نیکو کار سحر خیزوں کا اجر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

گذشتہ آ یات کے بعد ، جن میں جاہل جھوٹ بولنے والوں، اورقیامت ومعاد کے منکرین اوران کے عذاب کے بارے میں گفتگو تھی، زیربحث آ یات میں پرہیزگار مومنین اوران کے اوصاف اوراجر وپاداش کی بات ہورہی ہے تاکہ ایک دوسرے کا موازنہ کر کے ، جیساکہ قرآن مجید کی روش ہے ، حقائق اور زیادہ واضح وروشن ہوجائیں ۔
فرماتاہے:پرہیزگارجنت کے باغات اور چشموں کے درمیان ہوںگے (انَّ الْمُتَّقینَ فی جَنَّاتٍ وَ عُیُون) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ باغ میں قدرتی طورپر پانی کی نہریں ہوتی ہیں،لیکن اس کالطف اور عمدہ گی اس بات میں ہے کہ چشمے خود باغ کے اندر سے پھوٹیں اور درختوں کوہمیشہ سیراب کرتے رہیں ، یہ وہ امتیاز اورخصوصیت ہے جوجنت کے باغات میں پائی جاتی ہے ،نہ صرف ایک ہی قسم کاچشمہ بلکہ اس میں انواع واقسام کے چشمے موجود ہیں( ١) ۔
اس کے بعد جنت کی دوسری نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے اجمالی اور سربستہ صورت میں کہتاہے :ان کے پر وردگار نے جوکچھ انہیں مرحمت فرمایاہے ، وہ اسے حاصل کرتے ہیں (آخِذینَ ما آتاہُمْ رَبُّہُمْ ) ۔
یعنی وہ انتہائی رغبت اور شوق اورکمال رضاکے ساتھ اور خوشی خداکی ان نعمتوں کوقبول کریں گے ۔
اور آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے ،کہ یہ عظیم اجراور جزا بلاوجہ نہیں ہیں، وہ اس سے پہلے وارد دُنیامیں نیکو کاروں میں سے تھے (انَّہُمْ کانُوا قَبْلَ ذلِکَ مُحْسِنین)(٢) ۔
احسان اور نیکو کاری جویہاں آ ئی ہے، ایک وسیع معنی رکھتی ہے ، جوخدا کی اطاعت کو بھی شامل ہے اورخلقِ خدا سے انواع و اقسام کی نیکیوں کو بھی ۔
بعد والی آ یات ان کے نیکو کار ہونے کی کیفیت کوواضح کرتے ہُوئے ، ان کے اوصاف میں سے تین اوصاف کوبیان کرتی ہیں ۔
پہلی یہ کہ وہ راتوں کے تھوڑ ے حصّہ میں سوتے تھے (کانُوا قَلیلاً مِنَ اللَّیْلِ ما یَہْجَعُون) ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ رات کے اکثرحصّہ میں بیداررہتے ہیں اور تھوڑاحِصّہ سوتے تھے اوراصطلاح کے مطابق ہمیشہ شب زندہ دار تھے ۔
لیکن چونکہ یہ حکم پرہیزگار وں اور محسنین کے لیے ایک عمومی حکم کی صورت میں بعید نظر آتاہے ، لہٰذا یہ تفسیر مناسب نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے لیے کم اتفاق ہوتا تھاکہ وہ ساری رات سوئیں ، دوسرے لفظوں میں لیل (رات ) جنس اورعموم کی صُورت میں مدّ نظر ہے ۔
اس بناء پر وہ ہررات کے ایک حِصّہ میں بیدار رہتے تھے اورعبادت و نماز شب میں مشغول رہتے تھے ، اورایسی راتیں جن میں وہ ساری رات سوئے رہے ہوں، اور رات کی عبادت کلی طورپر اُن سے فوت ہوگئی ہو، بہت کم تھیں ۔
یہ تفسیر ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے( ٣) ۔
اس آ یت کے لیے دوسری تفسیر یں بھی ذکر کی گئی ہیں، لیکن چونکہ وہ بعید نظر آتی تھیں،لہٰذا ان کو بیان نہیں کیاگیا( ٤) ۔
ان کی دوسری صفت کواس طرح بیان کرتاہے ،: وہ ہمیشہ سحر کے اوقات میں استغفار کرتے ہیں (وَ بِالْأَسْحارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ) ۔
آخر شب میں جب غافلوں کی آنکھیں نیند میں ہوتی ہیں، اور ماحول ہرلحاظ سے پُرسکون ہوتاہے ، مادی زندگی کاشور وغل خاموش ہوتاہے ، اور وہ عوامل جوانسان کی فکر کواپنی طرف مشغول رکھتے ہیں، سب خاموش ہیں، یہ لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بار گاہِ خدا وندی میں حاضر ہوتے ہیں، اوراس کے حضور میں راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں، نماز پڑ ھتے ہیں اورخصوصیت کے ساتھ اپنے گناہوں سے استغفارکرتے ہیں ۔
بہت سے لوگوں کانظر یہ یہ ہے کہ یہاں استغفار سے مراد وہی نمازشب ہے ،اس بناء پر کہ نماز وتر کاقنوتاستغفار پر مشتمل ہے ۔
اسحار سحر(بروزن بشر)کی جمع ہے ، اصل میں پوشیدہ اور پہناں )ہونے کے معنی میں ہے ، اور چونکہ رات کی آخری گھڑیوں میں ایک خاص قسم کی پوشیدہ گی ہر چیزپر چھائی ہوتی ہے ، لہٰذااس کانام سحر رکھاگیاہے ۔
لفظ سحر(بروزن شعر)بھی ایسی ہی چیز کوکہاجاتاہے جوحقائق کے چہرے کوڈھانپ دے ، یا جس کے اسرار دوسروں سے پوشیدہ ہیں ۔
تفسیر درمنثور میں ایک روایت میں ا یاہے ، کہ پیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:
ان اٰخر اللیل فی التھجداحبّ الی من اولہ،لان اللہ یقول و با لاسحارھم یستغفرون۔
آخری رات تہجد(نمازِ شب)کے لیے میرے نزدیک محبوب ہے ، اس کے اوّل سے کیونکہ خدا فرماتا ہے : پرہیز گار سحر کے وقتوں میں استغفار کرتے ہیں ( ٥) ۔
ایک دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہواہے :
کانوایستغفرون اللہ فی الوترسبعین مرّة فی السحر
بہشتی نیکو کار سحر کے وقت نماز وتر میں ستر مرتبہ خدا سے طلبِ مغفرت کرتے ہیں ( ٦) ۔
اس کے بعد بہشتی پرہیزگار وں کا تیسرصفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتاہے: ان کے اموال میں سائل ومحروم کے لیے ایک حق ہے (وَ فی أَمْوالِہِمْ حَقّ لِلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ) ۔
حق کی تعبیر یہاں یاتواس بناء پر ہے کہ خدانے ان پرلازم قراردیاہے (مثلاً زکوٰة ،خمس اور سارے واجب شرعی حقوق)یا انہوں نے خودسے اپنے اوپر لازم قراردے لیاہے، اورعہد کیاہے کہ تو اس صورت میں حقوق واجب کے علاوہ کوئی بھی شامل ہوگا ۔
بعض کانظر یہ یہ ہے کہ یہ آ یت صرف دوسری قسم کے لیے ہے، اور حقوق واجب کوشامل نہیں ہے ،کیونکہ حقوق واجب تو سب لوگوں کے اموال میں ہوتے ہیں ، چاہے وہ پرہیزگار ہوں ،یادوسرے ،یہاں تک کہ کفار بھی ، اس بناپر جب وہ یہ کہتاہے : ان کے اموال میں اس قسم کاحق ہے ،یعنی واجبات کے علاوہ وہ اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اموال میں سے راہِ خدا میں سائلوں اورمحروموں پرخرچ کریں، لیکن کہاجاسکتاہے، کہ نیکو کاروں کادوسروں سے فرق یہ ہے کہ نیکو کاران حقوق کواداکرتے ہیں، جبکہ دوسرے اس کے پابند نہیں ہیں۔
یہ تفسیر بھی بیان کی گئی ہے کہ سائل کی تعبیر حقوق واجب کے بارے میں ہے ،کیونکہ وہ سوال اور مطالبہ کرنے کاحق رکھتے ہیں، اور محروم کی تعبیر مستحب حقوق میں ہے جن میں مطالبہ کاحق نہیں ہے ۔
فاضل مقداد کنز العرفان میں تصریح کرتے ہیں کہ حق معلوم سے مراد وہ حق ہے جووہ خوداپنے مال میں قرار دیتے ہیں ، اورخودکواس کاذمہ دار سمجھتے ہیں( ٧) ۔
اس معنی کی نظیر سورۂ معارج کی آیہ٢٤م ٢٥میں بھی آ ئی ہے فرماتاہے:والذین فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم ۔
اوراس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ وجوبِ زکوٰة کاحکم مدینہ میں نازل ہوا ، اوراس سُورہ کی تمام آ یات مکّی ہیں اخری نظریہ کی تائید ہوتی ہے ۔
ان روایات سے بھی جومنابع اہل بیت علیہم السلام سے پہنچی ہیں، اس بات کی تاکید ہوئی ہے کہ حق معلوم سے مراد زکوٰة واجب کے علاوہ کوئی چیز ہے ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
لکن اللہ عزوجل فرض فی اموال الاغنیاء حقو قا غیر الزکاة ،فقال عزو جل ، والدین فی اموالھم حق معلوم للسائل ، فالحق المعلوم غیر الزکاة ،وھوشیء یفر ضہ الرجل علی نفسہ فی مالہ ... ان شاء فی کل یوم وان شاء فی کل جمعة وان شاء فی کل شھر...۔
لیکن خدانے دولت مندوں کے مال موزکوٰة کے علاوہ کچھ حقوق قرار دیئے ہیں، منجملہ ان کے فرمایاہے: ان کے اموال میں سائل ومحروم کے لیے حق معلوم ہے ،اس بناء پر حق معلوم زکوٰة کے علاوہ ہے اور وہ ایسی چیزہے جوانسان خود اپنی ذات پرلازم کرتاہے کہ وہ اپنے مال میں سے دے ... چاہے تو روزانہ دے یا ہرجمعہ کودے یاماہانہ دے ...( ٨) ۔
اس سِلسلہ میں دوسری متعدد احادیث مختلف تعبیروں کے ساتھ امام علی بن الحسین علیہ السلام ، امام باقر علیہ السلام اورامام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں( ٩) ۔
اوراس طرح سے آ یت کی تفسیر واضح و روشن ہے ۔
اس بارے میں کہ سائل اور محروم میں کیافرق ہے ؟ایک گروہ نے تو یہ کہا ہے : سائل وہ شخص ہے جولوگوں سے مدد کا تقاضا کرے ، لیکن محروم وہ آبرو مند شخص ہے جو معاش کے لیے اپنی انتہائی جدّو جہد اور کوشش کرتاہے، لیکن اس کاہاتھ کہیں نہیں پہنچتا اوراس کاکسب وکار اورزندگی پیچیدہ ہوگئی ہے، اوراس کے باوجود اپنی غیرت کی حفاظت کرتاہے، اورکسی سے مد د نہیں مانگتا ۔
یہ وہی شخص ہے جسے محارفسے تعبیر کرتے ہیں ،کیونکہ محارف کی تفسیر میں کتب لغت اورروایات اسلامی میں یہ بیان کیاگیاہے ۔
وہ ایک ایساآدمی ہے ، جوجس قدر بھی کوشش کرتاہے، اس کی کوئی درآمد نہیں ہوتی ، گو یازندگی کے راستے اس کے سامنے بندہو گئے ہیں۔
بہرحال یہ تعبیراس نکتہ کی طرف اشار ہ ہے کہ ہرگزاس انتظار میں نہ بیٹھے رہو کہ حاجت مند تمہارے پاس آئیں ، اور مدد کی درخواست کریں،بلکہ تم پر لازم ہے کہ تم جستجو کرو، اور آبرو مند محروم افراد کو جو قرآن کے قول کے مطابق (بقرہ ٢٧٣) یَحْسَبُہُمُ الْجاہِلُ أَغْنِیاء َ مِنَ التَّعَفُّف:
بے خبر لوگ پاک دامنی کی وجہ سے انہیں غنی اور مالدار خیال کرتے ہیںپیداکرو،اوران کی مدد کرو، ان کی مشکلات کی گراہ کھولواوران کی عزّت و آبرو کی حفاظت کرو، اور یہ ایسا اہم حکم ہے،جومحروم مسلمانوں کی شخصیت وحیثیت کی حفاظت کے لیے بہت اہم ہے ۔
یقینا ان لوگوں کو(اسی سُورئہ بقرہ کی آ یت میں قرآن کے قول کے مطابق ) ان کے چہروں سے پہنچاناجاسکتاہے تعرفھم بسیماھن۔
ہاں !اگر چہ وہ خاموش ہیں،لیکن آگاہ افراد کے لیے ان کے چہرے کی گہرائی میں ان کی اندرونی جانکاہ تکلیفات کی انشانیاں واضح و آشکار ہیں، اور ان کے چہرے کارنگ ان کے اندر ونی بھید کی خبر دیتاہے۔
١۔لفظ "" فی"" کا""جنّات"" کے بارے میں مفہوم واضح ہے ،کیونکہ پرہیزگار جنّت کے اندر ہیں ،لیکن "" عیون"" (چشموں) بارے میں اس معنی میں نہیں ہے ،کہ وہ چشموں کے اندر ہوں گے بلکہ وہ بہتے ہُوئے چشموں کے درمیان میں ہوں گے ۔
٢۔"" قبل ذالک "" سے مراد ،جیساکہ ہم نے بیان کیاہے قیامت اور بہشت میں وارد ہونے سے پہلے ہے ۔ یعنی عالم دنیامیں ،لیکن بعض نے اُسے شریعت کے آنے سے پہلے کے معنی میں لیاہے،جو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ "" مستقلاتِ عقلیہ""پروحی کے نازل ہونے سے پہلے ہی عمل کیاکرتے تھے ، لیکن یہ معنی بعید نظر آتاہے ۔
٣۔مرحوم"" طبرسی"" نے "" مجمع البیان "" میں اس حدیث کی طرف اشارہ کیاہے (جلد ٩،صفحہ ١٥٥)تفسیر صافی میں بھی یہ حدیث کافی سے اس صورت میں نقل ہوئی ہے ۔کانوااقل اللیالی یفو تھم لا یقومون فیھا:( بہت کم راتیں ان سے فوت ہوتی تھیں جن میں وہ عبادت کے لیے نہ اٹھتے ہوں) (تفسیر صافی زیربحث آ یت کے ذیل میں ) ۔
٤"" ما یھجعون""میں "" ما"" ممکن ہے زائدہ ہواور تاکید کے لیے ہو، یاموصولہ ہو، یا مصدر یہ ہو ، (جیساکہ تفسیر فخر رازی اورالمیزان میں آ یاہے)اگرچہ بعض نے صرف زائدہ اور مصدر یہ کہاہے (جیساکہ قرطبی اور روح البیان میں ا یاہے )لیکن یہ جوبعض نے احتمال دیاہے کہ یہ "" نافیہ""ہے تو یہ بہت ہی بعید نظر آ تاہے ۔
٥۔درالمنثور ، جلد٦ ،صفحہ ١١٣۔
٦"" مجمع البیان "" زیربحث آ یات کے ذیل میں ۔
٧۔"" کنزالعرفان"" جلد١،صفحہ ٢٢٦۔
٨۔"" وسائل الشیعہ "" جلد ٦ ،صفحہ ٢٧(ابواب ماتجب فیہ الز کات باب ٧ ،حدیث ٢۔
٩۔وہی مدرک ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma