۱۔ ہمارے محبوب پیمبر جو کبھی مکتب میں نہیں گئے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
یہ درست ہے کہ لکھنا پڑ ھنا ہرانسان کے لیے باعث کمال سمجھا جاتاہے مگرکبھی ایسابھی ہوتاہے کہ لکھنے پڑھنے سے عدم واقفیت ہی کمال بن جاتا ہے .یہ اصول حضرت خاتم الا بنیاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بالخصوص صادق آتا ہے ۔
کیونکہ ، بالفرض اگرکوئی تعلیم یافتہ عالم یاکوئی آگاہ علوم ااور کثیر لمطالعہ فلسفی نبّوت کادعویٰ کرے اورقوم کے سامنے کوئی کتاب یہ کہ کرپیش کرے کہ ” یہ کتاب آسمانی ہے “ تو اس صورت میں قوم کی طرف سے شکوت پیش آنے کاامکان ہے کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہوسکتاہے کہ یہ کتاب خود اسی شخص نے تصنیف کرلی ہو . لیکن ... اگر ہم یہ دیکھیں کہ ایک علمی لحاظ سے پس ماندہ قوم میں کوئی صفحہ لکھا اوروہ ایک ایسی عظیم المرتبت کتاب پیش کرتاہے جو نہایت بلند اورعالی مضامین پر مشتمل ہے تو یہ ادراک کرنا قطعی آسان ہے کہ یہ کتاب اس کی تصنیف یا تخلیق فکر نہیں ہے .بلکہ وحی آسمانی اور تعلیم الہٰی کانتیجہ ہے ۔
قرآن کی دوسری آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ” امی “ استعمال ہوا ہے .چنانچہ ہم نے سورہ اعراف کی آیت ۱۵۷ کے تحت اس کلمہ کی تین تفسیریںلکھی ہیں . ان میں س ے بہترین تفسیر ” درس ناخواندہ “ ہے درحقیقت حجاز میں کوئی مدرسہ نہ تھاکہ جہاں پیمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیم حاصل کرتے اور نہ کوئی معلم تھاجس سے علم استفادہ کرسکتے .ہم نے اس سے پہلے یہ کہا ہے کہ مکہ میں ایسے لوگ جو لکھ پڑھ سکتے تھے ، سترہ ( ۱۷) سے زیادہ نہ تھے .کہاجاتاہے کہ عورت صرف ایک ہی تھی جو لکھنا پڑھنا جانتی تھی (1) ۔
یہ امر خلاف فطرت ہے کہ ایسے معاشرے میں جہاں مبادی علم سے آشنالوگ بھی اس قدر کمیاب اورانگشت شمار ہوں اگر کوئی آدمی صاحب علم و معرفت ہو اورلوگ اسے نہ جانتے ہوں . ان میں سے اگرکسی نے قطعی طور پریہ کہا ہو کہ میں نے ذرا بھی تعلیم حاصل نہیں کی اوراس کے اس دعویٰ پرکسی نے بھی شک نہ کیاہو تو یہ واقعہ مدعی کے صد ق قول پردلیل ہے ۔
بہر حال آیات زیر بحث میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جو کیفیّت بیان ہوئی ہے وہ اعجاز قرآن کوثابت کرنے اوربہانہ جو لوگوں کی بہانہ شکنی کے لیے نہایت مٴوثر اور کافی ہے ۔
جی ہاں ! رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نظیر اورعظیم عالم تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف مکتب و حی مین تحصیل علم کی تھی ۔
بعض لوگ کے لیے جو ایک بہانہ باقی رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت نبّوت سے پہلے ملک شام کے ایک دوسفر کیے تھے . ( وہ بھی قلیل مدت کے لیے جس میں آپ تجارتی کاروبار میں مصروف رہے تھے ) تو ممکن ہے ان ایک دوسفر وں میں آپ علمائے اہل کتاب سے ملے ہوں اوران سے دینی مسائل تحصیل کیے ہوں ۔
اس ادیاکے ضعف کی دلیل خود اسی میں پوشیدہ ہے .بھلایہ کیونکرممکن ہے کہ ایسا انسان جس نے کبھی مکتب کامنہ نہیں دیکھانہ کوئی حرف پڑھا وہ پیمبران گزشتہ کی تمام تاریخ ،احکام و قونین اور معارف عالی کو لوگوں سے سن کر اتنی جلد یاد کرلے اورانھیں تیٴس سال کی مدّت میں بروئے کار لائے اورجب اسے ایسے مسائل سے سابقہ پڑے جن کے پیش آنے کاکبھی گمان بھی نہ ہو تو اس کارد عمل نہایت حق بجانب ہو ۔
یہ بات ٹھیک و یسی ہی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں شخص نے تمام طبّی علو م چندروز مین از برکرلیے ہیں کیونکہ وہ فلاں ہسپتال میںڈاکٹر وں کو بیماروں کاعلاج کرتے دیکھتا رہاتھا . یہ بات توبا کل مذاق معلوم ہوتی ہے ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ لازمی ہے کہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونبوّت پرفا ئز ہونے کے بعد تعلیمات الہٰی کے ذریعے پڑھنے لکھنے پر قدرت حاصل ہوگئی ہے . اگر چہ کسی تاریخ میں بھی یہ نہیں لکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسمی طور پر تحصیل علم کی ہو ، آپ کوئی تحریر پڑھ سکتے ہوں یااپنے ہاتھ سے خط بھی لکھ سکتے ہوں ۔
او ر ہو سکتا ہے یہ بھی کہاجائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عمر جو اس کام سے پرہیز فرماتے رہے ،شاید اس وجہ سے تھا کہ بہانہ جو لوگوں کے ہاتھ کوئی ثبوت نہ آجائے ۔
کتب تاریخ اور حدیث میں صرف ایک مو قع کاذکر ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور وہ ہے صلح حدیبیہ کا واقعہ . مسند احمد میں یہ لکھا ہے کہ آن جناب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ میں قلم پکڑا اور صلح نامہ لکھا (2) ۔

لیکن علمائے اسلام کی ایک جماعت نے اس حدیث کا انکار کیاہے کہ اور یہ کہاہے کہ یہ قول زیربحث آیات قرآنی کے صریحا خلاف ہے .ہر چند کہ بعض حضرات کاعقیدہ ہے کہ آیت میںصراحت نہیں ہے .کیونکہ بقول ان کے ان آیات میں پیمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبلالز نبوّت کی حالت کو بیان کیاگیاہے . لہذا ا س امر میں کوئی مانع نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مقام بنوّت پر فایز ہونے کے بعد بطور استثناء ایک موقع پرکچھ لکھا ہو .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فعل بھی معجزہ شما ر ہوگا (3)۔
1۔ مسند احمد ، جلد ۴ ،صفحہ ۲۹۸۔

2 ۔ تفسیر نمونہ کی جلد ، ۶سورہ اعراف کی آیت ۱۵۷ کے تحت پمبرامی کی تشریح ملاحظ ہو ۔
3 سفینتہ البحار مادہ ” مراء “ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma