ایسا چوپایہ جس پر کتابیں لدی ہوں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
بعض روایات میں آ یاہے کہ یہودی یہ کہاکرتے تھے : اگرمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مبعوث بر سالت ہُوا ہے تواس کی رسالت ہمارے لیے نہیں ہے .اِس لیے پہلی زیر بحث آ یت ان کے گوش گزار کررہی ہے کہ اگرتم نے اپنی آسمانی کتاب کوغور سے پڑھا ہوتا اوراس پر عمل کیا ہو تاتویہ بات نہ کرتے ، کیونکہ اِس میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ظُہور کی بشارت آ ئی ہے ۔
فر ماتاہے : وہ لوگ جن پر توارت نازل ہوئی اوروہ اس کے مکلّف قرار دیئے گئے ، لیکن انہوں نے اس کاحق ادا نہیں کیااوراس کی آ یات پرعمل نہیں کیا وہ اس گدھے کی مانند ہیں جواپنی پشت پر کتابیں اٹھائے ہوئے ہو (مَثَلُ الَّذینَ حُمِّلُوا التَّوْراةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہا کَمَثَلِ الْحِمارِ یَحْمِلُ أَسْفاراً ) ۔
وہ کتاب سے سوائے اس کے بوجھ کے اور کسِی چیز کا احساس نہیں کرتا اوراس کے لیے کوئی فرق نہیں ہے ، کہ وہ پُشت پر پتھر اور لکڑ ی اٹھائے ہُوئے ہے ، یاایسی کتابیں جن میںآ فرینش کے دقیق ترین اسرار اورزندگی کے مفید ترین ضابطے درج ہیں ۔
یہ خود پسندقوم جس نے صرف توارت کے نام یااس کی تلاوت پر قناعت کی ہُوئی ہے اوراس کے مضامین پر غور وخود کرکے اس پر عمل نہیں کرتے ،وہ اسی جانور کے مانند ہیں جوحماقت اورنا دانی میں ضرب المثل اورمشہُور خاص وعام ہے ۔
یہ بہتر ین مثال ہے جو عالم،بے عمل کے لیے بیان کی جاسکتی ہے ، جو علم کی مسئو لیت کابوجھ تواپنے کاندھے پراُٹھا ئے ہُوئے ہے ،لیکن اس کی برکات سے بہرہ اندوز نہیں ہوتا...اسی طرح سے وہ لوگ جوقرآن کے الفاظ سے توسرو کار رکھتے ہیں لیکن اس کے مطالب اورعملی تقاضوںسے بے خبر ہیں ( اور مسلمانوںکی صفوںمیں ایسے لوگ بہت ہی زیادہ ہیں)وہ اسی آ یت کے مصداق ہیں ۔
یہ احتمال،بھی ہے کہ یہودیوں نے اِس سورہ کی پہلی آیات اوراس کے مانند دوسری آ یات کوجو بعثت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی نعمت کی گفتگو کرتی ہیں،سُننے کے بعد کہاہوکہ ہم بھی اہل کتاب ہیں ، اورحضرت موسیٰ کلیم اللہ کی بعثت کے ساتھ مفتخرہیں ، قرآن ان کے جواب میں کہتاہے : اس کاکیافائدہ ہے تم نے تو رات کے احکام کوپائوںتلے روند ڈالاہے اوران پر اپنے مسائل ِزندگی میں ہرگز عمل نہیں کیا ۔
لیکن بہرحال یہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ وہ اس بات کو نظر میں رکھیں کہ یہودیوں جیسی سرنوشت پیدانہ ہو ، یہ خداکاعظیم فضل ہے ،جوان کے شاملِ حال ہواہے اور یہ قرآن جوان پر نازل ہُوا ہے اِس لیے نہیں ہے کہ گھروں میں اس پر گردپڑتی رہے ،یانظر بد اور آسیب کے لیے تعویذ کے طورپر حمائل کرلیں، یاسفر کرنے کے موقع پر حوادث سے محفوظ رہنے کے لیے اس اس کے نیچے سے گزریں یابرکت اورنیک شگون کے لیے نئے گھر میں آ ینہاور جھاڑوکے ساتھ اُسے بھی بھیجیںاوراس کواس حد تک نیچے لے آ ئیں ،یاان کی آخری ہمت یہ ہو کہ اس کی تجوید،خوبصورت قرأت وتلاوت ،ترتیل اور حفظِ کرنے کی سعی و کوشش کریں ،لیکن ان ک یانفرادی اوراجتماعی زندگی میں اس کامعمُول ساانعکاس بھی نہ ہو اور عقیدہ وعمل میں اس کاکوئی اثر نظر نہ آ ئے ۔
اس کے بعد اسی مثال کوجاری رکتھے ہُوئے کہتاہے : وہ قوم جِس نے آ یات ِالہٰی کی تکذیب کی یقیناوہ بُری مثال رکھتی ہے (بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذینَ کَذَّبُوا بِآیاتِ اللَّہِ ) ۔
وہ لوگ بوجھ اُٹھانے والے گدھے کے مشابہ کیوں نہ ہوں ؟حالانکہ انہوں نے نہ صرف عمل بلکہ زبان سے بھی آ یاتِ الہٰی کاانکار کیاہے جیساکہ سُورہ بقرہ کی آ یت ٨٧ میں اسی قوم یہود کے بارے میں آ یاہے : أَ فَکُلَّما جاء َکُمْ رَسُول بِما لا تَہْوی أَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَریقاً کَذَّبْتُمْ وَ فَریقاً تَقْتُلُون کیاجب بھی کوئی پیغمبر تمہاری خواہش کے برخلاف آ یا توتم نے اس کے سامنے تکبّر نہیں کیاپس ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا ،اورایک گروہ کوقتل کرڈالا۔
آ یت کے آخر میں ایک مختصر اورپُر معنی جُملہ میں فرماتاہے : خدا ستمگر قوم کو ہدایت نہیں کرتا (وَ اللَّہُ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمینَ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہدایت کرنا خدا کا کام ہے لیکن اس کے لیے ایک مُقدّمہ اور تمہید کی ضر ورت ہے ، اوراس کامُقدّمہ جوحق طلبی اورحق جُوئی کی رُوح ہے اسے انسانوں کی طرف سے فراہم ہوناچاہیے اور ستمگراس مرحلہ سے بہت دُور ہیں ۔
ہم بیان کرچکے ہیںکہ یہودی اپنے آپ کو بر گزیدہ اورمنتخب اُمّت اوراصلاح کے مطابق تافتہ ای جُدا بافتہ( یعنی سب سے الگ مخلوق )سمجھتے تھے ، یہاں تک کہ کبھی تووہ یہ دعویٰ کرتے کہ وہ خُدا کے بیٹے ہیں اور کبھی اپنے آپ کوخُدا کے مخصُوص دوست بتلاتے ، جیساکہ سورۂ مائدہ کی آ یت ١٨میں آ یاہے : وَ قالَتِ الْیَہُودُ وَ النَّصاری نَحْنُ أَبْناء ُ اللَّہِ وَ أَحِبَّاؤُہیہود ونصارٰی نے کہا کہ ہم خُدا کے بیٹے اوراس کے خاص دوست ہیں (خواہ ان کی مُراد مجازی اولاد ہی ہو ) ۔
قرآن ان بے دلیل بلند پرواز یوں کے مُقابلے میں ، وہ بھی ایسے گروہ کی طرف سے جو کتاب الہٰی کے حامل ہونے کے باوجود اس پر عامل نہیں تھے ،کہتاہے ان سے کہہ دیجئے ،اے یہود یوں ! اگرتمہارا گمان یہ ہے کہ تمام لوگوں کوچھوڑ کرتم ہی خدا کے دوست ہو ، توپھر موت کی تمنّاکرو ، اگر تم سچ کہتے ہو(قُلْ یا أَیُّہَا الَّذینَ ہادُوا ِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیاء ُ لِلَّہِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ ِنْ کُنْتُمْ صادِقینَ) (١) ۔
کیونکہ دوست توہمیشہ دوست کی مُلاقات کامشتاق ہوتاہے ، اورہم جانتے ہیں کہ قیامت میں پروردگار کی معنوی مُلاقات ہوگی ، جب عالمِ دُنیاکے حجاب ہت جائیں گے اور شہوات اورہو اس رانیوں کے غبارچھٹ جائیںگے ،توپردے اُٹھ جائیں گے اورانسان چشمِدل سے محبوب کاجمالِ و لآراء دیکھے گا اوراس کے قرب کی بساطِ پرقدم رکھے گا اور فی مقعد صدق عند علیک مقتدر (صاحب ِاقتدارشہنشاہ کے قرب میں صداقت کی جگہ میں )کا مصداق بن کر حریم ِ دوست میں راہ پائے گا ۔
اگرتم سچ کہتے ہو، اوراس کے دوست خاص ہو تو پھر دُنیاکی زندگی کے ساتھ ، اس قدر کیوں چمٹے ہُوئے ہو؟موت سے اتنا کیوں ڈر تے ہو؟یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم اپنے اس دعوٰے میں سچّے نہیں ہو ۔
قرآن نے اسی بات کوایک دوسری تعبیر کے ساتھ سورة بقرہ کی آ یت ٩٦ میں بھی بیان کیا ہے ،جہاں کہتاہے : وَ لَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلی حَیاةٍ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ ما ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ یُعَمَّرَ وَ اللَّہُ بَصیر بِما یَعْمَلُون تم انہیںاس دُنیا وی زندگی کے لیے سب سے زیادہ حریص پائو گے ،یہاں تک کہ مُشرکین سے بھی زیادہ حریص ،یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتاہے کہ ہزار برس تک زندہ رہے ،حالانکہ یہ طولانی زندگی اُسے عذابِ الہٰی سے نہیں چھڑا سکے گی اور خدااُن کے اعمال کودیکھتاہے ۔
اس کے بعد ان کے موت سے ڈ رنے کی اصل وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : وہ اپنے ان اعمال کی وجہ سے ، جوانہوں نے آگے بھیجے ہُوئے ہرگز موت کی تمنّا نہیں کریں گے (وَ لا یَتَمَنَّوْنَہُ أَبَداً بِما قَدَّمَتْ أَیْدیہِمْ وَ اللَّہُ عَلیم بِالظَّالِمین) ۔
حقیقت میں انسان کاموت سے خوف دوعوامل میں سے کسِیایک کی وجہ سے ہوتاہے ،یاتو وہ موت کے بعد کی زندگی پرایمان نہیں رکھتا اورموت کوفنا ونیستی کاایک ہیولااورعدم کاظلمت کدہ خیال کرتاہے،یہ ایک طبعی اورفطری امر ہے کہ انسان نیستی اور عدم سے گریز کرے ۔
اور یاوہ موت کے بعد والے عالم کاعقیدہ تورکھتاہے لیکن وہ اپنے نامۂ اعمال کوایسا تاریک وسیاہ دیکھتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس عظیم داد گاہ اور عدالت میں حاضر ہونے سے ڈرتے ہے ۔
اور چونکہ یہودی معاد اورموت کے بعد کے جہان کاعقیدہ رکھتے تھے ،لہٰذاطبعی طورپر ان کے موت سے ڈ رنے کاعامل دُوسری چیز تھی ۔
ظالمین کی تعبیر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جویہودیوں کے تمام ناروااعمال ، خُدا کے عظیم پیغمبروں کوقتل کرنے سے لے کران کی طرف ناروانسبتوں ، لوگوںکے حقوق غضب کرنے ،ان کے اموال ہتھیانے ،سرمائے غارت کرنے اورانواع واقسام کے اخلاقی مفاسد سے آلو دہ ہونے تک کوشامل ہے ۔
لیکن مسلمہ طوپر یہ وحشت واضطراب کسِی مشکل کوحل نہیں کرتا ، موت ایکایسااونٹ ہے جوتمام گھروں کے در وازے پر بیٹھا ہے ،لہٰذاقرآن کہتاہے : اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ان سے کہہ دیجئے کہ یہ موت جس سے تم بھاگتے ہو آخر ِ کار تُم سے مُلا قات کرے گا (قُلْ ِنَّ الْمَوْتَ الَّذی تَفِرُّونَ مِنْہُ فَِنَّہُ مُلاقیکُمْ ) ۔
اس کے بعد تمہیں اس کے پاس لے جایاجائے گاجوپنہا ں وآشکار ہے باخبر ہے ،اورتم جوکچھ عمل کیاکرتے تھے وہ تمہیں اس کی خبر دے گا (ثُمَّ تُرَدُّونَ ِلی عالِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّہادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُون) ۔
موت کاقانون اِس عالم کے قوانین میں سب سے زیادہ عالم اورسب سے زیادہ وسیع ہے ،خُدا کے عظیم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اورمقرب فرشتے سب مرجائیں گے اور خدا کی پاک ذات کے سوا اس جہان میں کوئی باقی نہیںرہے گا (کُلُّ مَنْ عَلَیْہا فان وَ یَبْقی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلالِ وَ الِْکْرامِ ٍ ) (٢) ۔
موت اورداد گارِ عدلِ الہٰی میں حاضرہو کرحساب دنیا بھی اس عالم کے مسلّمہ قوانین میں سے ہے اورخدا بندوں کے تمام اعمال سے دقیقیا ً آگاہ بھی ہے ۔
اس بناء پر اِس خو ن ودہشت کے ختم ہونے کی طرف ایک ہی راہ میں اوروہ اعمال کی پاکیزگی اورگناہ کی آ لو دگی سے دل کوپاک صاف کرناہے ،کیونکہ جس کاحساب پاک صاف ہواُسے محاسب سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، یہی ایک صورت ہے جس میں علی علیہ السلام کی طرح کہا جاسکتاہے :
ھیھات بعد اللتیا واللتی واللہ لابن ابی طالب انس بالموت من الطفل بثدی امہ۔
ہیہاد! ان تمام جنگوں اورحوادث کے بعد ، خداکی قسم ! ابوطالب کابیٹا موت سے اس سے بھی زیادہ انس اور لگائو رکھتاہے جتنا اُنس بچے کواپنی ماں کی چھاتی سے ہوتاہے ( ٣) ۔
اور جب آپ کی پیشانی مُبارک اشقی الاآخرین (ابن ملجم) کی ضرب سے شگافتہ ہُوئی توبآ واز بلند فرمایا : فزت ورب الکعبہ کعبہ کے پروردگار کی قسم ! میں کامیاب ہوا اورنجات پاگیا ۔
١۔"" من دون الناس""بعض مفسرین کے قول کے مطابق اسم "" ان "" کاحال ہے اور بعض کے نزدیک اولیاء کی صفت ہے ۔
٢۔ سورہ رحمن آ یت ٢٦، ٢٧۔
٣۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ٥۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma