خدا کی نعمتوں کا آغاز

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
چونکہ یہ سُورہ خدائے عظیم کی عطا کی ہوئی نعمتوں کوبیان کرتاہے اس لیے رحمن کے اس مقدّس نام سے شروع ہوتاہے کہ جواس کی رحمت ِ واسعہ کی رمز ہے ۔اگراس میں رحمانیت کی صِفت نہ ہوتی توبلاامتیاز دوست ودشمن وہ اس قسم کاخونِ نعمت نہ بچھاتا۔اسی لیے فر ماتاہے : خداوندِ رحمن نے (الرَّحْمنُ )(١) قرآن کی تعلیم دی (عَلَّمَ الْقُرْآنَ )۔
پروردگارِ عالم اس طرح سب سے پہلے اپنی اہم ترین نعمت یعنی تعلیم قرآن کوبیان کرتاہے ۔ یہ بہت ہی پُر کشش اورپُر معنی تعبیر ہے ۔اگر ہم صحیح فکر سے کام لیں توہمیں معلوم ہوجائے کہ قرآن مجید تمام نعمتوں کاسرچشمہ بھی ہے اور ہر نعمت تک پہنچنے کاذریعہ بھی ۔ہم اس کے ذریعہ مادّی اورمعنوی نعمتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔وہ چیز جوبہت زیادہ قابلِ توجہ ہے ۔ پروردگار عالم تعلیم قرآن ک نعمت کے بیان کو خلقت ِ انسان اور تعلیم بیان اِن دونوں سے پہلے بیان فرما تاہے ۔حالانکہ ترتیب ِ طبیعی کے لحاظ سے پہلے خلقت ِ انسان کاپھر تعلیم بیان کااورپھر تعلیم قرآن کی نعمت کاذکر ہوناچاہیئے تھالیکن عظمت ِ قرآن کا یہ تقاضا تھاکہ تر تیب طبیعی کے برخلاف سب سے پہلے تعلیم قرآن کوموضوعِ گفتگو بنائے ،یہ آ یت مشرکین عرب کے جواب کے طورپر ہے ۔جب پیغمبراسلام نے مُشرکین سے کہا کہ خدائے رحمن کوسجدہ کریں توانہوںنے یہ بہانہ بنایا کہ ( وما الرحمن ) رحمن کیاہے (فرقان۔ ٦٠) قرآن کہتاہے : خداوندرحمن وہ ہے جس نے قرآن کی تعلیم دی ،انسان کوپیداکیا اورپھراُسے بیان کی تعلیم دی بہرکیف رحمن کانام پروردگار عالم کے تمام ناموں کے مقابلہ میں اللہ کے بعد سب سے زیادہ مفہوم کاحامل ہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ خدادوقسم کی رحمتوں کامالک ہے ،ایک رحمت عام دوسری رحمت ِ خاص رحمن کا نام اُس کی اُس رحمتِ عام کی طرف اشارہ ہے کہ جواہل ایمان واطاعت کے حال پر ہے اورصِرف اِن کے لیے مخصوص ہے۔اس وجہ سے رحمن کے نام کا اطلاق کبھی غیرخدا پرنہیں ہوتا سوائے صُورت کے کہ وہ لفط عبد کے ساتھ ہو۔لیکن رحیم کی صِفت دُوسروں کے لیے بھی بولی جاتی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی بھی رحمت ِ عامہ کامالک نہیں ہے ۔جہاں تک رحمت ِ خاص کاتعلق ہے تو و ہ کمزور شکل ہی میں سہی لیکن انسانوں اور دوسرے موجودات میں پائی جاتی ہے ۔امام جعفرصادق علیہ السلام کی ایک حدیث ہے کہ ( الرحمن اسم خاص بصفة عامة والرحیم اسم عام بصفة خاصة ) رحمن ایک خاص اسم ہے جوصفة عمومیت رکھتاہے یعنی ایسانام ہے خدا کے ساتھ مخصوص ہے لیکن اس کی رحمت سب کے شاملِ حال ہے ۔
رحیم ایک عام اسم ہے لیکن خاص صفت کے ساتھ ،یہ ایک ایسی صفت ہے کہ جوخدا اورغیرخدا دونوں کے لیے اِستعمال ہوتی ہے جیساکہ قرآن مجید نے پیغمبراسلام کو رؤف رحیم کہاہے (سورہ توبہ ۔ ١٢٨) لیکن یہ رحمت مخصوص ومعیّن ہے ۔
یہ سوال کہ خدا نے قرآن کی تعلیم کسے دی ، مفسّرین نے اِس کی مختلف قسم کی تفسیریں کی ہیں ،کبھی جبرئیل اوردوسرے فرشتوں کواس کا مصداق ٹھہرا یاہے ،کبھی پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات کوکبھی تمام اِنسانوں کوحتّی کہ جنّات کوبھی چونکہ یہ سورہ جن واِنس پرہونے والی خدا کی نعمتوں کوبیان کرتاہے اس لیے آکتیس مرتبہ ان کے مباحث پیش کرنے کے بعد جن واِنس سے سوال کرتاہے : تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کو جھٹلا ؤ گے سب سے مناسب یہی تفسیر ہے کہ خدانے اپنے عظیم پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے جنّ واِنس کوقرآن کی تعلیم دی (٢)۔
قرآن کی بے مثال نعمت کے تذکرے کے بعداہم ترین نعمت کوپیش کرتے ہوئے فرماتاہے : انسان کوپیداکیا (خَلَقَ الِْنْسان)۔یہاں اِنسا ن سے مراد نوعِ انسان ہے نہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کیونکہ چند آیتوں کے بعدان کے بارے میں علیٰحدہ گفتگو کرتاہے ،اس سے مراد پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہیں ہیں اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بہترین ورعمدہ ترین مصداق ہیں، دوسری نعمت جو نعمت ِ بیان ہے اور جس کاتذکرہ اس کے بعد ہے ، وہ بھی اس اَمر کی شاہد ہے کہ الانسان سے مُراد عالم نوعِ انسانی ہے ،باقی دوسری تفسیریں صحیح نظر نہیں آتیں ۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انسان ایک عجیب مجموعہِ عالمِ ہستی بھی ہے اورخلاصۂ موجودات بھی ،ایساعالمِ اصغر کہ جس میں عالم ِ اکبرموجُود ہے اس کی خلقت ایک بے نظیر دبے مثل نعمت ہے ۔اس لیے کہ اس کے وجود کاہرجُز بجائے خُود ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔
اگر چہ اپنے وجود کے آغاز میں وہ ایک بے قیمت نطفہ ہے یازیادہ صحیح لفظوں میں ایک حقیر ساوجود ہے کہ جو اس نطفہ میں تیر تا ہے لیکن پروردگار ِ عالم کی ربو بیت کے سائے میں وہ اپنی تکمیل کے مراحل اِ س طرح طے کرتا ہے کہ عالم خلقت کے شریف ترین مقام پرارتقاپذیر ہوجاتاہے ، قرآن کے بعد انسان کے نام کاذکر بھی قابلِ غور ہے کیونکہ قرآن تدوینی صورت میں اسرارِ ہستی کامجموعہ ہے اورانسان تکوینی صُورت میں ان اسرار کاخلاصہ ہے اوران میں سے ہرایک اس وسیع وعظیم عالم کاایک نسخہ کتاب ہے ۔بعد والی آ یت خلقت ِ اِنسان کی نعمت کے بعد ایک اہم ترین نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتی ہے : خدانے اسے بیان کی تعلیم دی (عَلَّمَہُ الْبَیانَ)۔
بیان لغوی مفہوم کے اعتبار سے ایک وسیع معنی رکھتاہے اوریہ ہر اس چیزکے لیے بولا جاسکتاہے جودوسری چیز کی مبیّن اورواضح وآشکار کرنے والی ہو ،اس بناء پر نہ صِرف نطق اور سخن کے معنوں میں ہے بلکہ اس سے مراد کتابت ،تحریر اور انواع واقسام کے عقلی ومنطقی استدلال بھی ہیں جومختلف اور پیچیدہ مسائل کے واضح کرنے والے ہیں ۔وہ سب کے سب بیان کے مفہوم میں داخل ہیں۔اگرچہ معانی کے اِس مجموعہ کی طرف اشارہ کرنے والی چیز وہی بات کرناہے ،ہم کوعادت ہے کہ ہم بات کرنے کوایک سادہ سی بات سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات کرنااِنسانی اعمال میں سے ایک پیچیدہ ترین اورخُوب ترین عمل ہے بلکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ کوئی کام بھی ایسی پیچیدگی اور ذہانت پرمبنی نہیں ہے جتنا کہ بات کرنا ،اوروہ اس لیے کہ ایک طرف مختلف قسم کی آوازیں نکالنے کے لیے آواز سے تعلق رکھنے والے کل پُر زے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ،۔پھیھڑ ے ہوا کہ اپنے اندرجمع کرکے اس کو تبدریج نرخرہ سے باہر بھیجتے ہیں اورآواز سے تعلق رکھنے والے ،تاروں میں آواز پیداکردیتے ہیں حالانکہ آوازیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں ،اِن میں سے کوئی رضامندی کی نشانی ہوتی ہے توکوئی غیظ وغضب کی ، کوئی عام گفتگو کی ، کوئی مدد طلب کرنے کی کوئی محبت کی علامت ہوتی ہے ،کوئی عداوت کی ۔پھیھڑے اِن آ وازوں کووجود میں لاتے ہیں ۔اس کے بعد آواز ، زبان ،ہونٹ ،دانتوں اورفضائے ذہن کی مدد سے حروف و الفاظ کونہایت تیزی کے ساتھ وجود میں لاتی ہے ،بالفاظ دیگروہ طویل اورایک طرح کی آواز جونرخوہ سے باہر آ تی ہے اس کی مختلف طریقوں سے قطع وبرید ہوتی ہے جس سے حروف تشکیل پاتے ہیں ۔
دُوسر ی طرف لغتوں کی تشکیل کامسئلہ درپیش ہوتاہے ،انسان فِکری ترقی کے زیراثر اپنی مادّی ومعنوی ضرورتوں کے ماتحت مختلف قسم کی زبانیں بناتاہے ،اس کی اس زبان سازی کی کوئی حد مقر ر نہیں ہے ۔دُنیا میں موجود زبانوں کی تعداد اس قدرزیادہ ہے کہ صحیح طورپر ان کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتاہے ۔پھر یہ بھی ہے کہ زمانے کے گزر نے کے ساتھ ساتھ نئی نئی زبانیں اورلُغتیں بتدریج تشکیل پاتی رہتی ہیں ،بعض محققین کے نزدیک دنیامیں رائج زبانوں کی تعداد تین ہزار سے کے قریب ہے اوربعض کے نزدیک زبانوں کی یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے (٣)۔
محسُوس یہ ہوتاہے کہ ان حضرات کامقصد یہ تھا کہ وہ صِرف بُنیاد ی اوراصولی زبانوں کوشمارکریں ورنہ اگرمقامی بولیوں پربھی نظر کی جائے توزبانوں کی تعداد کہیں زیادہ نظرآتی ہے ،بعض اوقات قریب قریب دودیہات کے باشند سے دومختلف مقامی بولیوں میں ایک دوسرے سے با ت کرتے ہیں ۔
سوم عقل وفکر کے مطابق احساسات کے بیان اوراستدلال وجملہ سازی کی تنظیم کاوہ مسئلہ سامنے آتاہے کہ جوبیان اورنطق کی رُوح ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گفتگو انسان سے وابستہ ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ مختلف قسم کے جانور اپنی ضرورتوں کوسمجھانے کے لیے مختلف قسم کی آوازیں نکالتے ہیں لیکن ان آوازوں کی تعداد بہت ہی کم اورغیر واضح ہے جب کہ غیرمحدُود اوروسیع شکل کا جوبیان ہے وہ انسان ہی کے اختیارمیں ہے۔کیونکہ خدانے گفتگو کرنے کی قدرت زیادہ تراسی کوبخشی ہے ۔اِس سے آگے بڑھیں تویہ نظر آتاہے کہ اگرہم بیان کے نقوش اوراس کے اثرات ،انسانی زندگی کے بتدریج ارتقاء اورتمدنوں کی تخلیق کوپیشِ نظر رکھیں توہم اِس بات کایقین حاصل کرلیں گے کہ اگربیان کی نعمت نہ ہوتی توانسان اپنے علوم وتجربات کوآسانی کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل نہ کرسکتا اوروہ علم ودانش ،تمدّن اوراخلاق کی ترقی کاباعث نہ بنتا ۔اگرکبھی یہ نعمت انسان سے سلب کرلی جائے توانسانی معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ تنزّل کاشکار ہوجائے ۔
اگربیان کواس کے وسیع معانی میں لیاجائے کہ جوتحریر وکتابت ،انواع وقسام کے ہُنر اورفُنون پرحاوی ہے توانسانی زندگی میں اس کے اثرات نہایت اہم انداز میں واضح ہوں گے ۔ یہ وہ منزل ہے کہ جہاں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سُورہ الرحمن میں جوپروردگار ِ عالم کی نعمتوں کے حوالوں کامجموعہ ہے ،نعمت ِ خلقت ِ انسان کے بعد تعلیم بیان کی گفتگو کیوں ہوئی ہے ۔
اِس کے بعد پروردگار ِ عالم نے اپنی نعمتوں میں سے چھوتھی نعمت کوموضوعِ گفتگو بناکر فرمایا ہے : چاند اورسُورج ایک منظم حساب کے ماتحت گردش کرتے ہیں (الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبان)(٤)۔
خُود سُورج کاوجود انسان کے لیے عظیم ترین نعمت ہے اوروہ اس لیے کہ اس سے حرارت اورنوحاصل کیے بغیر نظامِ شمسی میں زندہ رہنا غیرممکن ہے ۔اس سے قبل ہم عرض کرچکے ہیں کہ کُرّہ خاکی میں جوبھی جُنبش وحرکت صورت پذیرہے اس کااصل سرچشمہ سُورج کی حرارت اوراس کی روشنی ہے ۔گھاس کااُگنا ،بڑھنا ،غذائی ذخیرے ، بارشیں ،ہواؤں کاچلنا، یہ سب اسی نعمت کی برکت کی وجہ سے ہے ۔چاند بھی حیاتِ انسانی کے سلسلہ میں اپنافرض اداکرتاہے ۔علاوہ اس کے کہ چاند انسان کی تاریک راتوں کاچراغ ہے،وہ قوّتِ جاذبہ کہ جوسمندر وں کے مدّو وجزر کاسرچشمہ ہے سمندر سے متعلق زندگی کے باقی رہنے کاایک بڑا سبب ہے اوربہت سے ساحلوں کوسیراب کرنے کاباعث ہے کہ دریاجن کی مجاورت میں سمندر میں گر جاتے ہیں ۔
اِس سب پر مستزادیہ کہ یہ طے شدہ ہے کہ چاند اورسُورج کی حرکت کانظام (بالفاظِ دیگر چاندکی گردش زمین کے گرد اورزمین کی گردش سُورج کے گرد) رات اور دن ، مہینے اور سال اورمختلف موسموں کی مرتب ومنظم تخلیق کاباعث ہے اورانسانوں کی زندگی ، ان کے صنعتی ، زرعی اورتجارتی امورکے لیی پروگرام بنانے کے نظم وضبط کاسبب ہے ۔اگریہ منظم سفرنہ ہوتاتوانسانی زندگی کانظام ہرگزتشکیل نہ پاتا۔
نہ صِرف یہ کہ ان آسمانی کُرّوں کی حرکت بہت دقیق نظام رکھتی ہے بلکہ ان کے اجسام اورقوّبِ جاذبہ ،زمین سے ان کافاصلہ اورآپس میں ایک دوسرے سے فاصلہ یہ سب ازرُوئے حسا ب ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر یہ چیزیں ایک دوسرے سے متصادم ہوجائیں تونظامِ شمسی میں عظیم انقلاب پرباہوجائیں اوراس کے ساتھ ساتھ اِنسانی زندگی بھی درہم وبرہم ہوجائے ،تعجب کی بات یہ ہے کہ جس وقت اس نظام کے اجراء کُرّہ خورشید سے جُدا ہوئے توبہت ہی بکھرے ہوئے اورغیر مرتب نظر آتے تھے ،آخر کاران کی موجُودہ ترتیب صورت پذیر ہوئی ۔اِس سلسلہ میں امورِ طبیعی کے ایک ماہر کاکہناہے کہ : ہمارانظام شمسی بطاہر ایک ایسے مخلوط درہم وبرہم موادے وجود میں آ یاہے کہ جوسُورج سے بارہ ہزار درجہ کی حرارت لیے ہوئے جُداہوااورناقابل ِ تصوّر تیزی کے ساتھ فضا ئے لا محدُود میں بکھرگیا ۔لیکن اس ظاہری بے تر تیبی اورفضائی انقلاب سے اِس قسم کی دقیق ترتیب عالم وجود ہیں آ ئی ہے کہ ہم آج آئندہ حادثات کے مِنٹ اورسیکنڈ کے بارے میں پیشین گوئی کرسکتے ہیں ۔اِس نظام و ترتیب کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اوضاعِ فلکی ہزار ملیں سالی گُزر جانے کے باوجود اسی حالت پرباقی ہیں ( ٥) ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ سُورج اگرچہ نظامِ شمسی کے وسط میں بظاہر بغیر کسی حرکت کے قائم ہے لیکن یہ نہیں بُھولناچاہیئے کہ وہ بھی اپنے تمام چاند ستاروں کے ہمراہ اسی کہکشاں کے اندر جس سے وہ تعلق رکھتاہے ، معین نقطہ کی طرف حرکت کررہاہے اوراس کی یہ حرکت بھی ایک معیّن تیزی وتنظیم رکھتی ہے ۔
پانچویں عظیم نعمت کے سلسلہ میں پروردگار ِ عالم آسمان سے زمین کی طرف رُخ کرکے فر ماتاہے : گھاس اور درخت اس کے لیے سجدہ کرتے ہیں (وَ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدانِ)نجم کبھی تو ستارہ کے معنی میں آتاہے اورکبھی ایسی گھاس کے معنی میں آتاہے جس کاکوئی تنانہ ہو اور یہاں شجر کے قرینہ سے دوسرے معنی ہی مُراد ہیں، یعنی وہ گھاس جوتنے کے بغیرہو (٦)۔
اصول طورپر یہ لفظ طلوع کے معنی میں ہے اور گھاس کواگر نجم کہاگیاہے تواس کی وجہ یہی ہے کہ وہ زمین سے سرنکالتی ہے اور ستارے کونجم کہاجاتاہے تووہ بھی اسی بناپر کہ وہ طلوع ہوتاہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ انسانوں کاتمام موادِ غذائی اس امتیاز کے ساتھ نباتات سے لیاگیاہے کہ بعض کوتواِنسان براہِ راست اپنے مَصرف میں لاتاہے اوربعض نباتات ایسے جانور وںکی غذابنتے ہیں جواِنسانوں کے غذائی مواد کاجُز ہیں ۔ یہ معنی دریائی جانوروں کے سلسلہ میں بھی صحیح طورپر منطبق ہوتے ہیں کیونکہ وہ بھی بہت سے ایسے چھوٹے نباتات سے چلتے پھرتے ہیں ۔اِس طرح نجم مختلف قسم کے چھوٹے اوررینگنے والے بناتات وغیرہ (مثلاً کدو اورکھیر ے کے بوٹے ) کوکہتے ہیں اورشجر مختلف قسم کے تنہ دارنباتات کوکہتے ہیں جسے غلّے اورمیوہ دار درخت وغیرہ ۔
اور(یسجدان) یہ دونوں سجدہ کرتے ہیں کامفہوم قوانین آفرینش کے مقابلہ میں انسانوں کی منفعت کے لیے ان دونوں کابغیر کسِی قید وشرط کے سرتسلیم خم کرنا ہے ۔ یہ وہ راستہ ہے کہ جوخدا نے ان کے لیے مقرّر کیا ہے اوریہ اس پربلا چون وچرامصروفِ سفرہیں ضِمنی طورپر یہ ان کے سر وحدت کی طرف بھی اشارہ ہے اوروہ اس طرح کہ نبات کے ہرپتّے اورہردانہ پرپروردگار عالم کی عظمت اوراس کے علم کی عجیب وغریب نشانیاں موجودہیں اور ہر ورق معرفت پروردگار کادفتر بے پایاں ہیں (٧)۔
مفسرین کی طر ف سے یہ احتمال بھی تجویز کیاگیاہے کہ اُوپر والی آ یت میں النجم سے مراد آسمان کے ستارے ہیں لیکن جوکچھ ہم نے اُوپر کہاہے کہ آ یت میں موجود قرائن کی بناپر زیادہ مناسب ہے ۔
١۔"" الرحمن "" مبتداء ہے اور "" علّم القراٰن"" اس کی خبر ہے اور "" خلق الانسان"" خبر کے بعد خبرہے ۔اس جملے کی ترکیب میں اوراحتمالات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے لیکن چونکہ قابلِ توجہ نہیں تھے لہٰذا ان کے ذکر سے پہلو تہی کی گئی ہے ۔
٢۔ یہ کہ علم کاپہلا مفعول محذوف ہے یادوسرا مفعول ، مفسّرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے ،مناسب یہی ہے کہ پہلا مفعول حذف ہواہے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے (علم الانس والجن القراٰن ) بعض مفسرین نے جو یہ احتمال تجویز کیا ہے کہ علم کاایک سے زیادہ مفعول نہیں ہے اورعلامت قرار دینے کے معنی میں ہے ، یہ مفہوم بہت بعید ہے ۔
٣۔ "" دائرة المعارف "" فرید وجدی جلد ٨،ص ٣٦٤مادہ "" لغت"" ۔
٤۔"" حساب"" بر وزن "" غفران"" مصدر ہے جوحساب اورنظم وترتیب کے معنی میں ہے اور آ یت میں کچھ محذوف ہے اورتقدیر میں اس طرح ہے(الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ تجریان بِحُسْبان) سُورج اور چاند کاسفرحساب کے ساتھ جاری ہے ۔
٥۔ ""راز آفرینش انسان "" ص ٢٨۔
٦۔ راغب مفردات میں کہتاہے کہ النجم مالاساق لہ من النبات ۔جس نبات کاتنانہ ہووہ نجم ہے ۔
٧۔ عالم ہستی کے مختلف موجودات کے سجود کے بارے میں ہم تفصیل کے ساتھ جلد ٧ (سورہ حج کی آ یت ١٨ کے ذیل میں ) بحث کرچکے ہیں ۔اس طرح جلد ٦ (سورئہ اسرا کی آ یت ٤٤ دکے ذیل میں ) ہم مفصل بحث کرچکے ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma