گمرا ہ ترین لوگ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گذشتہ آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق کی بات ہو رہی تھی کہ یہ سب کچھ خدا وند عزیز وحکیم کی طرف سے ہے ، اس بات کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کائنات میں اس کے سواکوئی اور معبُود نہیں ہے ، کیونکہ وہی ذات عبادت کے لائق ہے جوکائنات کی خالق اور مدبّر ہے ہے اور یہ دونوں صفات اس کی ذات پاک میں موجُود ہیں ۔
اس بحث کی تکمیل کے لےی زیر تفسیر آیات میں رُوئے سخن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرکے فر مایاگیا ہے: ان مشرکین سے کہہ دے کہ مجھے بتاؤ کہ خداکو چھوڑ کرجن کی تم عبادت کرتے ہو کیاتم نے دیکھا ہے انہوں نے زمین میں کیاچیز پیداکی ہے ؟ (قُلْ اٴَ رَاٴَیْتُمْ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ اٴَرُونی ما ذا خَلَقُوا مِنَ الْاٴَرْض) ۔
” یا آسمانوں کی تخلیق ، مالکیّت اوران کے چلانے میں ان کی کچھ شرکت ہے ؟ (اٴَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّماواتِ ) ۔
جب تمہیں یہ بات تسلیم ہے کہ بتوں کانہ توراضی موجُودات کی تخلیق میں کوئی عمل دخل ہے اور نہ ہی آفتاب و ما ہتاب ستا روں اور عالم بالا کی مخلوق کی آفرینش میں اور تم خود علی الاعلان اس بات کا اعتراف کرتے ہو کہ ان سب کاخالق اللہ ہے (۱) توپھر اپنی مشکلات کے حل اور برکتوں کے حصُول کے لیے بے خاصیّت او ر عقل وشعور سے عار ی مخلوق یعنی بتوں کے دامن سے کیوں وابستہ ہو ؟
اگرفرض کیجئے تم یہ کہتے ہو کہ تخلیق وآفرینش کے معاملے میں ان کی شرکت ہے توپھر اگرتم سچ کہتے ہوتواس سے پہلے کوئی آسمانی کتاب جو تمہار ی باتوں کی تصدیق کرے یاگزشتہ لوگوں کے علم کے آ ثار جواس بات کی گواہی دیں ، میرے سامنے پیش کر و (ائْتُونی بِکِتابٍ مِنْ قَبْلِ ہذا اٴَوْ اٴَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ کُنْتُمْ صادِقین) ۔
قصّہ مختصر یہ کہ دلیل یاتو نقلی پہلو کی حامل ہوگی اور آسمانی وحی کے ذریعے پیش ہوگی یاعقلی اور منطقی ہوگی یا پھر دانش وروں کی گواہی کے ذ ریعے ہوگی ، جب کہ تم لوگ بتوں کے متعلق دعووں کے سلسلے میں تو وحی الہٰی اور آسمانی کتاب سے ثبوت پیش کر سکتے ہو اور نہ ہی زمین وآسمان کی تخلیق کے بارے میں ان کی شرکت کوثابت کر سکتے ہو تا کہ اس عقلی دلیل کے ذ ریعے تم ان کی خدائی کومنواسکو اور نہ ہی گزشتہ لوگوں کے عُلوم کے آثار تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ، لہٰذ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارادین اور مسلک خرافات اورجُھوٹے توہمّات اورخیالات کے علاوہ اور کُچھ نہیں ۔
اسی لیے ” اٴَرُونی ما ذا خَلَقُوا مِنَ الْاٴَرْضِ“ کاجُملہ عقلی دلیل کی طرف اشارہ ہے اور” ائْتُونی بِکِتابٍ مِنْ قَبْلِ ہذا“ آسمانی وحی کی طرف اشارہ ہے اور” اثارة من علم “ کی تعبیر گزشتہ انبیاء اوران کے اوصیاء کی سنت یاسابقہ دانشوروں کے آثار ہیں ( ۲) ۔
” اثارة “ ( بروزن ” حلا وة “ ) کے بارے میں عُلمائے لُغت اور ارباب تفسیرنے چند ایک معانی ذکر کیے ہیں ” کسی چیز سے باقی رہ جانے والا حِصّہ “ ” روایت “ اور” علامت “ لیکن ظا ہر یہ ہے کہ یہ سب معانی ایک ہی مطلب کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ کسی چیز کا اثر ہوتا ہے جو باقی رہ جاتا ہے اوراس کے وجود کی دلیل ہوتا ہے ۔
اس سے مِلتی جُلتی گفتگو اور بُت پرستوں کے مقدمے اوران کے مواخذ ے کے بارے میں سُورہ فاطر کی چالیسویں آیت میں یو ں بیان ہوا ہے ۔
” قُلْ اٴَ رَاٴَیْتُمْ شُرَکاء َکُمُ الَّذینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ اٴَرُونی ما ذا خَلَقُوا مِنَ الْاٴَرْضِ اٴَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّماواتِ اٴَمْ آتَیْنا ہمْ کِتاباً فَہُمْ عَلی بَیِّنَةٍ مِنْہُ بَلْ إِنْ یَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُہُمْ بَعْضاً إِلاَّ غُرُوراً “
یہ بات قابل توجہ ہے کہ زمین کے بارے میں فرمایاگیا ہے :
” ما ذا خَلَقُوا مِنَ الْاٴَرْضِ “۔
اور آسمانوں کے بارے میں فرمایاگیا ہے :
” اٴَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّماوات “ ۔
” یا آسما نوں کے تخلیق میں ان کی کوئی شرکت ہے “؟
یعنی دونوں جگہوں پرشرکت کی بات ہورہی ہے ،کیونکہ شرک درعبارت کا اصل سرچشمہ خالقیت اور تدبیر میں شِرک ہی ہوتا ہے ۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر مشرکین عام طورپر خلقت ک معاملے کوذاتِ خدا ہی سے مخصوص سمجھتے تھے تو پھر ان تین دلائل میں سے کسی ایک کامطالبہ کس لیے کیاگیا ہے ؟
جو اباً گذارش ہے کہ اس قسم کامطالبہ مشرکین میں سے مختصر تعداد کے لوگوں سے ہے جوبُت پرستوں میں موجُود تھے اور بتوں کو تخلیقی امور میں حصّہ دار سمجھتے تھے ، یاپھر یہ مسئلہ فرض کی صُورت میں ذکر کیاگیا ہے ، یعنی بالفرض اگرتم ی دعویٰ کرتے ہو کہ کائنا ت کی تخلیق میں بُت بھی شریک ہیں تو تمہیں یاد رکھنا چا ہیئے کہ تمہارے پاس اس دعویٰ کی نہ تو کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ ہی نقلی اور نہ عقلا ء کی کوئی گواہی تمہارے پاس موجُود ہے ۔
اس سے اگلی آیت میں ان مشرکین کی گمرا ہی کی گہرائیوں کوبیان کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے :اس سے بڑھ کر اورکون گمرا ہ ہوسکتا ہے جوخدا کوچھوڑ کر کسِی ایسی چیز کی پرستش کرے جو اس کاپکار کاقیامت تک جواب ہی نہ دے سکے (وَ مَنْ اٴَضَلُّ مِمَّنْ یَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّہِ مَنْ لا یَسْتَجیبُ لَہُ إِلی یَوْمِ الْقِیامَةِ ) ۔
نہ صرف ان کے بلاوے کاجواب نہیں دیتے بلکہ ان کی باتوں کو بھی بالکل نہیں سُن پاتے ۔’ ’ اوروہ ان کی دُعا اور نداسے بھی بالکل غافل ہیں “ (وَ ہُمْ عَنْ دُعائِہِمْ غافِلُونَ ) ۔
بعض مفسرین اس آیت میں ضمیر کامرجع بے جان بتُوں کو جانا ہے اس نسبت سے کہ مشرکین عرب کے اکثر و بیشتر معبُود یہی بُت تھے اوربعض نے ان فرشتو ں اورانسانوں کو ضمیر کا مرجع جانا ہے جو معبُود بنائے گئے تھے ، کیونکہ جنّات اور فرشتوں کے عبادت گزار بھی عربوں میں کم نہیں تھے ، اس آیت کی تمام تعبیریں چونکہ ذوی العقول سے مناسبت رکھتی ہیں لہٰذاسی معنی کی زیادہ تائید کرتی ہیں ۔
لیکن اس بات سے بھی کوئی امر مانع نہیں ہے کہ ہم آیت کے مفہوم کوسیع معنوں میں تفسیر کریں اور اس طرح کے تمام معبُود آیت میں جمع ہوں ، خوا ہ جاندا ر ہوں یابے جان ، صاحبان ِ عقل ہوں یابے عقل چیزیں ، البتہ ذوی العقول سے مناسبت رکھنے والی تعبیر یں اصلاح طورپر ”غلبہ “ کے با ب سے ہوں ۔
اگر آیت یہ کہتی ہے کہ وہ معبُود انہیں تاقیامت جواب نہیں دیں گے تواس کایہ مقصد نہیں ہے کہ قیامت کے دن انہیں جواب دیں گے ، جیساکہ بعض لوگوں کاخیال ہے ، بلکہ یہ ایک مروجہ تعبیر ہے کہ جوابدی اور ہمیشہ کی نفی کے لیے استعمال ہوتی ہے ، جس طرح ہم عام طورپر کہتے ہیں کہ اگرتم اس سے قیامت تک بھی مانگتے رہو تووہ تمہیں ہرگز قرضہ نہیں د ے گا ، یعنی وہ یہ کا م بالکل نہیں کرے گا ، نہ یا یہ کہ قیامت کے دن تھا تمہار ی درخواست قبول کرلے گا ۔
یہ بھی معلوم ہے کہ ہر قسم کی سعی و کوشش جستجو اور دعاؤں کی قبولیّت صرف اسی دُنیا میں سُود مندہے ، جب یہ دُنیا ختم ہوجائے گی تو یہ ساری باتیں بھی ازخود ختم ہوجائیں گی ۔
اس سے زیادہ انہوں نے افسوس ناک بات یہ ہوگی کہ ” جب مشرک لوگ قیامت کے دن جمع کیے جائیں گے تووہ معبُود ان کے دشمن ہوجائیں گے ،حتی کہ ان کی عبادت کابھی انکار کریں گے “ (وَ إِذا حُشِرَ النَّاسُ کانُوا لَہُمْ اٴَعْداء ً وَ کانُوا بِعِبادَتِہِمْ کافِرینَ ) ۔
جومعبُود صاحبانِ عقل میںوہ تو باقاعدہ طورپر ان سے دشمنی کریں گے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے عبادت گز اروں سے براء ت کا اظہار کریں گے اور فرشتے بھی اسی طرح کریں گے ، حتی کہ شیاطین اور جنّات بھی ان سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کریں گے ، اور جو بے عقل چیزیں ہیں خدا تعالیٰ انہیں بھی زندگی اورعقل عطافر مائے گاتاکہ وہ لب کشائی کرکے اپنے عابدوں سے دشمنی اور نفرت کا اظہار کریں ۔
اس سے مِلتا جُلتا معنی قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی ذکر ہوا ہے ، جن میں سے ایک شُورہ فاطر کی چو د ھویں آیت ہے اس میں مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
” إِنْ تَدْعُوہُمْ لا یَسْمَعُوا دُعاء َکُمْ وَ لَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجابُوا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیامَةِ یَکْفُرُونَ بِشِرْکِکُمْ وَ لا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبیرٍ ‘ ‘
اگر تم انہیں پکارو تووہ تمہار ی پکار کونہیں سُنتے ، اگرسُن بھی لیں تواس کوقبُول نہیں کرسکتے اور قیامت کے دن بھی تمہار ے شرک اور عبادت کا انکار کردیں گے اور خدا جیسی آگاہ ذات کے مانند تمہیں اور کوئی مطلع نہیں کرسکتا “ ۔
اس آیت میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جوزیر تفسیرآیت میں ہیں ، البتہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ ، لیکن معبُود اپنے عابدوں کی عبادت سے کیسے انکارکریں گے ، جب کہ وہاں پر توانکار کی جگہ بھی نہیں ہوگی ؟
ممکن ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ درحقیقت اپنی خوا ہشات نفسانی کو عبادت کیا کرتے تھے نہ کہ معبودوں کی کیونکہ بُت پرستی کا اصل سرچشمہ خواہش پرستی ہی ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ قیامت کے دن معبُود ین کی اپنے عبادت گزاروں سے وعداوت اور دشمنی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا ذکر صرف یہیں پر کیاگیا ہو بلکہ انسانیت کابطل جلیل حضرت ابرا ہیم علیہ السلام بُت شکن کا ایک قول سُورہ عنکبوت کی ۲۵ ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ :
” وَ قالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ اٴَوْثاناً مَوَدَّةَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیامَةِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ“ ۔
” ابرا ہیم علیہ السلام نے کہاتم نے توخدا کوچھوڑ کربتوں کواپنے لیے خدابنا لیا ہے ، جواس دنیاوی زندگی میںہی تمہار دوستی کاذ ریعہ ہیں ، لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے سے کافر ہوجاؤ گے اورایک دوسرے کولعنت کرو گے ۔
سُورہٴ مریم کی ۸۲ ویں آیت میں ہے :
” کَلاَّ سَیَکْفُرُونَ بِعِبادَتِہِمْ وَ یَکُونُونَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا “ ۔
” وہ بہت جلد عبادت کرنے والوں کی عبادت کا انکار کریں گے اوران کی مخالفت کریں گے ‘ ‘ ۔
۱۔ یہ معنی قرآن مجید کی چار آیتوں میں ذکرہوٴا ہے اوراس بارے میں تفسیر نمونہ کی اسی جلد میں سُورہ ٴ زخرف کی ۲۵ ویں آیت میں مزید تفصیل کامطالعہ فرمائیں ۔
2۔اصولِ کافی میں ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے جوآپ نے اس جُملے کی تفسیرمیں ارشاد فرمایاہےکہ"انما عنی بذالِک علم اوصیاء الا نبیاء"یعنی گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے اوصیاء کاباقی ماندہ علم مراد ہے ملاحظہ ہوتفسیرنورالثقلین،جلد۵،صفحہ۹۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma