٢۔ اخوت اسلامی اہمیّت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

انماالمؤ منون اخوة کاجملہ جواوپر والی آ یت میں آ یاہے ایک اساسی اور بنیادی اسلامی شعار ہے .ایسا شعار جوبہت ہی مضبوط ،عمیق ، مؤ ثر اورپُر معنی شعار ہے ۔
دوسرے مسلک کے لوگ جب اپنے ہم مسلک لوگوں کے ساتھ زیادہ تعلق اورلگاؤ کااظہار کرتے ہیں ۔
تووہ انہیں رفیق کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، لیکن دوسرے کے ساتھ نزدیک ترین تعلق کی صورت میں ، اور اس تعلق کو بھی مساوات اور برابری کی بنیاد پرپیش کرتاہے، اوروہ دو بھائیوں کاایک دوسرے کے ساتھ تعلق ہے ۔
اس اہم اسلامی اصل کی بناپر مسلمان چاہے،جس نسل سے ہوں ، یاجس قبیلہ سے ، چاہے کوئی سی زبان بولتے ہوں، اورکسی سن وسال کے ہوں، ایک دوسرے سے برادری کاعمیق احساس رکھتے ہیں ،چاہے ان میں سے ایک دُنیا کے مشرق میں رہتاہو اور دوسرا مغرب میں زندگی بسرکرتاہو ۔
مراسم حج میں جب مُسلمان ،تمام نقاط جہاں اوراطراف عالم سے اس مرکز توحید میںجمع ہوتے ہیں ،تووہاں ، یہ علاقہ اور لگاؤ ، نزدیکی پیونداور ہم بستگی پُورے طورپر محسُوس ہوتی ہے اوروہ اس اہم اسلامی قانون کے بعینہ پورا ہونے کاایک منظر پیش کرتاہے ۔
دوسرے لفظوں میں اسلام تمام مسلمانوں کوایک خاندان سمجھتاہے اور سب کوایک دوسرے سے بہن بھائی کہہ کر خطاب کرتاہے،نہ صرف الفاط میں اورنعرے کے طورپر ،بلکہ عمل میں، اور آپس کی ذمہ داریوں میں سب بہن بھائی ہیں ۔
اسلامی روایا ت میں بھی اس مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے،خاص طورپراس کے عمل پہلو ؤ ں کواُجاگر کیاگیاہے ۔
ہم ذیل میں چند پُر معنی احادیث آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

١۔ ایک حدیث میں پیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے ۔
المسلم اخوالمسلم، لا یظلمہ ، ولایخذلہ ، ولا یسلمہ ۔
مسلمان مسلمان کابھائی ہے، وہ ہرگز اس پرظلم وستم نہیں کرتا، اس کی مدد سے دستبردار نہیں ہوتااوراس کوحوادث کے مقابلہ میں تنہا نہیں چھوڑتا ( ١) ۔
٢۔ایک اورحدیث میں انہیں جناب سے نقل ہواہے ۔
مثل الاخوین مثل الیدین یغسل الحداھما الاخر۔
دو دینی بھائی دونوں ہاتھوں کے مانند ہیں، جن میں سے ہرایک دوسرے کودھوتاہے (ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہمکاری رکھتے ہیں اورایک دوسرے کے عیوب کوپاک صاف کرتے ہیں)(٢) ۔
٣۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
المؤ من اخوالمؤ من ، کا لجسد الواحد ،اذااشتکی شیئاً منہ وجدالم ذالک فی سائر جسدہ وار واحھمامن روح واحدة :
مو من ، مون کابھائی ہے ،اوروہ سب ایک جسم کے اعضاء کے مانند ہیں، اگران میں سے کسی ایک عضو کوتکلیف ہوتی ہے تو دوسرے اعضاء کوقرار نہیں آتا اوران سب کے ارواح ایک ہی رُوح سے لیے گئے ہیں(٣) ۔
٤۔ ایک دوسری حدیث میں اسی امام علیہ اسلام سے منقول ہے ۔
المؤ من اخوا لمؤ من عینہ ودلیلہ ، لا یخونہ ، ولا یظلمہ، ولا یغشہ ، ولا یعدہ عدّة فیخلفہ :
مو من ،مو من کابھائی ہے،وہ اس کی آنکھ کی مانند ہے اور اس کارہنماہے ،وہ اس کے ساتھ کبھی خیانت نہیں کرتااوراس پر ظلم وستم روانہیں رکھتا، اس سے پھرتانہیں ،اورجو وعدہ اس کے ساتھ کرتاہے اس سے تخلف نہیں کرتا،( ٤) ۔
حدیث کے معروف اسلامی مآخذوں اورمنابع میں، مو من کے اپنے مسلمان بھائی پرحقوق اورمو منین کے ایک دوسرے پرحقوق کے انواع واقسام ،ایمانی بھائیوں کے دیدار مصافحہ ، معانقہ اورانہیں یاد کرنے اوران کے دل کو مسرور اور خوش کرنے ،خصوصاً مو منین کی حاجات کوپوراکرنے اوران امور کی انجام دہی میںسعی وکوشش کرنے ،اوران کے دل سے غم واندوہ کودُور کرنے اورانہیں کھانا کھلانے ،کپڑے پہنانے اوران کااکرام واحترام کرنے کے ثواب کے بارے میں بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں ، جس کے اہم حصّوں کو اصولِ کافی کے مختلف ابواب میں اوپروالے عنوانات کے تحت مطالبہ کیاجاسکتاہے ۔
٥۔ اس بحث کے آخر میں ہم ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مؤ من کے اس کے مو من بھائی پرتیس حقوق کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جواس سلسلہ میں جامع ترین روایت ہے ۔
قال رسول اللہ (ص) للمسلم علی اخیہ ثلاثون حقّا : لابرائة منھا الابالاداء او العفو، یغفرزلتہ ، ویرحم عبرتہ ، ویستر عورتہ ، و یقبل عثرتہ ، ویقبل معذرتہ ، ویرد غیبة ، ویدیم نصیحتہ ، ویحفظ خلتہ ، ویرعی ذمتہ ، ویعود مرضہ۔
ویشھد میتہ ، ویجیب دعوتہ ، ویقبل ھدیتہ و یکافاً صلتہ ، ویشکرنعمتہ ویحسن نصرتہ ، ویحفظ حلیلتہ ، ویقضی حاجتہ، و یشفع مسأ لتہ ویسمت عطستہ ۔
ویرشدضالتہ ،ویرد سلامہ، ویطیب کلامہ، ویبرانعامہ ،ویصدق اقسامہ ، ویوالی ولیہ ولا یعادیہ ، وینصرہ ظالماًو مظلو ماً : فامانصرتہ ظالماً فیردّہ عن ظلمہ ، واما نصرتہ مظلو ماً فیعینہ علی اخذ حقہ ، ولا یسلمہ ولا یخذلہ ، و یحب لہ من الخر مایحب لنفسہ ، ویکوہ لہ من الشرمایکرہ لنفسہ ۔
پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: مُسلمان اپنے مسلمان بھائی پرتیس حق رکھتاہے،جن سے وہ بری الذ مہ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ ان حقوق کوادانہ کردے، یااس کامسلمان بھائی اس کو معاف کردے ۔
اس کی لغزشو ںکو معاف کردے ، اس کی پریشانی میں اس پرمہربانی کرے ، اس کے رازوں کوپوشیدہ رکھے اس کی غلطیوں کی تلافی کرے ،اس کے عذر کوقبول کرے، بدگوئی کرنے والوں سے اس کادفاع کرے ،ہمیشہ اس کاخیر خواہ رہے ، اس کی دوستی کی پاسداری کی حالت میں اس کے جنازہ میں حاضر ہو ۔
اس کی دعوت کوقبول کرے ،اس کے ہدیہ کوقبول کرے اس کے عطیہ کابدلہ دے ،اس کے احسان کاشکر یہ اداکرے اس کی مدد کرمیں کوشش کریاس کی عز ت و ناموس کی حفاظت کرے ، اس کی حاجت پوری کرے .اس کی درخواست کی شفاعت کرے، اوراس کی چھینک پر یرحمک اللہ کہے ۔
اس کی گمشدہ چیزوں کی رہنمائی کرے ،اس کے سلام کاجواب دے ،اس کی گفتگو کواچھا سمجھے، اس کے انعام کوخوب قرار دے ، اس کی مدد میں کوشش کرے چاہے وہ ظالم ہویامظلو م ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اس کوظلم کرنے سے رو کے ، اور مظلو م ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اس کی اس کاحق حاصل کرنے میں مدد کرے ۔
اسے حوادث زمانہ کے مقابلہ میں تنہانہ چھوڑ ے ،نیکیوں اوراچھائیوں میں سے جن چیزوں کواپنے لیے پسند کرتاہے اس کے لیے بھی پسند کرے اور برائیوں میں سے جن چیزوں کواپنے لیے نہیں چاہتااس کے لیے بھی نہ چاہیے (٥) ۔
بہرحال مسلمانوں کے ایک دوسرے پرحقوق میں سے ایک مدد کرنا اورآپس میں اصلاح کرناہے، جس طرح سے کہ اوپروالی آ یت اورروایت میںآ یاہے ( اصلاح ذات البین کے سلسلہ میں ہم جلد ٤،سورۂ انفال کی آ یت نمبر١ صفحہ ٣٨٥ میں ایک اوربحث کرچکے ہیں ۔
١۔ "" لمحجتہ البیضائ"" جلد ٣،صفحہ ٣٣٢ کتاب آداب الصحبة والماشرة باب ٢۔
٢۔ وہی مدرک ،صفحہ ٣١٩۔
٣۔ اصول کافی جلد ٢ ،صفحہ ١٣٣ (باب اخوة المؤ منین بعضہم لبعض حدیث ٣، ٤) ۔
٤۔اصول کافی جلد٢،صفحہ ١٣٣ ( باب اخوة المؤ منین بعضہم لبعض حدیث ٣، ٤) ۔
٥۔ بحارالانوار ،جلد ٧٤ ،صفحہ ٢٣٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma