والدین کے حقوق پائمال کرنے والے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گذ شتہ آیات میں اُن مومن لوگوں کاتذکرہ تھا جوایمان ، عمل صالح ، حق کی نعمتوں کے شکرانے اوروالدین اوراولاد کے حقوق کی ادئیگی کے ذ ریعے تقریبِ الہٰی کی را ہوں پرگامزن ہُوئے ہیں اوراس کے خاص لطف وکرم سے فیض یاب ہوتے ہیں ،لیکن زیر تفسیر آیات میں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے جوبالکل ان کے برعکس ہیں یعنی بے ایمان ، حق ناشنا س اورماں باپ کے نا فرمان لوگ ، ارشاد ہوتا ہے :
اور جوشخص اپنے ماں باپ سے کہتا ہے : تم پر اُف ! کیا تم مجھے وعید دیتے ہو کہ میں قیامت کے دن اُٹھا یاجاؤگا حالانکہ مُجھ سے پہلے بہت سے لوگ گزرچکے ہیں جو مرگئے ، لیکن دوبارہ ہرگز نہیں اٹھا ء گئے (۱۷۔وَ الَّذی قالَ لِوالِدَیْہِ اٴُفٍّ لَکُما اٴَ تَعِدانِنی اٴَنْ اٴُخْرَجَ وَ قَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلی )(۱) ۔
لیکن والدین ایسے سر پھرے بیٹے کے آگے سرتسلیم خم نہیں کرتے ” اور وہ دونوں ہمیشہ فریاد کرتے ہیں اورخداسے مد د طلب کرتے حالانکہ مجُھ سے پہلے بہت سے لوگ گزرچکے ہیں جومرگئے ،لیکن دو بارہ ہرگز نہیں اُٹھا ئے گئے (وَ ہُما یَسْتَغیثانِ اللَّہَ وَیْلَکَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ ) ۔
مگرر وہ ہے کہ اسی طرح اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے اوراپنی سرکشی پرڈٹا رہتا ہے ، وہ تکبر اور بڑی بے پر وا ہی سے کہتا ہے ، یہ توبس اگلے لوگوں کے افسانے ہیں ” “ (فَیَقُولُ ما ہذا إِلاَّ اٴَساطیرُ الْاٴَوَّلین) ۔
یہ جوتم کہتے ہو کہ معاد وقیامت ہوگی اورحساب وکتاب ہوگا یہ سب خر افات ہیں اور گئے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ، میں ان کے سامنے کبھی سر نہیں چھکاؤں گا ۔
اس آیت میں اس گروہ کے بارے میںجواوصاف معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں :
والدی کے حق میں بے احترامی اور بے ادبی ، کیونکہ ’ ’اُ ف “ ہرغلیظ اور آلودہ چیزکوکہتے ہیں اور توہین اورحقارت کے اظہار کے موقع پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ( 2) ۔
نیز بعض ارباب لغت کے نزدیک ”اُ ف“کام معنی وہ گندگی اورمیل کچیل ہے جوناخن کے نیچے اکٹھی ہوجاتی ہے جوگندی بھی ہوتی ہے اورحقیر بھی ( ۳) ۔

دوسری یہ کہ وہ معاد اور روز ِ قیامت پرہی ایمانہیں رکھتے ، بلکہ اس کامذاق بھی اڑاتے ہیں اوراسے افسانہ اورخر افا نی باتیںسمجھتے ہیں ۔
ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ ان کے پاس سننے والے کان نہیں ہیں ، وہ حق کے سامنے سرنہیں جھکاتے بلکہ ان کی روح غرور ، جہالت اورخود غرضی سے لتھڑ ی ہوئی ہے ۔
یقینادِل سوز ماں باپ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسے جہالت و نادانی کے گر داب سے نکال کرنجات کی را ہوںپرلگا دیں تا کہ یہ فرزنددِل بند خدا کے درد ناک عذاب میںگرفتار نہ ہو ، لیکن وہ ہے کہ مسلسل اپنے کُفر پردڈٹا ہوا ہے اوراسی پر مُصر ہے آخر کار نا چار وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔
جس طرح گزشتہ آیات میں صالح الاعمال موٴ منین کی جزا کاتذکرہ تھا ، اسی طرح یہاں پر گستاخ اورعقل ک اندھے کافروں کا انجام مذکور ہے ، ارشاد ہوتا ہے ،یہ لوگ جنّوں اورانسانوں کی دوسر ی کافرامتیںجوان سے پہلے گزرچکے ہیں ، ان ہی میں شامل ہیں ، ان پر بھی عذاب کاوعدہ پایہ ٴ ثبوت کوپہنچ چکا ہے اور یہ بھی درد ناک عذاب میں گرفتار ہوں گے او ر یہ بھی جہنمی ہیں “ (َاٴُلئِکَ الَّذینَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فی اٴُمَمٍ قَد لَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِنَ الْجِنِّ ْ وَ الْإِنْس)(۴) ۔
کیونکہ وہ سب لوگ گھاٹا اٹھا نے والے تھے ( انھم کانوا خا سرین ) ۔
اس سے بد تر گھاٹا اور کیا ہوگا کہ اپناتمام سر مایہ حیات ضائع کرکے خدا کے غیظ وغضب کو خرید چکے ہیں ۔
ان دونوں، بہشتی اور جہنمی گروہوں کے تقابل کی صُورت میں، ان آیات سے ہمیں مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں :
بہشتی افراداپنی ہدایت اور ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہیں جبکہ اہل جہنّم اپنا تمام سر مایہ لٹاکر خسارہ اٹھا تے ہیں ۔
وہ حق شناس اور شکر گزار ہیں حتی کہ اپنا والدین بھی ، لیکن یہ حق ناشنا س ، گستاخ اور بے ادب ہیں حتی کہ اپنے والدین کے بھی ۔
وہ بہشت میں ” مقر بین الہٰی “ کے ساتھ ہیں اور یہ دوزخ میں بے ایمان لوگوں کے زمر ے میں گویا :
کندہم جنس با ہم جنس پرواز
وہ جب کسی لغزش کاشکارہوتے ہیں توفوراً تو بہ کرکے حق کے آگے جُھک جاتے ہیں کہ لیکن یہ مغرور وسرکش اورخوُد غرض و متکبّر ہوتے ہیں ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ٹولہ اپنی بے را ہ روری کوگزشتہ اقوام کی کیفیّت کا آ ئینہ دار قرار دیتا ہے ۔
لہٰذا دوزخ میں بھی انہی کے ساتھ محشور ہوگا ۔
اسی سلسلے کی آخر ی آیت میں پہلے توان دونوں گروہوں کے مختلف درجات اور مراتب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :ان لوگوں نے جیسے کام کیے ہوں گے انہی کے مطابق سب کے درجے ہوں گے (وَ لِکُلٍّ دَرَجاتٌ مِمَّا عَمِلُوا )(۵) ۔
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ بہشتی یاجہنمی سب ایک ہی درجے پرفائز ہوں ، بلکہ وہ بھی اپنے اعما ل کے تفاوت ،خلوص نیت کے تناسب اور معرفت کے میزان کے لحاظ سے مختلف مقام رکھتے ہیں اورصحیح معنوں میںعدالت یہیں پرحکم فر ما ہے ۔
” درجات “ ” درجہ “کی جمع ہے جوعام طورپر اس زینے کوکہا جاتا ہے جس سے اُوپر چڑھا جاتا ہے اور ” درکات “” درک “( بروزن ” مرگ “ ) کی جمع ہے جوان سیڑ ھیوں کو کہا جاتا ہے جن سے نیچے اترا جاتا ہے ،لہذا بہشتیوں کے لیے ” درجات “اور جہنمیوں کے لیے ” درکات “کے کلمات استعمال ہُوئے ہیں ،لیکن زیرتفسیر آیت میں دونوں کایکجا تذ کرہ ہوا ہے اوراہل بہشت کے مقام کی ا ہمیّت کے پیش نظردونوں کے لیے ” درجات “ کالفظ آیا ہے اور اصطلاح طورپر ” غلبہ “ کے باب سے ہے ( ۶) ۔
پھر فر مایاگیا ہے کہ اس کامقصد یہ ہے ” تاکہ خدا انہیں ان کے اعمال بے کم وکاست دے دے “(وَ لِیُوَفِّیَہُمْ اٴَعْمالَہُمُْ) ۔
یہ تعبیر ” تجسم اعمال “ کے مسئلے کی طرف ایک اوراشارہ ہے کہ وہاں پرانسان کے اعمال خوداسی کے ساتھ ہوں گے ، اس کے نیک اعمال اس کے لیے رحمت اور اطمینان کاموجب بنیں گے او ربُرے عمل بلا ، اضطراب ، رنج اورعذاب کاسبب ۔
آخر میں تاکید ی طورپر فر مایاگیا ہے :اوران پرکچھ ظلم نہیں کیا جائے گا (وَ ہُمْ لا یُظْلَمن) ۔
کیونکہ وہ اپنے ہی اعمال کوپالیں گے توپھر ظلم وستم کاتصوّر کیسا ؟
اس کے علاوہ ان کے ” درجات “ اور” درکات “ بھی اچھی طرح مقرر کیے جاچکے ہیں اوران کا چھوٹے سے چھوٹا نیک یابد عمل بھی ان کی سرنوشت کے لیے موٴ ثر ہوگا ، تو پھر ظلم کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
یہ آیت نبی اُمیہ کی طرف کیسے تحریف کی گئی ؟
ایک روایت میں ہے کہ معاویہ نے اپنے مدینہ ک گور نر مروان کوخط لِکھّا کہ لوگوں سے اس کے بیٹے یزید کے لیے بیعت لے ، عبدالرحمن بن ابی بکر بھی اسی مجلس میں بیٹھے ہُوئے تھے ، انہوں نے کہا معاویہ کام ہرقل اورکسر یٰ( روم وایران کے بادشا ہوں ) کے مانند انجام دیناچا ہتا ہے کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کو(خوا ہ وہ کتنا ہی نا اہل اور بد کار ہوتے )اپناجانشین مقرر کرتے تھے ۔
مروان نے منبر سے چلّا کر کہا : خاموش رہو ! تم تووہی ہوجس کے بارے میں یہ آیت اُتری ہے ” وَ الَّذی قالَ لِوالِدَیْہِ اٴُفٍّ لَکُما“ ۔
حضرت عائشہ بھی ہیںوہیں پر موجود تھی ، مروان کی طرف مُنہ کرکے بولیں : ” تم جُھوٹ بکتے ہو ، میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہُوئی ہے ، اگرکہو تو تمہیں اس کے نام ونسب سے بھی آگاہ کردوں ! البتہ رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے تمہار ے باپ پراس وقت لعنت کی ہے جب تم ابھی اس کی پشت میں تھے ، اس لیے تم رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خدا کی لعنت کانتیجہ ہوا “( ۷) ۔
جی ہاں ! عبداللہ کاگنا ہ ایک تو یہ تھاکہ وہ امیر المو منین علیہ السلام سے محبت کیاکرتے تھے ، جوبنی امیہ کے لیے سخت ناگوا ربات تھی ، دوسر ے وہ خلافت کوموروثی بنانے اور اسے ملوکیّت میں تبدیل کرنے کے سخت مخالف تھے اور یزید کے لیے بیعت طلبی کوقیصر وکسر یٰ کی پالیسی کانام دیتے تھے ، اس لیے اسلام کے قسم خوردہ دشمنوں یعنی بنی اُمیّہ کی طرف سے ان پر اس قسم کے شدید حملے کیے گئے اوران کے بارے میں آیات ِ قرآنی کے معانی کی تحریف کی گئی ۔
” حضرت عائشہ نے مروان کوکیاخوب جواب دیاکہ ’ ’ خدانے تم پراس وقت لعنت کی ہے جب تم ابھی پشت پدر میں تھے “ اور یہ اشارہ ہے سورہٴ بنی اسرائیل کی ۶۰ ویں آیت کی طرف جس میں کہا گیا ہے “ (والشجرة الملعو نة فی القراٰن )(۸) ۔
۱۔’ ’ “ مبتداء ہے اور بہت سے مفسرین کے مطابق ” “ اس کی خبر ہے جوبعد کی آیت میں آ ئی ہے ، ” مبتداء “کے مفر داور “ ” “ کے جمع ہونے ہیں کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ،کیونکہ اس سے جنس مراد ہے ،لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اس کی خبرمحذوف ہو ، جس کی تقدیری صورت یوں ہو:“
” وفی مقابل الّذ ین مضی وصفھم الّد ی قال لو الدیہ “۔
تو ایسی صورت میں بعد کی آیت مستقل ہے جس طرح کہ ” او لٰئک الّذ ین نتقبل عنھم ․․․ “مستقل ہے۔
2۔ مفردات راغب ۔
۳۔” اُف “ کے بارے میں سُورہ ٴ بنی اسرائیل کی آیت ۲۳ کے ذیل میں ایک اور بحث بھی موجود ہے ( دیکھئے گا تفسیرنمونہ جلد ۱۲) ۔
۴۔” حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْل“ کاجُملہ اس گفتگو کی طرف اشارہ ہے ، جوخدانے کافروں اورگنا ہگا روں کی سزا کے بارے میںفر مائی ہے اور تقد یر ی طورپر یوں ہے :
”حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْل بانھم اھل النّار ․․․ “
اور’ ’ فی امم “ حال واقع ہورہا ہے ۔
۵۔” مِمَّا عَمِلُوا“ میں ” من “ ” نشو یہ “ ہے یاپھر تعلیل کے معنی میں ہے یعنی ” من اجل ما عملوا “۔
۶۔” درک “( راکے سکون کے ساتھ )اور ” درک “ ( راپرزیرکے ساتھ )انہتائی گہرائی کے معنی کے لیے آ تے ہیں اور کبھی ” درک “( زبر کے ساتھ )نقصان کے معنی میں او ر” درک “(سکون کے ساتھ )چیز کے سمجھنے اور ادراک کرنے کے معنی میں بھی آ تے ہیں (دَرک کسی چیز کی حقیقت اور گہرائی کی مناسبت سے ) ۔
۷۔ملاحظہ ہوتفسیر رُوح الجنان ابو الفتوح رازی، جلد ۱۰، صفحہ ۱۵۹ ، نیز قرطبی نے بھی اس روایت کوکچھ فر ق کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ملاحظہ ہو، جلد ۹،ص ۲۰۱۷۔
۸۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے تفسیر نمونہ جلد ۱۲ کی طرف رجوع فر مائیں ،نیز یہ بھی توجہ رہے کہ مروان ِ، حکم کابیٹا ، ابی العاص کاپوتا اور امیہ کاپڑ پوتاتھا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma