2۔ اسلام میں جنگ کے مقاصد :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

اسلام میں جنگ کوکبھی بھی اقدار کی حیثیت حاصل نہیں رہی ، بلکہ انسانوں کی تبا ہی و بربا دی اورذ رائع دوسائل کی نابُودی کی وجہ سے اسے ” خلاف اقدار “ شمارکیاگیا ہے ، اسی لیے قرآن کی بعض آیات میں اسے عذاب ِ الہٰی کے زمر ے میں ذکر کیاگیا ہے ،چنانچہ سُورہ ٴ انعام کی ۶۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔
’ ’ قُلْ ہُوَ الْقادِرُ عَلی اٴَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِکُمْ اٴَوْ مِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِکُمْ اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَ یُذیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ بَعْضٍ“ ۔
” کہ دے کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ تم پر (بجلیوں کے مانند )تمہارے اوپرسے یا( زلزلوں کے مانند )تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یاتمہیںٹولیوں کی صورت میں متفرق کردے ، یاتمہیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ اورخون ریزی کامزہ چھکائے ۔
اس آیت میں جنگ کو”صاعقہ “ اور ” زلزلہ “جیسی راضی وسماوی آ فات کے زمر ے میں شمار کیاگیا ہے ، اسی لیے اسلام میں تاحدّ امکان جنگ سے پرہیز کیاجاتا ہے ۔
لیکن جب کسی قوم کے وجود کوخطرہ لاحق ہو، یا اس کے مقدس اوراعلیٰ مقاصد کوتبا ہی کا اندیشہ ہوتواس وقت جنگ کو” اقدار “کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور جنگ ” جہاد فی سبیل اللہ “ کامقام حاصل کرلیتی ہے ۔
اسی وجہ سے اسلام سے جہاد کی کئی قسمیں بتائی گئی ہیں :
۱۔ آزادی خوا ہی پرمبنی ابتدائی جہاد ۔
۲۔ دفاعی جہاد ۔
۳۔ فتنہ وفساد ، اور شرک وبُت پرستی کی آگ بُجھانے کا جہاد ۔
بنابریں اسلامی جہاد ( جیساکہ اسلام کے زبردست مخالفین پرو پیگنڈ اکرتے ہیں )عیقدہ مسلط کرنے کانام نہیںہے بلکہ اصولی طورپر مسلط کردہ عقیدے کی اسلام میں کوئی قدروقیمت نہیں ہے ، بلکہ جہادایسے وقت ہوتا ہے جب دشمن جنگ کواسلامی اُمّت پرمسلط کردیں یا ا ن سے خدا داد آزادی چھینناچا ہیں ،یا اس کے حقوق پامال کرناچا ہیں یاظالم ، مظلوم کاگلا دباناچا ہیں تواس وقت تمام مسلمانوں پرفرض بن جاتا ہے کہ وہ مظلوم کی امداد کریں خوا ہ انہیں ظالم قوم سے لڑنا پڑے ۔
گزشتہ آیات میں یک مختصر اور لطیف جملے میں یہی بات ہوئی ہے ، جہاں فرمایاگیا ہے کہ کفار تو باطل کی پیروی کرتے ہیں اورمومنین حق کی اتباع کرتے ہیں ،تواس لحاظ سے وہ جنگ ” حق اور باطل کے درمیان جنگ “ سمجھی جائے گی ، نہ کہ کشور کشائی، وسعت طلبی ،دوسروں کے سر مائے کولٹ مار اور قدرت نمائی اور طاقت منوانے کے لیے ۔
اسی وجہ سے ہم گزشتہ آیات کی تفسیر میں ایک روایت میںپڑھ چکے ہیں کہ انسانی معاشرے میں جنگ اِس وقت تک جاری رہے گی جب تک وجولوں کے وجُود کاخاتمہ نہیں ہوجاتا اور زمین ان کے نجس وجود سے پاک نہیں ہوجاتی ۔
یہ نُکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ اسلام میں دوسرے آسمانی ادیان کے پیرو کا روں کے ساتھ پُر امن بقائے با ہمی پربہت زور دیاگیا ہے اوراس کی زبردست تاکید کی گئی ہے ، قرآنی آیات ، اسلامی روایات اورفقہ ٴ اسلامی میں اس بارے میں ” اہل ذمہ کے احکام “کے عنوان سے تفصیلی بحث کی گئی ہے ، اگراسلام عقائد مسلط کرنے اور اپنی طاقت بزورِ شمشیرمنوانے کاحامی ہوتاتوپھر اسے پُر امن بقائے با ہمی اوراہل ِ ذمہ کے متعلق قوانین ِبنانے کی کیاضرورت تھی ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma