دنیا کی پالیسیاں تمہیں فریب نہ دیں :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

گزشتہ آیات میں یہ ذکر تھا کہ بعض کفّار مکّہ کو اسلام قبو ل کرنے میں یہ عذر تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئیں گے توعرب ہم پر حملہ کردیں گے اورہمیں ہماری سرزمین سے باہر نکال دیں گے اور ہماری زندگیوں میں خلل ڈال دیں گے ۔
گزشتہ آیات میں اس عذر کاباطق جواب دیا گیا ہے ۔
زیربحث آیات میں اس عذر کے دو جو اب اور بھی دیئے گئے ہیں ۔
خدا پہلے یہ فرماتاہے : بالفرض یہ کہ تم ایما ن کوقبول نہیں کرتے اور بحالت کفر و شرک ماّ دی حیثیت سے خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں لیکن یہ نہ بھولوکہ ہم نے بہت سی آبادیوں کو جواپنی خوشحال او پر نعمات زندگیوں پرمغرور تھیں نابود کردیا :( وکم اھلکنا من قریة بطرت معیشتھا ) . البتہ غرور نعمت نے انھیں سرکشی پر آمادہ کیا او ر یہ سرکشی ظلم اور ناانصافی کاسرچشمہ بن گئی اورظلم نے ان کی اصل حیات کو جلاکرخاکستر کردیا ۔
یہ ہیں وہ بستیاں اوران لو گوں کے مکانات کہ ان کی تباہی کے بعد کوئی کم ہی ان میں بسا ( فتلک مسا کنھم لم تسکن من بعد ھم الا قلیلا ) ۔
ان کی بستیاں اورمکان اسی طرح خالی ، خاموش ، ویران اور مکینوں کے بغیر پڑے رہے ، اگر کچھ لوگ وہاں آکر رہے بھی تو نہایت قلیل مدّت کے لیے اورہم ہی ان کے وارث ہو ئے : ( وکنا نحن الوارثین ) ۔
”کنانحن الوارثین “ کامطلب یہ ہے کہ وہ بستیاں مکینوں سے خالی رہیں نیز یہ کہ ” ہر چیز کاحقیقی مالک خداہی ہے “ اگر وہ عارضی اوروقتی طور پر بعض انسانوں کابعض چیزوں کامالک بنادیتاہے تو زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ یہ ملکیت زائل ہوجاتی اور مالک حقیقی ہی اس کا وارث ہوتاہے ۔
اس کے بعد کی آیتہ درحقیقت ایک سوا ل مقدر کاجواب ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر اصول یہ ہے کہ خدا سر کشوں کونابود کردیتاہے تو پھر اس نے مکّہ اور حجاز کے مشرکوں کوعذاب دے کرنا بود کیوں نہیں کیا جنہوں نے اپنی کرکشی کوآخر ی حد تک پہنچادیاتھا اور کوئی ایسی جہالت اور گنا ہ نہ تھا جس کے وہ مرتکب نہ ہوئے ہوں ؟
اس کے جواب میں قرآن میں ارشاد ہے کہ تیرا پروردگار ہرگز کسی شہر یاآبادی کو ہلاک نہیں کرت.جب ان کے مرکزی مقام پرکوئی نبی نہ بھیج دے . جوانھیں ہماری آیات پڑح کرسنائے :( وماکان ربک مھلک القرای حتی یبعث فی امھارسولا یتلوا علیھم ایاتنا ) ۔
رو ح مفہوم یہ ہے کہ ہم جب تک اتمام حجت نہیں کرلیتے اوراس قوم کی طرف صریح احکام کے ساتھ پیغمبروں کونہیں بھیج دیتے اس وقت تک ان کوسر کشی کی سزانہیں دیتے ہیں ۔
اتمام حجت کے بعد ہم ان کے اعمال کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اگر ان سے ظلم وستم سرزد ہوتاہے اور وہ مستوجب عذاب ہوتے ہیں تو ہم ان کو سزادیتے ہیں اور ہم ہرگز آبادیوں کونیست و نابود نہیں کرتے مگر اس حالت میں کہ ان کے ساکنین ظالم اور ستمگرہوں : (وماکنا مھلکی القرآن الاواھلھاظالمون ) ۔
” ماکان “ یا ” ماکنا “ تخصیصی الفاظ ا س امر کی دلیل ہیں کہ دائمی اور جاودانی سنت الہٰی تھی اور ہے کہ وہ کافی اتمام حجت کے بغیر کسی قوم کوسزانہیں دیت. نیز ” حتی بیعث فی امھا رسولا “ (جب تک ان شہروں کے مرکز میں اپناسوال مبعوث نہ کردے ) اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے .کہ یہ لازم نہیں ہے کہ خدا شہراورہر گاؤں میں اپناپیغمبربھیجے .صرف ایک ایسے مقام پر جہاں اس قوم کے دانشمنداور اہل فکر لوگ رہتے ہوں . اورجہاں سے ہرطرف اطلاعات پہنچ سکتی ہوں .پیغمبرکامبعوث ہوناکافی ہے ۔
کیونکہ اس علاقے کے تمام لوگ ضروریات زندگی کے لیے ہمیشہ وہاں آتے ہیں . اور وہاں جوبھی واقعہ ہواس کی خبربہ سرعت تمام علاقے میں اور دور و نزدیک کے مقامات میں پھیل جاتی ہے . جیسے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ میں بعثت کی خبربہت کم مدت میں تمام جزیر ہٴ عرب میں پھیل گئی تھی .بلکہ اس سے بھی دو ر تک پہنچ گئی تھی . چونکہ مکّہ عرب کامرکز ی مقام تھا (جیسے ام القریٰ کہتے تھے ) یہ مقام حجاز کامرکز روحانی بھی تھا .اورتجارتی مرکز بھی . یہاں تک کہ بعثت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خبرا س زمانے کے تمام متمدن مقامات تک پہنچ گئی تھی ۔
اس آیة میں ایک کلی اور عمومی حکم بیان کیاگیا ہے . بعض مفسرین نے جو اس آیة کامشار الیہ مکہ کوسمجھا ہے یہ باالکل بے دلیل بات ہے اور ” فی امھا “ کہنابھی ایک عام تعبیر ہے کیونکہ کلمہ ”ام “ کے معنی ماں اور مرکز اصلی کے ہیں .یہ کلمہ صرف مکہ کے لیے مخصوص نہیں ہے (۱)۔

زیر نظر آیات میں سے تیسری آیتہ ان بہانہ ساز کفار کی باتوں کاجواب ہے جو یہ کہتے تھے . کہ اگرہم ایمان لے آئے تو عرب ہم پر یورش کردیں گے اور ہماری زندگی کوتباہ کردیں گے ۔
ان کے اس حیلہ کارد قرآن میں یہ ہے :تمہارے پاس جوکچھ بھی ہے وہ حیات دنیاکی بے قدرو قیمت متاع اورصرف اس کی زینب ہے : ( ومآ اوتیتم من شی ٴ فمتاع الحیٰوة الدنیا وزینتھا ) ۔
مگر جو کچھ خداکے پاس ہے . (یعنی دوسری دنیاکی بے پایاں نعمتیں اور روحانی برکات ) وہ بہتراور پائیدار ہے ( وما عنداللہ خیراوبقی ) .کیونکہ دنیاکی تمام مادی نعمتوں کے ساتھ بہت سے ناگوار واقعات اور طرح طرح کے مشکلات لگی ہوتی ہیں اوردنیا کی کوئی نعمت بھی ضرر اور خطرسے خالی نہیں ہے ۔
اس حقائق کوپیش نظر رکھ کے ایک عاقل انسان تھوڑاسابھی مقابلہ کرکے یہ سمجھ سکتاہے .کہ ان نعمتوں کواس دنیا کی لذات پر قربان نہیں کرناچاہیئے .اس لیے آیة کے اخیرمیں یہ الفاظ ہیں ( افلاتعقلون ) کیاتم غورفکر نہیں کرتے ؟
فخررازی نے ایک فقیہ کے حوالے سے یہ نقل کیاہے کہ اگر کوئی یہ وصیت کرے کہ اس کاایک تہائی مال عاقل ترین لوگوں کودے دیا جائے تو میرافتویٰ یہ ہے کہ یہ تہائی مال ان لوگوں کودیں جو اللہ کے احکامات کی اطاعت کرتے ہیں . کیونکہ عاقل ترین انسان وہ ہے کہ زود گزر قلیل متاع کوچھوڑ دے اور پائیدار اورمستقل سرمایہٴ فراواں کولے لے اور یہ اصول صرف ان لوگوں پرصادق آتاہے جو فرمان الہٰی کے مطیع ہیں ۔
اس کے بعد فخررازی نے یہ اضافہ کیاہے کہ انہوں نے فقہی حکم اس زیربحث آیت سے اخذاکیا ہے (۲) ۔
۱۔ یہ بات کہ آیااس آیت میں مستقلا عقلیہ بھی شامل ہیں یانہیں .ہم نے اس بحث کوجلد ۱۲ میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۱۵ کے ذیل میں ذکر کیاہے ۔
۲ ۔تفسیر کبیر فخررازی ، جلد ۲۵، ص ۶۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma