سورہ عنکبوت کے مضامین اور فضیلت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

سورہ عنکبوت ، مکّہ میں نازل ہوئی


اس میں ۶۹آیات ہیں ۔


سورہ عنکبوت کے مضامین


محققین کی ایک جماعت میں مشہور ہے کہ یہ کل سورت مکہ میں نازل ہوئی .اس نہج سے اس کے مضامین مکی سورتوں کے مضامین سے ہم آہنگ ہیں . اس سورة میں مبدء او معاد کا ذکر ہے ، گزشتہ او لعزم انبیا ء کے قیام او ر مشرکوں اور بت پرستوں ،جابروں او ر ستمگروں سے ان کی جنگ اور پھر فتح کا بیا ن ہے اور پھر نتیجہ ظالم گروہ کی تباہی اوربربادی کے واقعات بیا ن کیے گئے ہیں ۔
علاوہ بریں اس سورہ میں یہ مضمون بھی ہے کہ انبیاء نے کس طرح منحرف فین کی طرف دعوت دی اور انھیں اس راہ میں کیسی کیسی آزمائشوں س ے سابقہ پرا . نیزیہ کفار کس طر ح مختلف بہانوں سے قبول حق سے اعراض کرتے رہے ۔
مفسرین کی ایک جماعت کاخیال ہے کہ اس سورہ کی ابتدائی گیارہ آیات باقی سورہ سے مستثنٰی ہیں.ان کاعقیدہ ہے کہ یہ گیارہ آیات مدینے میں نازل ہوئی تھیں ۔
ان مفسرین کے اس عقیدہ کے محرک شاید و ہ بعض شانہایٴ نزول ہیں ، جن کاہم بعد میں ذکر کریں گے اور جہاد کی وہ بحث ہے جوان آیات میں وار ہوئی ہے . اسی طرح و ہ اشارات بھی ہیں جوان آیات میں منافقین کے متعلق موجود ہیں . یہ تمام مضامین مدنی سورتوں سے مناسبترکھتے ہیں ۔


اول : اس سورہ کی ابتداء میں منافقین کی کیفت اور ان کے مبتلائے امتحان ہونے کاذکر ہے .حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں امور کا ناقابل انقطاع تعلق ہے . کیونکہ منافقین کی شناخت اس وقت تک ہو ہی نہیں س کتی جب تک وہ امتحان و آز مائش میں مبتلا نہ ہوں ۔


دوم : آیت کے مضامین کے دوسرے حصے میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کی د لجوئی کے لیے پیمبران ِ او لو العزم کی ( مثلا : حضر ت نو ح علیہ السلام ، حضرت براہیم علیہ السلا م ، حضر ت لوط علیہ السلام ، اور حضر ت شعیب علیہ السلام ) کی زندگی کے کچھ حالات بیان کیے گئے ہیں اور یہ بتایاگیاہے کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد کے نمرود اور خود پرست اہل دولت کا کس طرح مقابلہ کیا ہے ، ان جنگ کے آلات کیاتھے ، کیفیت جنگ کیاتھی اور پھر اس مبارزہ کا نتیجہ کیاہوا ؟
اس بیان کامقصود یہ ہے کہ ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کادل قوی ہوا ور دوسری طرف رسول السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے سنگدل اور ظالم پرستوں کو تنبیہ ہو .


سوم : اس سورہ کے مضامین کاتیسرا حصہ جوخصوصیت سے آخر میں ہے ،اس میں توحید باری تعالیٰ ،عالم آفرینش میں اس کی آیات اور شرک سے مبارزة کا بیا ن ہے . اس سلسلے میں انسان کی فطرت سلیم اوراس کے وجدان کو مخاطب کیاگیاہے ۔
چہارم : اس سورہ کے ایک اور حصہ میں متنوع قسم کے مضامین ہیں مثلا : غیر حقیقی معبود وں اور ان کے عنکبوت صفت پجاریوں کی ناتوانی کاذکر ہے .اسی طرح اس حصے میں قرآن کی عظمت ، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حقانیت اور مخالفین کی سرکشی کا بیان ہے ۔
علاوہ بریں اس حصے میں مسائل تر بیتی کابھی ایک سلسلہ ہے . مثلا : نماز و والدین کے ساتھ نیک سلو ک ،اعمال صالح اور مخالفین اسلام سے گفتگو اور بحث کاطریقہ تعلیم کیاگیاہے۔


اس سورہ کی فضیلت


تفسیر مجمع البیان میں جناب رسالمتآ ب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ قول درج ہے : ۔
من قرہ سورة العنکبوة کان لہ من الا جرعشر حسنا ت بعد د کل المو ٴ منین والمنافقین ۔
جو آدمی سورہ عنکبوت پڑ ھتا ہے اس کے حصے میں تمام مومنین اور منافقین کی تعداد سے دس گنا حسنات لکھے جاتے ہیں ۔
بالخصوص باہ رمضان کی تیئس ( ۲۳) تاریخ کی شب میں س ورہ عنکبوت اور سورہ روم کی تلاوت کے متعلق غیر معمولی فضیلت وارد ہوئی ہے . یہا ں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقولہے :
من قرء سورة العنکبوت والروم فی شھرر مضان لیلة ثلاث و عشرین فھو واللہ من اھل الجنة لااستثنی فیہ ابدا ولا اخاف ان یکتب اللہ علی فی یمینی اثما ،وان لھا تین السورہ تین من اللہ مکانا ،
جو آدمی ماہ رمضان کی تیس ( ۲۳ )تاریخ کی شب میں س ورہ عنکبوت اور سورہ ٴ رو م کی تلاوت کرے ، قسم بخد اوہ اہل بہشت میں س ے ہے . میں اس معاملے میں کسی کو مستثنی نہیں کرتا . اور اس بات سے بھی دونوں س ورتوں کا خدا کے حضور میں بڑا مرتبہ ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اندونوں سورتوں کے نہایت منفعت بخش مضامین،ا ن کے توحید آموز اہم اسباق اور انسان کی عملی زندگی کے لیے باعث خیرو سعادت پر و گرام اس امر کے لیے کافی ہیں کہ جو آدمی بھی صاحب فکر و عمل ہوگا ، وہ اسے بہشت کامستحق کردیں ۔
بلکہ اگرہم صرف عنکبوت کے مضامین سے نور ایمان اورخلوص عمل کا سبق حاصل کریں تو ہم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی قسم میں شامل ہوجائیں گے ۔
ایک آیت میں انسانوں کے عام امتحان کا ذکر ہے اوریوں لکھا ہے کہ :
بغیر استثنٰی تمام لوگ امتحان کی کٹھالی میں تبائے جائیں گے تاکہ جو لوگ گناہ گار ہیں و ہ سیاہ رو ہو جائیں۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اس عظیم آز ما ئش پر یقین کا مل رکھتاہو .اور خود کو اس امتحان کے لیے تیار نہ کرے اور وہ متقی اور پرہیز گار نہ بن جائے ۔


12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma