ہدایت صرف خداکے ہاتھ میں ہے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

اگرچہ مفسرین نے زیر نظر پہلی آیت کی شان نزول میں بہت بحث کی ہیں .لیکن انھوں نے جن روایات کوبنیاد بحث بنایاہے وہ بے اعتبار و بے وقعت ہیں . اورخاص مقاصد کے لیے انھیں وضع کیاگیاہے .لہذا .ہم نے یہی بہتر سمجھا ک اس آیت کی تفسیر خود قرآن مجید ہی سے اخذکی جائے . اس کے بعد ان مشکوک اورجعلی روایات کی تحقیق کی جائے ۔
غور طلب یہ امر ہے کہ گزشتہ آیات میں دو گروہوں کاذکر تھا .ایک گروہ ہٹ دھرم کفار مکہ کاتھا . جناب رسول خدا نے ہرچند انھیں ہدایت دینے کی کوشش کی ، مگر ا ن کے دلوں میں نور ایمان کانفوذ نہ ہوا . ان کے برعکس مکّہ سے دور دراز فاصلے پررہنے والا ایک گروہ اہل کتاب کاتھا ، جنہوں نے ہدایت الہٰی کوقبول کیا اور راہ اسلام میں فر ط جذبات کے ساتھ استقلال و ایثار کاثبوت دیا . حتٰی کہ انہوں نے خود پرست جاہلوں اورقریبی عزیز وں کی مخالفت کی بھی پرواہ نہ کی اوران سے خوفزدہ نہ ہوئے .ان امور پر توجہ کرنے کے بعد زیر نظر پہلی آیت سے یہ حقیقت بے نقاب ہوتی ہے کہ اے پیغمبرتم جسے چاہتے ہواسے ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ خداجسے چاہتاہے ہدایت کرتاہے .اور وہ ہدایت پانے والوں کوخوب جانتاہے :( انک لاتھدی من اجبت ولکن اللہ یھدی من یشاء وھو اعلم بالمھتدین ) ۔
وہی جانتاہے کہ کون لوگ اس لائق ہیں کہ ایمان قبول کریں . وہی جانتاہے کہ کونسے دل طلب حق میں بے چین ہیں .وہی جانتاہے کہ کن سروں میں عشق الہٰی کاسودا سمایاہواہے .ہاں وہ ان شائستہ افراد کوخوب پہچانتاہے .وہ توفیق عنایت کرتاہے اورپنے لطف کوان کارفیق راہ بناتاہے تاکہ وہ ایمان کی راہ اختیار کریں ۔
لیکن وہ زشت سیرت تاریک د ل جو دشمن حق ہیں اوراپنے تمام وسائل سے فرستادگان خداکے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہو تے ہیں اوراپنی روش زندگی کے لحاظ سے اس قدر آلودہ اورشرمناک ہیں کہ کسی طرح بھی ان کاظرف نورایمان کوقبول نہیں کرسکتاخدا ہرگز ایسے لوگوں کی راہ میں چراغ تو فیق نہیں جلاتا ۔
بنابریں اس مقام پر ” ھدایت “ سے مراد ” ارائہ طریق “ نہیں ہے کیونکہ راہ راست کی ھدایت تو پیمبر کافرض ہے کہ وہ بغیر استثنا ہرایک کی رہبری کرتاہے .بلکہ یہاں ھدایت سے ” ایصال نہ مطلوب “ اورمنزل مقصود تک پہنچانا مراد ہے اور یہ صرف خدا کاکام ہے کہ دلوں میں ایمان کابیج بوئے اور خداکا یہ کام کرم بھی عام نہیں ہے . بلکہ وہ اہل دلوں پرنظر ڈالتاہے اور پھر انھیں یہ نور ایمانی عطاکرتاہے ۔
بہر حال یہ آیت ایک طرح سے پیغمبر کی دلجوئی کے لیے ہے تاکہ وہ اس واقعیت کی طرف متوجہ ہوں کہ نہ تومکہ کے بت پرستوں کے گروہ کاشرک پر اصرار بے وجہ ہے اور نہ مردم حبشہ یانجران اورحضرت سلمان اور بحیرا جیسے لوگوں کاایمان لاناہی بے دلیل ہے ۔پیغمبرکوچاہیئے کہ گروہ اول کے ایمان نہ لانے سے ہر گز ملول خاطر نہ ہوں کیونکہ نور الہٰی صرف دلہائے آمادہ کو تلاش کرلیتاہے .پھر وہاں داخل ہوتاہے اور سکونت پذیر ہوجاتاہے .اس مضمون کی مثالیں آیات قرآنی میں بہت ہیں ۔
چنانچہ ہم سورہ بقرہ کی آیت ۲۷۲ میں پڑھتے ہیں :
لیس علیک ھداھم لکن اللہ یھدی من یشاء
تم ان کی ہدایت کے ذمہ دارنہیں ہو بلکہ خداجیسے چاہتا اسے ہدایت کرتاہے
اورسورہ نمل کی آیت ۳۷ میں فرمایاگیاہے ۔
ان تحرص علی ھدھم فان اللہ لایھدی من یضل
اس گروہ کی ہدایت پرتیرا اصرار مئوثر نہیں ہے کیونکہ خدانے جسے گمراہ کردیا ہے ، اسے ہدایت نہیں کرتا ۔
اور سور ہٴ یونس کی آیت ۴۳ میں مذکوہ ہے :
افانت تھدی العمی ولو کانو الا یبصرون
تم اندھوں کو ھدایت کرنا چاہتے ہو . ہرچندکہ وہ کسی چیز کونہیں دیکھتے اور کسی حقیقت کابھی ادراک نہیں کرتے ۔بالآخر سورہ ابراہیم کی چوتھی آیت میں ایک قانون کلی طور فرمایاگیاہے :
فیضل اللہ من یشاء و یھدی من یشاء وھوالعزیز الحکیم
خدا جسے چاہتاہے گمراہ کرتاہے کہ ان دونوں گرو ہوں کے بارے میں خداکی مشیت کورانہ نہیں ہے بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے خیال سے ایمان نہیںلاتے تھے . چنانچہ فرمایاگیا ہے : انھوں نے کہا کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کوقبول کر لیں ، اوراس کی پیروی کریں ہمیں زمین سے اچک لیں گے : وقالوا ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا ) (۱)۔
تفاسیر میں آیاہے کہ یہ با ت حارث بن نوفل نے کہی تھی . وہ حضرت پیغمبر کی خدمت میں آیااورعرض کیا :
” ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ حق ہے لیکن جو چیز ہمارے لیے آپ پرایمان لانے اور قبو ل حق سے مانع ہے وہ یہ ہے کہ عرب ہم پریلغا ر کردیں گے اور ہمیں ہماری زمینوں سے اٹھا لے جائیں گے اور ہم ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے “(۲)۔
یہ بات صرف وہی آدمی کہہ سکتاہے جو خداکی قدرت کوناچیز سمجھتاہے اوتھوڑے سے جاہل عربوں کی قوّت کوبہت عظیم یہ بات صرف وہی کہ سکتاہے جوخداکی عنایات اوراس کی حمایت کے رموز سے آشنا نہیں ہے اور یہ نہیں جانتاکہ وہ اپنے محبوں کی کس طرح مدد کرتاہے اوراپنے دشمنوں کو کس طرح برباد کردیتاہے . لہذا قرآن ایسے لوگوں کے جواب میں فر ماتاہے :
کیاہم نے انھیں ایسی جگہ نہیں دی جوجائے امن ہے . اور شہر ودیار کے ثمر ات کی طرف لائے

جاتے ہیں : (اولم نمکن لھم حرما منایجبی الیہ ثمرات کل شی ) (۳)اور یہ رزق ہماری طرف سے ہے :(رزقا من لدنا ) مگر ا ن میں سے اکثر یہ نہیں جانتے : (ولکن اکثر ھم لایعلمون ) ۔
وہ خدا جس نے شور ہ زار ، سنگلاخ اور بے آب و گیاہ زمین کوحرم امن قرار دے کر اور مخلوق کے دلوں کواس کی طرف ایسا متوجہ کرکے کہ دنیاکے مختلف مقامات سے بہتر ین پیدا وار اس کی طرف لاتے ہیں ، اپنی قدرت کو خوب ظاہر کردیاہے ۔
وہ خداجس نے ایسی قدرت نمائی کی ہے اورایسی سرزمین کوایسی نعمتیں بخشی ہیں کہ تم اپنی آنکھوں سے ا ن کے آثار دیکھتے ہو اور سالہا سال سے ا ن نعمات سے بہر ہ اندو ز ہو ر ہے ہیں ، کیا وہ اس امرپر قادر نہیں ہے کہ تھوڑے سے بت پر ست عرب اگر تم پرحملہ آور ہوں تو وہ ان سے تمہاری حفا ظت نہ کرسکے ؟
تم کوحالت کفر میں خداکی دوبڑی نعمتیں . امنیت اورنعمات زندگی ، نصیب ہوتی رہی ہیں . تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بعد اسلام خدا تمہیں ان نعمتوں سے محروم کردے . دل قوی رکھو ، ایمان لاؤ اور مزاج میں استقلال پید اکرو کہ خدا ی ٴ کعبہ و مکّہ تمہارے ساتھ ہے ۔
اس مقام پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ تاریخ سے تو یہ ثابت ہوتاہے کہ حرم مکّہ مسلمانوں کے لیے تو اس قدر جائے امن و امان نہ تھا . کیا مسلمانوں کی ایک تعداد پر وہاں ظلم و تعدّی نہیں کی گئی ؟ کیااہل مکّہ نے رسول اللہ کو پتھر نہیں مارے ؟ کیابعض مسلمانوں کومکّہ میں قتل نہیں کیاگیا ؟ کیاآخر کار حضرت جعفر طیار کے ساتھ کچھ لوگوں نے اور پھر باقی افراد نے حضرت پیغمبر کے ساتھ اس خیال سے کہ وہ وہاں اپنے کوغیر محفوظ سمجھتے تھے ہجرت نہیں کی ؟
اس سوال کاجواب یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود مکّہ میں دوسرے مقامات سے زیادہ امن تھا اورعرب اس مقام کومحتر م اور پاک سمجھتے تھے اور جن گنا ہوں کے وہ دوسرے مقامات پرمرتکب ہوتے تھے ، وہاں ا ن کے ارتکاب کی جرات کم کرتے تھے .مختصر یہ ہے کہ عین بے امنی کے زمانے میں بھی بڑی حد تک پر امن تھا .خاص طور پر شہرمکّہ میں اس کے اطراف وجوانب کے وعلاقوں کونسبت زیادہ امن رہتاتھا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آغاز اسلام میں ایک قلیل مدّت تک یہ سرزمین امن الہٰی مسلمانوں کے لیے ناآسود گی اور بے امنی کامقام ثابت ہوئی .مگر زیاد ہ عرصہ نہ گزراکہ یہ مقام پادئدارا من کامرکز اور جملہ اقسام کی عظیم نعمات کامرکز بن گیا بنابریں مسلمانوں کے لیے ان جلد گزرجانے والی مشکلات کا ، عظیم نعمتوں کے حصول کے لیے برداشت کرناکچھ سخت کام نہ تھا
بہرحال ایسے بہت سے لوگ ہیں جواپنے ذاتی مفادات کے نقصان کے خوف سے حادث بن نوفل کی طرح ھدایت اور ایمان سے دست کش ہوجاتے ہیں . جبکہ خداپر ایمان لانا اوراس کے احکامات پر عمل کرناصرف ان کے دنیا دی مفادات ہی کوخطرات سے محفوظ نہیں کردیتابلکہ ان کے مشروع مادّی منافع اوران کے لیے امن وسلامتی کامعاشرہ پیدا کرنے کے لیے بھی غیر معمولی پرمفید ہے ۔
آج کی دنیا میں جسے متمدن کہاجاتاہے ، کوقتل و غارت ، خوں ریزی اورتباہ کاری ہم دیکھتے ہیں وہ اس امر کی زندہ گواہ ہے . کہ لوگ ایمان اورھدایت سے دور ہوگئے ہیں ۔
یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ خدانے اس مقام پرپہلے نعمت کاذکر کیاہے اوراس کے بعد ہرسمت سے مکّہ کی طرف ضروریات انسانی کے آنے کاذکر ہے .ممکن ہے کہ یہ تربیت اس مر کی نشاندہی کرتی ہو کہ جب تک کسی ملک یاشہر میں امن وامان کادور دور ہ نہ ہو ، اس وقت تک وہاں کی اقتصادی حالت درست نہیں ہو سکتی . ہم نے اس مطلب کوجلد ۱۰ میں سورئہ ابراہیم کی آیتہ ۳۵ کے تحت مفصل بیا ن کیاہے ۔
علاوہ بریں آیتہ میں ”یجبی “ فعل مضاری کے صورت میں استعمال ہوا ہے ، جو حال اور مستقبل کی حالت استمراری پر دلیل ہے چنانچہ ہم چودہ سوسال گزرجانے کے بعد بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس سرزمین کی جانب پرطرف سے خدا کی نعمتیں کھنچی چلی جارہی تھیں خانہٴ خد ا کی زیارت کے لیے جاتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ یہ خشک وسوزاں او ر بے آب و گیا ہ زمین انواع و اقسام کی بہتر ین نعمتوں سے پر ہے .شاید دنیا کے کسی حصّے میں بھی نعمتوں کااتنا وفور نہ ہوگا ۔
حضرت ابواطالب کاایمان اور معاندین کامنشور :
ان حضرات کوجو اہل مطالعہ ہیں ، یہ بات عجیب معلوم ہوگی کہ راویان احادیث کی ایک جماعت کواس پرکیوں اصرار تھا کہ جنا ب رسالت کے چچا کو بے ا یمان اورمشرک ثابت کریں جبکہ ان کے متعلق دنیاکے تمام مسلمان باتفاق اس امر کے قائل ہیں کہ انھوں نے اپنی حیات میں پیغمبراسلام کی حمایت میں انتہادرجہ فدا کاری ،قربانی اورایثار سے کام لیا . ان لوگوں کااصرار ہے کہ ان کی وفات بحالت کفر ہوئی۔
آخر دوسرے لوگوں کے متعلق ، جن کااسلامی کوئی کردار نہیں ہے ، یہ اصرار کیونہیں ہے ؟ غور کنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسئلہ کوئی معمولی اورسرسر ی نہیں ہے .ہم دیکھتے ہیں کہ ان تاریخی اورروایاتی بحثوں کے پیچھے حضرت علی (علیه السلام) کے رقیبوں کی طرف سے ایک خطرناک سیاسی کھیل کھیلاجارہاتھا .اس امر پر نظر کرنے سے کسی مزید وقت نظر کی ضرورے نہیں رہ جاتی ۔
ا ن معازین کااس امر پر زرو تھا علی (علیه السلام) سے ہرفصیلت چھین لیں .حتٰی کے ان کے باایثار اور فد اکار باپ کومشرک ثابت کریں اور انھیں بحالت عدم دنیا سے تخصت کریں ۔
یقینا بنی امیہ اوران کے ہواخواہ اپنے عہد میں برسر اقتدار آنے سے پہلے بھی ، اس فتنہ پردازی میں مشغور ہتے تھے اور کوشش میںلگے رہتے تھے کہ جہاں سے بھی ممکن ہواس مقصد کے لیے شواید جمع کریں خواہ وہ کیسے ہی کمزور اور بے بنیاد ہوں ۔
ہم اس کثیف اور گندی سیاست کی مخالفانہ امواج سے جواپنی جگہ پر غوو فکر کی مستحق ہے ، اسے قطع نظر کرتے ہوئے .جہاں تک موضوع کتاب اجازت دیتاہے اس موضوع کاتاریخ اورتفسیر ی حیثیت سے حقیقت طلبانہ مطالعہ کرتے ہیں ، تاکہ قارئین پر یہ روشن ہوجائے کہ اس ہنگامئہ اختلاف کی پشت پر کوئی معتبر سند موجود نہیں ہے . بلکہ اس کے خلاف حقیقت ہونے پر زندہ شواہد موجود ہیں ۔
۱۔ آیة زیربحث یعنی ( انک لاتھدی من اجبت ...) کاکسی طرح بھی جناب ابوطالب سے کوئی ربط نہیں ہے ۔
کیونکہ اس کے ماقبل کی آیات اس امر کی دلیل ہیں کہ یہ مشرکین مکّہ کے خلاف اہل کتاب میں سے مومنین کی ایک جماعت کے متعلق نازل ہوئی تھیں ۔
جاذب توجہ یہ امر ہے کہ فخر رازی جس نے اس آیتہ کو (اجماع مسلمن کانام لے کر ) حضرت ابوطالب کی جانب منسوب کیا ہے ، خود ہی اعتراف کرتاہے کہ آیة اپنے ظاہر ی معنی کے لحاظ سے کسی طرح بھی ابوطالب کے کفر پر دلالت نہیں کرتی (۴) ۔
اس تصریح کے بعد بھی بعض لوگوں کایہ اصرار کیوں ہے کہ اس ّیة کوحضرت ابوطالب کے شرک سے مربوط کردیں . واقعا یہ بات بہت حیران کن ہے ۔
۲۔ اس موضوع پرجو سب سے بڑی دلیل قائم کی گئی ہے وہ ”ادعای اجماعی مسلمین “ ہے کہ جناب ابوطالب دنیا سے ”مشرک “ رخصت ہوئے ۔
جبکہ اس اجماع کاذکر محض جھوٹ ہے . جیساکہ اہل سنت کے مشہور مفسّرین آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں تصریح کے ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے اور آیة فوق کے متعلق اجماع مسلمین یامفسرین کی یہ روایت کے یہ حضرت ابوطالب (علیه السلام) کے متعلق نازل ہوئی تھی ، درست نہیں معلوم ہوئی .کیونکہ علمائے شیعہ اور ان کے بہت سے مفسرین حضرت ابوطالب (علیه السلام) کے ایمان کے معتقد ہیں اوراس موضوع پر انھوں نے اہلبیت علیہم السلام کے اجماع کا دعویٰ کیاہے . علاوہ بریں حضرت ابوطالب (علیه السلام) کے اپنے اکثر قصائد ان کے ایمان کی شہادت دیتے ہیں(۵)۔

۳۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ” اجماع مسلمین “ کے ادعاکاسر چشمہ اخبار احاد ہیں جن کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور ان روایات کی سند میں جن افراد کے نام آتے ہیں وہ مشکوک یاکذاب ہیں ۔
ان روایات میں سے ابن مردویہ نے اپنی سند کے ساتھ ابن اعباس سے نقل کی ہے :
آیة ” انک لاتھدی من اجبت “ ابوطالب کے متعلق نازل ہوئی ہے . پیغمبراسلام نے ا ن سے اسلام قبو ل کر نے کے لیے بہت اصرار گیا مگر انھوں نے قبول نہ کیا (۶) ۔
حالانکہ اس روایت کی سند یہ مترشح ہوتاہے کہ ابن عباس نے اسے کسی واسطے کے بغیر بیا ن کیا ہے اورخوہ ان حالات کے شاہد و ناظر تھے .جبکہ معلوم ہے کہ ابن عباس ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے تھے . بنا بر یں حضرت ابوطالب (علیه السلام) کی وفات کے وقت وہ شیرخوار ہوں گے اس سے ثابط ہے کہ یہ حدیثیں گھڑنے والے اپنے فن میں بھی ماہر نہیں تھے ۔
اس سلسلے میں ایک حدیث ابوہریرہ سے بھی نقل کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں :
جس وقت ابوطالب کی وفات کاوقت قر یب آیا تورسول اللہ نے ان سے فرمایا کہ : اے چچا ! کہئے : ” لا الہ الا اللہ “ تاکہ میں بروز قیامت آپ کے متعلق موحد ہونے کی گواہی دوں ۔
تو ابوطالب نے جواب دیا :
” اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتاکہ قریش مجھے یہ طعنہ دیں گے کہ اس نے موت کے وقت خوف کی وجہ سے اسلام قبو ل کر لیا تو میں ضرور توحید کی شہادت دیتااورتجھے مسرور کردیتا “
اس وقت آیة ” انک لاتھدی من اجبت “ نازل ہوئی ۔
اس حدیث کاظاہر ی لب و لہجہ یااند از بیا ن اس امر کامظہر ہے کہ ابو ہریرہ نے اس وقوعہ کو بچشم خو د دیکھا تھا . حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ابوہریرہ نے ہجرت سے سات سال بعد ( یعنی فتح خیبر کے سال میں ) اسلام قبو ل کیاتھا . تو پھر بھلا وہ حضرت ابوطالب (علیه السلام) کی وفات کے وقت کیسے موجود ہوگئے جوماقبل ہجرت واقع ہوئی تھی ۔
بنا بریں اس روایت سے بھی غیر ماہرانہ جعل سازی نمایا ں ہے ۔
اوراگر یہ کہاجائے کہ ” ابن عباس اورابو ہریرہ “ خود اس واقعے کے شاید نہ تھے اورانھوں نے یہ داستان کسی دوسرے شخص سے سنی تھی توہم سوال کرتے ہیں کہ ” کس سے “ ؟
جس آدمی نے یہ روایت ان دونوں آدمیوں سے بیا ن کی و ہ ناشناس اور مجہول ہے .ایسی حدیث کو مرسل کہتے ہیں اور اور سب جانتے ہیں کہ مرسل حدیث معتبر نہیں ہوتی ۔
جائے افسوس ہے کہ مفسّرین اور راویان اخبار کی ایک جماعت نے بغیر تحقیق و غور فکر اس قسم کی احادیث کوایک دوسرے سے لے کراپنی کتابوں میں نقل کردیا ہے . اوراآہستہ آہستہ اپنے لیے توجیہہ اجماع بھی فراہم کرلی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کہاں کااجماع ؟ اور کیسی حدیث معتبر ؟
۴۔ ان تمام امور سے قطع نظر کرکے ان جعلی احادیث کامتن ہی غماز ہے کہ حضرت ابوطالب (علیه السلام) پیغمبر اسلام پرایمان لائے تھے ۔
ہر چند کہ انھوں نے مصالح کے تحت اعلانیہ اقرار نہیں کیاتھا . اورہم یہ جانتے ہیں کہ ایمان کاتعلق قلب سے ہے اور زبان تومحض ایک ذریعہ ٴ اظہار ہے ۔
بعض احادیث اسلامی میں حضرت ابوطالب (علیه السلام) کی کیفیت کواصحاب کیف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ لوگ دل میں ایما ن پنہا رکھتے تھے مگر بعض وجوہ کی بنا ء پر اس کااظہار نہیں کرسکتے تھے ۔
۵۔ کیایہ ممکن ہے کہ ایسے اہم مسئلہ میں صرف یک طرفہ روایات پرقناعت کرلی جائے اور ابوہریرہ او ابن عباس سے جوروایات منقول ہیں صرف انھیں پر اکتفا کرلیاجائے ؟
اس مسئلہ میں آئمہ اہل بیت (علیه السلام) اورعلمائے کے اجماع کوقابل توجہ کیوں نہیں سمجھا جاتا ؟ حالانکہ یہ لوگ خاندان پیمبر کے حالا ت زیاد ہ وقف ہیں ۔
حضرت ابوطالب (علیه السلام) کے بہت سے اشعار ہمارے پاس ہیں جو حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پران کے ایما ن کاآئینہ ہیں . بہت سے بزرگو ں اورعلماء نے ان اشعار کوانپی کتاب میں نقل کیا ہے .ہم نے آں جناب کی سخن گوئی کے چند نمونے تفسیر نمونہ کی جلد پنجم میں ( سورہ انعام کی آئیة ۲۶ ) کے ذیل میں اہل سنّت کے معرو ف منابع سے نقل کردئے ہیں ۔
۶۔ ان تمام امور سے قطع نظر کرکے حضرت ابوطالب (علیه السلام) کی تاریخ زندگی ، جنا ب رسالت مآب کے لیے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کوبھی ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔
ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو طالب (علیه السلام) کی موت سے سال کانام مسلمانوں نے ” عام الحزن “ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوطالب (علیه السلام) کواسلام سے عشق تھا . اوروہ جو پیمبراسلام کی اس قدر مدافت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی .بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مومن مخلص ، ایک جاں نثار اورایسے فدا کار کی تھی جواپنے رہبراور پیش واکا تحفظ کرریا ہو ۔
ان واضح حقائق کے باوجود کس قدر غفلت ، بے خبری ، ناشکرگزاری اور ظلم ہے کہ بعض لوگوں کایہ اصرار ہے کہ ایک مومن اور وحّد مخلص کومشرک قرار دے کردنیا سے رخصت کریں ۔
۱۔ آیت فوق میں ”معک “ ” نتبع “ سے متعلق ہے اور ا امر کا احتمال بھی ہے کہ اس کا تعلق ” ھدی “ سے ہو . اس طرح معنی میںخفیف سافرق ہوجائے گا ۔
۲ ۔” مجمع البیان “ زیربحث آیت کے ذیل میں ۔
۳ ۔ ” یجبٰی “ کامادہ ” جبا یة “ ہے اس کے معنی ہیں ” جمع کرنا “ لہذا اس حوض کوجس میںپانی جمع کرتے ہیں ” جابیة “ کہتے ہیں . ضمنا اوپر کی آیت میں ” نمکن “ ” نجعل “ کے معنی میں ہے اور ” حرما “ مفعول ہے . وگر نہ ” نمکن “ اپنے اصلی معنی میں چو کہ ” تمکین دینا “ہیں ” فی “ کے صلہ سے متعدی ہوتاہے ۔
۴ ۔تفسیر کبیر از فخررازی ، ج ۲۵ ، ص ۳ ۔
۵ ۔ روح المعانی ، ج ۲۰ ، ص ۸۴ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۶۔ در المنثور ، ج۵ ، ص ۱۳۳۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma