اُن کُفّار سے دوستی جو برسرِ پیکار نہیں ہیں:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

ان آیات میں ان مُباحث جوکو جاری رکھاگیاہے جوگزشتہ آیات میں ” حب فی اللہ “ اور ” بُغض فی اللہ “ اور ” مشرکین سے قطع تعلّق کرنے کے سلسلہ میں آ ئے تھے ،چُونکہ یہ قطع تعلّق مسلمانوں کو ایک جماعت کے لیے قر ابت داری میں ایک قِسم کا خلا پیدا کرتاتھا ، اس کے باوجُود سچّے مومنین اورصحابہٴ رسُول نے اس ر اہ میں ثابت دکھائی تھی ، لہٰذا خُدا ان کی جزاء کے لیے اور اس کمی کودُور کرنے کے لیے انہیں بشارت دیتاہے : ” تم غم نہ کھائی ، یہ حالت ہمیشہ اسی طرح نہیں رہے گی “ ، فر ماتاہے :
” اُمید ہے کہ خُداتمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان ( اسلام قبول کرنے کے ذریعے)دوستی کارشتہ قائم کر دے گا“ (عَسَی اللَّہُ اٴَنْ یَجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذینَ عادَیْتُمْ مِنْہُمْ مَوَدَّةً) ۔
انجام ِ کار یہ وعدہ پُور ا ہوگیا ، ہجر ت کا آٹھو اں سال آ یا اور مکّہ فتح ہوگیا ، اہل ِ مکّہ ” ید خلون فی دین اللہ افو اجاً “ کے مصداق گروہ مُسلمان ہوگئے ،دشمنی وعناد کے سیاہ بادل ان کی زندگی کے آسمان سے چھٹ گئے اور آفتابِ ایمان محبت ودوستی کی گر مجوشی کے ساتھ چمکنے لگا ۔
بعض مفسّرین اس جُملہ کو ” اُمِّ حبیبہ “ دخترِ ابوسفیان کے ساتھ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ازدو اج کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جومُسلمان ہوچکی تھی اور اپنے شوہرعبد اللہ بن حجش (۱) کے ہمر اہ مہاجرینِ حبشہ کے ساتھ حبشہ گئی تھی ، اس کاشوہر وہاں عیسائی ہوگیا تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کسِی کو نجّاشی کے پاس بھیجا اور امِّ حبیبہ کو اپنی ازو اج میں داخل کرلیا،چُونکہ عربوں میں دامادی کارشتہ عدا وتوں اور دشمنوں کی کمی کاباعث بنتا تھا ،لہٰذاس مسئلہ نے ابو سفیان اور اہل مکّہ پر اثر ڈالا ۔

لیکن یہ احتمال بعید نظر آ تاہے ،زیر بحث آ یات فتح مکہ کے قریب نازل ہوئیں ، کیونکہ ” حاطب بن ابی بلتعہ “ کا ” مُشرکین مکّہ کوخط لکھنے سے مقصد یہ تھا کہ وہ انہیں اس و اقعہ کی اطلاع دے ،جبکہ ہم جانتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھی اس و اقعہ سے پہلے ( فتح خیبر کے قریب ) مدینہ کی طرف پلٹ آ ئے تھے( ۲) ۔
بہرحال اگروہ لوگ جو مُسلمانوں کے عزیز ورشتہ دار ہیں ، ان کے مذہب سے جُدا ہوجائیں تو انہیں اُن کے اسلام کی طرف لَوٹنے سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے ، کیونکہ خداہر چیز پرقادر ہے ،وُہی ہے جودلوں کی متبدّ ل کرسکتاہے اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی خطاؤں اور گناہوں کو بخشتاہے ،لہٰذا آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے ” خدا قادر و تو انا اورغفور ورحیم ہے (وَ اللَّہُ قَدیرٌ وَ اللَّہُ غَفُورٌ رَحیمٌ ) ۔
لفظ ” عسی “ عربی زبان میں ان مو ارد میں بولا جاتا ہے جہاں کسِی چیز کے پُور ا ہونے کی اُمید ہو ،چُونکہ یہ معنی بعض اوقات جہالت یاعجز سے ملا ہُو اہوتاہے لہٰذا بہُت سے مُفسرین نے قر آنِ مجید میں اس کی تفسیر خُدا سے دوسُروں کے اُمید رکھتے کے معنی میں کی ہے ،لیکن جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ لفظ خدا کے کلام میں اپناوہی اصلی معنی رکھتاہے کیونکہ بعض اوقات کسی ہدف اورمقصد تک پہنچنے کے لیے کچھ شر ائط اورحالات کی ضرورت ہوتی ہے ، اگر ان میں سے بعض شر ائط حاصلِ نہ ہوں تویہی تعبیر استعمال ہوگی ( غور کیجیے گا ) ۔
بعد و الی آ یت میںمُشرکین سے دوستی کے ر ابطے ترک کرنے کے مسئلہ کی تشریح و توضیح ہے فر ماتاہے : ” خداتمہیں ان لوگوں سے نیکی کرنے اور عدالت کی رعایت کرنے کے بارے میں ،جنہوںنے تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں اپنے گھر بار سے باہر نکالا ہے ، منع نہیں کرتا“۔
(لا یَنْہاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذینَ لَمْ یُقاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ اٴَنْ تَبَرُّوہُمْ وَ تُقْسِطُو ا إِلَیْہِمْ )
کیونکہ خداعدالت اختیار کرنے و الوں کودوست رکھتا ہے ( إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطینَ) ۔
خدا تو تمہیں صرف ان لوگوں کی دوستی سے منع کرتاہے جنہوں نے دین کے مُعاملہ میں تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھر اور شہرسے باہر نکالا ، یاتمہیں باہر نکالنے میں مدد کی ہے ،ہاں! خُدا تمہیں ان سے ہرقسم کے تعلّق اوردوستی سے منع کرتاہے(إِنَّما یَنْہاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذینَ قاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَ اٴَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ وَ ظاہَرُو ا عَلی إِخْر اجِکُمْ اٴَنْ تَوَلَّوْہُمْ ) ۔
” اورجوشخص انہیں دوست رکھے وہ ظالم وسِتمگر ہے “ (وَ مَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَاٴُولئِکَ ہُمُ الظَّالِمُون) ۔
اِس طرح سے غیر مسلم افر اد دو گروہوںمیں تقسیم ہوجاتے ہیں ، ایک گروہ تووہ ہے جومُسلمانوں کے مُقابلہ میں کھڑاہوگیا ، ان کے سامنے تلو ار کھینچ لی اور انہیں گھربار سے جبر ا باہر نکال دیا، اِس طرح انہوںنے اپنی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو گفتار وعمل سے آشکار اکیا ، اس صُورت میں مسلمانوں کی ذمّہ داری یہ ہے کہ اس گروہ کے ساتھ ہی قسم کے میل جول اور تعلّق کوختم کردیں اورہرقسم کی دوستی اور محبت کاتعلّق چھوڑدیں ، اس کاو اضح مصداق مشرکینِ مکّہ خصُوصاً سردار ان ِقریش تھے کہ جن میں سے ایک گروہ نے تورسمی طورپر یہ کام کیاتھا اور دوسر ے گروہ نے اس میں ان کی مدد کی تھی ۔
لیکن ایک اور گروہ ایسابھی تھا جوکُفر وشرک کے باوجُود مُسلمانوں کے ساتھ کوئی سرو کار نہیں رکھتاتھا ، نہ تو وہ عداوت ودشمنی رکھتے تھے ،نہ ہی ان کے ساتھ جنگ کرتے تھے اورنہ اُن کو ان کے گھربا ر اور شہر ودیار سے باہر نکالنے کا اقدام کرتے تھے ،یہاں تک کہ اُن میں سے ایک گروہ نے تو مسلمانوں سے دشمنی نہ کرنے کاعہد کررکھا تھا پس اس گرو ہ سے نیکی کرنے اور اظہار ِ محبت کرنے میں کوئی مانع نہیں تھا اور اگر ان سے کوئی معاہدہ کیا ہُو ا ہے تو اس کووفا کرناچاہیے اور ان سے عدالت کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔
اِس گروہ کامصداق قبیلہٴ” خزاعہ “ تھا،جنہوںنے مسلمانوں کے ساتھ ترکِ مخاصمت کا عہدوپیمان باندھا ہُو اتھا ۔
اِس بناء پر بعض مُفسرین کی اس توجیہہ کی گنجائش نہیں کہ جنہوںنے اس حکم کومنسُوخ سمجھا اور اس کاناسخسورہ توبہ کی آ یہ ٴ ۵ کوبیان کیاہے کہ جس میں کہتاہے ’’فَإِذَا انْسَلَخَ الْاٴَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُو ا الْمُشْرِکینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ “ ” جب محترم مہینے ختم ہوجائیں توپھر بُت پرستوں کوجہاں پاؤں قتل کر دو“ ، کیونکہ سورة تو بہ کی یہ آ یت صرف اُن مشرکین کے بارے میں گفتگو کرتی ہے جنہوںنے عہد شِکنی کی اور اسلام اورمسلمانوں کے خلاف علی الاعلان اُٹھ کھڑے ہُوئے ، اس بات کی گو اہی اس کے بعد و الی آ یت ہیں ( ۳) ۔
بعض مفسّرین نے اس آیت کے بارے میں ایک رو ایت کی ہے کہ ابو بکر کی مُطلّقہ بیوی اپنی بیٹی ” اسماء “کے لیے مکّہ سے کچھ ہدیے لائی تو ” اسماء “ نے انہیں قبُول کرنے سے انکار کردیا ، یہاں تک کہ اپنی ماں کوبھی گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی .تب اوپرو الی آ یت نازل ہُوئی اورپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اُسے حکم دیاکہ اپنی ماں کوگھر میں آ نے دے ، اس کاہدیہ بھی قبول کرلے اور اس کا اکر ام و احتر ام کرے ( ۴) ۔
یہ رو ایت بتاتی ہے کہ مکّہ کے سارے لوگ اِس آ یت کے مشمول نہیں تھے ،بلکہ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی اقلیّت بھی موجُود تھی جومُسلمانوں کے ساتھ کسِی قسم کی کوئی دشمنی اورمُخاصمت نہیں رکھتے تھے ۔
بہرحال ان آیات سے مُسلمانوں کے غیرمسلموں کے ساتھ ر ابطے کی کیفیّت کی ” ایک بُنیادی اورکُلّی اصل “ کا پتہ چلتاہے جونہ صرف اس زمانہ کے لیے بلکہ آج کے اور آئندہ زمانے کے لیے بھی ثابت ہے ،وہ یہ ہے کہ مُسلمانُوں کافرض ہے کہ وہ ہر ایسا گروہ ، جمعیت اورمُلک جو ان سے دشمنی رکھتاہو ، اسلام اور مسلمانوں کے مُخالف ہو یا دشمنانِ اِسلام کی مدد کرتاہو ، اس کے خلاف سختی کے ساتھ مقابلے کے لیے کھڑے ہوجائیں اور ان سے ہرقسم کی دوستی کارشتہ منقطع کرلیں ۔
لیکن اگروہ کافرہونے کے باو جُود اسلام اورمُسلمانوں کے بارے میں غیر جانبدار ہوں ،یا ان کی طرف مائل ہوں توپھرمُسلمان ان کے ساتھ دوستانہ رو ابط رکھ سکتے ہیں ، البتّہ اس حد تک نہیں جو وہ مُسلمان بھا ئیوں کے ساتھ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس حدتک کہ وہ مُسلمانوں میں نفُوذ پیدا کرلیں ۔
اگرکوئی گروہ یاکوئی حکومت گروہِ اوّل میں سے ہو اوروہ اپنی روش کوبدل دیں یا اس کے برعکس وہ دُوسرے گروہ میں ہوں اوروہ اپنا ر استہ بدل لیں توپھر ان کی موجُود ہ وضع و کیفیّت کومعیار قر ار دیا جائے گا اور ان کے ساتھ اوپر و الی آ یات کے مُطابق طرزِ عمل اختیار کیاجائے گا ۔
۱۔ عبید اللہ بن حجش ،عبداللہ حجش کابھائی ہے ، افسوس ہے کہ عبیداللہ اسلام پرباقی نہ رہا اورحبشہ میں اُس نے دینِ عیسائیت اختیار کرلیا، اسی بناء پر ام حبیبہ اس سے الگ ہوگئی ، لیکن عبیداللہ کابھائی عبدُاللہ اسلام پر باقی رہا، وہ مجاہدین اُحد میں سے تھا ، اور اسی میدان میں اُس نے شربتِ شہادت نوش کیا ۔
۲۔ و اقعہ کاخلاصہ بُہت سے مفسّرین نے نقل کیاہے ،تاہم اس و اقعہ کی تفصیل ” اسد الغابة فی معر فة الصحبة جلد۵،صفحہ ۵۷۳ “ میں مُطا لعہ فر مایئے ۔
۳۔بعض مفسرین نے یہ احتمال دیاہے کہ دوستی کی اجازت ان مومنین کے بارے میں ہے جو اسلام توقبول کرچُکے تھے ،لیکن وہ مکّہ میں رہ گئے تھے او انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی ، لیکن آ یات کالب ولہجہ بتلا تاہے کہ یہ تمام باتیں غیرمُسلموں کے بارے میں ہورہی ہیں ۔
۴۔” روح البیان “ جلد۹،صفحہ۴۸۱ یہ رو ایت صحیح بخاری اوردوسری بہت سی کتب تفسیرمیں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ آ ئی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma