قومِ لُوط زیادہ منحوس صُورتِ حال سے دوچار ہوئی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
اِن آیتوں میں واقعہ ٔ قوم لوط اوراس گمراہ اور بے شرم گروہ پرنازل ہونے والے وحشت ناک عذاب کے بارے میں مختصر اور دل ہلا دینے والے اشار ے پائے جاتے ہیں ۔
اِس سورہ میں گزشتہ اقوام کی سرگزشت کایہ چوتھا حصّہ ہے ۔
پروردگار ِ عالم پہلے فر ماتاہے : قومِ لُوط نے اپنے پیغمبر کی پے درپے تخویف کی تردید کی (کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُر) ۔
نذر جیساکہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیاہے انذار کی جمع ہے جس کے معنی خوف دلانے اورمتنبہ کرنے کے ہیں ،اس تخویف کاذکر جمع کے صیغوں کے ساتھ بہت ممکن ہے کہ اس عظیم پیغمبر کی پے درپے تنبیہوں کی طرف اشارہ ہوکہ اس کج فہم قوم نے ان تمام ڈرانے والی باتوں کوجھٹلایا ۔ یا پھر یہ اشارہ ہے حضرت لوط علیہ السلام اوران سے پہلے آنے والے پیغمبروں کی طر ف سے کی جانے والی تنبیہوں کی طرف کیونکہ تمام پیغمبروں کی دعوتِ حق ایک ہی حقیقت کو لیے ہوئے ہوتی ہے ،اس کے بعد ایک مختصر سے جملے میں ان کے عذاب کے ایک گوشہ اورحضرت لوط علیہ السلام کے گھر والوں کی نجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : ہم نے ان پروہ تیز آندھی کہ جوسنگریزوں کواڑاتی تھی ، بھیجی (ِنَّا أَرْسَلْنا عَلَیْہِمْ حاصِباً) ۔اوران سب کوسنگریزوں کی اس بارش میں دفن کردیا سوائے لُوط علیہ السلام کے خاندان کے کہ ہم نے ان کوسحر کے وقت اس سرزمین بلاسے نجات دی ( ِلاَّ آلَ لُوطٍ نَجَّیْناہُمْ بِسَحَر) ۔
حاصب اس تیز آ ندھی کے معنوں میں ہے کہ جو حصباء ریت اورسنگریزوں کواڑا ئے ۔
قرآن کی دوسری آیتوں میں جہاں قومِ لُوط پرنازل ہونے والے عذاب کاذکرہوتاہے ،اس زلز لے کے علاوہ کہ جس نے ان کے شہروں کوزیروزبر کرکے رکھ دیاتھا، پتھروں کی بارش کابھی تذکرہ ہوتاہے ۔چنانچہ سورہ ہود کی آ یت ٨٢ میں ہمیں ملتاہے ،فَلَمَّا جاء َ أَمْرُنا جَعَلْنا عالِیَہا سافِلَہا وَ أَمْطَرْنا عَلَیْہا حِجارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ جس وقت ہمارا فرمان آگیا توہم نے اس شہر کو زیروزبر کردیااوراس پرسخت اورپتھر یلی مٹی کے پتھروں کی بارش کی ۔
کیایہ دوقسم کے عذاب تھے ؟ ایک توتیز آندھی کہ جواپنے ساتھ سنگریزوں اورریگ ِ بیاباں کواُڑاتی تھی اوران کی سرکوبی کرتی تھی ، دوسرے آسمانی پتھروں کی بارش ، یایہ کہ دونوں کاایک ہی مفہوم ہے ۔
بعض اوقات بڑی بڑی آندھیاں بیابان کے گردوغبار ،سنگریزوں اورخاک کے تودوں کواُٹھا کرآسمان کی طرف لے جاتی ہیں اور جس وقت طوفان کادبا ؤ کم ہوتاہے توایک ہی مرتبہ اِن چیزوں کوکسِی دوسری جگہ پھینک دیتی ہیں ۔لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہاں حکمِ خدا سے گرد آلود آندھی اس بات پرمامور ہوک ہ بیابان کے سنگریزوں اورخاک کے تودوں کوفضائے آسمانی کی طرف اُٹھا کرلے جائے او رتباہ وویران کردینے والے زلزلے کے بعدانہیں قومِ لوط علیہ السلام کے شہروں پرپھینک دے اوراس کے کج بینوں کواِن کے نیچے دفن کردے اس حد تک کہ ان شہروں کے ویرانے بھی صفحہِ زمین سے مِٹ جائیں تاکہ یہ صُورتِ حال ہمیشہ کے لئے دوسرے لوگوں کے واسطے درسِ عبرت بن جائے ( ١) ۔
اُوپر والی آ یت ضمناً یہ بھی بتاتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان کی نجات صبح کے وقت ہوئی ،اس کاسبب یہ تھا کہ اس سِتم شعار قوم پرنازل ہونے والے عذاب کاوعدہ بھی صبح کے وقت کا تھا ۔اس لیے یہ خانوادہ ،جوصاحب ِ ایمان تھا ،آخرِ شب میں (سوائے لوط کی بیوی کے کہ جس نے اپناراستہ لوط علیہ السلام سے علیٰحدہ اختیار کیاتھا) شہر سے باہر چلا گیا ۔ان کے جانے کے بعدتھوڑ ی ہی دیرگزر ی ہوگی کہ پہلے زلزلہ آیا، اس کے بعدپتھروں کی بارش شروع ہوئی جیساکہ سُورئہ ھُود کی آ یت ٨١ میں آ یاہے فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَ لا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ أَحَد ِلاَّ امْرَأَتَکَ ِنَّہُ مُصیبُہا ما أَصابَہُمْ ِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ أَ لَیْسَ الصُّبْحُ بِقَریب رات کے ایک حصّہ میں اپنے گھروالوں کولے کرروانہ ہوجاؤ اورتم میں سے کوئی بھی پیچھے مُڑ کرنہ دیکھے سوائے تمہاری بیوی کے کہ وہ بھی اسی بلا میں گرفتار ہوگی جس میں سب مُبتلا ہوں گے ۔ان کی وعدہ گاہ صبح ہے ۔کیاصبح نزدیک نہیں ہے ؟۔
یہاں سے واضح ہوجاتاہے کہ یہ جوبعض مفسّرین نے اربابِ لُغت کی پیروی کرتے ہوئے سحر کی معنی بین الطلوعین کے لیے ہیں یہ معنی اُوپر والی آ یت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتے ( ٢) ۔
بعد والی آ یت میں تاکید کے لیے ارشاد ہواہے ۔ خاندانِ لوط علیہ السلام کی نجات ہماری طرف سے ایک نعمت تھی ،جی ہاں !اسی طرح اس شخص کوکہ جو شکر گزاری کرے ہم اَجر دیتے ہیں (نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنا کَذلِکَ نَجْزی مَنْ شَکَرَ)(٣) ۔
بعد والی آ یت میں یہ حقیقت پیش کی گئی ہے کہ لوط علیہ السلام نے پہلے سے ان پر اتمامِ حُجت کردیاتھا اورانہیں عذابِ الہٰی سے آگاہ کیاتھا لیکن انہوںنے خداکی طرف سے کی جانے والی تنبیہ میں شک کیااوروہ لڑنے جھگڑنے پرآمادہ رہے (وَ لَقَدْ أَنْذَرَہُمْ بَطْشَتَنا فَتَمارَوْا بِالنُّذُرِ) بطش بروزن فرش کسِی چیز کو طاقت کے ساتھ پکڑنے کے معنی ہیں اور چونکہ سزادیتے وقت پہلے مجرم کومضبُوطی سے پکڑ لیتے ہیں لہذا یہ لفظ سزاکے معنی میں بھی آتا ہے تماروا کامادّہ تماری ہے اس کے معنی شک کرنے کے اورحق کے مقابلے میں جھگڑنے والی گفتگو کے ہیں ۔
اُنہوں نے درحقیقت ایک دوسرے کی مدد کی تھی اورمختلف طریقوں سے عام لوگوں کے ذہنوں مں شُبہات پیدا کیے تھے تاکہ اس عظیم پیغمبر کی طرف سے جو تنبیہ کی جارہی تھی اس کے اثرات کوزائل کردیں ۔اُنہوںنے لوگوں کے دلوں میں اعتقادات سے متعلق شبہات پیداکرنے ہی پراکتفا نہیں کیا بلکہ بدکاری وبے شرمی میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ جس وقت عذاب پرمامور فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی صُورت میں مہمانوں کی حیثیّت سے حضرت لوط علیہ السلام کے گھرمیں داخل ہوئے تویہ بے شرم گروہ ان کے پاس آیااور جیساکہ بعدوالی آ یت کہتی ہے : اُنہوںنے لُوط علیہ السلام سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے مہمان اُن کی تحویل میں دے دیں (وَ لَقَدْ راوَدُوہُ عَنْ ضَیْفِہِ) ۔
حضرت لوط علیہ السلام اس بات پر بے حد پریشان ہوئے اوران لوگوں سے اصرار کیاکہ وہ ان کی اتنی بے عزّتی نہ کریں یہاں تک کہ سورہ حجر کی آ یت ٧١ کے مطابق ان سے وعدہ کیاکہ (ان بداعمالیوں سے توبہ کی صُورت میں) اپنی لڑ کیوں کی شادی ان سے کردیں گے یہ چیز اس مظلوم پیغمبرکی انتہائی مظلومیت کوظاہر کرتی ہے کہ جواس بے شرم اور بے ایمان قوم کی طرف سے ان کے لیے ردارکھی گئی ۔ تھوڑی ہی دیرمیں اس حملہ کرنے والے گروہ نے اپنی پہلی سزاپالی جیسا کہ خدااسی آ یت کے آخرمیں فر ماتاہے :ہم نے ان کی آنکھوں کو اندھاہی نہیں کیابلکہ غائب کردیااوران سے کہا کہ میرے عذاب اورمیری تخویف کامزہ چکھو (فَطَمَسْنا أَعْیُنَہُمْ فَذُوقُوا عَذابی وَ نُذُر) ۔
جی ہاں !یہ وہ مقام تھا کہ درِ مطلق نے اپنی عدالت کاکرشمہ دکھایا اوربعض مفسّرین کے بقول جبرئیل کو حکم دیاکہ اپنے شہپران سرکشوں کی آنکھوں پرماریں جس کے نتیجے میں وہ فوراً نابینا ہوگئے یہاں تک کہ ان کی آنکھیں بالکل غائب ہوگئیں ۔
اگرچہ آ یت میں گفتگو اس مفہوم کوواضح نہیں کرتی کہ وہ کون لوگ تھے کہ جوفرشتوں کے پیچھے پیچھے آئے تھے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ پُوری قوم لوط علیہ السلام نہیں آ ئی تھی ۔وہ ایسے اوباش لوگ تھے جوبدکاری میں سب سے آگے تھے ۔اُنہوں نے اس کام میں پیش قدمی کی اوراس طرح ان کی سرگزشت دوسرے لوگوں کے لیے درسِ عبرت بنی کیونکہ وہ اسی حالت ِ زار میں اپنے گروہ کے پاس لوٹ کرآ ئے لیکن ان میں کوئی ایسافرد موجود نہیں تھاکہ جو اس ابتدائی عذاب سے عبرت حاصل کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ۔
یہ جوکہتے ہیں کہ خدا نے ان پر نازل ہونے والے عذاب کوصبح تک رد کے رکھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ حادثہ ایک روز پہلے واقع ہوااوراس طرح انہیں مہلت دی گئی کہ وہ ایک رات اوراپنے حالات کے بارے میں غور وفکر کرلیں اوران بدبخت اندھے ہونے والے افراد کی شکلوں پرعذابِ الہٰی کانمونہ دیکھیں ،ممکن ہے کہ اُنہیں ہوش آ جائے اور وہ توبہ کرلیں لیکن افسو س کی ایسانہیں ہوا ۔
ایک روایت کے مطابق خُودان نابینا ؤں نے بھی کوئی عبرت حاصل نہٰں کی ،وہ جس وقت دیواروں کاسہارا لیتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف لوٹے تواُنہوں نے قسم کھائی کہ کل صبح وہ خاندانِ لوط علیہ السلام کاایک فرد بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے ( ٤) ۔
آخر کار انتہائی عذاب ان پرنازل ہوگیا ۔ایک ایساتباہ کن زلزلہ آیاکہ جس نے سُورج کی پہلی شعاع کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی ان کی زمین کومتزلزل کرکے رکھ دیا جس کے نتیجے میں ان کے شہرمنہدم ہوکررہ گئے ،جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اوروہ مٹی کے نیچے دب گئے ۔ان کے سروں پرپتھروں کی شدید بارش ہوئی یہاں تک کہ ان کے ویرانوں کے نشانات بھی باقی نہ رہے ۔جیساکہ بعد والی آ یت میں بڑے اختصار کیساتھ ا،س مفہوم کی طرف اشارہ کرتے وہئے پروردگار ِ عالم فرماتاہے : آخر کاصبح کے وقت پائیدار اورواقعی عذاب ان پرنازل ہوا (وَ لَقَدْ صَبَّحَہُمْ بُکْرَةً عَذاب مُسْتَقِر) ۔
جی ہاں! مختصر سے لمحات میں یہ سب چیزیں ختم ہوگئیں اوران کانام ونشان تک باقی نہ رہا، بکرة (دن کاآغاز) کالفظ اس لیے آ یاہے کہ صبحھم بہت وسیع معانی رکھتاہے ۔ یہ صبح کے تمام معانی کااحاطہ کرتاہے جب کہ مفہوم کلام صبح کی بالکل ابتداء سے متعلق تھا ۔ یہ واقعہ طلوعِ فجر کی بالکل ابتداء میں ہواتھا یاطلوعِ آفتاب کے آغاز میں ،صحیح طورپر معلوم نہیں ہے لیکن بکرة کامفہوم طلوعِ آفتاب کے آغاز سے تعلق رکھتاہے ۔لفظ مستقر ثابت وبرقرار کے معنی میں ہے اوریہاں ہوسکتاہے کہ اس طرف اشارہ ہو کہ یہ عذاب اسقدر سرکُچلنے والا ، قوی اورطاقتور تھاکہ دُنیا کی کوئی طاقت اس کامقابلہ نہیں کرسکتی تھی ۔
بعض مفسّرین نے ان معانی کی نشان دہی بھی کی ہے چونکہ دُنیا وی عذاب برزخ کے عذاب سے متّصل ہوچکاتھا لہذا مستقر کا لفظ استعمال کیاگیاہے ۔اس کے بعد پر وردگارِ عالم فرماتاہے اور یہ دوبار ہ ان سے کہاگیا ہے : اَب میرے عذاب اور میری تخویف کا مزہ چکھو ( فَذُوقُوا عَذابی وَ نُذُر) ۔تاکہ پھر کبھی پیغمبروں کی طرف سے کی ہوئی تنبیہ کوشک کی نظر سے نہ دیکھو ۔ یہ جملہ اس واقعہ میں دومرتبہ استعمال ہواہے ۔
لیکن یہ بات معلوم ہے کہ پہلا جملہ لواس ابتدائی عذاب کی طرف اشارہ ہے جس کے نتیجے میں وہ لوگ نابینا ہوگئے تھے جنہوںنے لوط علیہ السلام کے گھرپرہجوم کیاتھا ۔دوسرا جملہ عذاب واقعی واصلی یعنی ویران کرنے والے زلزلے اورپتھروں کی بارش کی طرف ا شارہ کرتاہے ۔
آخرمیں زیربحث آ یات میں سے سب سے آخری آ یت میں درج ذیل پُر معنی اورہوش میں لانے والے جملے کی چھوتھی مرتبہ تکرار ہوئی ہے ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے آسان کیاہے توکیاکوئی نصیحت حاصل کرنے والاہے (وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِر) ۔قوم لوط علیہ السلام نے کوئی نصیحت حاصل نہیں کی ، نہ تنبیہ سے نہ ابتدائی عذاب سے کیا ایسے دوسرے لوگ کہ جواس قسم کے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان آ یاتِ قرآنی کی سماعت کے بعداپنے ہوش میں آئیں گے اور گناہوں سے توبہ کریں گے؟۔
۱۔اِس سلسلہ میں دوسر ے مباحث جلد ٩ تفسیرنمونہ سُورئہ ہود کی آ یت ٨٢ کے ذیل میں ہوچکے ہیں ۔
٢۔ راغب مفردات میں کہتاہے :( السحر اختلاط ظلام اٰخراللیل بضیاء النہار) آخر شب کی تاریکی کادن کی روشنی کے ساتھ مِل جاناسحر کہلاتاہے ۔
٣۔نعمة ایک فعل مقدر کاکہ جواس کی جنس سے ہے "" مفعول بہ"" ہے یا"" نجینا"" کے فعل کا کہ جوپہلے والی آ یت میں آ یا ہے مفعولہ ہے ۔
٤۔ تفسیر "" نورالثقلین "" ج ٥ ،صفحہ ١٨٥۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma