مُوٴمِنین اور کفّار کا انجام :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
گذشتہ آیات میں حق وباطل اورایمان وکُفر کی مُسلسل آویزش کے بارے میں گفتگو ہو ئی ہے ، اب ان آیات میں ایک واضح تقابل کے ذ ریعے مومنین اور کفار کا انجام بیان کیاجارہا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ دونوںگروہ دُنیا ہی کی زندگی میں ایک دوسرے مختلف نہیںہیں ،بلکہ آخرت میں بھی ان کے زندگی میں زبردست فرق ہوگا ارشاد ہوتا ہے :خدا ان لوگوں کوجوایمان لے آ ئے اور چھے اچھے کام کرتے رہے بہشت کے ان باغات میںپہنچا ویگا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (إِنَّ اللَّہَ یُدْخِلُ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ) ۔
جبکہ کافرلو گ دُنیا کی زور ، گزرمتاع سے استفادہ کرتے ہیں اور چو پایوں کے مانند کھاتے ہیں اور آخران کاٹھاکانا جہنم ہے (وَ الَّذینَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَ یَاٴْکُلُونَ کَما تَاٴْکُلُ الْاٴَنْعامُ وَ النَّارُ مَثْویً لَہُم)(۱) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ دونوں قسم کے لوگ اپنی دنیامیں رہ رہے ہیں ، اس کی نعمتوںسے بہرہ مند بھی ہو رہے ہیں ، لیکن فرق یہ ہے کہ موٴ منین کی زندگی کامقصدایسے اعمال صالح کی بجا آوری ہے جومفید،تعمیری اور رضائے الہٰی کے حُصول کاسبب ہوتے ہیں ، جبکہ کفّار کی زندگی کا اصل مقصد صرف کھانا پینا اور سونا اور دنیاوی لذتوں سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے ۔
مومنین کا ہرایک اقدام معرفت پرمبنی ہوتا ہے ، جب کہ کفار بے مقصد زندگی گزارتے ہیں اور بے مقصد موت کو اختیار کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے چو پائے ہوتے ہیں ۔
موٴ منین نے دنیاوی زندگی میں اپنے لیے بہت سی سی شرائط اور حد یں عا ئد کررکھی ہیں ، وہ دُنیا وی امور کے جواز حصُول اورمصرف کی کیفیّت کے سلسلے میں بڑ ی سوچ وبچار سے کام لیتے ہیں ،لیکن کفار چوپایوں کے مانند ہوتے ہیںجنہیں اس بات کی کوئی پر وا ہ نہیں ہوتی کہ یہ چارہ ان کے مالک کا ہے یاغصبی ؟ کسِی یتیم اور بیوہ کا اس میںحق ہے یانہیں ۔
موٴ منین جب کسِی دنیاوی نعمت سے استفادہ کرتے ہیں تواس کے عطاکرنے والے کے بارے میں سوچتے ہیں، اس نعمت میں اُس کی آیات کودیکھتے ہیں اور منعم حقیقی کاشکر بجالاتے ہیں ، جب کہ کفّار کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے اور کسِی چیز کے بارے میں سوچے بغیراس سے لُطف اندوز ہوتے ہیں اور ہمیشہ اپنے ظلم وگنا ہ کے بوجھ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ،خود کو ہلاکت کے نزدیک کرتے رہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کوئی موٹی تازہ بکری جتنا زیادہ کھاتی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ موٹی ہوتی جاتی ہے اورذبح ہونے کے زیادہ قریب ہوتی جاتی ہے ۔
بعض مفسرین نے دونوں گروہوں کابا ہمی فرق ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
’ ان الموٴ من لا یخلوا اٴ کلہ عن ثلاث : الور ع عند الطلب ،واستعمال الادب ،والاکل للسبب ، والکافر یطلب للنھمة ،ویاٴ کل للشھوة وعیشہ فی غفلة “۔
” موٴ من کاکھانا تین صو رتو ں سے خالی نہیں ہوتا ہے ،کھانے کے حصُول میں پر ہیز گار ی ، ادب کو کام میں لانا اورمصر ف میں مقصد کے لیے اوراس کی تمام زندگی غفلت میں گزر تی ہے ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ موٴ منین کے بارے میںفرمایاگیا ہے کہ ” خدا انہیں بہشت کے باغوں میں پہنچادیگا “لیکن کفّار کے متعلق فر مایاگیا ہے ” ان کاٹھکاناجہنم ہے “ پہلی تعبیراہل ایمان کے احترام اوران کی طرف توجہ کی غماز ہے ، جب کہ دوسری تعبیر کفار کی تحقیر اوران سے بے اعتنائی کی آ ئینہ دار ہے کیونکہ وہ خدا کی ولایت کے دائر سے نکل چکے ہیں ۔
بعض مفسرین نے ” والنار مثوی لھم “ ( جہنم کی آگ ان کاٹھکانا ہے ) کے جُملے سے یہ سمجھا ہے کہ وہ اس وقت بھی جہنم میںہیں ، ان کے بقول کیونکہ یہ جُملہ فعل مضارع اور مستقبل کی صُورت میں نہیںہ ے بلکہ حال کی خبردے رہا ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کیونکہ ان کے اپنے کردار اور کرتوت ہی آگ ہیں جس میں وہ گرفتار ہیں اور وہ انہیں ہر طرف سے گھیر ے ہُوئے ہیں ہرچند کہ یہ حیوا ن صفت لوگ اس چیز سے غافل اور بے خبر ہیں چنانچہ ہم سورہٴ توبہ کی آیت ۴۹ میںپڑھتے ہیں:
” وَ إِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْکافِرین“ ۔
” جہنم نے کافروں کوہرطرف سے گھیر ا ہوا ہے “۔
قرآن مجید کی کچھ اور آیات میں بھی ان جہنمیوں کوچو پایوں سے تشبیہ دی گئی ہے ،بلکہ انہیں ان سے بھی بد تر گر دانا گیا ہے ،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔
” اٴُولئِکَ کَالْاٴَنْعامِ بَلْ ہُمْ اٴَضَلُّ اٴُولئِکَ ہُمُ الْغافِلُونَ“
” یہ لوگ چوپایوں کے مانند ہیں ، بلکہ ان سے بھی بدتر یہ غافل لوگ ہیں “( اعراف / ۱۷۹) ۔
اس کی مفصّل تشریح ہم تفسیرنمونہ کی ساتویں جلد کے ابتدائی حِصّے میں پیش کرچکے ہیں ۔
اس مقصد کی تکمیل کے لےی بعد کی آیت میں مشرکین مکّہ اور سابقہ دور کے بُت پرستوں کے درمیان ایک تقابلی جائزہ پیش کیاجارہا ہے اورواضح لفظوں میں انہیں سخت تنبیہ کی جارہی ہے اورضمنی طورپر ان کے ان بعض جرائم کو بیان کیاجا رہا ہے جو جنگ کاجواز فرا ہم کرتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : ” اور جس شہر سے لوگوں نے تجھے نکال دیا ہے اس سے زیادہ قوی بہت سے شہرتھے ، جن کوہم نے تبا ہ و بر باد کردی جبکہ کوئی ان کا مدد گار نہیں تھا (وَ کَاٴَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ ہِیَ اٴَشَدُّ قُوَّةً مِنْ قَرْیَتِکَ الَّتی اٴَخْرَجَتْکَ اٴَہْلَکْنا ہمْ فَلا ناصِرَ لَہُمْ ) ۔
وہ یہ گمان نہ کریں کہ چند روزہ دُنیا ان کے کچھ کام آ ئے گی ، اس لیے وہ اس قدر جسوراور جری ہوچکے ہیں کہ خدا کے عظیم رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کومقدس ترین شہرسے نکال دیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ صورتِ حال ہمیشہ یونہی رہے گی ، نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے یہ لوگ قومِ عاد وثمود ، فراعنہ مصر اور ابرہہ کے لشکر کے مقابلے میں توبہت ہی کمزور او ر ناتوان ہیں ،خدا نے تواُن کوبھی نابُود کردیاتھا ، اورانہیں تہس ونہس کردیاتھا ، ان کی سرکوبی تو معمولی بات ہے ۔
ابن عباس سے ایک روایت منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکّہ سے غار ثمود کی طرف جارہے تھے توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکّہ کی طرف مُنہ کرکے کہا:
” انت احب البلاد الی اللہ وانت احب البلا د الی ولو لا المشرکون اھلک اخر جونی لما خرجت منک “۔
توخدا کے نزدیک بھی محبُوب ترین شہر ہے اور میر ے نزدیک بھی محبُوب ترین شہر ہے اگر تیرے رہنے والے مُشرک لوگ مجھے نہ نکالتے تومیں اپنی مرضی سے کبھی نہ نکلتا “۔
اسی موقع پر مندرجہ بالا آیت نازل وئی ( جس میںپیغمبر کونصرت الہٰی کی خوشخبری دی گئی ہے او ر مشرکین کوسزا کے لیے متنبہ کیاگیا ہے ( ۲) ۔
اس شان ِ نزول کے مطابق یہ آیت مکّہ میں نازل ہوئی ،لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ شا ن ِ نزُول سُورہ قصص کی ۲۵ ویں آیت سے متعلق ہے ور بہت سے مفسرین نے اسے وہیں پرذکرکیا ہے اوراس کی زیادہ مناسبت بھی اسی آیت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے ، جس میں فر مایاگیا ہے ۔
” ان الّذ ی فرض علیک القراٰن لرادّ ک الیٰ معاد “۔
” جس خدانے تجھ پرقرآن فرض کیا ہے وہی تجھے تیری (ولادت ) کی جگہ لوٹائے گا ( ۳) ۔

یہاں پر یہ بات بھی قابل ِ توجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوبا ہر نکال دینے کی نسبت شہر مکّہ کی طرف دی گئی ہے جبکہ نکالنے والے ا ہالیان شہرتھے یہ ایک لطیف کنایہ ہے ، جواس شہر پرایک خاص گروہ کے تسلط کو بیان کرتا ہے ، اس طرح کے کنایئے قرآن مجید کی اور بھی آیات میں ذکر ہُوئے ہیں ۔
ضمنی طورپر ہم پھر یہ بتاتے چلیں کہ لفظ ” قریة “ شہراور آبادی کے لیے بولا جاتا ہے نہ کہ ” گاؤں “ کے معنی میں ہے اور اس بات کو ہم پہلے بھی کئی مقامات پر بیان کرچکے ہیں ۔
اسی سِلسلے کی آخری آیت میں مومنین اور کفار کے درمیان ایک اور تقابل کوپیش کیاگیا ہے ، ان دونوں گرو ہوں کا آپس میں ہر چیز میںفرق ہے ، ایک گروہ ایمان پرقائم اور اعمال صالح پر کار بندہے ، جب کہ دوسراگروہ پُور ے طورپر حیوانی زندگی گزا ررہا ہے ، ایک پروردگار کی ولایت کے زیر سایہ رہ رہا ہے اور دوسرا بے مولا اور بے سرپرست ہے ، ارشاد ہوتا ہے : توکیا جوشخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے ، جس کی بدا عمالیاں اسے بھلی کرکے دکھائی گئی ہوں اورو ہ اپنی نفسانی خوا ہشوں کی پیروی کرتا ہو (اٴَ فَمَنْ کانَ عَلی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہِ کَمَنْ زُیِّنَ لَہُ سُوء ُ عَمَلِہِ وَ اتَّبَعُوا اٴَہْواء َہُمْ) ۔
پہلے گرو ہ نے اپنے راستے کو پالیا ہے اوروہ صحیح معرفت ، یقین ، دلیل، اورقطعی برہان کے ساتھ اس پرگامزن ہے ، اپنے راستے اورمقصد کوواضح طورپر دیکھ رہا ہے اوراس کی طر ف رواں دواں ہے ، جبکہ دوسراگروہ غلط پہچان اورحقائق کے عدم اور اک کاشکار ہے اوراندھیر وں میں ٹامک ٹو ئیاں ماررہا ہے ،را ہ سے بھٹک کرمنزل مقصود سے کوسوں دُور ہے ، اس بھٹکنے کا اصل سبب سرکش نفس کی خوا ہشات کی اتباع ہے کیونکہ خوا ہشات نفسانی انسان کی عقل وفکر پرپردے ڈال دیتی ہیں ، اچھا ئیوں کو برائیاں اور برائیوں بنا کر پیش کرتی ہیں ، حتّٰی کہ بعض اوقات سرکش نفس کاتابع انسان اپنے ناپاک اورشرم آور کردار پر فخر ومبا ہات کرنے لگتا ہے ، جیساکہ سُورہ ٴ کہف کی ۱۰۳ تا ۱۰۵ آیات میں ہے :
” قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاٴَخْسَرینَ اٴَعْمالاً ، الَّذینَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ ہُمْ یَحْسَبُونَ اٴَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعاً ، اٴُولئِکَ الَّذینَ کَفَرُوا بِآیاتِ رَبِّہِمْ وَ لِقائِہِ فَحَبِطَتْ اٴَعْمالُہُمْ فَلا نُقیمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ وَزْناً “۔
” کہہ دے : کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں کہ جوسب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں ؟ یہ وہی لوگ توہیں کہ دنیاوی زندگی کے لیے جن کی سعی وکوشش کاکُچھ حاصل نہیں اور بھر بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اچھّے کام انجام دے رہے ہیں ، وہی توہیں جواپنے ربّ کی آیات اوراس کی ملاقات کے منکر ہیں ، اسی لیے توان کے اعمال اکارت جائیں گے اور قیامت کے دن ہم ان کے لیے میزان اور ترازو قائم نہیں کریں گے ،(کیونکہ ان کے اعمال میں کوئی وزن نہیں ہوگا) ۔
” بیّنة “ آشکار اورروشن دلیل کے معنی میں ہے اور یہاں پر قرآن مجید پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات اور دوسرے عقلی دلائل کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
ظا ہر ہے کہ ” افمن کان “ میں” استفہام انکاری “ ہے یہ دونوں گروہ آپس میں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان نفس پرستوں کے بُرے اعمال کو کون بھلا بناکر پیش کرتا ہے ؟خود وہ آپ یاخدا، یا شیاطین ؟ تو جواب یہ ہے کہ سب کے سب ! کیونکہ قرآنی آیات میں ان تینوں کی طرف نسبت دی گئی ہے ،سورہٴ نمل کی چوتھی آیت میں فر مایاگیا ہے :
” إِنَّ الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَیَّنَّا لَہُمْ اٴَعْمالَہُمْ “ ۔
” جولوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے ،ہم ان کے اعمال کوان کی نگاہوں میں مزین کردیتے ہیں “۔
دوسری متعدد آیات بشمول سُورہٴ عنکبوت کی ۳۸ ویں آیت کامفہوم یہ ہے کہ شیطان نے ان کے اعمال کوبناسوار کرپیش کیا ہے ۔
”و زین لھم الشیطان اعمالھم “ ۔
اور زیر تفسیر آیت میں ” واتبعوا اھوائھم “ کے جملے کے پیش نظریہ زینت ان کی خوا ہشات نفسانی کی اتباع کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ بات مکمل طورپرقابل ِفہم ہے کہ خوا ہشات نفسانی کی اتباع انسان سے ادراک اور تشخیص کی صلا حیّت سلب کر لیتی ہے۔
البتہ اس کی شیطان کی طرف نسبت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ نفسانی خوا ہشات کوبھڑ کاتا اورانسان کوہمیشہ وسوسوں میں ڈالتارہتا ہے ۔
اوراگراس کی نسبت خداکی طرف دی گئی ہے تواس لیے کہ وہ ” مسبت الاسباب “ ہے اورہر سبب کاجواثر ہوتا ہے وہ اسی کی جانب سے ہے ، اسی نے آگ کوتپش عطاکی ہے اورخوا ہشات نفسانی کوحقائق پرپردہ ڈالنے کی تاثیر بھی نیز وہ اس تاثیر کے بارے میں بتابھی چکا ہے ․ تواس طرح سے ساری ذمہ داری خودانسان پر عائد ہوتی ہے ۔
بعض مفسرین نے ” اٴَ فَمَنْ کانَ عَلی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہ“ کوپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور بعد کے جُملے کوکفّارِ مکّہ کی طرف ،لیکن ظا ہریہ ہے کہ آیت کاوسیع معنی ہے اور یہ مفا ہیم اس کے مصداق ہیں ۔
۱۔” کمایاٴ کل ․․․“ایک مقدر مفعول مطلق کے مقام نصب پر ہے، اصل میں یُوں ہے ” یاٴ کلون اکلا کمایاٴ کل الانعام“۔
۲۔ تفسیرقرطبی ، جلد۹، صفحہ ۶۰۵۵۔
۳۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ جلد ۶ ۱ میں ملاحظہ فرمایئے ( مذ کورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma