آ یا وہ بہتر ہیں یاقوم ” تبع“ ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

سرزمین یمن جزیرة العرب میں واقع ہے اوراس کاشمار دُنیا کی ایسی آباد اور بابرکت زمینوں میں ہوتاہے ،جوماضی درخشندہ تمدن کی حامل تھیں ، اس سرزمین پر ایسے بادشاہ حکومت کیاکرتے تھے ،جن کانام ” تبع“ ( جس کی جمع ” تبالعہ “ ہے ) تھا ،چونکہ لوگ ان کی ” اتباع “ کیاکرتے تھے ، اس لیے ان کو” تبع“ کہتے تھے یاپھر اس لیے کہ وہ کئی پشتوں تک یکے بعد دیگر ے بر سر اقتدار آ تے رہے ۔
بہرحال تبع کی قوم ایسے افراد پر مشتمل تھی جن کے پاس بے پناہ طاقت تھی اور جووسیع وعریض مملکت کی مالک تھی ۔
مشرکین مکّہ اوران کے معا د وقیامت کے انکار کے تذ کرے کے بعد ” قوم تبع“ کی داستان کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے انہیں تنبیہ کی جار ہی ہے کہ خدا کاعذاب قیامت ہی میں ان کا منتظر نہیں ہے بلکہ اس دُنیا میں بھی ” قوم تبع“ جیسی کافر اور گناہگار قوم جیسے انجام سے بھی دوچار ہوں گے ۔
چنانچہ فرماتا ہے ” آ یاوہ بہتر ہیں یاقومِ تبع اور وہ لوگ جوان سے پہلے تھے ؟ ہم نے ان سب کوہلاک کرڈالا ، کیونکہ وہ مجرم لوگ تھے (اٴَ ہُمْ خَیْرٌ اٴَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَ الَّذینَ مِنْ قَبْلِہِمْ اٴَہْلَکْناہُمْ إِنَّہُمْ کانُوا مُجْرِمین) ۔
ظاہر ہے کہ حجاز کے باشند ے جو ” قوم ِ تبع“ کے پڑوس میںرہتے تھے کہ کم وبیش ان کی سرگذشت سے بھی آگاہ تھے اسی لیے آ یت اس داستان کوتفصیل سے بیان نہیں کیاگیا ،بس اتنا کہاگیا کہ اس با ت سے ڈرو کہ کہیں تمہارا انجام بھی تبع کی قوم یااس جیسی دوسری قوموں کاسانہ ہوجو تمہار ے ارد گرد شام ومصر کے رستوں میں تمہار ے نزدیک رہتی تھی ۔
بالفرض اگرتم قیامت کے منکر ہوبھی جاؤ توکیا اس عذاب کاانکار کرسکتے ، ہوجوان مجرم اور سرکش قوموں پرنازل ہوا ؟
” الّدین من قبلھم “ سے مراد قوم نوح ، عاد اورثمود جیسی قومیں ہیں ۔
اور ” قوم تبع “کے بارے میں انشاء اللہ تفصیلی گفتگو بعد میں آ ئے گی ۔
گفتگو کارُخ ایک بار پھر مسئلہ معادکی جانب موڑ دیاگیاہے ،اور لطف پیرائے میں اس حقیقت کواستدلال کے ساتھ ثابت کرتے ہُوئے ارشاد فر مایاگیاہے : ہم نے آسمانوں اور زمین کواور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے ، غرض سب کو بے فائدہ اور مقصد پیدا نہیں کیا (وَ ما خَلَقْنَا السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضَ وَ ما بَیْنَہُما لاعِبین) (۱) ۔
یقینا اس عظیم اوروسیع تخلیق کاکوئی مقصد ضرور ہے ، اگرتمہار ے بقول موت ، زندگی کے خاتمے کانام ہے اور چند روز تک کھانے ،پینے ، سونے ، لذ تیں اٹھانے اورحیوانے خواہشات کوپایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے بعد یہ دُنیا وزندگی فنا ہوجائے گی اور تمام چیزوں کاخاتمہ ہوجائے گا، پھر تویہ آفرینش کار بیہودہ اور بے فائدہ ہوگی ۔
لیکن یہ ماننے والی بات نہیں ہے ، کہ صاحب قدرت وحکمت خدانے اس قدر عظیم کائنات کوصرف اس چند روزہ اور
زور گزر زندگی کے لیے بے مقصد اور طرح طرح کے رنج وغم اور دُکھ درد کے ہمراہ تخلیق کیاہو ، یہ بات خداکی حکمت کے چنداں شایانِ شان نہیں ۔
بنابریں اس کائنات کاوضعی مشاہدہ اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ یہ کائنات ایک اور عظیم تر اور ابدی و دائمی کائنات کے لیے ایک دالان کی حیثیت رکھتی ہے ،تم اس بارے میں غور وفکر سے کام کیوں نہیں لیتے ۔
اس حقیقت کوقرآن مجید نے کئی مقامات پر بیان کیا ہے ،مثلاً سُورہ ٴ انبیاء آ یت ۱۶ میں فرمایاگیاہے ؟
”وَ ما خَلَقْنَا السَّماء َ وَ الْاٴَرْضَ وَ ما بَیْنَہُما لاعِبین “
سورہ ٴ واقعہ کی آ یت ۶۲ میں ہے :
”وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاٴَةَ الْاٴُولی فَلَوْ لا تَذَکَّرُون “
” تم اپنی پہلی نشا ٴ ة کودیکھ چکے ہو پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کر تے ؟“
بہرحال اس دُنیا کی تخلیق اس وقت بامقصد ہوگی جب ایک اور کائنات اسی کے بعد ہو ، اس لیے تواس الحاد مکتبِ فکر کے پیرو کار اورمعاد کے منکرین اس کائنات کی تخلیق کو بے مقصد اور بے فائدہ سمجھتے ہیں ۔
پھراس بات کی تا کید کے لیے فرمایاگیاہے : ہم نے ان دونوں کوصرف حق کے ساتھ پیدا کیاہے (ما خَلَقْناہُما إِلاَّ بِالْحَقِّ ) ۔
اس کائنات کا برحق ہونااس بات کامتقاضی ہے کہ اس کاکوئی معقول ہدف اور مقصد اور یہ مقصد اس وقت پُورا ہوتا ہے جب ایک اورجہاں ک وجُود کوتسلیم کیاجائے .پھریہ بات بھی ہے کہ اس کاحق ہونااس بات کا خوا ہاں ہے کہ نیک اوربد کار افراد یکساں نہ ہُوں ۔
چونکہ ہم کو اس دُنیا میں بہت کم دیکھنے میں آ تاہے کہ نیکو کاروں کوجزا اور بد کا روں کو سزا صحیح معنی میں ملتی ہو ، اسی لیے حق کاتقاضا یہی ہے کہ ایک اورجہاں میں حساب وکتاب اور سزاو جزا ہو، تاکہ ہرشخص اپنے کیے کاپھل پالے ۔
خلاصہ یہ کہ اس آ یت میں ’ ’ حق “ ایک توتخلیق کائنات کے بامقصد ہونے کی طرف اشارہ ہے ، دوسر ے انسانوں کی آذمائش کی طرف ، تیسرے قانون ارتقاء کی طرف اور چوتھے اصول عدالت کے اجراء کی طرف ۔
” لیکن ان میں سے اکثرلوگ ان حقائق کونہیں جانتے (وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَہُمْ لا یَعْلَمُونَ ) ۔
کیونکہ وہ اپنی سُو جھ بُوجھ اور سوچ سمجھ سے کام نہیں لیتے ، اگر وہ ایسا کرنے لگ جائیں تو مبداء ومعاد کے دلائل واضح اور آشکار صُورت میں موجود ہیں ۔
قوم تبّع کون تھی ؟
قرآن مجید میںصرف دومقات پر ” تبع“ کالفظ استعمال ہواہے ، ایک تو انہی آ یات میں اور دوسرے سُورہٴ ” ق “ کی ۱۴ ویں آ یت میں جہاں پرارشاد وتاہے :
”وَ اٴَصْحابُ الْاٴَیْکَةِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍ کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعیدِ “
” گھنے درختوں کی سرزمین والی قو مِ شعیب اورقوم تبع، ہرایک نے خدا کے رسُولوں کے جھٹلا یا توخدا کی تہدید بھی ان کے بارے میں سچ ثابت ہوگئی“ ۔
جیساکہ پہلے ارشاد کیاجاچکا ہے کہ ” تبّع “ یمن کے بادشاہوں کاایک عمومی لقب تھا ، جس طرح ایران کے بادشاہوں کوکسریٰ سلاطین کوخاقان ، مصر کے بادشاہوں کوفرعون ،اور روم کے شہنشاہوں کو قیصر کہاجاتا تھا ۔
یمن کے بادشا ہوں کو ” تبّع “ یا تواس لیے کہاجاتا تھاکہ یہ لوگوں کواپنی پیروی کی دعوت دیاکرتے تھے ، یاپھراس کے لیے کہ وہ یکے بعد دیگر ے سریر آ رائے مملکت ہواکرتے تھے ۔
بظاہر تویہی معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید نے یمن کے تمام بادشاہوں کی بات نہیں کی ، بلکہ کسِی خاص بادشاہ کاذکر کیاہے ( جیساکہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کے معاصر خاص فرعون کی بات کی ہے ) ۔
بعض روا یات میں آ یا ہے کہ اس کانام ” اسعد ابو کرب “ تھا ۔
بعض مفسرین کا یہ نظر ی ہے کہ وہ بذاتِ خودحق طلب اورصاحب ایمان شخص تھا، انہوں نے قرآن مجید کی دونوں آیات سے استدلال کیا ہے ، کیونکہ قرآن پاک کی مذکورہ دونوں آ یات میں اس کی ذات کی مذ مّت نہیں کی گئی بلکہ اس کی قوم کی مذمت کی گئی ہے ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کی جانے والی روایت بھی اسی بات کی شاہد ہے ، کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)فرما تے ہیں ۔
” لاتسبوا تُبّعافانہ قد اسلم “۔
” تبّع “ کو بُرا بھلامت کیو کیونکہ وہ ایمان لاچکاتھا “ (۲) ۔
ایک اورحدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
” ان تبعاً قال للاوس والخزوج کونو واھاھنا حتّی یخرج ھٰذاالنّبی ،اما انا لو اد رکتہ لخد متة وخر جت معہ ‘ ‘ ۔
” تبع نے اوس اورخزرج سے کہا : تم یہیں پررہ جاؤ ! یہاں تک کہ اس پیغمبر کاظہور ہوجائے ، اگرمجھے ان کا زمانہ نصیب ہوجاتا تومیں ان کی پوری خدمت کرتا ،اوران کے ساتھ قیام کرتا ( ۳)
ایک اورروایت میں ہے کہ جب ” تبع“اپنے کشور کشا ئی کے ایک سفر میں مدینہ کے قریب پہنچا تو وہاں کے ساکن یہودی علماء کوپیغام بھیجا کہ اس سرزمین کوویر ان کرنا چاہتا ہوں تاکہ کوئی بھی یہودی ا س جگہ نہ رہنے پائے ،اورعرب قانون حکم فر ماہو ۔
یہودیوں کاسب سے بڑا عالم شامُول تھ. اس نے کہا: اے بادشاہ ! یہ وہ شہر ہے جوحضرت اسماعیل کی نسل سے پیدا ہونے والے ایک پیغمبر کی ہجرت گاہ بنے گا ، پھراس نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم)کی چند صفات گنوائیں،تبّع جس کے ذہن میں گو یااس بارے میں کچھ معلُوت تھیں نے کہا : تو پھر اس شہر کوویران نہیں کرو ں گا ( ۴) ۔
حتی کہ ایک اورروایت میں اسی داستان کے ذیل میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اس نے ”اوس“ اور” خزرج “ کے بعض قبائل کوجو اس کے ہمراہ تھے ، حکم دیاکہ وہ اسی شہر میں رہ جائیں اور جب پیغمبر موعود ظہور کریں تو وہ ان کی امداد کریں اور اپنی اولاد کو بھی وہ اسی بات کی وصیّت کرتارہا ، حتی کہ اس نے ایک خط بھی تحر یرکرکے اس کے سپُرد کردیا، جس میںپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرایمان لانے کا اظہار کیاگیا تھا (۵) ۔
صاحب ِ اعلا م قرآن رقمطر از ہیں :
” تبع“ یمن کے عالمگیر بادشاہوں میں سے ایک تھاکہ جس نے ہندوستان تک فوج کشی کی اوراس علاقے کی تمام حکُومتوں کواپنے زیر نگین کرلیا، اپنی فوج کشی کی ایک مہم کے دوران میں وہ مکہ معظمہ پہنچا اوراس نے خانہٴ کعبہ کے منہدم کرنے کا ارادہ کرلیا، لیکن وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ طبیب اس کے معالجے سے عاجز آگئے ۔
اس کے ہمر کابُوں میں کچھ اہل علم بھی موجُود تھے ، جن کا سرپرست شامُول نامی ایک حکیم تھا ، اس نے کہا: آپ کی بیماری کاصل سبب کانہٴ کعبہ کے بارے میں بُری نیّت ہے ۔
” تبع“ اپنے مقصد سے باز آ گیا ،اور نذ رمانی کی وہ خانہ کعبہ کااحترام کرے گا اورصحت یاب ہونے کے بعد خانہ کعبہ پر یمانی چادر کاغلاف چڑ ھا ئے گا ۔
دوسر ی تاریخوں میں بھی خانہ کعبہ پرغلاف چڑھانے کی داستان منقول ہے جو تو اتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے ، یہ فوج کشی اور کعبہ پرغلاف چڑ ھانے کامسئلہ ۵ عیسوی میں وقوع پذیر ہوا ،اب بھی شہر مکہ میں ایک جگہ موجُود ہے جس کا نام ” دار التبابعہ “ ہے ( ۶) ۔
بہرحال یمن کے باد شاہوں ( تبابعہ یمن )کی داستان کاایک بہت بڑا حِصّہ تاریخی لحاظ سے ابہام سے خالی نہیں ہے ،کیونکہ ان کی تعداد اورانکی حکومت کے عرصہ کے بارے میں زیادہ معلومات مہیانہیں ہیں ، اس بارے میں بعض متضاد روا یتیں بھی ملتی ہیں ، جو کچھ اسلامی روایات میں ہے وہ تفسیر ی مواد ہو یاتاریخی اورحدیثی ، صرف اسی باد شاہ کے بارے میں ہے،جس کاقرآن میں دو مرتبہ ذکر ہوا ہے ۔
۱۔ ” لاعب “ ” لعبا“ کے مادہ سے ہے اورراغب کے بقول اس عمل کوکہتے ہیں جوکسی صحیح ارادہ کے بغیر انجام پائے اور ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ” مابینھما “میں تثنیہ کی ضمیر آسمان اور زمین کی وجہ سے ہے ۔
۲۔تفسیرمجمع البیان،جلد ۹،صفحہ ۶۶۔ (اسی آ یت کے ذیل میں ) اسی سے ملتاجُلتامفہوم تفسیردرّمنثورنے بھی نقل کیاہے۔اسی طرح تفسیرروح المعانی ،جلد۲۵،صفحہ ۱۱۶ میں بھی بیان ہواہے۔
۳۔تفسیر مجمع البیان ، انہی آیات کے ذیل میں ۔
۴۔ تفسیر رُوح لمعانی ،جلد ۲۵ ،ص ۱۱۸۔
۵۔تفسیر رُوح لمعانی ،جلد ۲۵ ،ص ۱۱۸۔
۶۔ اعلام القرآن ، ص ۲۵۷ ، تا ص ۲۵۹ (تھوڑ ے سے اختصار کے ساتھ ) ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma