دکھ جھیلتے رہے ہیں وہ ایسی باتیں کہنے کے مجاز اور مستحق ہیں . ( بعض روایات ِ اہلبیت علیہم السلام میں بھی اسی طرف اشارہ کیاگیاہے ( ۳) ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ جن ظالموں کے لیے ” دائمی عذاب “ ہے قرینے کے مطابق ان سے کافرلوگ مراد ہیں . جس طرح کہ قرآن کی بعض آیات میں اسی چیز کو بیان کیاگیاہے ، مثلا ً :
والکافرون ھم الظا لمون
کا فر ہی ظالم ہیں۔
بعد کی آ یت بھی اسی بات کی گواہ ہے کہ جس میں کہاگیاہے : ان کے اولیاء اور مد دگار نہیں ہیں جوان کی مدد کریں اورعذاب الہٰی ان سے دور کریں (وَ ما کانَ لَہُمْ مِنْ اٴَوْلِیاء َ یَنْصُرُونَہُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ ).
ان لوگو ں نے اپنے تعلقات خداکے خالص بندوں ، انبیاء و اولیاء سے منقطع کر لئے تھے ،لہٰذ اوہاں پر بھی ان کا کوئی یارو مددگار نہیں ہوگا ،مادی طاقتیں بھی بیکار ہوچکی ہوں گی ، اسی لیے وہ تن تنہا عذاب الہٰی میں گرفتار ہو ں گے ۔
اس معنی کو مزید تاکید کے لیے آ یت کے آخر میں فر مایا گیا ہے : جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کی نجات کی کوئی سبیل نہیں ہے (وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَما لَہُ مِنْ سَبیل).
اس سے پہلی آیات میں ” وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَما لَہُ مِنْ ولی من بعدہ “ آیاہے جس میں ولی اور سرپرست کی نفی کی گئی ہے اور یہاں پر ” راہ نجات “ کی نفی ہے . کیونکہ مقصد تک پہنچنے کے لیے دوچیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ، ایک راہ اور دوسرے راہنمائی لیکن یہ گمراہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہیں۔
۱۔ اس بار ے میں تفصیل گفتگو ہم نے تفسیر نمونہ کی ۱۹ ویں جلد میں سور ہ ٴ زمر کی ۳۶ ویں آیت کے ذیل میں کی ہے اور اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
۲۔ ” طرف “ ( بروزن ” برف “ ) مصد ر ہے اور آنکھ کی گردش کے معنی میں ہے اور” طرفتہ العین “ آنکھ کی ایک گردش کے معنی میں ہے . نیز ” علیھا“ میں ” ھا“ کی ضمیر عذاب کی طرف لوٹ رہی ہے . اگر چہ مذکر ہے لیکن چونکہ یہاں پر نا راورجہنم کے معنی میں ہے لہٰذاموٴ نث کی ضمیر اس کی طر ف لوٹ رہی ہے۔
۳۔ تفسیرنو رالثقلین ،جلد ۴ ،ص ۵۸۶۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma