٢۔ پیغمبر(ص) کی قبر کے ساس آ واز بلند کرنا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
علماء اورمفسرین کی ایک جماعت نے یہ کہاہے کہ زیربحث آ یات جس طرح پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ان کے پاس آواز بلند کرنے سے منع کرتی ہیںاسی طرح ان کی وفات کے بعد کے زمانہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں( ١) ۔
اگران کی مراد آ یت کی عبارتوں کاشمول ہے توظاہر آ یت رسول اللہ کے زمانہ حیات کے ساتھ مخصوص ہے ، کیونکہ یہ آیت کہتی ہے کہ اپنی آواز کوآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی آواز سے بلند نہ کرو، اور یہ اسی صُورت میں ہوگا . جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیاتِ جسمانی رکھتے ہوں اوریہ بات کررہے ہوں ۔
اوراگراس سے مراد مناط وفلسفۂ حکم ہو، جواس قسم کے موقع پر ظاہر وواضح ہے، اوراہل عرف نگارِ خصوصیت کرتے ہوں، توپھر تعمیم مذکور بعید نظر نہیں آ تی کیونکہ یہ بات تو مسلم ہے کہ یہاں ہدف و مقصد پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساخت قدس میں ادب و احترام کی رعایت ہے .اس بناء پر جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کے پاس آواز بلند کرناایک قسم کی بے احترامی اورہتک حرمت ہوتوبلا شک وشبہ یہ بات جایٔز ہے نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ اذان نماز کی صورت میں ہو، یاتلاوت قرآن یاخُطبہ اوراس کے مانند دوسرے بیانات ہوں تواس قسم کے مواقع پر نہ تو پیغمبر کی زندگی میں یہ بات ممنوع ہے اور نہ ہی وفات کے بعد۔
اصول کافی میں ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے اُس واقعہ کے بارے میں منقول ہے، جو وفات امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے موقع پراس ممانعت کے سلسلہ میں، جوحضرت کے جوار پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دفن ہونے کے بارے میں عائشہ نے کی تھی ،اوراس پر ایک چیخ پکار بلند ہوئی توامام حسین علیہ السلام یاایّھاالّذین اٰمنوالا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ... کی آ یت سے استدلال کیا اوررسولِ خداسے یہ جُملہ نقل فرمایا: ان اللہ حرم من المؤ منین امواناً ماحرم منھم احیاء خدانے مو منین کے لیے جوکچھ حال حیات میں حرام کیاہے وہ ان کی موت کے بعد بھی حرام کیاہے ( ٢) ۔
یہ حدیث آ یت کے مفہو م کی عمو میت کی ایک اورگواہ ہے ۔
١۔ ""رُوح المعانی "" جلد ٢٦ صفحہ ١٢٥۔
٢۔اصول کافی مطابق نقل نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٨٠۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma