بہشت کی ایک اور صفت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

یہ آیت گذشتہ آیات کے مانند کافر اور موٴ من دونوں گروہوں کے اوصاف بیان کررہی ہے ، ایک گروہ کے شرم ناک اور بُرے اعمال ہیں جوان کی نظر میں بھلے معلوم ہوتے ہیں اور دوسر ے کے نیک اورصالح ۔
اس آیت میں اہل بہشت کی چھ قسم کی نعمتوں اوراہل دوزخ کے دوقسم کے سخت اور درد ناک عذاب کاتذ کرہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے انجام کوواضح کیاگیا ہے ۔
اہل بہشت کی نعمتوں میں چار نہروں کانام لیاگیا ہے ، جن میں سے ہرایک ایک خاص چیز کی ہے اور ہر ایک کا اپنامزہ ہے ،پھر بہشت کے پھولوں کاذکرہے اور آخر میں روحانی نعمتوں کاتذ کرہ ہے ۔
سب سے پہلے فر مایاگیا ہے : جس بہشت کاپرہیز گاروں سے وعدہ کیاگیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس میں صاف وشفاف پانی کی نہریں ہیں جن میں بدبونہیں ہے (مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فیہا اٴَنْہارٌ مِنْ ماء ٍ غَیْرِ آسِنٍ)(۱) ۔
” اٰسن “ کامعنی ”بدبو“ہے لہٰذا ” ماء ٍ غَیْرِ آسِن“کامعنی ہوگا ، وہ پانی جومد توں رہنے کی باوجُود بدبو دار نہیںہوتا، یہ بہشت کی نہروں کی وہ پہلی قسم ہے جس کاپانی صاف وشفاف ، خوشبو دار اورخوش ذائقہ ہے ۔
پھر فر مایاگیا ہے : اور دودھ کی نہر یں ہیں جن کامزہ تک نہین بدلا (وَ اٴَنْہارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہَُ) ۔
اصولی طورپر بہشت ایک ایسا مقام ہے، جہاں پر نہ تو کسِی چیز کے بگڑ نے کا اندیشہ ہے نہ ہی خراب ہونے کایہ تو اس مادی دُنیا کاخاصہ ہے جس میں مختلف قسم کے جراثیم ہوتے ہیں جوغذا کوخراب کردیتے ہیں۔
اس کے بعد بہشت کی تیسری قسم کے نہروں کے کاتذکرہ کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے : اور شراب (طہور ) کی نہریںہیں جوپینے والوں کے لیے لذت ہی لذّت ہیں (وَ اٴَنْہارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبین) ۔
آخر میں بہشت کی چوتھی قسم کی نہر کاحال اس صُورت میں بیان فرمایاگیا ہے : اور صاف وشفاف شہد کی نہریںہیں (وَ اٴَنْہارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّی) ۔
ان گونا گوں نہروں جن میں سے ہر ایک علیحدہ مقصد کے لیے پیداکی گئی ہے کہ علاوہ پانچو یں نعمت کاتذکرہ بھی کیا گیا ہے اوروہ ہے بہشت کے مختلف النوع پھل ، ارشاد فرمایاگیا ہے :اوروہاں ان کے لیے ہرقسم کے پھل ہیں(وَ لَہُمْ فیہا مِنْ کُلِّ الثَّمَرات)( ۲) ۔
طرح طرح کے پھل مختلف ذائقے اورمختلف خوشبُو کے ساتھ ، جن کا ہم تصور کرسکتے ہیں یا ہمار ے تصور سے با ہر ہیںسب کے سب بہشت والوں کوعطا ہوں گے ۔
آخر میں خداکی چھٹی نعمت کاتذکرہ ہے جوگذشتہ مادی نعمتوں سے ہٹ کرہے او روحانی حیثیت کی حامل ہے ارشاد ہوتا ہے : ان کے لیے ان کے پر وردگار کی طرف سے بخشش ہے (وَ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّہِمْ ) ۔
ایک عظیم اوروسیع رحمت جوان کی تمام لغزشوں کوچھپارہی ہوگی اورانہیں روحانی تسکین عطا کررہی ہوگی ، اوربارگاہ ربّ العزت کامحبوب بنارہی ہوگی اور” رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوا عَنْہُ ذلِکَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ “(خدا ان سے راضی اوروہ خداسے راضی ) یہ بہت بڑی کامیابی ہے ( مائدہ ۔ ۱۱۹) کا مصداق بنارہی ہے ۔
تو اس طرح سے پاک باز اورصالح العمل موٴ منین بہشت بریں میں خدا کی ہر طرح کی مادی اور روحانی نعمتوں سے اس کے جوار میں رہ کر بہرہ مند ہوںگے ۔
اب یہ دیکھنا چا ہیئے کہ ان کامقابل گروہ کس انجام سے دو چار ہوگا؟تواسی آیت میں اسے بھی بیان فرمایاگیا ہے :
ارشاد ہوتا ہے : بھلا یہ لوگ ان کے برابر ہوسکتے ہیں جوہمیشہ دوزخ کی آگ میں رہیں گے اورانہیں کھولتا ہواپانی پلایاجائے گا ،تووہ انکی آنتوں کوٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا (کَمَنْ ہُوَ خالِدٌ فِی النَّارِ وَ سُقُوا ماء ً حَمیماً فَقَطَّعَ اٴَمْعاء َہُمْ)(۳) ۔
” امعاء ‘ ‘ جمع ہے ” معی “ (بروزن ” سعی “ ) کی ، اور” معاد “ (بروزن ”غنا“ ) کامعنی آ نت ہے اور کبھی اس کا اطلاق شکم کے اندر موجُود تمام چیزوں پر بھی ہوتا ہے وران کاٹکڑے ٹکڑے ہونا اس بات کی طرف ا شارہ ہے کہ جہنم کایہ وحشت ناک مشروب اس قدر گرم ہوگا کہ پیٹ میں موجُود تمام چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا ۔
تیری باتوں کو کان لگاکر سنتے بھی ہیں، لیکن جب تیر ے پاس سے نکلتے ہیں توجن لوگوں کوخدانے علم و دانش عطاکی ہے ان سے تحقیر اور تمسخر کے انداز میں کہتے ہیں ، ابھی اس شخص نے کیا کہاتھا (وَ مِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ إِلَیْکَ حَتَّی إِذا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِکَ قالُوا لِلَّذینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ ما ذا قالَ آنِفاً ) ۔
” اس شخص “ سے ان کی مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گوہر بار گفتگو کے بارے میں ردّ عمل ، اس قدر تحقیر آمیز ،غلط اور نا روا تھا ، جس سے صاف سمجھاجاتا تھا کہ وہ آسمانی وحی پر بالکل ایمان نہیں رکھتے ۔
” اٰنفا“ ” انف “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ” ناک “ اور ناک چونکہ انسان کے چہرے پرخاص طورسے ایک نمایاں چیزہے ،لہذا یہ کلمہ کسی قوم کے شریف اورمعزز افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور زمانے کے لحاظ سے اس کا اطلاق زمانہ ٴ حال پرہوتا ہے ، جیساکہ اسی آیت میںذکر ہوا ہے ۔
ضمنی طورپر یہ بھی بتاتے چلیں ” للّذین اوتو العلم“ کی تعبیر اس بات کی نشاں دہی کررہی ہے کہ موٴ منین کی علامت ان کاکافی حد تک علم حامل ہونابھی ہے ،کیونکہ علم ہیایمان کا سرچشمہ ہوتا ہے اور ایمان ہی کی وجہ سے علم حاصل ہوتا ہے ۔
لیکن آیت کے آخر میں قرآن مجید ان (کفار ) کو دندان شکن جواب دیتے ہو ئے فرماتے ہیں : رسُول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں میں نہ توکسِی قسم کی پیچدگی ہوتی ہے اور نہ ہی بے معنی ہوتی ہیں ، بلکہ یہ لوگ خودایسے ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگادی ہے اور وہ اپنی نفسانی خوا ہشات کی پیروی کرتے ہیں ، لہذا انہیں کچھ سمجھ نہیں آ تا (اٴُولئِکَ الَّذینَ طَبَعَ اللَّہُ عَلی قُلُوبِہِمْ وَ اتَّبَعُوا اٴَہْواء َہُمْ) ۔
درحقیقت دوسراجُملہ پہلے جُملے کی علّت ہے ، یعنی خوا ہشات نفسانی کی پیروی انسان سے حقائق کے اوراک کی طاقت اور تشخیص کی صلاحیّت سلب کر لیتی ہے اوراس کے دل پر پر دہ ڈال دیتی ہے ،گویا خوا ہش پرستوں کے دِل اس ظرف کے مانند ہوجاتے ہیں، جس کامُنہ بند کر دیاجائے اوراسے سر بہر کردیاجائے ، نہ تواس میں کوئی چیزرکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس سے نکالی جاسکتی ہے۔
ان کے برعکس سچے مومنین ہیں ، جن کے بارے میں بعد کی آیت میں گفتگو ہو رہی ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
جولوگ ہدایت یافتہ ہیں انہیں مز ید ہدایت کرتا ہے اورانہیں تقویٰ ہے اورپرہیزگار ی کی رُوح عطافر ماتا ہے (وَ الَّذینَ ا ہتَدَوْا زادَہُمْ ہُدیً وَ آتا ہمْ تَقْوا ہمْ) ۔
جی ہاں ! انہوں نے ہدایت کیلیے پہلے ازخود اقدام کیا، اپنی عقل وخرد اور فطرت سے سے صحیح معنوں میں کام لیا پھر خدا بھی حسبِ وعدہ اپنی را ہ پرچلنے والے مجا ہد وں کی زیادہ سے زیادہ ہدات اوررہنمائی کرتا ہے ، ان کے دلوں میں نورِ ایمان ڈال دیتا ہے اور شرح صدر اور روشن بینی سے انہیں بہرہ مند کرتا ہے ․ یہ توہوتا ہے کہ ایمان اور اعتقاد کے لحاظ سے ،لیکن عملی لحاظ سے بھی ان میں تقویٰ کی رُوح کواس حد تک زندہ کرتا ہے کہ انہیں گنا ہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اور اطاعت ونیکی سے جنون کی حد تک محبت کرنے لگتے ہیں ۔
بعد کی آیت میں مذاق اڑانے والے اس بے ایمان ٹولے کو زبر دست تنبیہ کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے : توکیا یہ لوگ بس قیامت ہی کے انتظار میں ہیں کہ ان پر ناگہاں آ جائے (تواس وقت وہ ایمان لائیں گے ) حالانکہ اس کی نشا نیاں توآہی چکی ہیں ،لیکن جس وقت قیامت ان کے سرپر آ پہنچے گی تواس وقت ان کے لیے بیدار ی ، توجہ اورایمان مفید واقع نہیں ہوں گے (فَہَلْ یَنْظُرُونَ إِلاَّ السَّاعَةَ اٴَنْ تَاٴْتِیَہُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جاء َ اٴَشْراطُہا فَاٴَنَّی لَہُمْ إِذا جاء َتْہُمْ ذِکْرا ہمْ) ۔
جی ہاں ! جس وقت ان لوگوں کوایمان لاناچا ہیئے اوروہ ایمان ان کے لیے مفید بھی ہو اس وقت توہٹ دھرمی کامظا ہرہ کرتے ہیں اور حق کے آگے سرتسلیم خم نہیں کرتے بلکہ تمسخر اڑاتے اورٹھٹھامذاق کرتے ہیں ،لیکن جب ہولناک حوادث اورقیامت کا آغاز دنیا کولرزہ براندام کردے گا تواس قسم کے لوگوں وحشت زدہ ہو کرخضوع وخشوع اورایمان کا اظہار کریں گے ، لیکن اس وقت انہیں اس کاکوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔
اس کی مثال یوں سمجھےٴ ، جیسے ہم کسی کوکہیں کہ آیاتم اس انتظار میں ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور تمہار امریض موت کے دہانے تک پہنچ جائے ، پھر ڈاکٹر اوردوا کابندوبست کرو ؟ لہذا بہتر یہی ہے کہ موقع ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے کوئی مفید اورموٴ ثر قدم اُٹھا ؤ ۔
” اشراط “ ” شرط“ (بروزن ” شرف “ ) کی جمع ہے جس کامعنی علامت ہے بنابریں ” اشراط الساعة “سے مراد قیامت کے قریب ہونے کی علامتیں ہیں ۔
یہاں پرقیامت کے قریب ہونے سے کیا مراد ہے ؟ مفسر ین نے اس بارے میں تفصیلی بحث کی ہے ،حتّٰی کہ اس سلسلے میں بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ۔
لیکن بہت سے لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ زیرتفسیر آیت میں ” اشراط الساعة “ سے مراد خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام ہے اور اس کی گواہ خود آپ کی یہ حدیث ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے :
” بعثت اناوالساعة کھا تین وضم السبابة والو سطیٰ “۔
” میری بعثت اورقیامت ان دو کے مانند ہیں “ اور پھر آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دوانگلیوں کوملاکر اشارہ کیا ایک درمیانی انگلی اور دوسری انگشتِ شہادت “ ( ۴) ۔
بعض مفسرین نے ’ ’ شفق القمر“ کے مسئلے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے دور میں رونما ہونے والے بعض دوسرے واقعات کو بھی ” اشراط الساعة “ میں شمار کیا ہے۔
اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں ،خصوصاً بہت سے گنا ہوں کاعوام الناس میں عام ہوجانا بھی قیامت کے قریب ہونے کی علامات میں شمارکیاگیا ہے ، جیساکہ شیخ مفید علیہ الرحمہ نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث ” روضة الواعظین “ میں درج کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فر مایا :
” من اشراط الساعة ان یرفع العلم ، ویظھر الجھل ویشرب الخمرو یفشد الزنا “۔
” قیامت کی علامتوں میں سے ہے ، عِلم کا اٹھا لیاجانا ، جہالت کا آشکار ہوجانا ، شراب کا پیاجانا اورزنا کی کثرت ( ۵) ۔
حتّٰی کہ ا ہم اورموثر واقعات کو بھی ” اشراط الساعة “ میں شمار کیا گیا ہے ، جیسے امام مہدی علیہ السلام ( ارواحنا فدا ہ ) کاقیام ہے ۔
لیکن یہ نکتہ بھی قابل ِ تو جہ ہے کہ ہم کبھی تو ” اشراط الساعة “ کے بارے میں بطور مطلق بحث کرتے ہیں کہ قیامت کے نزدیک ہونے کی کیاعلامتیں ہیں اور کبھی صرف اورخاص طورپر آیت کے بارے میں ۔
آیت کے بارے میں مطلب وہی ہے ہم بتاچکے ہیں ،لیکن مُطلق طورپر قیات کے نزدیک ہونے کے علامتوں کے بارے میں بڑی حد تک بحث کی گئی ہے اوراس بارے بہت سی روایات مشہور اسلامی کتابوں میں درج ہیں اورہم بھی نکات کی بحث میں اس طرح اشارہ کریں گے ( ۶) ۔
کیا پیغمبر اسلا م (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہے ؟
یہاں پر یہ سوال پیش آ تا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بعثت کو کیونکرقریب قیامت کی علامت قرار دیا گیا ہے ، جب کہ چودہ سو سال ہے زائد کاعرصہ گزر چکا ہے ، مگر ا ب تک قیامت کاکُچھ پتہ نہیں؟
اس سوال کاجواب ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے اوروہ یہ کہ باقی ماندہ دُنیا کواس کے گزشتہ حِصّے کے تناظرمیں دیکھنا چا ہیئے اور آئندہ کوگذشتہ سے تقابل کرکے دیکھا جانا چا ہیئے اوراس تقابل میں دُنیا کاجوحِصّہ باقی رہ گیا ہے وہ بہت زیادہ نہیں ہے ، جیساکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عصر کے بعد اورغروب آفتاب سے کچھ پہلے اپنے اصحاب سے خُطبہ ارشاد فر مایا اور کہا:
” والّذ ی نفس محمد بید ہ مثل مامضٰی من الدینافیما بقی منھا الامثل مامضٰی من یومکم ھٰذافیھا بقی منہ ،ومابقی منہ الا الیسر“۔
” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٴ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ، جومدّت دُنیا کی گزرچکی ہے اس حِصّے کی نسبت جوکچھ باقی رہ گیا ہے اس مقدار کے مانند ہے جو تمہارے آج کے دن کاحِصّہ گزرچُکا ہے اس حِصّہ کی نسبت جوکچھ باقی رہ گیا ہے اور تم دیکھ رہے ہوکہ اس دن کاحِصّہ تھوڑی سی مقدار سے زیادہ باقی نہیں ہے ( ۷) ۔
اس سلسلے کی آخری آیت ایمان وکفر اور مومنین وکفار کے انجام کے متعلق تمام گفتگو کے نتیجے کے طورپر بیان ہوئی ہے ، ارشاد ہوتا ہے : پس جان لوکہ خداکے سواکوئی معبُود نہیں ہے (فَاعْلَمْ اٴَنَّہُ لا إِلہَ إِلاَّ اللَّہُ ) ۔
بعنی توحید کی را ہ پرقائم رہو کیونکہ شفاعطا کرنے کی دو ا اور نجات کابہترین وسیلہ یہی توحید ہے کہ جس کی علامات اس سے پہلے کی آیات میں بیان ہوچکی ہیں ۔
بنابریں اس آیت کایہ مفہوم نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)توحید سے بے خبر تھے ، بلکہ اس سے مرا د یہ ہے کہ اس را ہ پر برقرار رہیں اور ثابت قدم ،بالکل ویسے ہی جیسے سُورہٴ حمد کی کی یہ آیت ہے ”ا ہدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقیمَ “ مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم ہدایت پر نہیں ، لہٰذ ا صراط مستقیم کی ہدایت فرما، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں ہدایت کی را ہ پرثابت قدم رکھ ۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ امرتوحید میں زیادہ غور وفکر سے کام لیاجائے اوراعلیٰ سے اعلیٰ مقامات کی طر ف ارتقاء کی کوشش کی جائے ،کیونکہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس میں جنتا زیادہ سوچ بچار اور غور وفکرسے کام لیاجائے اورخدا کی آیات کاجتنا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیاجائے اتنا ہی علیٰ سے اعلیٰ مراحل کی طرف ترقی ہوتی جا تی ہے اور گزشتہ آیات میں ایمان اور کُفر کے متعلق جوکچھ بتایا جاچکا ہے اس کے بارے میں تحقیق و جستجو بھی ایمان وکفر کے اضافے کا بذات خود ایک عامل ہے ۔
تیسری تفسیریہ ہے کہ اس سے مراد توحید کاعملی پہلوہے ،یعنی آ پ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ پوری کائنات میں صرف خدا ہی کی ذات ہے جوپنا ہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ،لہذا اس کی پنا ہ میں آ جایئے اور مشکل کاحل بھی اسی کے پاس لہذا اسی سے حل مشکلات کی دُعا کیجئے اور دشمن کی افرادی قوّت سے ہرگز نہ گھبرایئے ۔
ان تینوں تفسیروں کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اور ممکن ہے کہ تینوں آیت کے مفہوم میں جمع ہوں ۔
عقیدے پرمبنی اس مسئلے کے بیان کے بعد ایک بار پھر تقوٰے اور گنا ہوں سے پاک ہو نے کی بات کی گئی ہے،ارشاد ہو تا ہے : اوراپنے لیے اورایما ن دار مردوں اورایمان دار عورتوں کے گنا ہوں پر استغفار کرتے رہو (وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِنات) ۔
ظا ہر سی بات ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)عصمت کی بناپر ہرگز کسی گنا ہ کے مرتکب نہیں ہُوئے اوراس قسم کی تعبیرپاتو ” خوب تر“ کوچھوڑ کر ” خوب “ کواپنانے اور ” حسنات الابرار سیّئات المقر بین “ کی طرف اشارہ ہے ، یاپھر مسلمانوں کے لیے تنبیہ اورنموہٴ عمل ہے ( جب معصوم نبی کواستغفار کاحکم ہے ، تم گنا ہگار تو بطریق اولیٰ استغفار کرنے کے لیے مامور ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ ” حذیفہ یمانی “کہتے ہیں ” میں ایک تندزبان شخص تھا اور اپنے گھروالوںسے سخت کلامی سے پیش آ تاتھا ، رسُول اللہ کی خدمت میں عرض کی یارسو ل اللہ ! مجھے اس بات کاخوف ہے کہ زبان کی یہ تندی مجھے جہنّم میں نہ لے جائے ! تو رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:
” فاٴ ین انت من اِلا ستغفار ؟انی لاستغفراللہ فی الیوم ماة مرة “۔
” تم استغفار سے کیوں غافل ہو؟حتّٰی کہ خود میں بھی روزانہ سومرتبہ استغفارکرتا ہوں “ (اور بعض روایات میں ہے سترمرتبہ )( ۸) ۔
اگر دوسرے لوگ اپنے گنا ہوں کہ یہاں پرخدانے موٴ منین اور مومنات کے لیے شفاعت کی سفارش کی ہے اوراپنے پیغمبر کواُن کیلیے استغفار کاحکم دیا ہے تاکہ اپنی رحمت ان کے شاملِ حال کرے ، چنانچہ اس سے دنیا و آخرت میں مسئلہ ” شفاعت “کی گہرائی اور مسئلہ ” توسل “ کی ا ہمیّت بھی واضح او رآشکار ہوجاتی ہے ۔
اس آیت کے ذیل میں علت کو بیان کرتے ہُوئے فرمایاگیا ہے ،خداتمہار ے چلنے پھرنے اور ٹھہر نے کی جگہ کو جانتا ہے (وَ اللَّہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَ مَثْواکُم) ۔
وہ تمہارے ظا ہر وباطن ، اندرون و بیرون اشارے کنائے کواچھی طرح جانتا ہے ، حتّٰی کہ تمہار ے افکار ، نیتوں اور حرکات وسکنات سے بھی پوری طرح باخبر ہے ، اسی لیے تمہیں چا ہیئے کہ تم اس کی طرف توجہ کر واوراس کی بارگاہ سے طلب مغفرت کرو۔
” متقلب “ کامعنی آمدو رفت کی جگہ اور” مثوٰ ی “کامعنی ٹھہر نے کی جگہ ہے ( ۹) ۔
ظا ہر یہ ہے کہ ان دونوں کلمات کامفہوم وسیع او ر عام ہے ، جس میں انسان کی تمام حرکات وسکنات آجاتی ہیںخوا ہ وہ دُنیا میںہوں یا آخرت میں ، شکم مادر میں ہوں یاقبر کے پیٹ میں ، اگرچہ بہت سے مفسرین نے ان کے محدُود معانی بتائے ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے انسان کی دن کوحرکات اوررات کوسکون مراد ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے دُنیامیں چلنے پھرنے کی اور آخرت میں انسان کے ٹھہر نے کی جگہ مراد ہے ، بعض کہتے ہیں کہ اس سے انسان کاباپوں کی پشت اورماؤں کے رحم میں منتقل ہونا اور قبرمیں ثبات وقرار مراد ہے اور بعض کہتے ہیں اس سے انسان کاسفرمیں حرکت کرنا اورحضرت میں آرام کرنا مراد ہے ۔
لیکن جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں آیت کامفہوم وسیع اورعام ہے جو مذ کورہ تمام تفاسیر کواپنے دامن میں لیے ہُوئے ہے ۔
” اشراط السّاعة “ کیا ہیں؟
جیساکہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ ” اشراط “ ’شرط “ کی جمع ہے جس کامعنی ” علامت “ ہے اور ” اشرا ط الساعة “قرب قیامت کی علامتوں کوکہتے ہیں ،شیعہ سُنی کتابوں میں اس بارے میں بہت سی روایات درج ہیں جب کہ قرآن مجید میں صرف اسی آیت میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔
اس بارے میںسب سے زیادہ مفصل اور جامع وہ حدیث ہے جوابن عباس کے بقول حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ارشاد کی ہے ، جس میں بہت سے مسائل ہمار ے لیے درس آ موز ہیں اور وہ بہت سے نکات کی حامل ہے ، اسی لیے یہاں پر مکمل حدیث کونقل کیے دیتے ہیں ۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرا ہ تھے ( حجتہ الوادع ، اس حج کوکہتے ہیں جِسے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے آخر ی عمر میں ادا کیا تھا) پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے خانہ کعبہ کے دروازے کی زنجیرکوپکڑ کرہماری طرف منہ کرکے ارشاد فرمایا :” آیاتمہیں “ اشراط الساعة “ سے آگاہ کروں “۔
حضرت سلمان نے جواس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ،عرض کی :ضرور ارشاد فرمایئے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فر مایا :قیامت کی نشانیوں میں سے ہے نماز کوضائع کردینا ،شہوتوں کی پیر وی کرنا ،خوا ہشات نفسانی کی طرف مائل ہونا ،دولت مندوں کی عزت کرنا ،دین کودنیا کے بدلے بیچ ڈالنا ، ایسے موقع پرموٴ من کا دل یوں گھلتارہے گاجس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے ، کیونکہ وہ ان برائیوں کودیکھے گا، لیکن ان کا ازالہ اور تبدیل اس کے بس سے بارہر ہوگی “۔
سلمان نے عرض کی :یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ایسا بھی ہوگا ؟
فرمایا :ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے ،سلمان ! اس زمانے میں حکام ظالم ، وز راء فاسق پیشہ ور ظالم اورامانت میں خیانت کرنے والے لوگوںپرحکومت کریں گے “۔
سلمان : ” یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ایسا بھی ہوگا ۔
فرمایا :” سلمان ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٴ قدرت مین میری جان ہے ، اس وقت اچھائیاں برائیاں اور برائیاں اوراچھائیاں سمجھی جائیں گی، امانت خائنوں کے سپرد کی جائے گی ، امین خائن بن جائیں گے ،چھوٹوں کی تصدیق اور سچّوں کی تکذیب کی جائے گی “۔
سلمان : تو کیا ایسا بھی ہوگا؟اے اللہ کے رسُول ! “۔
فر مایا : ہاں خدا کی قسم اے سلمان ! اس وقت حکومت عورتوں کے ہاتھ میںہوگی ، غلاموں سے مشورہ کیاجائے گا ،لڑکے منبروںپر بیٹھیں گے ، جھوٹ دل لگی کے طورپر بولا جائے گا ، زکوٰة کوتاوان سمجھا جائے گا اور بیت المال کو غنیمت سمجھ کرلوٹا جائے گا “۔
” لوگ اپنے والدین سے برائی اور دوستوں سے اچھائی کریں گے ، آسمان پردم دار ستارہ ظا ہرہوگا “۔
سلمان : ” یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!کیا ایسابھی ہوگا؟“۔
فرمایا : ہاں سلمان ! اُس کی قسم جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے ، اس وقت عورت اپنے شوہر کے ساتھ تجارت میں شریک ہوگی (اور دونوں کی سرگرمیان گھرسے با ہر کے ماحول سے متعلق ہوں گی اور دونوں کی توجہ دولت سمیٹنے پرمر کوزہوگی )بارشیں کم ہوں گی ،سخی لوگ بخیل ہوجائیں گے اور غریبوں کوحقیر سمجھاجائے گا ، اس وقت بازار ایک دوسرے کے نزدیک ہوجائیں گے ایک (دو کاندار ) کہے گا ، میں نے کچھ نہیں بیچا ، اوسرا کہے گا مجھے منافع حاصل نہیںہوا ،غرض سب اپنے رب کی شکایت اور مذمت کرتے ہوں گے ۔
سلمان ! اللہ کے رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ایسابھی ہوگا ؟“۔
فرمایا : ہاں سلمان ! اس کی قسم جس کے دست ِقدرت میں میری جان ہے اس وقت کچھ مشرق سے لے آئیں گے اور کچھ مغرب سے لے آ ئیں گے ( کچھ قانون مشرق سے اورکچھ قانون مغرب سے ل آئیں گے )اورمیری اُمّت مختلف رنگ اختیار کرے گی ، اس وقت کی امت کے کمزور افراد پرافسوس ہے نہ تو چھوٹوں پررحم کریں گے نہ ہی بڑوں کا احترام کریں گے اور نہ ہی کسی گنا ہ گا ر کون بخشیں گے ، ان کے جسم توانسانوں جیسے ہوں گے لیکن دِل شیاطین کے سے “۔
سلمان : ” یارسُو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!آیا ایسابھی ہوگا ؟“۔
فرمایا : ہاں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٴ قدر ت میں میں میری جان ہے اے سلمان ! اس زمانے میں مرد ، مرد وں پر قناعت کریں گے اور عورتیں عور توں پر اورلڑکوں پر اسی طرح رقابت کریں گے ، جس طرح لڑ کیوں پران کے خاندانوں میں کی جاتی ہے ،عورتیںخود کو مردوں کے مشابہ بنائیں گی اور مرد عو رتوں کے اور عور تین زین سواری کریں گے ( اورخود نمائی کریں گے ) خدا کی ان پر لعنت ہو ۔
سلمان ! ” اللہ کے رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آیا ایسا بھی ہوگا “۔
فرمایا : ” ہاں سلمان ! اس کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے ، اس زمانے میں مسجد وں کویوں سجایا جائے گاجس طرح یہود و نصارٰی اپنی عباد ت گاہوں کو سجاتے ہیں ،قرآنوں کومزین کریں گے (اس کے مضامین پر عمل نہیں کریں گے )مسجدوں کے مینار اونچے ہوںگے اور نمازیوں کی صفیں بڑی تعداد میں ہوں گی ،لیکن ان کے دل ایک دوسرے کے دشمن اور زبانیں مختلف ہوں گی ۔
سلمان : ” یارسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آیا ایسابھی ہوگا۔
فرمایا : ہاں سلمان ! اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس زمانے میں میری اُمّت کے لڑ کے سونے کے ساتھ زینت کریں گے ،حریر ودیبا پہنیں گے اور چیتے کی کھال سے اپنالباس تیار کرکے پہنیں گے “۔
سلمان : یارسُو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آیا ایسا بھی ہوگا ؟“۔
فرمایا : ہاں سلمان ! اس کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میر ی جان ہے ، اس وقت طلاق کی تہا ہوجائے گی ، خدا کی کسی حد کا اجراء نہیں کیا جائے گا ،لیکن یہ بات خدا کو نقصان نہیں پہنچا ئے گی (بلکہ وہ لوگ خود نقصان اٹھائیں گے ) ۔
سلمان : ” آیا ایسابھی ہوگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)؟“۔
فرمایا: ہاں سلمان ! جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے اُس کی قسم ، اس وقت میری اُمّت کے مالدار لوگ تفریح کی غرض سے مہتوسط طبقہ تجارت کے قصد سے اور غریب لوگ ریا کاری کے لیے حج پرجائیں گے ، اس وقت ایسے لوگ پیدا ہوں گے جوقرآن کوغیر خداکے لیے تھامیں گے اور اس کے ساتھ لہوو لعب کے آلات کا سالوک کریں گے اورایسے لوگ پیدا ہوںگے جو غیر خداکے لیے عِلم دین حاصل کریں گے ، زناکی اولاد کثر ت سے ہوگی ، قرآن کوراگ کی طرز میں پڑ ھا جائے گا اور دُنیا کے لیے ایک دوسرے پرسبقت لے جائیں گے “۔
سلمان : ایسا بھی ہوگا یارسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!؟ “۔
فرمایا : ہاں سلمان ! جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم یہ اس وقت ہوگا، جب حرمت کے پردے چاک ہوجائیں گے ،گنا ہ کثرت سے رونما ہوںگے ،بد کار لوگ نیک لوگوں پرمسلط ہوجائیں گے ، جھوٹ عام ہوجائے گا، ہٹ دھرمی زیادہ ہوجائے گی اور فقر وفاقہ کی کثرت ہوجائے گی ،لوگ مختلف لباسوں کی وجہ سے ایک دوسرے پرفخرکریںگے ،بارشیں بے موقع ہوں گی ، جو ا اور آلادِ موسیقی کواچّھا اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بُرا سمجھیں گے ۔
” حالات اس حد تک بگڑ جائی ںگے کہ اس وقت مومن تمام لوگوںسے زیادہ ذلیل ہوگا، قرآن کے قاری اورعبادت گزارلوگ ایک دوسرے کی بدگوئی کریں گے اورانہیں ملکوت اعلیٰ میں نجس اور پلید لوگوں کے نام سے پکاراجائے گا “۔
سلمان : ” یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! کیا ایسا بھی ہوگا ؟“۔
فرمایا : ہاں سلمان ! جس کے قبضہ ٴقدرت میں میری جان ہے اس کی قسم اس وقت مالدارلوگ غریبوں پر کوئی رحم نہیں کریں گے ،حتّٰی کہ کوئی ضرورت مند لوگوں میں کھڑا ہوکراپنی حاجت کا اظہار کرے گاتو کوئی اسے کچھ نہیں د ے گا۔
سلمان : ” ایسابھی ہوگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!؟“۔
فر مایا: ” ہاں سلمان ! جس کے قبضہ ٴ قدر ت میں میری جان ہے اس کی قسم ، اس وقت ”رو یبضہ “ بھی بات کر ے گا “۔
سلمان : ” یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میرے ماں باپ آپ پرقربان جائیں، ” رو بیضہ “ کیا ہے “۔
فر مایا: ” جس نے کبھی کوئی بات نہیں کی ہوگی وہ بھی مظلوم ومحروم انسان کے حق میں بات کرے گا “(وہ شخص بھی بولے گاجسے بولنے کا موقع نہیںدیاجاتا ہوگا) ۔
” تو اس وقت زیادہ دیرنہیںگزر ے گی کہ زمین سے اس انداز میں چیخ بلند ہوگی کہ ہرگروہ یہ سمجھے گا کہ یہ آواز اسی کے علاقے سے اُٹھ رہی ہے ۔
پھرایک عرصے تک جب تک خداچا ہے گا لوگ اسی حال پر باقی رہیں گے،پھراسی دوران میں پتھر زمین میںشگاف کریں گے اورزمین اپنے دل کے ٹکڑے با ہر نکال پھینکے گی ، یعنی سُونا اور چاندی ۔
پھرآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ہاتھ سے ستون مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ” ان کے مانند“اوراس روز سونا اور چاندی کسی کام کے نہیں رہیں گے (حکمِ الہٰی پہنچ جائے گا ، یہ ہے معنی خداکے اس فرمان کے ” فقد جاء اشراطھا(۱۰) ۔
۱۔اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ملتے ہیں ، سب سے مناسب قول یہی ہے کہ ” مثل الجنّة “ مبتدا ہے اوراس کی خبرمحذوف ہ ، جو تقدیری طورپریوں” مثل الجنّة الّتی وعد المتقون جنة فیھا انھار“درحقیقت یہ آیت سورہٴ رعد کی ۳۵ ویں آیت سے مِلتی جُلتی ہے ، جس میں کہاگیا ہے :
” مثل الجنة الّتی وعد المتقون تجری من تحتھا الانھار “۔
۲۔اس جُملے کا ایک محذوف ہے جوتقدیری صورت میں یوں ہے ۔
” وَ لَہُمْ فیہا انواع مِنْ کُلِّ الثَّمَرات“
۳۔اس آیت کی تفسیر میں بھی مختلف اقوال ملتے ہیں اوران سب میں مناسب تریہی ہے کہ کہاجائے کہ اس آیت میں ایک مقدر ہے جس کی اصلی اور تقد یری صورت یوں ہے ۔
” افمن ہُوَ خالِدٌ الجنة الّتی ھذہ صفاتہ کمن ھو خالد فِی النَّارِ “۔
۴۔ تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی ، تفسیرفی ظلال القرآن اور کئی دوسری تفسیریں ، انہی آیا ت کے ذیل میں ، (تعبیر میں قدر ے تفاوت کے ساتھ ) ۔
۵۔ تفسیر نورالثقلین ، جلد۵،صفحہ ۳۷۔
۶۔ جوکچھ ہم بتاچکے ہیں اگراس کو مدّ نظر رکھاجائے تومعلوم ہوگا ” فقد جاء اشراطھا “ کے جُملے سے یہ مراد نہیں ہے کہ قیامت کی تمام علاما ت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میںظا ہر ہوچکی ہیں ،بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ ان میں سے بعض علامتیں ظا ہر ہوچکی ہیں ، جو قیامت کے قریب ہونے کی خبر دیتی ہیں ہرچند کہ کچھ اور متین ابھی بعد میں ظا ہر ہوں گے “۔
۷۔ تفسیر رُوح المعانی ، جلد۲۶،ص ۴۸۔
۸۔مجمع البیان ، جلد۹،صفحہ ۱۰۲(انہی آیات کے ذیل میں ) ۔
۹۔بنابریں ” منقلب“اسم مفعول ہے جویہاں پر اسم مکان کے معنی میں ہے ،لیک کچھ اور مفر ین اسے مصدر ” میمی “سمجھتے ہیں ، جس کا معنی ایک حال دوسر ے حال کی طرف منتقل ہونا ہے ، لیکن ” مثوٰی “کے قرینے کے پیش نظر جوکہ مسلم طورپر اسم مکان ہے ، پہلا معنی زیادہ مناسب ہے ۔
۱۰۔تفسیر نورالثقلین بحوالہ تفسیرعلی بن ابرا ہیم و تفسیر صافی اسی آیت کے ذیل میں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma