پیغمبر (ص) کی بارگاہ کے آداب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
جیساکہ ہم نے سُورہ کے مضامین و مطالب کے بیان میں اشارہ کیاہے اس سُورہ میںاہم اخلاقی مباحث اور انضباطی احکام کاایک سلسلہ نازل ہوا ہے، جس نے اس کو سُورہ اخلاق کہلانے کے لائق بنادیاہے ، اور زیربحث آ یات میں جواس سُورہ کے آغاز میں بیان ہوئی ہیں، ان ہی احکام کے دوحصّوں کی طرف اشارہ ہواہے ۔
پہلاخدا ورسول پرکسی چیزمیں سبقت نہ کرنا ۔
دوسرا پیغمبرکی بارگاہ میں شوروغوغااورچیخ وپکار نہ کرنا ۔
اس کے بعد فرماتاہے: اے ایمان لانے والوں! کسی چیز کوخدا ورسول سے مقدم نہ کرو، اورخدا کاتقویٰ اختیار کرو، کیونکہ خدا سننے والا اورجاننے والاہے(یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ وَ رَسُولِہِ وَ اتَّقُوا اللَّہَ ِنَّ اللَّہَ سَمیع عَلیم ) ۔
خدااور پیغمبرکے سامنے کسِی چیز کو مقدم نہ کرنے سے مراد کاموں میںاُن سے سبقت نہ کرناہے،اورخدا ورسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مقابلہ میں عجلت اورتیزی اختیار نہ کرناہے ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے آ یت کے مفہو م کو محدُود کرناچاہا ہے کہ اس کووقت سے پہلے عبادات کوانجام دینے، یاپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گفتگو کرنے سے پہلے بات کرنے ، اور اسی قسم کی دوسری چیزوں میں منحصرسمجھیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ آیت ایک وسیع اور کشادہ مفہو م رکھتی ہے اور ہرقسم کے پر وگرام میں ہرقسم کی سبقت کرناشامل ہے(١) ۔
پیروکاروں کی پیشوائوں اور رہبروں کے سامنے نظم وضبط کی ذمہ داری ،خصوصاً ایک عظیم رہبرالہٰی کے ضمن میں اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کسی کام میں اورکسی بات اورپروگرام میں ان پرسبقت اورپیش قدمی،اورعجلت اورتیزی نہ کریں ۔
البتہ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ اگر وہ کوئی تجویز سامنے لاتے ہوں یا مشورہ دیناچاہتے ہوں تووہ بھی رہبر الہٰی کے سامنے پیش نہ کریں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس سے آگے چل پڑنا ، مصمم ارادہ کرلینا، اورکسی کام کوان کی تصویب سے پہلے انجام دینا ۔
یہاں تک کہ مسائل کے بارے میں بھی ضرورت سے زیادہ سوال وگفتگو نہیں کرنا چاہییٔے ،بلکہ یہ بات رہبر پرچھوڑ دینی چایئے کہ وہ اپنے موقع و محل پرسائل کوپیش کرے، خصوصاً رہبر معصو م کی صُورت میں جوکسِی چیزسے غفلت نہیں کرتا ،اوراگر کوئی اور شخص اس سے سوال کررہا ہوتو دوسروں کی پیش قدمی اور سبقت کرتے ہُوئے جلدی کرکے سوال کاجواب بھی نہیں دینا چاہیۓ .حقیقت میں یہ تمام معانی آ یت کے مفہو م میں شامل ہیں ۔
بعد والی آ یت دوسرے حکم کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہتی ہے:
اے ایمان لانے والو!تم اپنی آواز کو پیغمبرکی آواز سے بلند نہ کرو اوراس کے سامنے اونچی آواز کے ساتھ بات نہ کرو، اور داد وفریاد اور چیخ پکارنہ کرو، جیساکہ تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسانہ ہو،کہ ہمارے اعمال ختم اور نابود ہوجائیں درآنحالیکہ تمہیں خبر بھی نہ ہو (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْواتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمالُکُمْ وَ أَنْتُمْ لا تَشْعُرُون) ۔
پہلا جُملہ ( لا تَرْفَعُوا أَصْواتَکُمْ فَوْق...)اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اپنی آواز کو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی نہ کرو، کیونکہ یہ ان کے حضور میں ایک قسم کی بے ادبی ہے ، پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاتو مقام ہی بلندہے، یہ کام تو ماں باپ ،اور استادو معلم کے سامنے بھی ادب واحترام کے خلاف ہے ۔
باقی رہاجُملہ ( لا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ...)مُمکن ہے یہ اُسی پہلے جُملہ کے معنی کی ایک تاکید ہو، تاکسِی نئے مطلب کی طرف اشارہ ہو،اوروہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یامحمد کے جُملے کے ساتھ خطاب نہ کرنے اوراس کی بجائے یارسول اللہ کہتاہو ۔
البتہ مفسرین کی ایک جماعت نے ان دونوں جُملوں کے درمیان فرق کے بارے میں اس طرح کہاہے: پہلا جُملہ تواس وقت کے بارے میں ہے جب لوگ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کررہے ہوں، توان کی آواز پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی نہیں ہونی چاہیئے اور ددوسرے جُملہ کاتعلق اس موقع سے ہے جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوں، اورلوگ آپ کی بارگاہ میں باتیں کررہے ہوں، تو اس حالت میں بھی انکی آواز زیادہ بلند نہیں ہونی چاہیئے ۔
اس معنی اور سابقہ معنی کوجمع کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے ،اورآ یت کے شانِ نزول کے ساتھ بھی ساز گار ہے.بہرحال آ یت کاظاہر زیادہ تریہی ہے ، کہ وہ دو مختلف مطالب کوبیان کررہی ہے ۔
یہ بات ظاہر اورواضح ہے کہ اگراس قسم کے اعمال مقامِ شان نبوّت کی توہین کے ارادہ سے ہوں تو موجب کُفر ہیں ،اوراس کے بغیر ہوں توایذا ء وگناہ ہیں ۔
پہلی صورت میں تواعمال کے حبط اورنابودی کی علّت واضح ہے ، کیونکہ کُفر علت حبط نیک عمل کے ثواب کے ختم ہونے کاباعث ہے ۔
اور دوسرے صورت میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے ، کہ اس قسم کابُرا عمل بہت سے اعمال کے ثواب کی نابودی کاسبب بن جائے ،اورہم پہلے بھی حبط کی بحث میں بیان کرچکے ہیں کہ بعض اعمال کے ثواب کابعض گناہوں کی وجہ سے نابود ہوجانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے. جیساکہ اعمال صالح کی وجہ سے بعض گناہوں کے اشکانابود ہوجانابھی قطعی ویقینی ہے، اورقرآنی آ یات اوراسلامی روایات میں اس معنی پربہت سے دلائل موجود ہیں ،اگر چہ یہ معنی ایک قانون کلی کی صورت میں تمام حسنات و سیّئات میں ثابت نہیں ہوا . لیکن بعض اہم حسنات اور سیّئات کے بارے میں بہت سی منقول دلیلیں موجود ہیں ،اور عقلی طورپر بھی اس کے برخلاف کوئی دلیل نہیں ہے (٢) ۔
ایک روایت میں آ یاہے کہ جس وقت اوپروالی آ یت نازل ہوئی ،تو ثابت بن قیس نے ( جو پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے خطیب تھے اوربلند آواز تھے) کہا: وہ میں تھا جواپنی آواز کوپیغمبرکی آواز سے بلند کیاکرتاتھا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اونچی آوازے خطاب کیاکرتاتھا،پس میرے اعمال نابود ہوگئے ہیں، اور میں اہل دوزخ میں سے ہوں ۔
یہ مطلب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کانوں تک پہنچا توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ایسانہیں ہے ،وہ اہل بہشت میں سے ہے (کیونکہ وہ یہ کام مو منین کے لیے خطاب کرتے وقت یامخالفین کے مقابلہ میں ایک اسلامی وظیفہ وذمہ داری ادا کرنے کے لیے انجام دیاکرتاتھا( ٣) ۔
جیساکہ عباس بن عبدالمطلب نے بھی جنگ ِ حنین میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے بلند آواز میں بھاگنے والوں کوواپس لوٹنے کی دعوت دی تھی ۔
بعد والی آ یت میں ، اس موضوع پرمزید تاکید کے لیے، ان لوگوں کے اجر وثواب کو، جوخدا کے اس دستور پرعمل کرتے ہیں، اورپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے سامنے انضباط وادب کی رعایت کرتے ہیں، اس طرح بیان کرتاہے،: وہ لوگ جواپنی آواز پیغمبرکے سامنے دھیمی رکھتے ہیں ،ایسے لوگ ہیں،جن کے دلوں کوخدانے تقویٰ کے لیے خالص اورکشادہ کردیاہے اوران کے لیے مغفرت اورعظیم اجرہے (انَّ الَّذینَ یَغُضُّونَ أَصْواتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ أُولئِکَ الَّذینَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوی لَہُمْ مَغْفِرَة وَ أَجْر عَظیم )(٤) ۔
یغضون غض (بروزن حظ) کے مادہ سے نگاہ یاصدا کوکم کرنے اور کوتاہ کرنیکے معنی میں ہے ، اوراس کے مقابلہ میں نگاہ کوخیرہ کرنااورآواز کوبلند کرناہے۔
امتحن امتحان کے مادہ سے ، اصل میں سونے کوپگھلانے اورغیرخالص کوالگ کرنے کے معنی میں ہے اوربعض اوقات چمڑے کوپھیلانے کے معنی میں بھی آ یاہے، لیکن بعد میں آزمایٔش کے معنی میں استعمال ہونے لگا، جیساکہ زیربحث آیت میں ایسی آزمایٔش جس کانتیجہ دل کاخلوص اورتقویٰ قبول کرنے کے لیے اس میں وسعت کاپیداہوناہے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ پہلی آ یت میں نبی کی تعبیرہوئی ہے اوریہاں رسول اللہ کی تعبیرہے ،اوردونوں باتیں گوایا اس نکتہ کی طرف اشارہ ہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے کچھ نہیں رکھتا،وہ خدا کابھیجا ہوااوراس کاپیام لانے والا ہے، لہٰذا اس کے سامنے وہ سوء ادب خداکے بارے میں سوء ادب ہے اوراس کے لیے ادب کی رعایت کرناخدا کیلئے ادب کی رعایت کرناہے ۔
ضمنی طورپر مغفرة کی تعبیرنکرہ کی صُورت میں تعظیم واہمیّت کے لیے ہے، یعنی خدا انہیں کامل و عظیم مغفرت نصیب کرے گا. اور گناہ سے پاک ہونے کے بعد انہیں اجرِ عظیم عنایت فرمائے گا .کیونکہ پہلے تو گناہ سے پاک ہوناپڑتاہے اس کے بعد خدا کاعظیم اجرحاصل ہوتاہے ۔
بعد والی آ یت مزید تاکید کے لیے ، ایسے لوگوں کونادانی اور بے عقلی کی طرف اشارہ کرتی ہے،جواس حکم الہٰی کوپسِ پشت ڈال دیتے ہیں، ارشادہوتاہے: جولوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے بلند آواز کے ساتھ پکارتے ہیں ان میں سے اکثرعقل وخرد سے کورے ہیں(انَّ الَّذینَ یُنادُونَکَ مِنْ وَراء ِ الْحُجُراتِ أَکْثَرُہُمْ لا یَعْقِلُونَ) ۔
یہ کونسی عقلی وخرد ہے کہ انسان خداکے عظیم ترین سفیرکے سامنے ادب وآداب کی رعایت نہ کرے، اور بنی تمیم کے بدووّں کی طرح ، بلنداورغیرمؤد بانہ آ واز پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے گھرکے پیچھے نکالے اورپکارپکار کرکہے: یامحمد! یامحمد! اخرج الینا، اور پروردگارکی اس مہر و عطوفت کے مرکز کو اس طرح سے ایذا اور آ زار پہنچائے ۔
اصولی طورپر انسان کی عقلی وخرد جتنی بلند ہوتی جاتی ہے اتناہی اس کے ادب میں اضافہ ہوتاجاتاہے، کیونکہ وہ قدروں اور اقتدارکی ضد کوبہترطورپر سمجھنے لگتاہے، یہی وجہ ہے کہ بے ادبی ہمیشہ بے عقلی کی نشانی ہوتی ہے ۔ یادوسرے لفظوں میں بے ادبی حیواں کاکام ہے اورادب انسان کا ۔
أَکْثَرُہُمْ لا یَعْقِلُون (ان میں سے اکثرسمجھتے نہیں ہیں) کی تعبیریاتواس بناپر ہے کہ اکثر بعض اوقات لغت میں عرب میں کل اور سب کے معنی میں بولاجاتاہے، لیکن اعتیاط اور ادب کی رعایت کی بناء پراس تعبیرکواستعمال کرتے ہیں، تاکہ اگرایک شخص بھی مستثنیٰ ہواہو تواس کاحق بھی ضایٔع نہ ہو، گو یاخدااس تعبیرکے ساتھ فرماتاہے: میں جوتمہارا پروردگارہوں، اورہرچیزپراحاطہ علمی رکھتاہوں، میں بات کرتے وقت آداب کی رعایت کرتاہوں توپھرتوکیوں رعایت نہیں کرتے؟
یایہ کہ واقعاً ان کے درمیان کچھ عقلمند آدمی بھی تھے جوعدم توجہ یاہمیشہ کی عادت کی بناء پرصدابلندکرتے تھے، قرآن اس طریقہ سے انہیں تنبیہ کررہاہے کہ وہ اپنی عقل وخرد کوکام میں لائیں اورادب کوفراموش نہ کریں ۔
حجرات حجرہ کی جمع ہے یہاں ان متعدد کمروں کی طرف اشارہ ہے جو مسجدبنوی کے پہلو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے لیے تیار کیئے گیئے تھے،اوراصل میں حجر (بروزناجر) کے مادہ سے منع کے میں ہے ۔ کیونکہ حجرہ دوسرے لوگوں کے لیے انسان کی زندگی کے حریم میں داخل ہونے سے مانع ہے، اوریہاں ورائ کی تعبیرباہر کے معنی میں ہے چاہے جس طرف سے ہو، کیونکہ پیغمبرکے حجروں کے دروازے سے مسجدکی طرف کھلتے تھے، اورنادان وجلدبازلوگ بعض اوقات حجرہ کے دروازے کے سامنے آ تے ،اور یامحمد کہہ کرپکارتے ہیں،قرآن انہیں اس کام سے منع کررہاہے ۔
آخری زیربحث آیت میں اس معنی کی تکمیل کے لیے مزید کہتاہے:
اگروہ صبرسے کام لیتے اوراتناصبرکرتے کہ تم خود نکل کراُن کے پاس آ جاتے توان کے لیے بہترتھا(وَ لَوْ أَنَّہُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْہِمْ لَکانَ خَیْراً لَہُمْ ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ عجلت اورجلد بازی سے بعض اوقات انسان اپنے مقصد تک جلدترپہنچ جاتاہے،لیکن ایسے مقام پر صبر وشکیبائی ہی مایہ رحمت وآمرزش اوراجرِ عظیم ہے، اور یقینا یہ اس پربرتری رکھتاہے ۔
اور چونکہ کچھ افراد لاشعور ی طورپر پہلے ا س قسم کے کام کے مرتکب ہوچکے تھے،اوروہ اس خدائی حکم کے نزول کے ساتھ طبعاً وفطرةً وحشت میں پڑجاتے،لہٰذاقرآن انہیں یہ خوش خبری دیتاہے، کہ اگروہ تو بہ کرلیں تووہ بھی خداکی رحمت میں شامل ہوجائیں گے ۔ اس لیے آیت کے آخرمیں فرماتاہے،: اورخدا غفور ورحیم ہے(وَ اللَّہُ غَفُور رَحیم ) ۔
١۔ "" لا تقدموا""فعل متعدی کی صورت میں ہے اوراس کامفعول محذوف ہے اورتقدیر میں اس طرح ہے "" لاتقد مُوا امراً بین یدی اللہ ورسُولہ"" کسی کام میں اوراس کے رسُول پرسبقت نہ کرو.بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ یہ فعل یہاں فعل لازم کے معنی میں آ یاہے اوراس کامفہو م لاتتقدموابین یدی اللہ... ہے اللہ کے سامنے ایک دوسرے پرتقدم نہ کرو .اگرچہ یہ دونوں تفاسیرا صول ادبی کے لحاظ سے مختلف ہیں .لیکن معنی اورنتیجہ کے لحاظ سے ایک ہیں ۔ بہرحال مراد یہ ہے کہ کسی چیزمیں اورپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرسبقت نہ کرو ۔
٢۔ مسئلہ ""حبط""کے بارے میں مزید تشریح جلد١،صفحہ ٥٠٦(سورہ بقرہ کی آ یہ ٢١٧ کے ذیل میں مطالعہ فرمائیں) ۔
٣۔ "" مجمع البیان"" جلد٩صفحہ ١٣٠ یہ حدیث مختصر سے فرق کے ساتھ بہت سے مفسرین و مد ثین کے کلمات میں، منجملہ ان کے نورالثقلین ،صحیح بخاری، تفسیرفی ظلال القرآن اور مراغی میں، آ ئی ہے ۔
٤۔ "" للتقوٰی "" میں "" لام "" درحقیقت "" لام غایب"" ہے نہ کہ "" لام علت "" یعنی ان کے دلوں کوتقویٰ کوقبول کرنے کے لیے خالص اور آمادہ کرتاہے ،کیونکہ اگردل خالص نہ ہو اور آ لودگیوں سے پاک نہ ہوتو پھر حقیقی تقویٰ اس میں جاگزیں نہیں ہوسکتا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma