جِس دِن اِنسان کے بُرے اَعمال ظاہر ہوجائیں گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
زیرتفسیر آیات میں سب سے پہلی آ یت درحقیقت ان امور کی وضاحت ہے جوگزشتہ آیات میں اجمالی صُورت میں بیان ہو ئے ہیں اورخداکی آ یات اورانبیاء کی دعوت کے مقابلے میں کفار کے استکبار کی تشریح ہے ،ارشاد ہوتاہے : جب کہاجاتاتھا کہ خدا کاوعدہ سچاہے اورقیام میں کچھ شک نہیں ہے توتم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیاچیزہے ،ہم تو اس بارے میں صرف گمان رکھتے ہیں اوراس پرہرگز یقین نہیں رکھتے (وَ إِذا قیلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ وَ السَّاعَةُ لا رَیْبَ فیہا قُلْتُمْ ما نَدْری مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلاَّ ظَنًّا وَ ما نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنینَ ) ۔
”ما نَدْری مَا السَّاعَةُ “ ( ہم نہیں جانتے قیامت کیاچیزہے ) کی تعبیر کیوں بیان کی گئی ہے ؟ جب کہ قیامت کامفہوم ان کے لیے کوئی پیچید ہ بات نہیں تھی اواگرانہیں کوئی شک تھا بھی توصرف اس کے وجود کے بارے میں تھا ، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تکبر کاشکارتھے اور بالکل بے اعتنائی سے کام لیتے تھے ،اگران میںحق طلبی کی تڑپ ہو تی تو روز قیامت کی حقیقت بھی ان کے لیے روز روشن کی طرح ظاہر تھی اوراس کے وجُود کے دلائل بھی بہت تھے ۔
یہیں سے اس سوال کا جواب بھی واضح ہوجاتاہے کہ اگروہ قیامت کے بارے میں واقعاً شک وشبہ میں پڑ ے ہوئے تھے تواس بارے میں نہ توان پر کسی قسم کاگناہ تھا اور نہ ہی ان پرکوئی ذمہ داری بنتی تھی ،کیونکہ ان کایہ شک وشبہ توحق کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھا ، بلکہ تکبّر ،غرور ،ہت دھرم اور معاندانہ رویّے کی وجہ سے تھا ۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ان کی اس تضاد بیانی کامقصد مذاق اور تمسخر اڑانا تھا ۔
بعد والی آ یت ان کی سزا اورعذاب کی بات کررہی ہے ، یہ سزاہمار ی دنیاوی مقرر کردہ سزاؤں جیسی نہیں ہے ،ارشاد ہوتاہے : وہاں پر ان کے کر توتوں کی برائیاں ظاہر ہوجائیں گی ( وَ بَدا لَہُمْ سَیِّئاتُ ما عَمِلُوا ) ۔
تمام برائیاں مجسم ہوکرسامنے آجائیں گی اوران کے رُو بُروواضح اور آشکار صُورت میںپیش ہوں گے ،ان کی ہم دم اور ہم نشین ہوکرانہیں ہمیشہ دُکھ پہنچاتی رہیں گی ۔
آخر کار جس چیز کاوہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ ان پر واقع ہوکررہے گی (وَ حاقَ بِہِمْ ما کانُوا بِہِ یَسْتَہْزِؤُنَ) (۱) ۔
سب سے دردناک بات یہ ہے کہ خداوند رحمان ورحیم کی جانب سے انہیں خطاب ہوگا ” اورکہا جا ئے گاآج ہم بھی تمہیں اسی طرح بھلادیں گے ، جس طرح تم آج کے دن کی ملاقات کوبھلا چکے تھے “ (وَ قیلَ الْیَوْمَ نَنْساکُمْ کَما نَسیتُمْ لِقاء َ یَوْمِکُمْ ہذا ) ۔
یہ ایک ایسی تعبیر ہے جومختلف صورتوں میں قرآن پاک میں کئی مرتبہ آ ئی ہے ،جیساکہ سُور ہ ٴ اعراف کی ۵۱ ویں آ یت میں ہے ۔
”فَالْیَوْمَ نَنْساہُمْ کَما نَسُوا لِقاء َ یَوْمِہِمْ ہذا“
” آج ہم بھی انہیں بھلادیں گے ، جس طرح کہ انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو فرا موش کر دیاتھا “
یہی چیز سُورہٴ ” الم سجدہ “ کی ۱۴ ویں آ یت میں ایک اوانداز میںذکر کی گئی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ خدا وندِ عالم کی ذات پاک کے لیے فراموشی ایک بے معنی سی بات ہے ،کیونکہ اس کاعلم تو تمام کائنات پرحاوی ہے ،دراصل یہ ایک لطیف کنایہ ہے ایک مجر م اور گنا ہگار انسان سے بے پروائی اور بے نیازی کے لیے ،حتی کہ ہمار ے روز مرّہ میں یہی بات دیکھنے میں آ تی ہے کہ ہم کہتے ہیں ،” تم فلاں بے وفا دوست کوہمیشہ کے لیے بھلا دو “ ،یعنی ایک بھولے بسر ے انسان کے مانند اس سے سلوک کرو ، اس کے ساتھ مہرو محبت ،دیدا ر وملاقات ،دِل جوئی اور حال احوال پوچھنا ترک کر دو اور کبھی اس کا نام تک نہ لو ۔
ضمنی طورپر یہ تعبیر ” اعمال کے مجسم ہونے “ اور ” جرم وسزا کامناسبت “ کے مسئلے پر ایک اور تاکید ہے ،کیونکہ ان کاقیات کا فراموش کردینا اس بات کاسبب بن جائے گا خدا وند تعالیٰ بھی انہیں فراموشی کے خانے میں ڈال دے اور کِس قدر جانکاہ اور درد ناک ہو گی یہ عظیم مصیبت کہ خدا وندِ رحیم اور مہربان کسی شخص کوگوشہ ٴ فراموشی میںڈال کر اسے ہر قسم کے لطف وکرم سے محر وم کردے ۔
مفسر ین نے یہاں پر اس نسیان کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں ، جن سب کی رُوح تقر یباً وہی مذکورہ بالا جامع معنی بن جاتی ہے ، لہٰذاان کے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ساتھ ہی یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ روز قیامت کی فراموشی سے مراد اس روز واقع ہونے والے تمام واقعات کی فراموشی ہے ، خواہ وہ حساب وکتاب ہو یاکوئی او ر معاملہ کہ قیامت کے انکار کے ضمن میں وہ ان سب کا انکار کرجاتے تھے ۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن لقاء الہٰی ( خدا کی ملاقات ) کی فراموشی ہے ،کیونکہ قیامت کے دن کو قرآن مجید میں ” یَوْمِکُمْ لِقاء اللہ “ (خدا کی ملاقات کادن ) کہاگیا ہے ، البتہ یہ ملا قات اورمشاہد ظاہری اعظا اورآنکھوں سے نہیں ،بلکہ باطنی اعضاء اور دِل کی آنکھوں سے ہوگا ۔
آ یت کے سلسلے کوآگے بڑھاتے ہُوئے فرمایاگیاہے ہے کہ ان سے کہاجائے گا ” تمہاراٹھکا ناجہنّم ہے “ (وَ مَاٴْواکُمُ النَّارُ ) ۔
اوراگر تمہا را یہ گمان ہو کہ کوئی شخص تمہار ی مدد کوپہنچے گا تویہ بھی دوٹوک الفاظ سے سُن لوکہ ، ” تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہوگا “ (وَ ما لَکُمْ مِنْ ناصِرین) ۔
لیکن تم کیوں اور کس لیے مصیبت میں گرفتار ہُوئے ہو؟ توسن لوکہ ” یہ اس لیے ہے کہ تم لوگوں نے خدا کی آیتوں کی ہنسی مذاق بنارکھّا تھا اور دُنیا وی زندگی نے تمہیں غرور ہیں مبتلا کررکھاتھا “ (ذلِکُمْ بِاٴَنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ آیاتِ اللَّہِ ہُزُواً وَ غَرَّتْکُمُ الْحَیاةُ الدُّنْیا فَالْیَوْمَ ) ۔
اصولی طورپر یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ، ایک ”غرور “ اور دوسر ے ” استہزاء “ مغرور اورخورپسند افراد دوسروں کوحقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور عام طورپر ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، ان کے غرور کااصل سبب بھی دنیاوی زندگی کامال ومتاع ،قدرت وطاقت ، مال ودولت اورعارضی کامیابی ہوتی ہے جوکم ظرف لوگوں کواس قدر غافل کردیتی ہے کہ وہ انبیائے الہٰی کی دعوت تک و ذرہ بھر اہمیّت نہیں دیتے ،بلکہ اپنے آپ کوان کی دعوت کے مطالعے تک کی زحمت دینا گوارانہیں کرتے ۔
آ یت کے آخر میں ایک مرتبہ پھراسی چیز کودوسرے لفظوں میں دہر ایاگیاہے اوراس کی تاکید کی گئی ہے جو گز شتہ آ یات میں بیان ہوچکی ہے ، ارشاد ہوتاہے : آ ج کے دن وہ نہ تو دوزخ سے نکا لے جائیں گے اور نہ ہی ان سے کوئی عذر قبول کیاجائے گا (لا یُخْرَجُونَ مِنْہا وَ لا ہُمْ یُسْتَعْتَبُونَ) (۲) ۔
وہاں پران کے ٹھکا نے اورمستقل جگہ کی بات ہورہی تھی اوریہاں پر ان کے دوزخ سے نہ نکلنے کی گفتگو ہو رہی ہے ، وہاں پر تبایا گیاتھا کہ ان کاکوئی مددگار نہیں اور یہاں پرفر مایا گیا ہے کہ ان کاکوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی راہِ نجا ت نہیں ہے ۔
اس سُورت کے آخر میں توحید اورمعاد کی بحث کوتکمیل کے لیے دو آیتوں میں ربو بیت کی وحدت اور خدا وندِ عالم کی عظمت قدرت اورحکمت کو بیان کیاجارہاہے اور اِس حصّے میںخدا وند عالم کی پانچ صفات کومنعکس کیاجارہا ہے اوریہی اس سُورت کااہم ترین حصہ ہے ۔
سب سے پہلے فرمایاگیاہے : بنا بریں تمام حمدو ستائش خداہی کے سزا وار ہے (فَلِلَّہِ الْحَمْدُ ) ۔
کیونکہ وہی ہے ” جو سارے آسمانوں کاپر وردگار ، زمین کاربّ اورسارے جہانوں کامالک ہے “ (رَبِّ السَّماواتِ وَ رَبِّ الْاٴَرْضِ رَبِّ الْعالَمینَ) ۔
” رب “ کامعنی مالک ،مدبّر ، حاکم اوراصلاح کرنے والا ہے ، اسی لیے جو بھی خیر اور برکت ہے ،اسی کی ذات پاک کی جانب سے ہے ، اسی لیے تمام تعریفیں اسی کی ذات کی طرف لوٹ جاتی ہیں ،حتی کہ پُھول کی تعریف ،چمن کی لطافت ،نسیم سحر کی دلر با ئی اور ستا روں کی زیبا ئی کاذکر اسی پاک ذات کی ستائش ہے ، کیونکہ ان کاسب کچھ ذاتِ کردگار کی جانب سے اوراسی کے لُطف و کرم سے ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل ِ توجہ ہے کہ ایک مرتبہ فرماتاہے کہ سارے آ سمانوں کاپروردگار ، پھر کہتاہے زمین کا ربّ اور آخر میں فرماتا ہے کہ تمام کائنات اور کائنات والوں کامالک ، یہ سب کچھ اس لیے ہےتاکہ ارباب النّوع اورمختلف خداؤں کے عقید ے کی نفی کی جائے ، جس کے بہت سے لوگ معتقد تھے اوران سب کو ربوبیت کی توحید کی جانب متوجہ کیاجائے ۔
ذاتِ کر دگار کی ” حمد “ و” ربو بیت “ کے ساتھ توصیف کرنے کے بعد تیسری صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: سارے آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے بڑائی ، عظمت ،سربلندی اوربلند و بالا مرتبہ ہے (وَ لَہُ الْکِبْرِیاء ُ فِی السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ ) ۔
کیونکہ اس کی عظمت کے آثار آسمانوں کی وسعتوں اور زمین کی پہنا ئیوں ،بلکہ سراسر کائنات میںپائے جاتے ہیں اس سے پہلے آ یت میں اس کی ربو بیّت یعنی کائنات کی مالکیّت اور تدبیر کی بات ہورہی تھی اوریہاں پراس کی عظمت کاتذکر ہ ہے کہ جس قدر زمین وآسمان کی آفرینش کے بارے میں غور وفکر کرتے جائیں اسی قدر اس سے زیادہ آشنا اور آگاہ ہوتے جائیں گے ۔
آخر میں چوتھی اور پانچو یں صفت کوبیان کرتے ہُوئے فرمایاگیاہے : وہی غالب اور ناقابلِ تسخیر قادر اور مطلق صُورت میں حکمت والا ہے (وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْحَکیم) ۔
اس طرح سے ” علم “ ” قدرت “ ،’ ’ عظمت “ ،” ر بوبیّت “ اور ” مجمُود یت “ کی مجموعی صُورت مکمل ہو جاتی ہے اور یہ اس کی اہم ترین صفات اوراسماء حسنیٰ کامجموعہ ہے ۔
اور گو یایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ :
” لہ الحمد فاحمدوہ ، وھو الرب ،فاشکروالہ ،ولہ الکبر یاء فکبروہ ، و ھو العز یز الحکیم فاطیعوہ “۔
” حمداسی کی ذات کے لیے مخصوص ہے ،لہٰذااسی کی حمد بجالاؤ ،وہی پروردگار ہے ،لہٰذاسی کاشکر ادا کرو ،عظمت اسی کی ذات کرزیبا ہے ،لہذااس کی تکبیر بجالاؤ اور وہ عزیز وحکیم ہے لہذا اسی کی اطاعت کرو “ ۔
اس طرح سے سُورہٴ ” جاثیہ “ جوخدا وندِ عال کی ” عزیز وحکیم “ صفات کے ساتھ شروع ہوئی تھی ، انہی اوصاف کے ساتھ اپنے اختتام کوپہنچتی ہے ، اس سُورت کے سار ے مندرجات بھی اس کی بے انتہا عزت وحکمت کے گواہ ہیں ۔
پروردگار ا! تجھے و کبر یائی کی قسم ، تجھے اپنے مقام ربوبیت ،عزت وحکمت کوسوگند ،ہمیں اپنے فر مان کی بجا آوری کے رستوں پر ثابت قدم رکھ ! خدا وندا ! ہرقسم کی حمد وستائش تیری ذات کے لیے مخصوص ہے اور ہر قسم کی توفیق کہ جو ہمار ے نصیب میں ہے ،تیر ے بے پناہ الطاف واکرام کی وجہ سے ہے ،اِن نعمتوں کوہمار ے لیے قائم ودائم اور روز افز وں فرما ! ۔
بار الہٰا ! ہم سب تیرے احسانوں میں مستغر ق ہیں ، توہمیں اپنے شکر کی بجاآ وری کوتوفیق عنایت فرما !
۱۔ ” حاق “ ” حوق “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی داخل ہونا ،نازل ہونا، جالگنا ،پہنچ جانااور گھیر لیناہے . بعض حضرات کے نزدیک یہ کلمہ دراصل ” حق “ ہے ( جس کا معنی ثابت ہوناہے ) پہلی قاف کو داؤ میں تبد میں تبدیل کرکے پھر اسے الف میں بدل دیاگیاہے ۔
۲۔ ” یستعتبو ن“ کے معنیٰ اوراس کے اصل مادہ کے بار ے میں تفسیر نمونہ کی سولہویں جلد میں سُورہٴ رُو م کی ۵۷ دیں آ یت کی تفسیری ضروری وضا حت کی جاچکی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma