١۔ سچی اور جُھوٹی قدریں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

اس میں شک نہیں کہ ہرانسان فطرتاً اس چیز کاخواہاں ہے کہ وہ ایک صاحب قدر وافخار ہستی قرارپائے ،لہٰذا اسی وجہ سے اقدار کوکسب کرنے کے لیے اپنے پُورے وجُود کے ساتھ کوشش کرتاہے ۔
لیکن اقدار کے معیار کوپہچان تہذیبوں اورتمدنوں کے اختلاف کی وجہ سے کامل طورسے مختلف ہے ،اوربعض اوقات جھوٹی قدریں سچی قدروں کی جگہ لے لیتی ہیں ۔
کوئی گروہ اپنی واقعی اورحقیقی قدروقیمت کسی معروف و معتبر قبیلہ کے ساتھ انتساب میں سمجھتاہے،لہٰذا اپنے قبیلہ اورطائفہ کے مقام کی شان کے لیے ہمیشہ ہاتھ پائوں مارتارہتاہے،تاکہ اس کوبڑا اوربزرگ بنانے کے طریقہ سے خود کواس اور طائفہ کے مقام کی شان کے لیے ہمیشہ ہاتھ پاؤں مارتارہتاہے، تاکہ اس کوبڑا اوربزرگ بنالے کے طریقہ سے خود کواس سے منسُوب کرنے کے ذر یعہ بڑا کرے ۔
خاص طورسے زمانہ جاہلیّت کی اقوام کے درمیان انساب و قبائل کے ذریعہ افتخار سب سے زیادہ رائج موہو م افتخار تھا، یہاں تک کہ ہرقبیلہ خود کو بر ترقبیلہ اور ہر نسل خود کو والاتر نسل سمجھتی تھی، افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس کی تلچھٹ اوربقایاجات بہت سے افراد واقوام کی روح کی گہرائیوں میں موجود ہیں ۔
ایک دوسرا گروہ مال ودولت کے مسئلہ اورکاخ وقصر وخدم وحشم اورایسی چیزوں کامالک ہونے کوقدروقیمت کی نشانی سمجھتاہے،اورہمیشہ اسی کے لیے کوشش کرتارہتاہے، جبکہ ایک اور جماعت اور سیاسی بلند مقامات کوشخصیت کامعیار سمجھتی ہے ۔
اوراس طرح سے ہرگروہ اپنے مخصوص راستے پرقدم اُٹھاتاہے،اورکسی ایک خاص قدر و منزلت سے اپنادل باندھتاہے اوراسی کو معیار سمجھتاہے ۔
لیکن چونکہ یہ سب امور، ایسے متزلزل اورذات سے خارج اورمادی اور جلدی گزرجانے والے امورہیں،اسلامی جیساایک آسمانی دین ہر گزان کی موافقت نہیں کرسکتا، لہٰذان سب پرخط بطلان کھینچتے ہُوئے ، انسان کی واقعی اورحقیقی قدرو قیمت کواس کی ذاتی صفات ، خصوصاً تقویٰ وپرہیزگاری ایفائے عہد اورپاکیز گی میں شمارکرتاہے، یہاں تک کہ علم دانش جیسے اہم موضوعات کے لیے بھی .اگر وہ ایمان وتقویٰ اوراخلاقی قدروں کی راہ میں کام نہ آئیں ۔ کسی اہمیت کاقائل نہیں ہے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ قرآن ایک ایسے ماحول میں ظاہر ہوا، جہاں قبیلہ کی قدروقیمت تمام قدروں سے زیادہ اہم شمارہو تی تھی، لیکن یہ خود ساختہ بُت ٹوٹ پھُوٹ گیا اورانسانوں کو خون وقبیلہ ورنگ ونژاد (نسل) و مال و مقام اورمال ودولت کی قید سے آزاد کردیا، اور اسے اپنے آپ کوپانے کے لیے اس کی جان و رُوح کے اندر اوراس کی بلند صفات میں رہبری کی ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اُن شان ہائے نزول میں ،جواس آ یت کے لیے بیان کی گئی ہیں،ایسے نکات دکھائی دیتے ہیں جواس دستورالہٰی کی گہرائی کی حکایت کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ :
فتح مکّہ کے بعد پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے حکم دیاکہ اذان کہیں بلال نے خانہ کعبہ کی چھت پرچڑھ کراذان کہی تو عتاب بن اسید نے جوآزاد کیے گئے لوگوں میں سے تھا، کہا، میں خدا کاشکرکرتاہوں کہ میراباپ دُنیاسے رخصت ہوگیا اوراس نے یہ دِن نہ دیکھااور حارث بن ہشام نے بھی کہا:کیارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کواس کالے کوّے کے علاوہ اورکوئی نہیں ملا؟(تو اوپر والی آ یت نازل ہوئی اورحقیقی اور واقعی قدروقیمت کامعیار بیان ہوا)(۱) ۔


بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہاہے کہ آ یہ آ یت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے یہ حکم دیاتھاکہ بعض موالی کو لوگ بیٹی کا رشتہ دیں (موالی آزاد شاہ غلاموں یاغیرعرب کوکہتے ہیں) توان لوگوں نے تعجب کیااورکہااے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کیاآپ یہ حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیٹیاں موالی کودیں؟تو یہ آ یت نازل ہوئی اوران بے ہودہ افکار پر خط بطلان کھینچا( ٢) ۔
یاایتھا النّاس ان اللہ قد اذھب عنکم عیبة الجاھلیة ، وتعا ظمھاباٰ بائھا، فالناس رجلان: رجل برتقی کریم علی اللہ ، وفاجرشقی ھین علی اللہ ، والنّاس بنواٰدم، وخلق اللہ اٰدم من تراب ، قال اللہ تعالیٰ : یا ایّھاالناس اناخلقنا کم من ذکرو انثٰی وجعلنا کم شعوباًوقبائل لتعار فواان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر:
اے لوگو!خدانے جاہلیت کے نگ و عیب اور آباؤ اجداد اوربزرگوں پرفخر و مباہات کرنے کو ختم کردیاہے،لوگوں کے صرف دوگروہ ہیں:نیکو کارصاحب تقویٰ اورخدا کے ہاں قدروقیمت رکھنے والے، یابد کار وشقی اور بارگاہ خداوندی میں پست وحقیر سب کے سب لوگ آدم کی اولاد ہیں ، اورخدانے آدم کو مٹی سے پیداکیاہے، جیساکہ فرماتاہے: ایسے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیداکیاہے اور تمہیں اس لیے شعوب وقبائل قرار دیاہے، تاکہ تمہاری پہچان ہوسکے، خداکے نزدیک زیادہ مکرم وگرامی وہ ہے جوتم میں سے سب سے یادہ پرہیزگار ہے اورخدا دانا اور آگاہ ہے ( ٣) ۔

کتاب آداب النقوس طبرسی میں آ یاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ایام تشریق کے دوران (جوذی الحجہ کے ١١، ١٢ اور١٣ کے دِن ہیں) سرزمین منی میں ،جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اونٹ پرسوار تھے ، لوگوں کی طرف رُخ کرکے فر مایا:
یاایھاالناس!الاان ربکم واحد وان اباکم واحد، الالا فضل لعربی علی عجمی ولا بعجمی علی عربی، ولا سود علی احمر والا لاحمرعلی اسود، الا بتقویٰ الاھل بلغت ؟ قالوا نعم!قال لیبلغ الشاھد الغائب۔
اے لوگو!جان لو کہ تمہارا خداایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے نہ تو عرب کوعجم پرکوئی برتری ہے ، اور نہ ہی عجم کوعرب پر ، نہ کسی کا لے کوکسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر ، مگرتقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ ، کیامیں نے خداکاحکم تمہیں پہنچادیاہے؟ سب نے کہا:ہاں!آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:یہ بات حاضرین غائبین تک پہنچادیں(٤) ۔
ایک اور دوسری حدیث میں بھی مختصر اورپُر معنی جملوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے یہ منقول ہواہے :
ان اللہ لاینظرالیٰ احسابکم ، ولاالیٰ انسابکم ، ولا الیٰ اجسامکم ،ولاالیٰ اموالکم ولکن ینظرالیٰ قلوبکم، فمن کان لہ قلب صالح تحنن اللہ علیہ، وانّماانتم بنو اٰدم واحبکم الیہ اتقاکم۔
خداتمہارے گھرانے اور نسب کی وضع وکیفیّت کو نہیں دیکھتا، نہ تمہارے جسموں کی طرف نہ تمہارے مال و متال کی طرف ، لیکن وہ توتمہارے دلوں کی دیکھتاہے، جوشخص صالح اور نیک دل رکھتاہے تو خدااس پرلطف و محبت کرتاہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محبُوب وہ ے جوتم میں زیادہ متقی ہے ( ٥) ۔
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ان وسیع بکثرت اورپُر بار تعلیمات کے باوجود اب بھی مسلمانوں کے درمیان کچھ لوگ نسل وخون اور زبان کے مسئلہ پر تکیہ کرتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ ان چیزوں کی وحدت کو اخوت اسلامی اور وحدت دینی پرمقدم سمجھتے ہیںاور انہوںنے زمانہ جاہلیّت کی عصبیّت کودوبارہ زندہ کردیاہے، اورگرچہ ان پراس راستے میں سخت مصائب اٹھانے پڑے ہیں ،لیکن معلو م ایساہوتاہیکہ وہ بیدارہوناہی نہیں چاہتے اور نہ اسلام کے حکم کی طرف لوٹناچاہتے ہیں اور خداوند عالم سب لوگوں کو جاہلیّت کے تعصبات کے شرسے محفوظ رکھے ۔
اسلام نے جاہلیّت کی عصبیت جوجس شکل وصُورت میں ہو، مبارزہ کیاہے تاکہ پُورے عالم کے مسلمانوں کو،چاہے وہ جس نسل وقو م و قبیلہ سے ہوں، ایک پرچم کے نیچے جمع کرے ، نہ کہ قو میت ونسل کے پرچم تلے اور نہ ہی کسی دوسرے پرچم کے نیچے، کیونکہ وہ جس نسل وقو م و قبیلہ سے ہوں ایک پرچم کے نیچے جمع کرے ، نہ کہ قو میت ونسل کے پرچم تلے اور نہ ہی کسی دوسرے پرچم کے نیچے ، کیونکہ اسلام ہر گزاس قسم کے تنگ و محدود نظریات کوقبول نہیں کرتااوران سب کو موہو م اور بے بنیاد شمارکرتاہے. یہاں تک کہ ایک حدیث میں آ یاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے جاہلیّت کی عصبیت کے بارے میں فرمایا:
دعوھا فانھامنتنہ۔
اسے چھوڑدو، یہ بدبو دار متعفن چیزہے ( ٦) ۔
لیکن اس متعفن اور بد بو دار فکر کو بہت سے ایسے لوگ جوظاہر اً اپنے کو مسلمان شمارکرتے ہیں، اورقرآن اوراخوتِ اسلامی کادم بھر تے ہیں، اب تک گلے کیوں لگائے ہُوئے ہیں؟کیاانہیں معلو م نہیں ہے!
کتنا زیبا اورخوبصورت ہوگاوہ معاشرہ جواسلامی قدروں کے معیار اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقاکُمْ کی بنیاد پرتعمیر ہوگا، اور نسل ،مال ، دولت ،جغرافیائی منطقوں اور طبقوں کی جھوٹی قدریں ختم ہوجائیں گی ہاں!تقوائے الہٰی ، اندرونی مسئولیت کااحساس، خواہشات کے مقابلہ میں قیام ، اورراستی ، و دوستی ،پاکی وحق و عدالت کاپابند ہونا ، صرف یہی چیزیں انسانی قدروں کامعیار وں کامعیار ہیں.نہ کہ ان کی غیر ،اگر چہ موجودہ معاشروں کے پریشان حال بازار میں یہ اصل قدریں بھلادی گئی ہیں اور جھوٹی قدروں نے ان کی جگہ لے لی ہے ۔
زمانہ ٔجاہلیّت کی قدروں کے نظام میں ، جو آباؤاجداد ، و دولت اوراولاد پرفخر کرنے کے محور پرچکر لگاتاتھا، ایک مٹھی بھر چوراور ڈاکوپر ورش پاتے تھے، لیکن اس نظام کے بد ل جانے سے اور اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقاکُمْ کی بلندو بالااصل کے احیاء سے ، سلمان وابوذر عمار یاسر و مقداد ، جیسے انسان حاصل ہوئے ۔
انسانی معاشروں کے انقلاب میں اہم چیزان کی قدروںکے نظام کاانقلاب ہے، اوراس اصل اصیل اسلامی کااحیاء ہے .ہم اس گفتگو کوپیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں جس میںآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
کلکم بنو اٰدم، واٰدم خلق من تراب ، ولینتھین قو م یفخرون باٰ بائھم اولیکونن اھون علی اللہ من الجعلان:
تم سب آدم کی اولاد ہو، اوراآدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، آباؤ اجداد کے ذ ریعے ایک دوسرے پرفخرکرنے سے پرہیزکرو، ورنہ تم خداکے نزدیک ان حشرات اورکیڑے مکوڑوں سے ، جو گندگی میںڈوبے ہُوئے ہوتے ہیں، زیادہ حقیر اور پست ہوجاؤ گے ( ٧) ۔
١۔"" روح البیان "" جلد ٩،صفحہ ٩٠۔ تفسیر قرطبی میں بھی یہی شان نزول بیان کی گئی ہے جلد ٩،صفحہ ٦١٦٠۔
٢۔سابقہ مدرک ۔
٣۔"" تفسیر قرطبی "" جلد ٩،صفحہ ٦١ ٦١۔
٤۔مدرک سابق صفحہ٦١، ٦٢ اس روایت میں "" احمر"" کی تعبیر سُرخ جلد کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ گندم گوں کے معنی میں ہے ،کیونکہ زیادہ تولوگ اس ماحول میں اسی قسم کے تھے، اتفاقاً لفظ "" احمر"" روایات میں خود گندم "" پر بھی اطلاق ہواہے ۔
٥۔مدرک سابق صفحہ٦١، ٦٢ اس روایت میں "" احمر"" کی تعبیر سُرخ جلد کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ گندم گوں کے معنی میں ہے ،کیونکہ زیادہ تولوگ اس ماحول میں اسی قسم کے تھے، اتفاقاً لفظ "" احمر"" روایات میں خود گندم "" پر بھی اطلاق ہواہے ۔
٦۔"" صحیح مُسلم"" (مطابق فی ظلال )جلد٧ صفحہ ٥٣٨۔
٧۔ ""فی ظلال ""جلد٧ صفحہ ٥٣٨۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma