۲۔ وحی کی اسرار آمیزحقیقت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

وحی کی ماہیت کے بار ے میں بہت کچھ کہاجاچکاہے . لیکن چونکہ یہ مخفی اور مرموز رابط ہمارے ادراک کی حد ود سے خارج ہے لہٰذا یہ سب بیانات بھی مسئلے کوصحیح صورت میں اورواضح طورپر بیان کرنے سے قاصر ہیں . بلکہ صورتوں میں توغلط راستے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں درحقیقت جوکہنے کی بات تھی وہ وہ توخلاصے کے طور پر خوبصورت انداز میں زیر تفسیر آیت میں بیان ہوچکی ہے اوراس بار ے میں علماء کی بہت زیادہ کوشش بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی .لیکن پھر بھی ضر وری معلوم ہوتاہے کہ اس مقام پر قدیم اور جدید فلاسفہ کی ان تفاسیر کوپیش کیاجائے جوانہوں نے وحی کے بار ے میں کی ہیں۔
الف :بعض قدیم فلاسفہ کی تفسیر
بعض قدیم فلاسفہ تفصیلی مقدامات کی بنا پراس بات کے معتقد تھے کہ وحی نام ہے نفس پیغمبرکے ” عقل فعال “ کے ساتھ انتہائی زیادہ اتصال کا کہ جس عقل کا سایہ ” مشتر ک حس “ اور” خیال “ پر بھی چھایاہواہے۔
اس کی تشریح یہ ہے کہ ان کاعقیدہ تھا کہ
۱۔ انسانی روح میں تین قو تیں پائی جاتی ہیں۔
(۱) حسّ مشترک
(۲) قوہ ٴ خیال
( ۳) قو ہ ٴ عقل
حسّ مشترک وہ ہوتی ہے جس کے ذ ریعے انسان محسوس چیزوں کا اد راک کرتاہے۔
قوہ ٴ خیال وہ ہوتی ہے جس کے ذ ریعے انسان جزئی صورتوں کاادراک کرتاہے۔
قوہ ٴ عقل وہ ہوتی ہے جس کے ذ ریعے وہ کلی صورتوں کاادراک کرتاہے۔
۲۔ وہ نوبطلمیوسی افلاک پر بھی عقیدہ رکھتے تھے اوران افلاک کے لیے ” نفس مجرو“ ( جس طرح ہمارے بدن کے لیے روح کی حیثیت ہوتی ہے ) کے بھی قائل تھے . وہ کہتے تھے کہ یہ فلکی نفوس ، مجر ومو جودات کے جن کانام ”عقول “ ہے سے ہدایت پاتے ہیں . اس طرح سے وہ نو افلاک کے ساتھ نوعقول کے ارتباط کے قائل تھے ۔
۳۔ ان کاعقیدہ تھا کہ انسانی نفوس اور ارواح کو اپنی استعدادات اور صلاحیتوں کوعملی وجود میں لانے اورحقائق کا ادراک کرنے کے لیے ” مجرد و جود “ سے کسب فیض کرنا چاہیئے جسے وہ ” عقل فعّال “ کانام دیتے تھے . اس کا نام تو” دسویں عقل “ ” عقل عاشر “ تھالیکن اسے ” عقل فعال “ اس لیے کہتے تھے کہ وہ جزئی عقول کی صلاحیتوں کو عملی صورت عطا کرنے کاسبب تھی ۔
۴۔ ان کا نظر یہ تھا کہ انسان کی روح جس قدر قوی ہوگی ، عقل فعال سے اس کارابط اوراتصال اتناہی زیادہ ہوگا کہ جومعلومات کامنبع اورخزانہ ہے . اسی لیے ایک قوی اور کامل روح انتہائی کم مدت میں حکم الہٰی کے مطابق عقل فعا ل سے زیادہ معلومات حاصل کرسکتی ہے۔
اسی طرح قوت خیال جس قدر قوی ہوگی ان مطالب کی حسی صورتوں میںاسی قد رزیادہ سے زیادہ ڈھال سکے گی .اورحس مشترک جتنی زیادہ قوی ہوگی انسان اتناہی زیادہ خارج میں موجود محسوس چیزوں کاادراک کرسکے گا ۔
پھروہ ان تمام مقدمات سے یہ نتیجہ نکالتے تھے ک پیغمبر کی روح چونکہ انتہائی زیادہ قوی ہوتی ہے اوراس کا” عقل فعال “ کے ساتھ رابط اوراتصال بہت قوی ہوتاہے اسی لیے وہ اکثر اوقات ، معلومات کوکلی صورت میں ”عقل فعال “ سے حاصل کرسکتاہے۔
نیز نبی کی قوت خیال بھی چونکہ زبردست قوی ہوتی ہے اور ساتھ ہی قوت عقل کے تابع ہوتی ہے لہٰذا ” عقل فعال“ سے حاصل ہو نے والی محسوس اورمناسب صورتوں کو وہ ان کلی صورتوں کے حوالے کرسکتاہے اوراپنے ذہنی افق میں انہیں حسّی لباس میں دیکھ سکتاہے . مثلاً اگروہ کلی ، معانی اوراحکام کی قسموں سے ہیں تو انہیں نہایت ہی موزوں اور نہایت ہی فصیح وبلیغ الفاظ میں کسی شخص کی زبان سے نہایت ہی مکمل صورت میں سن سکتاہے۔
نیز چونکہ اس کی قوت خیال کو اسکی حس مشترک پرمکمل تسلّط حاصل ہوتاہے لہٰذاوہ ان صورتوں کو محسوسیت کے سانچے میں ڈھال سکتی ہے اور نبی اس شخص کواپنی آنکھوں سے دیکھ سکتاہے اوراس کی باتوں کو اپنے کانوں سے سن سکتاہے۔
تنقید وتبصرہ :یہ سب تصریحا ت ایسے مقدمات پرمشتمل ہیں جن میں سے اکثر آج مستر د کئے جاچکے ہیں ،ان مشتردشدہ مقدمات میں سے نوافلاک اوران سے متعلقہ عقول اور نفوس کابطلمیوسی نظر یہ بھی ہے ، جسے آج قصے کہانیوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے . کیونکہ ان کے اثبات پرکوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ ان کے اخلاق پردلائل موجود ہیں۔
اور ساتھ ہی یہ مفروضہ، وحی کے بار ے میں قرآن کی واضح آیات کے ساتھ بھی ہم آہنگ نہیں ہے . کیونکہ قرآنی آیا ت صراحت کے ساتھ وحی کوخداکے ساتھ ایک طرح کارابط بتاتی ہیں جو کبھی تو دل پرالہام ، کبھی فرشتہ ٴ وحی کے نزول اورکبھی صو تی لہروں کے سننے کے ذ ریعے حاصل ہوتاہے اوران کا یہ اعتقاد کہ یہ سب کچھ قوت خیال اورحسّ مشترک کی فعالیت کے نتیجے میں حاصل ہوتاہے ، بالکل بے بنیاد اور قرآنی تصریحات کے یکسر منافی ہے . اس عقیدے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس سے نبی کو بھی فلاسفہ اور دوسرے نابغہ روز گا ر لوگوں کے زمر ے میں شمار کیاجاتاہے . البتہ نبی کو ان سے زیادہ طاقتورعقل اورزبردست روح کامالک ماناجاتا ہے . جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وحی کاراستہ کچھ اور ہے اورعقلی ادراکات کاراستہ کچھ او ر . اس قسم کے فلاسفہ نے سوچے سمجھے بغیروحی اورنبوت کی بنیاد وں کو بگا ڑ کررکھ دیااور حقیقت انہین سمجھ نہ آئی تو یوں افسانہ بنادیا . اس کی مزید تشریح آئندہ گفتگو میں پیش کی جائے گی۔
ب:وحی کے بار ے میں جدید فلاسفہ کیاکہتے ہیں ؟
فلاسفہ کا یہ گروہ بطو ر خلاصہ وحی کو ” باطنی شعور “ یا ” ناآگاہ شعور “ کاایک مظہر سمجھتے ہیں۔
بیسویں صد ی کے انسا ئیکلو پیڈ یامیں ” وحی “ کے مادہ میں لکھاہے کہ ’ ’ اہل یورپ سولہویں صدی عیسوی تک دوسر ی اقوام کے مانند وحی کے قائل تھے کیونکہ ان کی مذہبی کتابیں انبیا ء کرام علیہم السلام کی خبروں سے بھری ہوئی تھیں . نئے علوم کی آمد سے تمام روحی اورما وراء طبیعت مباحث پرانہوں نے خط تنسیخ کھینچ دیااوروحی کامسئلہ بھی قدیم افسانوں میں شمار ہونے لگا ۔
انیسویں صدی عیسو ی کے آغاز سے ہی دانشو روں اوراسکالروں کے ذ ریعے سے روح کی دنیا کاحسّیِ دلائل سے اثبات کیاجانے لگا اورمسئلہ وحی پھر ایک بارزندہ ہوگیا . ان مباحث کی انہوں نے تجربی اورعملی بنیادوں پرتحقیق کی اور ایسے نتائج پرپہنچے جواگرچہ مسلم دانشور وں کے نظر یے سے تومختلف تھے لیکن ایک اہم موضوع کے اثبات کی جانب اسے ایک اہم اقدام ضرور سمجھاجانے لگاجسے کل تک خرافات میں شمار کیاجاتاتھا ۔
فلاسفہ کے اس گروہ نے روحی مباحث کامطالعہ کیااوراب تک (اسانسائیکلو پیڈ یاکے زمانے تک (پچاس ضخیم کتابیں مذ کورہ موضوع کے بار ے میں ان کی طرف سے لکھی جاچکی ہیں . ان کتابوں کے ذ ریعے انہوں نے بہت سے اہم روحی مسائل کوحل کر دیا ہے جن میں ایک مسئلہ وحی بھی ہے ( 1).
اس بار ے میں بھی بہت سی باتیں قابل بحث ہیں لیکن ان کی گفتگو کالب لباب یہی ہے کہ وہ وحی کو ” نا آگاہ شعور کی ایک تجلی “ سمجھتے ہیں . ( ناآگاہ شعور کا دوسرانام مخفی وجدان ہے ) جو آگاہ شعورسے کئی درجے زیادہ قوی اورطاقتور ہے اور چونکہ ابنیاء عام آدمی نہیں تھے ) بلکہ غیر معمولی انسان تھے لہٰذا ان کا مخفی وجدان یاناآگاہ شعور بھی زبردست طاقتور تھا اوراس کے نتائج بھی نہایت اہم اورقابل توجہ تھے ۔
تنقید اورتبصرہ : یہ بات بالکل ظاہرہے مکہ ان حضرات نے جوکچھ کہاہے وہ صرف ایک مفرو ضہ ہے اوراس پرکوئی ٹھوس اوروزنی دلیل پیش نہیں کی . ان لوگوں نے درحقیقت ابنیاء کانابغہ روز گار اور عظیم شخصیت کے عنوان سے تعارف کرو ا یاہے . نہ کہ اس عنوان سے کہ ان کاعالم ہستی کے مبدا خدا سے کوئی رابط ہوتاہے اوریہ کہ وہ اپنے وجود سے باہر سے علوم حاصل کرتے ہیں۔
ا ن کی غلط فہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وحی کو بھی اپنے سائنسی معیار پر جانچنے کی کوشش کی ہے اُن کے اس معیار پرجو چیز بھی پوری نہیں اترتی وہ اسکاانکار کردیتے ہیں. وہ صرف انہیں مو جودات عالم تسلیم کرتے ہیں کہ جنہیں وہ درک کرتے ہیں اور جس چیز کودرک نہیں کرتے اسے معدوم سمجھتے ہیں۔
اس قسم کی طرز فکر کے غلط نتائج نہ صرف وحی کے سلسلہ میں ظاہر ہوئے ہیں بلکہ اوربھی بہت سے فلسفی اور عقائدی مسائل میں ظاہر چکے ہیں .اصولی طور پراس طرح کے طرزفکر کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی ہے کیونکہ وہ کائنات کی تمام موجودا ت کو مادیت اوراس کے عوارض میں منحصر کردینے کو کسی دلیل کے ساتھ ثابت نہیں کر پائے ۔
ج: نبوغ فکری
بعض اورحضرات مذ کورہ دانشو روں سے بھی دوقدم آ گے بڑھ گئے ہیں اورانہوں نے وحی کو انبیا ء کے نبوغ فکرکا نتیجہ سمجھ لیاہے اوروہ کہتے ہیں چونکہ ابنیاء پاک فطرت اوربالا ترین نبو غ کے حامل لوگ تھے لہٰذا وہ انسانی معاشروں کی مصلحتوں کوسمجھتے تھے اسی لیے وہ معارف اورقوانین کی صورت میں انسانوں کے سامنے اپنے افکار کوپیش کیاکرتے تھے ۔
درحقیقت اس قسم کے باتیں ابنیاء کی نبوت کاصریح انکار اوران کی باتوں کی کھلی تکذیب ہے اوراس طرح سے انہیں طرح طرح کی کذب بیانی سے متہم کرنے کی کوشش ہے۔ ( العیاذ باللہ).
زیادہ واضح الفاظ میں ہم بتادیں کہ فلاسفہ کی مذ کورہ بیان شدہ عبارتوں میں کوئی بھی وحی کی تفسیر نہیں ہے ،بلکہ ان کے اپنے مفروضے ہیں جوان کے افکار وخیالات کی اختر اع ہیں چونکہ وہ اپنی معلومات کے ما وراء دوسرے تمام حقائق کے انکار پرتلے ہوئے ہیں الہٰذا ایسی گمراہی کاشکار ہوگئے ہیں۔
وحی کے بار ے میں سچی بات
اس میں شک نہیں کہ ہم وحی کے رابطے اوراس کی حقیقت سے کما حقہ واقف نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک قسم کا ادراک ہے جو ہمارے ادراکات کی حدود سے باہر ہے اورایک ایسارابط ہے جوہماری پہچان کے ذ رائع سے خارج ہے ،غرض عالم وحی ہمار ے لیے ایک نا معلوم اورہمار ے ادراک سے بالا تر عالم ہے۔
سچ مچ ایک خا کی انسان کائنات کے مبداٴ سے کس طرح رابط پیداکر تاہے اور ازلی وابدی اور بے انتہا خالق اپنی محدود اور ممکن الوجود مخلوق سے رابط پیداکرتا ہے اور نزول وحی کے وقت نبی کوکیسے یقین ہوجاتاہے کہ یہ خدا کی طرف سے رابط ہے ؟
یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے اوراس بار ے میں اصرار کرنابھی بے موقع ہے۔
یہاں پر جو بات ہماری عقل میںآ تی ہے اوربحث کرنے کے قابل بھی ہے وہ ہے اس قسم کے رمز یہ رابطے کا اصل وجود یاامکان . چنانچہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جو اس امر کے امکان کی نفی کرے بلکہ اس کے برعکس ہم کائنات میںبہت سے رمز یہ رابطے دیکھتے ہیں لیکن ان کی تفسیر کرنے سے عاجز ہیں اورایسے رابطے ثابت کرتے ہیں کہ ہمار ے حواس اور رابطوں کے مافوق بھی کچھ ادراکات اورارتباط موجود ہیں۔
مناسب ہوگا اگر ہم یہاں پر ایک مثال کے ذ ریعے اس بات کی وضاحت کریں۔
فر ض کیجئے کہ آپ ایک ایسے شہرمیں رہتے ہیں جس میں تمام ( ما در زاد) اندھے رہتے ہیں لیک ان سب لوگوں میں سے صرف آپ ہی آنکھوں سے دیکھنے والے ہیں . اس شہر میں سارے لوگ چار حس والے ہیں (اگر انسان کی ظاہری حسّیں پانچ مانیں یعنی حواس خمسہ ) صرف آپ ہی ہیں جوحواس خمسہ کے مالک ہیں . آپ ہمیشہ اس شہر میں نئے نئے واقعات کااپنی آنکھوں سے مشاہد ہ کرتے رہتے ہیں اوران مشاہدات کواہل شہرتک پہنچاتے رہتے ہیں. لیکن وہ سب اس بات پرتعجب کرتے ہیں کہ یہ مر موز پانچویں حس کیا ہے جس کا دائرہ کاراس قدر وسیع ہے ؟اورآپ جس قدر بھی حس باصرہ کے متعلق وضاحت اور اس کے طریقے کے بار ے میں تفصیلی گفتگو کریں بے فائدہ ہے سوائے موہوم سے تصور کے ان کی سمجھ میں کچھ نہیںآ ئے گا .ادھر ایک تووہ اس کاانکار بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ اس کے مختلف آثار کومحسوس کررہے ہوتے ہیں اوردوسرے اس کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ بھی نہیں کرپائیں گے کہ بینائی کی حقیقت کیاہوتی ہے کیونکہ انہوںاپنی ساری زندگی کے دوران میں ایک لمحے کے لیے بھی بینائی سے کام نہیں لیا ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ وحی ” چھٹی حِس “ ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہ ایک قسم کااوراک اور عالم غیب اورخدا کی پاک ذات کے ساتھ رابط ہوتاہے . چونکہ ہم اس قسم کے ادراک اوررابطے سے محروم ہیں اس لیے اس حقیقت کاکماحقہ ادراک نہیں کر سکتے . صرف اس کے آثار کی وجہ سے اس کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں۔
ہم تو صرف اتناجانتی ہیں کہ بڑ ے عظیم لوگ انسانوں کی طرفایسی دعوت لے کر آئے جس کے مطالب افکار انسانی کی پہنچ سے بہت بلند ہیں . انہوں نے لوگوں کواللہ کے دین کی طرف دعوت دی اور اپنے ساتھ کچھ معجزات بھی لائے جو انسان کے بس کی بات نہیں تھے البتہ ان سے یہ ضرور معلوم ہوتاہے کہ ان انبیاء کا عالم غیب رابط سے . آ ثار ظاہر ہیں لیکن حقیقت امرمخفی ہے۔
کیاہم نے کائنات کے تمام رازوں سے پردہ اٹھالیا ہے اورصرف وحی کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے اس کاانکار کرتے ہیں۔
جب کہ ابھی تک تک تو ہم جانوروں کے مرموز طریقہ کار کے سمجھنے اوراس کی تفسیر کرنے سے عاجزہیں . آیا ان مہا جرپر ندوں کی اسر ار آمیز زندگی ہم پرروشن ہوچکی ہے جوبعض اوقات سالانہ اٹھا رہ ہزار کلو میٹر کافاصلہ طے کر کے قطب جنوبی سے قطب شمالی تک سے قطب جنوبی تک جاپہنچتے ہیں ؟
ہمیں توآج تک اس بات کاپتہ بھی نہیں چل سکاکہ وہ سمت کی پہچان کیونکر کرتے ہیں راستے کو صحیح طور پر کس طرح پہچاتے ہیں؟دن رات ، روشنی اور تاریکی میں دور دراز کاسفر کس طرح طے کرتے ہیں ؟جب کہ اگرہم یہ سفر فنی وسائل اورراہ شناس کی مدد کے بغیرطے کرناشروع کریں تو اس کا ایک فیصد فاصل طے کئے بغیر گم ہو جائیں . یہ ایک ایسا راز ہے جس سے علم ودانش ، سائنس اورٹیکنالوجی نے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا ۔
اسی طرح سمندر وں کی گہرا ئیوں میں مچھلیوں کے غول رہتے ہیں جو عام طو ر ہر انڈ ے دینے کے لئے ہزاروں میلوں کافاصلہ طے کرکے اپنی اصل پیدائش گاہ کی طرف لوٹ آتے ہیں . وہ اپنی اصل پیدائش گاہ کو اس آسانی کے ساتھ کیسے پالیتے ہیں؟
اس قسم کے مرموز حقائق ہماری دنیا میں بے انتہا ہیں اور یہی مرموز حقائق ہمیں وحی کاانکار اور نفی کرنے سے روکتے ہیں اور شیخ الرئیس بو علی سینا کے اس قول کی یاد دلاتے ہیں:
کل ماقرع سمعک من الغرا ئب فضعہ فی بقعة الامکان،لم یذدک عنہ قاطع البرھان
اگر عجائبات کے بار ے میں تم سنو تو ان کافوراً انکارنہ کر دوبلکہ انہیں امکانی خطے میں رکھ چھوڑ و ، جب تک کہ کوئی قاطع دلیل اس کے قبول کرنے سے نہ روکے ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مادہ پرستوں نے مسئلہ وحی کے انکار کے لیے کیاہاتھ پاؤں مارے ہیں ؟
منکرین وحی کے دلائل
جو نہی وحی کے مسئلے کی بات ہوتی ہے تو بعض مادہ پرست بڑی جلدی سے یہ جواب دے دیتے ہیں کہ یہ چیز سائنسی اصول کے خلاف ہے۔
لیکن جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ اس کی کونسی چیز سائنسی اصولوں کے خلاف ہے ؟ تو و ہ فوراً ہی مغر ور ہو کر دوٹوک انداز میں کہہ دیتے ہیں جن چیزوں کوسائنس نے ثابت نہیں کیا ان کو نہیں مانا جاسکتاوہ کہتے ہیں کہ اصو لی طور وہی چیز ہمار ے لیے قابل قبول ہے جو سائنسی تجربات سے ثابت ہو ۔
وہ کہتے ہیں کہ وحی کی بات تو بعد کی ہے ،سائنسی تجربات اور تحقیقا ت سے وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ابھی انسانی جسم وروح کے بار ے میں تحقیقات اور سائنسی مطالعات سے ہمیں کسی ایسی حس مرموز کاپتہ نہیں چلاکہ جو ہمیں عالم ِ ماوراء سے مربوط کرے ۔
وہ کہتے ہیں کہ انبیاء بھی ہمار ی ہی نوع سے تھے ہم کس طرح باور کرسکتے ہیں کہ ان میں ہمارے احساس و ادراک سے کوئی مافوق احساس و ادراک ہو ۔
ہمیشہ کا اعتراض اور ہمیشہ کاجواب
مادہ پرستوں کا یہ طریقہ کار صرف مسئلہ وحی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ وہ ہر ماوراء طبیعت مسئلے کے بار ے میں یہی رویہ اختیار کر تے ہیں اور ہم بھی ان کی غلط فہمی دور کرنے ک لیے ہمیشہ انہیں یہ کہتے ہیں کہ
یہ بات ہمیشہ یادرکھیں کہ علمی قلمر و ( البتہ جہاں پر علم کی بات ہوتی ہے وہاں پر ان کی مراد سائنسی اورتجر باتی علوم ہو تے ہیں ) یہی مادی دنیا ہے ، سائنسی مباحث کے معیار اورآلات یاتو لیبا ر ٹر یاں ہیں یاپھر مٹیلی سکوپ ، ما ئیکر وسکوپ اورپوسٹ مارٹم کے لیے آپر یشن تھیڑ ہیں اور سب ریسرچ اسکالرزاسی محدود ے میں اپنا کام انجام دیتے ہیں . یہ علوم اپنے ان آلات اور معیار کے ذریعے کبھی بھی مادی دنیا سے ہٹ کرکوئی بات نہیں کرتے ، نہ تو کسی بیرونی چیز کی نفی کرتے ہیں اور نہ ہی اس کااثبات. اس کی دلیل واضح ہے کہ اس قسم کے آلات اور معیار کی توا نائی محد ود اورحّدِ کار مخصوص ہے۔
بلکہ سائنس کے آلات اسی چیز کے لیے کار آمد ہیں جس کے لیے وہ بنائے گئے ہیں اوردوسر ی چیز کے لیے وہ بیکار ہیں . مثال کے طور پر اگر ہم تپ دق کے جرا ثیموں کو ستار ے دیکھنے والے کسی عظیم ٹیلی سکوپ کے ذریعے دیکھنا چاہیں تو نظر نہیں آ ئیں گے لیکن اس طرح سے ہم جرا ثیموں کا انکار نہیں کرسکتے . یااگر پلوٹون ستارے کو ہم خو ردبین کے ذریعے دیکھنا چاہیں تو وہ منظر نہیں آئے گا لیکن اس کامقصد یہ نہیں ہے کہ وہ ہے ہی نہیں۔
غرض کسی علم کی شناخت کے لیے اسی سے متعلق آلات کااستعمال کیاجاتا ہے اور ما وراء طبیعت کا ئنات کی شناخت کاآلہ بھی قوی عقلی دلائل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جو ہمارے لیے عظیم کا ئنات کی راہیں کھولتے ہیں۔
جو لوگ علم کوا س کی قلمرد سے خارج کرتے ہیں درحقیقت نہ تووہ عالم ہیں اورنہ ہی فیلسوف بلکہ علم کے صرف جھوٹے اور گمراہ دعویدار ہیں۔
ہم توصرف اتنا جانتے ہیں کہ کچھ عظیم انسان اس دنیا میںآ ئے اورانہوں نے ہمارے سامنے ایسے مسائل پیش کئے جوانسانی طاقت سے بالکل باہر ہیں اوران سے ظاہر ہوتاہے کہ مادی کائنات سے ماوراء دنیا کے ساتھ ان کا بہت مستحکم ربط تھا.اب رہایہ سوال کہ ان کا یہ رابط کس قسم کاتھا ؟تو اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہے،سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس طرح کا رابط تھا ضرور ۔
مسئلہ وحی کے بار ے میں چندحدیثیں
وحی کے بار ے میں اسلامی کتب میںبہت ساری حدیثیں وارد ہو ئیں ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کرام کامبداٴ وحی کے ساتھ اسرار آ میز رابط تھا ۔
۱۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر فرشتے کے ذ ریعے وحی نازل ہوتی تھی و اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حالت معمول کے مطابق ہوتی تھی لیکن جب براہ راستہ رابط قائم ہوتا تھا توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک زبردست بوجھ محسوس کرتے تھے حتٰی اوقات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر غشی طاری ہوجاتی تھی،جیسا کہ شیخ صدوق رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ” توحید “ حضر ت امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کی ہے جو آپ علیہ السلام سے پوچھاگیا:
ماالغشیة التی کان تصیب رسول اللہ (ص) اذانز ل علیہ الوحی ؟قال ذالک اذالم یکن بینہ وبین اللہ احد، ذاک اذا تجلی اللہ لہ
وہ غشی کیاتھی جووحی کے موقع پررسول اللہ پرطاری ہوجاتی تھی ؟

تو امام علیہ السلام نے فر ما یا:یہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ کے اورخدا کے درمیان کسی اور کاواسط نہیں ہوتا تھا اور آپ پربراہ راست خداکی تجلی ہوتی تھی ( 2).
2۔ جب جناب جبرائیل علیہ السلام حضور گر امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پرنازل ہوتے تھے تو نہایت ہی ادب اوراحترام کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس آتے تھے،جیساکہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فر ماتے ہیں :
کان جبرائیل اذااتی النبی (ص) قعد بین یدیہ قعدہ العبید ،و کان لایدخل حتی یستاٴ ذنہ
جب جبرائیل بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خدمت میںآتے توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے سامنے غلاموں کی طرح بیٹھ جاتے اور بغیر اجازت کے کبھی بھی اندر نہ آتے تھے ( 3).

۱۔ دائرة المعارف قرن بیستم ( بیسو ی صدی کا انسائیکلوپیڈ یا) از قرید و جد ی ( مادہ وحی )۔
2۔ بحارالانوار ،جلد ۸ ،ص ۲۵۶، بحوالہ توحید صدوق ۔
3۔ بحارالانوار ،جلد ۸ ۱،ص ۲۵۶ ،بحوالہ علل الشرائع ۔

۳۔ ایک اور روایت سے معلوم ہوتاہے کہ رسل اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک طرح کی توفیق الہٰی ( اورباطنی شہود ) کے ذریعے جبرائیل کو اچھی طرح پہچان لیتے تھے جیساکہ امام جعفرصادق علیہ السلام فر تے ہیں :
ماعلم رسول اللہ ان جبر ئیل من قبل اللہ الا بالتوفیق
رسول اللہ جبرائیل کوتوفیق الہٰی کے ذریعے پہچان لیاکرتے تھے ( 1).

1۔ بحارالانوار ،جلد ۸ ۱،ص ۲۵۶ ۔

۴۔ ایک اورروایت میں عبد اللہ بن عباس سے ، نز ول وحی کے وقت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ ولہ وسلم) پرغشی طاری ہوجانے کی تفسیر یوںبیان ہوئی ہے :
کان النبی اذانزل علیہ الوحی وجدنہ الما شدیدً ا ویتصد ع راسہ ویجد ثقلا وذالک قولہ ” انا سنلقی علیک قولاً ثقیلا ً ،وسمعت انہ نزل جبرائیل علی رسو اللہ ستین الف مرة
جب رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پروحی نالز ہوتی توآپ اپنے اندرسخت دردمحسوس کرتے اورسرمبارک میں بھی درد ہوجاتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زبردست بوجھ بھی محسوس کرتے اور یہی وہ چیزہے جسے قرآن نے بیان کیاہے کہ ” ہم بہت جلدتجھ پر سنگین باتیں القاکریں گے “ ( عبداللہ کہتے ہیں کہ ) میں نے سنا ہے کہ رسو ل اللہ کے پاس جبرائیل ساٹھ ہزار مرتبہ نازل ہوئے ( 1).

1۔بحارالانوار ،جلد ۸ ،ص ۱ ۲۶ ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma