خود ایمان نہیں لا تے تو دوسر وں کو تو نہ روکو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
گزشتہ آ یات میں مشرکینِ عرب کی سرکشی اورحق کے آگے ان کے نہ جھکنے کا ذکر تھاان آ یات میں گزشتہ امتوں کاایک نمونہ پیش کیاگیاہے کہ جنہوں نے اسی راستے کواختیار کیاجس کے نتیجہ میں وہ دردناک عذاب کاشکار اور شکست فاش سے دوچار ہُو ئے تاکہ جہاں پر یہ بات موٴ منین کے دل تسلّی کا باعث ہو وہاں پر ہٹ دھرم منکرین کے لیے تنبیہ اورتہدید بھی بن جائے ۔
اوروہ ہے مُوسیٰ اور فرعون کی داستان ، جس کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتاہے: اوراُن سے پہلے ہم نے قوم ِ فرعون کی آ زمائش کی (وَ لَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ ) ۔
” فتنا“ کا کلمہ ” فتنہ “ کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی ہے کندن بنانے کے لیے سُونے کوآگ کی بھٹی میں ڈالنا ، بعد ازاں انسان کے خلوص کی ہرگونہ آز مائش وامتحان پراس کااطلاق ہونے لگا ، ایسی آ زمائش جوتمام انسانی زندگی اورانسانی معاشروں پر محیط ہے ، یاالفاظ دیگر انسان کی زندگی کاتمام دورانیہ انہی آ زمائشوں اورامتحان میں گز ر تارہتاہے ، کیونکہ یہ دُنیا ہے ہی امتحان کاگھر ۔
قومِ فرعون ایک طاقت ور حکومت ، بے پناہ دولت اور بے اندازہ وسائل کامالک ہونے کی وجہ سے نہایت شان و شوکت کی زندگی بسر کر رہی تھی ، اسی شان وشوکت نے اسے مغرور بنادیا اور وہ مختلف گناہوں اور ظلم وستم کاارتکاب کرنے لگی ۔
” اسی اثنا میں ان کے پاس ایک بزرگوار رسُول آ یا (وَ جاء َہُمْ رَسُولٌ کَریمٌ) ۔
” اخلاق واوصاف کے لحاظ سے ” کریم “ بارگاہ ِ حق میں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے ” کریم “ نسب کے لحاظ سے ’ ’ کریم “ اور یہ رسُول جناب موسیٰ بن عمران علیہ السلا م کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا (۱) ۔
مُوسیٰ علیہ السلام نے نہایت سُلجھے ہُوئے انداز میں اور سنجیدہ لہجے میں ،دِل پذیر اورمحبت بھرے انداز سے انہیں مخاطب کرتے ہُوئے فرمایا : میرے آ نے کامقصد یہ ہے کہ اے خدا کے بند و ! میرے سامنے سرتسلیم خم کرو اور جس چیز کاتمہیں حکم ملا ہے اسے اد اکرو کہ میں اس کا بھیجا ہواہوں ( اٴَنْ اٴَدُّوا إِلَیَّ عِبادَ اللَّہ) (۲) ۔
اس تفسیر کے کے مطابق ” عباداللہ “ مخاطب ہے اوراس سے مراد قومِ فرعون ہے ، اگر چہ قرآنی آ یات کی رُو سے یہ تعبیر خدا کے نیک بندوں کے بارے میں استعمال ہوئی ہے ، لیکن بہت سے مقامات پر کفار اور گنا ہگاروں کی دل جوئی اوران کی حق کی طرف تالیف قلب کے لیے بھی یہ کلمہ استعمال ہوا ہے ( ۳) ۔
بنا بریں ” ادّوا“ ( اداکرو ) سے مراد فرمانِ الہٰی کی اطاعت اوراس کے احکام کی بجا آوری ہے ۔
بعض مفسرین نے اس آ یت کی ایک اور تفسیر کی ہے اور کہاہے کہ ” عباداللہ “ سے مراد ’ ’ بنی اسرائیل “ میں اور” ادّوا “ سے مراد انہیں موسیٰ علیہ السلام کے سُپرد کرنااورانہیں قید و بند سے آ زاد کرنا ہے ، بالکل ویسے ہی جیسے سُورہٴ شعرا کی ۱۷ ویں آ یت میں مذ کوُر ہے ۔
”اٴَنْ اٴَرْسِلْ مَعَنا بَنی إِسْرائیل “
” میری تجو یزیہ ہے کہ تم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو “ ۔
( یہی بات سورہٴ اعراف کی ۱۰۵ ویں اورسُورہٴ طٰہٰ کی ۴۷ ویں آ یت میں بھی بیان ہوئی ہے ) ۔
لیکن جوچیز اس تفسیر سے ہم آہنگ نہیں وہ لفظ ” ادّوا“ جو عام طور پر مال ، امانتوں اورفرائض کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوتاہے نہ کہ افراد سپُرد کرنے کے لیے ۔
اس کلمہ کے استعمال سے اس کا موضوع بخوبی واضح ہوجاتاہے ۔
بہرحال ، آ یت کے آخر میں اپنے اوپر لگائے جانے والے الزاما ت کی تردید کرتے ہُوئے فرماتے ہیں : ” میں تمہار ا ایک امانت دار پیغمبر ہوں “ (ِ إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ اٴَمین) ۔
یہ تعبیر درحقیقت ان نا جائزاالزامات کی پیش بندی کے طورپر ہے جوفرعونیوں نے ان پر لگا ئے تھے ،مثلاً جادو گری، جاہ ومنصب اورسرزمین مِصر میں اپنی حکومت کاقیام ،نیز اس سرزمین کے اصل باشندوں کو باہر نکل دینے کا قصد وغیرہ ،ان الزامات کے بارے میں مختلف آ یاتِ قرآنی میں اشارہ ہوا ہے ۔
پھر موسیٰ علیہ السلام انہیں اطاعت خداوندی کی دعوت یابنی اسرائیل کی رہائی کی پیش کش کے طورپر فرماتے ہیں : میں اس بات پر بھی مامور ہوں کہ تمہیںیہ بتاؤں کہ ” خدا کے سامنے سرکشی اور تکبّر نہ کرو ، اپنی حد ود میں رہو ، کیونکہ میں تمہار ے لیے ایک واضح اور روشن دلیل لے کر آ یاہوں “ (وَ اٴَنْ لا تَعْلُوا عَلَی اللَّہِ إِنِّی آتیکُمْ بِسُلْطانٍ مُبین) ۔
واضح معجزات بھی اور کھلم کھُلا منطقی دلائل بھی ۔
خدا کے سامنے ” علو “ نہ کرنے سے مراد ہرقسم کاوہ عمل ہے جو بندگی کے اصولوں کے منافی ہے .خواہ وہ خداکی مخالفت اورنافرمانی ہویاخدا کے رسُول کی ایذا ء رسانی ہو یاخدا ئی کادعویٰ ہو ، سب اسی زمرے میں آ جاتے ہیں ۔
چونکہ دُنیا پرست مستکبر ین جب اپنے ناجائزمفادات پرزد پڑتی دیکھتے ہیں توکسی قسم اکی تہمت ، الزام تراشی ،نا روا باتوں ،حتی کہ قتل اورموت کے گھاٹ اتارنے سے بھی نہیں چو کتے ، اسی لیے مُوسیٰ علیہ السلام نے حفظ ماتقدم کے طورپر پہلے ہی سے کہہ دیا کہ اس با ت سے کہ تم مُجھے مہتّمیاسنگسار کرو میں اپنے اور تمہار ے پروردگار کی پناہ مانگتاہوں (وَ إِنِّی عُذْتُ بِرَبِّی وَ رَبِّکُمْ اٴَنْ تَرْجُمُون) ۔
ممکن ہے یہ بات اس چیز کی طرف بھی اشارہ ہو کہ مجھے تمہار ی دھمکیوں کی پرواہ نہیں ہے اور میں آخر دم تک اپنے موقف پرٖڈ ٹا ہواہوں ،خدا میر امحافظ اور نگہبان ہے ۔
اس قسم کی تعبیر خدائی رہبروں کے عزم اورحوصلے کو تقویت پہنچاتی ، دشمنوں کے حوصلوں کوپست کرتی ، اور دوستوں کے عزم واستقلال میں اضافے کاموجب بنتی ہے ،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا قائد اوررہبر آخری سانس تک اپنے موقف پر ڈ ٹا رہے گا ۔
” رجم “(سنگسار )کی بات شاید اس لیے کی گئی ہے کہ موسٰی علیہ السلام سے قبل بہت سے انبیاء کو ” رجم “ کی دھمکی دی گئی تھی ۔
جیساکہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ہے :
” قالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَہِ یا نُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومینَ“
” وہ کہنے لگے : اے نوح علیہ السلام !اگر تم اپنے کام سے باز نہ آ ئے توتمہیں سنگسار کردیا جائے گا “(شعراء ،۱۱۶) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کوآز رنے سنگسار کرنے کی دھمکی دیتے ہُوئے کہا:
”لَئِنْ لَمْ تَنْتَہِ لَاٴَرْجُمَنَّک“
” اگرتوباز نہ آ یاتو تجھے سنگسار کردُوں گا “( مریم ، ۴۶) ۔
جناب شعیب علیہ السلام کوبُت پرستوں نے دھمکی دیتے ہُوئے کہا ۔
”وَ لَوْ لا رَہْطُکَ لَرَجَمْناک “
” اگرتیر ے قبیلے کاپاس نہ ہوتاتو تجھے سنگسار کردیتے “( ھود ، ۹۱) ۔
موت کی تمام سزاؤں میں سنگسار ی کی سزا کاذکر اس لیے کیاگیاہے کہ وہ سب سے زیادہ سزاہوتی ہے ، بعض ارباب لُغت کے بقول ” رجم “ کاکلمہ مطلقاً قتل کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ۔
بہت سے مفسرین کی طرف سے یہ احتمال بھی پیش کیاگیاہے کہ ” رجم “ کامعنی کسی کو مہتم کرنا، کسی پرالزام لگانااورکسی کوگالی دینا ہے ، کیونکہ یہ لفظ اسی معنی کے لیے بھی استعمال ہوتاہے اوریہاں پراس کا استعمال درحقیقت ان الزامات کی پیش بندی ہے جو بعد میں مُوسیٰ پرلگا ئے گئے ۔
اس کلمے کااستعمال وسیع صُورت میں دونوں معانی کے لیے بھی ہوسکتاہے ۔
اس سِلسلے کی آ خری آ یت میں حرفِ آخر کے طورپر جناب موسیٰ علیہ السلا م انہیں فرماتے ہیں : اگر تم مجھ پرایمان نہیں لاتے توکم از کم مجھے چھوڑ دو ، مجھ سے دُور ہو جاؤ اوردوسر ے لوگوں کوایمان لانے سے نہ روکو(وَ إِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لی فَاعْتَزِلُون) ۔
کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پوری طرح مطمئن تھے کہ وہ اپنے واضح اور آشکار معجزات ، پختہ دلائل اورخدا کے پکے وعدوں کی وجہ سے مختلف لوگوں میں اپنے مشن کو جاری رکھیں گے اوراپنے انقلاب کوساحِل کا مرانی سے ہم کنا ر کردیں گے اسی لیے انہوں نے اپنے یقین کی بناء پر ان لوگوں سے کہاکہ میرے لیے سدّ راہ نہ بنو اورمیرے رستے میں روڑ ے نہ اٹکاؤ ۔
لیکن کیایہ بات ممکن ہے کہ مغرور اورسرکش ظالم اورجا بر لوگ جواپنی شیطانی طاقتوں اورناجائز مفادات کوخطرے میں پڑتا دیکھتے ہیں وہ خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں اور اس قسم کی پیشکش کوفوراً قبول کرلیتے ہیں ؟آ ئیندہ آ یات یہی ماجرا بیان کرتی ہیں ۔
۱۔ مفرداتِ راغب میں کے مطابق لفظ ” کریم “ جب خدا کی صفت کے لیے استعمال کیاجائے تواس کامعنٰی ظاہر بظاہر انعام واحسان ہوتاہے اورجب کسی انسان کی صفت کے لیے استعمال ہوتواس کا معنی جسن اخلاق اور اعمال حسنہ ہوتاہے ،جوانسان سے ظاہر ہوتے ہیں ، البتہ قرآن مجید میں یہ لفظ دوسری چیزوں کی صفت کے طورپر بھی آ یاہے .جیسے کتاب کریم ،کلّ زوج کریم ، مقام کریم ،اوراجر کریم وغیرہ ۔
۲۔ ” اٴَدُّوا إِلَیَّ عِبادَ اللَّہِ“ میں لفظ ” ان “ اس فعل مقدر کی تفسیر ہے جواس سے ماقبل کلام سے سمجھا جاتاہے اور وہ تقدیر یُوں ہے ” ‘ جئتکم اٴَنْ اٴَدُّوا إِلَیَّ عِبادَ اللَّہ‘ ‘ ۔
۳۔ جیسے سُورہ ٴ فرقان آ یت ۱۷ ،سُورہٴ سبا آ یت ۱۳ اورسورہٴ فرقان آ ت ۵۸ وغیرہ ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma