چند اہم نکات :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

۱۔ کفار کاجہنم کوپیش کیاجانا :

یہ آیت کہتی ہے کہ قیامت کے دن کفّار جہنم کوپیش کیے جائیں گے اوراسی سے ملتی جُلتی سورہٴ موٴ من ۴۶ ویں آیت ہے جوفرعون کے ساتھیون کے بارے میں کہتی ہے :
” النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہا غُدُوًّا وَ عَشِیًّا“
’ ’ ہرصبح وشام وہ جہنم کوپیش کیے جاتے ہیں “۔
جب کہ قرآن پاک کی بعض دوسری آیت میں ہے کہ ” جہنم “ کفار کوپیش کی جائے گی ، جیساکہ سُورہ ٴ کہف کی آیت ۱۰۰ میں ہے :
” وَ عَرَضْنا جَہَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِلْکافِرینَ عَرْضاً “
” اس دن ہم جہنم کو کافروں کیلیئے پیش کریں گے “ ۔
لہذا بعض مفسرین کاکہنا ہے کہ پیشی دو طرح کی ہے ایک توحساب وکتاب سے پہلے پیشی اس وقت جہنم کو کفار کے سامنے لایاجائے گا تاکہ اس طرح سے خوف و ہراس ان کے تمام وجود میں سماجائے (جوبجائے خودایک رُو حانی عذاب ہے ) اوردوسر ی حساب وکتاب اور انہیں جہنم کی طرف بھیجنے کے بعد کی پیشی تواس وقت وہ خود عذاب ِ جہنم کوپیش کیے جائیں گے ( ۱) ۔
بعض مفسرین یہ بھی کہتے ہیں کہ عبارت میں ایک طرح کا ” قلب“ پایا جاتا ہے اور کفّار کوجہنم کے لیے پیش کرنے سے مرا د وہی جہنم کوکفارکے لیے پیش کرنا ہے ،کیونکہ آگ میں عقل وشعور توپایا نہیں جاتا کہ اسے کفار کے لیے پیش کیاجائے اور پیشی کا اطلاق ایسی صورت میں ہوتا ہے جب مدّ مقابل میںشعور پایا جاتا ہو۔
لیکن اس نظر یئے کایہ جواب دیاجا سکتا ہے کہ قرآن کہ کچھ آیات میں جہنم کے لیے ایک طرح کے ادراک اور شعور کا تذ کر ہ ملتا ہے ،یہاں تک کہ خدا کے اس سے با تیں کرنے کاثبوت بھی پایا جاتا ہے ۔
چنانچہ خدا اس سے پوچھے گا کہ :
” ھل امتلاٴ ت ِ “ ۔
” کیا تو بھرگئی ہے “ ۔
تووہ جواب دے گی ۔
” ھل من مزید “ ۔
” آیا اور بھی کچھ ہے “
)ملا حظہ ہو سورہٴ ق / ۳۰) ۔
حق یہ ہے کہ ” پیش کرنے “ کی حقیقت یہ ہے کہ دو چیزوں کے درمیان موجود رکاوٹوں کواس حد تک دُور کیاجائے کہ ایک چیز دوسر ی چیز کے اختیار میں آ جائے ،کفار اور دوزخ کے بارے میں بھی یہی صورتِ حال ہے کہ ان دونوں کے درمیان موجود رکاوٹیں ہٹادی جائیں گی لہذا ایسی صورت میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہیں آگ کے سامنے لایاجائے گا اور آگ کوان کے سامنے لایا جائے گا ، اور دونوں تعبیریں صحیح ہیں ۔
اس صورت میں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ” پیش کیے جانے “ کوجہنم میں داخل ہونے کے معنی میں لایا جائے جیسا کہ طبرسی نے مجمع البیان میںذکر کیا ہے ،بلکہ یہ پیشی بھی بذاتِ کود درد ناک اورہو لناک عذاب کی طرح ہے جوکہ جہنم میں داخل ہونے سے قبل اہل جہنم اس کے تمام حصّوں کو با ہر سے بچشم خود دیکھ لیں گے اوراپنے منحوس انجام کامشا ہدہ کرلیں گے اور دِل ہی دل میں رنج اٹھائیں گے ۔

۱۔ تفسیر المیزان، جلد۱۸، صفحہ ۲۲۳ انہی آیات کے ذیل میں ۔

۲۔ ” اذھبتم طیّباتکم “ کامفہوم :

یہ جملہ دنیاوی لذتوں کے استفادے کے معنی میں ہے اور ” اذھبتم “ (تم لے گئے ) کی تعبیر اس لیے ہے کہ یہ لذتیں اور نعمتیں استعمال کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں ۔
یقینا اس دُنیا میں خدا کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھا نا کوئی بُری بات نہیں ہے ، جوبات بُری ہے وہ یہ ہے کہ انسان اِن مادی لذتوں میں مگن ہو کرخدا اور قیامت کو فراموش کردے یاگنا ہ آلُود اور بے مہار ہو کر ان لذ ّتوں سے بہرہ بر داری کی جائے اوردوسر وں کے حقوق غصب کیے جائیں ، یہ سب کچُھ اس زمر ے میں آ جاتا ہے ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ تعبیر قرآن مجید میںصرف اسی آیت میں دکھائی دیتی ہے جواس بات کی طرف اشار ہ کہ بھی انسان دنیاوی لذتوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے یاخدائی فرا ئض بجا آوری کے لیے توانائی حاصل کرنے کی حد تک ہی ان سے استفادہ کرتا ہے توایسی صُورت میں گویا وہ ان ” طیبات “ کواپنی آخر ت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے ۔
لیکن عام طورپر ہوتا یہ ہے کہ چوپاؤں کے مانند بے مہار ہوکران سے استفادہ کرتا ہے اور سب کو اسی دُنیا ہی میںختم کرکے آخرت کی را ہ لیتا ہے اورآخرت کے لیے کچھ بھی ذخیرہ نہیں کرتا بلکہ اُلٹا گنا ہوں کابوجھ اپنے لیے فرا ہم کرتا ہے تواس صورت کوملحوظ رکھتے ہُوئے قرآنی آیت کا اطلاق یوں ہوگا ” اٴَذْہَبْتُمْ طَیِّباتِکُمْ فی حَیاتِکُمُ الدُّنْیا“ َ ۔
لغت کی بعض کتابوں میں منقول ہے کہ اس جُملے سے مراد یہ ہے ۔
” انفقتم طیبات مارزقتم فی شھو اتکم وفی ملا ذ الدّ نیا ولم تنفقو ھافی مرضات اللہ “۔
” تمہیں جوپا کیزہ رز ق عطاکیاگیا اسے تم نے اپنی خوا ہشات ِ نفسانی کی را ہوں میں خرچ کرڈالا اورخدا کی خوشنودی کے لیے اسے خرچ نہیں کیا “ ( مجمع البحرین مادہ ” ذھب “ ) ۔

۳۔ ” طیّبات “ کاوسیع مفہوم :

اس کامعنی وسیع ہے اور تمام دُنیا وی نعمتوں پرمحیط ہے ․ہرچند کہ بعض مفسرین نے اسے صرف جوانی کی توانائیوں کے معنی میں تفسیرکیا ہے ، لیکن حق یہ ہے کہ جوانی اس کاصرف ایک مصداق ہوسکتا ہے ۔

۴۔ ” عذاب الھون “:

( حقارت وتوہین آمیز عذاب ) رد ّ عمل ہے ان کے زمین پر تکبر کرنے کا ، کیونکہ خدائی سزا گنا ہ کی نوعیّت سے بالکل ہم آہنگ ہوتی ہے ، جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق یہاں تک کہ اس کے انبیاء کے سامنے غرور و تکبر کامظا ہرہ کیا اورکسی قانون کے سامنے نہ جھکے انہیں ایسا تحقیر آمیز اوررسوا کن عذاب دیکھنا ہی چا ہیئے ۔

۵۔ ” اہل جہنم کے دوگنا ہوں کاتذکرہ :

آیت میں ان کے دوگنا ہوں کا ذکر ہے ، ایک تو ” زمین میں غرور “ اور دوسر ے ”فسق “ مممکن ہے کہ پہلا ان کے آیات ِ الہٰی ، بعثت انبیاء اورقیامت پرایمان نہ لانے کی طرف کی اشارہ ہو اوردوسر امختلف گنا ہوں کی طرف توگو یا ایک اصول دین کے ترک کرنے اوردوسرا فروع دین کے پائما ل کرنے کی بات ہے ۔

۶۔ ” غیر الحق “ کی تعبیر :

یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ استکبار کی دوقسمیں ہیں ایک”حق “ اوردوسری ” ناحق “ بلکہ اس قسم کی تعبیر عام طورپر تا کید کے لیے استعمال ہوتی ہے اوراس کی مثالیں عام ہیں ۔

۷۔عظیم پیشواؤں کازہد :

حد یث اور تفسیر کے مختلف ذ رائع میں اسلام کی عظیم ہستیوں کے بارے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں ، جن کے ذ ریعے اسی آیت کے بارے میں استنا د کیاگیا ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت عمر” مشربہ ام ابراھیم “ ( مدینہ کے نزدیک ایک مقام ) میں آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میںحاضر ہوئے تو دیکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کی ایک چٹا ئی پرلیٹے ہوئے ہیں اور بدن مبارک کاکچھ حصّہ زمین پر ہے اور کھجور کے پتوں کا ایک تکیہ سرکے نیچے ہے ، یہ دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام کیا اور بیٹھ گئے عرض ِ کرنے لگے :
” آپ اللہ کے رسول اوراس کی بہترین مخلوق ہیں ، قیصر وکسریٰ توطلائی تختوں ، ابر یشمی بستر وں پرسو ئیں اور آپ کی یہ حالت ہو ؟
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فر مایا :
’ ’ او لٰئک قوم اجلت طیبا تھم وھی وشیکة الانقطاع وانما اٰ خربّ لنا طیبا تنا “ ۔
” وہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کے طیبات اسی دنیا میں دے دیئے گئے ہیں جو جلد ختم ہو جائیں گے “ ۔
جبک ہمارے طیبات کوآخرت کے لیے ذخیرہ کر لیاگیا ہے ( 1) ۔
ایک اور روایت میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ ایک دن خاص قسم کا حلوہ آنجناب کی خدمت میں لا یاگیا تو آپ علیہ السلام نے اسے نوش فرنے سے انکار کردیا ، پوچھا گیا ” آپ اسے حرام جانتے ہیں ؟ “ فرمایا نہیں ۔
” ولکنی اخشی ان تتوق الیہ نفسی فاطلبہ ،ثم تلا ھذہ الا یة : اذ ھبتم طیبا تکم فی حیا تکم الدّ نیا واستمتعتم بھا “۔
” مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میرانفس اس کامشتاق ہوجائے اورمیں ہمیشہ اس کی طلب میں لگ جاؤں ، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ا ذ ھبتم طیبا تکم فی حیا تکم ․․․ ( 2) ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ :
ان امیرالموٴ منین علیہ السلام اشتھی کبداً مشو بة علی خبز لینہ فاقام حولا یشتھیھا ، ذکر ذالک الحسن علیہ السلام وھو صائم یوماً من الا یام فصنعھا لہ فلما ارادان یفطر قربھا الیہ ،فوقف سائل بالباب فقال : یابنیّ حملھا الیہ لا تقراٴ صحیفتنا غدً ا اذ ھبتم طیّباتکم فی حیاتکم الد ّنیا واستمتعتم بھا ۔
” امیر لمومنین علیہ السلام کا بھُنی ہوئی کلیجی کو نرم روٹی کے ساتھ کھانے کوجی چا ہا اوراس خوا ہش کوایک سال کاعرصہ گزرگیا ، ایک دن امام حسن علیہ السلام سے اس خوا ہش کی تکمیل کا اظہا ر فرمایا اور اس دن حضرت امیر موٴ منین علیہ السلام روزے سے تھے ، جب مذکورہ کھانا افطار کے وقت تیار ہوگیا توسائل نے آکردر وازے پردستک دی ، امیرالمو منین علیہ السلام نے حکم دیا یہ کھا ناسائل کودے دیا جائے مباداکل بروز قیامت جب ہمارانامہٴ اعمال پڑھاجائے توہم سے کہیں ” ا ذ ھبتم طیّباتکم فی حیاتکم الد ّنیا واستمتعتم بھا“( تم تو اپنی طیبات سے دُنیا میں بہرہ ورہوچکے ہو اوران سے لذّت اُٹھا چکے ہو ) ( 3) ۔
1۔ مجمع البیان ، جلد۹، صفحہ ۸۸۔
2۔ تفسیر برہان ، جلد۴، صفحہ۱۷۵ اسی آیت کے ذیل میں ۔
3۔سفینة البحار، جلد ۲،صفحہ ” کبد“۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma