ہم ہمیشہ آسمانوں کووسعت دیتے رہتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آیات ایک مرتبہ پھر عالم آفرینش میں آ یات خداکی عظمت کے مسئلہ کوپیش کرتی ہیں، اورحقیقت میں ان مباحث کو جواسی سورہ کی آ یت ٢٠و٢١ میں ،زمین اورانسانی وجود میں اس کی نشانیوں کے بارے میں ،گذر چکی ہیں، تکمیل کرتی ہیں،اورضمنی طورپر مسئلہ معاد اورموت کے بعد کی زندگی پرخدا کی قدرت کی ایک دلیل ہے ،پہلے فرماتاہے،: ہم نے آسمان کو قدرت کے ساتھ بنایا ،اورہم ہمیشہ اُسے وسعت دیتے رہتے ہیں(وَ السَّماء َ بَنَیْناہا بِأَیْدٍ وَ ِنَّا لَمُوسِعُونَ ) ۔
اور ہم نے زمین کو بچھایا، اورہم کیا ہی اچھابچھانے والے ہیں (وَ الْأَرْضَ فَرَشْناہا فَنِعْمَ الْماہِدُونَ) ۔
اید (بروزن صید )قدرت وقوت کے معنی میں ہے ، اورقرآن مجید کی آ یات میں بار ھااس معنی میں آ یاہے ، اوریہاں آسمانوں کی خلقت کے بارے میں خداسے عظیم کی قدرت کاملہ کی طرف اشارہ ہے ۔
اس عظیم قدرت کی نشانیاں آسمانوں کی عظمت میں بھی اوراس خاص نظام میں بھی، جوان میں کارفرماہے ، اچھی طرح سے واضح ہے (١) ۔
اور بے نیازہونے کے معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے ،کیونکہ اس کے خزا نے اس قدر وسیع ہیں کہ مخلوقات کورزق عطاکرنے سے کبھی بھی ختم نہیں ہوتے ، اورنہ ان میں کوئی کمی ہوتی ہے ۔
لیکن اس سے پہلے جملہ میں اسمانوں کی خلقت کے مسئلہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، اورماہرین کے آخری انکشافات کومد نظر رکھتے ہوئے ... جوانہوں نے جہان اورعالم ہستی کے پھیلاؤ اور وسعت کے سلسلے میں کئے ہیں، اور حسی مشاہدات کے طریقہ سے بھی جس کی تائید ہوتی ہے ...آ یت کاایک اور زیادہ لطیف معنی حاصل کیاجاسکتاہے، اور وہ یہ ہے کہ خدا نے آسمانوں کوپیدا کیااورہمیشہ انہیں وسعت دیتارہتاہے ۔
موجودہ علم یہ بتاتاہے: نہ صرف کرہ زمین آسمانی مادوں کوجذب کرتے کرتے بتدریج موٹی اور وزنی ہوتی جارہی ہے بلکہ آسمان بھی وسیع ، اورپھیلتے جارہے ہیں،یعنی وہ ستارے جوایک کہکشاں میں ہیں ،بڑی تیزی کے ساتھ کہکشاں کے مرکزسے دور ہوتے جارہے ہیں،یہاں تک کہ بہت سے موقعوں پراس پھیلاؤ کی سرعت کااندازہ بھی لگایا ہے ۔
کتاب مرزہای نجوم تالیف فرد ھویلمیں یہ بیان کیاگیاہے، کروں کے پھیلنے کی زیادہ سے زیادہ سرعت کاابت تک جواندازہ لگایاگیاہے وہ تقریباً ٦٦ ہزار کلومیٹرفی سیکنڈ ہے!زیادہ دوری پر واقع کہکشائیں میں ہماری نگاہ کے آگے اتنی کم نورہیں کہ کافی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سرعت کااندازہ لگانا دشوار ہے ۔آسمان سے جو تصویریںحاصل کی گئی ہیں،وہ اس اہم انکشاف کی واضح طورپر نشاندہی کرتی ہیں،کہ:ان کہکشاؤں کافاصلہ نزدیک کی کہکشاؤں کی نسبت بہت سرعت کے ساتھ بڑھ رہاہے ۔
مؤ لف مذکور نے اس کے بعد ابرسنبلہ و اکلیل اور شجاع وغیرہ نام کی کہکشاؤں کی سرعت کی تحقیق پیش کی ہے ، اورحساب لگانے کے بعداس سلسلہ میں بہت سی حیران کن اور عجیب وغریب سرعتوں کوبیان کیاہے ( ٢) ۔
اس سلسلہ میںچند باتیں آقائے جان الدر کی بھی سن لیں وہ کہتاہے ، : ستاروں سے جوموجیں نکلتی ہیں، وہ بات کی نشاند ہی ہوتی ہے کہ ستاروں کاوہ مجموعہ جس سے مل کر یہ جہان بناہے ، اتناہی ان کی رفتار کی تیزی بڑھتی جارہی ہے ، اس کی مثال یوں ہے کہ ایک وقت یہ سب ستارے اس مرکز میں جمع تھے ۔اوراس کے بعد وہ ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوگئے ، اور بڑے ستاروں کامجموعہ ان سے الگ ہو کرتیزی اور سرعت کے ساتھ ہرطرف کو روانہ ہوگیا ۔
ماہرین نے اس سے یہ نتیجہ نکالاہے ، کہ یہ جہان ایک نقطۂ آغاز کاحامل تھا(٣)۔
ژرژگاموف کتابِ آ فرینش جہان میں اس بارے میں اس طرح لکھتاہے: عالم کی فضا جوار بوں کہکشاؤں سے مل کر بنی ہے ایک ایسی حالت میں ہے جوتیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ جہان حالت سکون میں نہیں ہے ، بلکہ اس کاپھیلتے جانا ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔
اس بات کی حقیقت کو معلوم کرنے ، اور تہ تک پہنچنے سے:کہ ہماراجہان مسلسل پھیل رہاہے ،اورحالت انبساط میں ہے ، جہاں شناسی کے معموں کے خزانوں کی اصلی کلید معلوم ہو جاتی ہے، کیونکہ اگراس وقت جہاں حالت انبساط میں ہو تو یہ بات لازم آ ئی ہے کہ وہ کسی وقت میں بہت شدیدحالت انقباض میں تھا( ٤) ۔
صرف مذکورہ ماہرین ہی اس حقیقت کااعتراف نہیں کیا، بلکہ دوسرے افراد نے بھی اس معنی کوانی تحریروں میں نقل کیاہے . جن کے کلمات کے نقل کرنے سے عبارت طویل ہوجائے گی ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ انا لموسعون (ہم وسعت دینے والے ہیں)کی تعبیر جملہ اسمیہ اوراسم فاعل کے جملہ سے استفادہ کرتے ہوئے ، ، اس موضوع کے ہمیشہ ہمیشہ ہوتے رہنے کی دلیل ہے جواس بات کی نشاندہی کرتی ہے ،کہ یہ ہمیشہ سے تھی اوراسی طرح جاری رہے گی ، اور یہ ٹھیک وہی چیز ہے ، جس تک موجودہ زمانے میں پہنچے ہیں کہ تمام کرات آسمانی اورکہکشا میں میں ابتداء میں ایک ہی مرکز میں جمع تھیں( ایک خاص وزن کے ساتھ جو حد سے زیادہ بوجھل تھا) اس کے بعد ایک انتہائی وحشتناک اور عظیم انفجار واقع ہوا ( یعنی یہ مرکزپھٹ پڑا ) اوراس کے ساتھ ہی اس جہان کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا ہو کر بکھر گئے ، اورانہوں نے کروں کی صورت اختیار کرلی، اوروہ بڑی سرعت کے ساتھ پیچھے ہٹتے اور پھیلتے جارہے ہیں ۔
لیکن زمین کی خلقت کے بارے میں ماھدون کی تعبیر ایک لطیف تعبیرہے ، جواس بات کی نشاندہی کرتی ہے، کہ خدانے انسانوں کی زندگی کے لیے تمام آرام وآسائش کے وسائل اور ذرائع کے ساتھ ( ایک گہوارے کے طورپر ) آ مادہ اورتیار کیاہے، کیونکہ ماھد مھد کے مادہ سے گہوارہ کے معنی میں ہے . یاہراس جگہ کے معنی میں ہے ،جسے راحت و آرام کے لیے آمادہ اورتیار کرتے ہیں، اس قسم کی جگہ راحت و آرام مطمئن ،محفوظ اور گرم ونرم ہونی چاہیئے اور یہ تمام چیزیں کرہ زمین میں حاصل ہیں ۔
فرمان الہٰی سے ایک طرف توپتھر نرم اور مٹی میں تبدیل ہوگئے اور دوسری طرف سے پہاڑ وں کی سختی اور زمین کی سخت جلد نے اسے مدد جزر کے دباؤ سے بچایا، اورتیسری طرف سے وہ قشر ہوائی جس نے اُسے چاروں طر ف سے گھیررکھاہے، سورج کی روشنی کوحسب ضرورت پہنچنے دیتاہے اورایک عظیم لحاف کی طرح اس کووسیع بستر پرڈالتاہے اوران آسمانی پتھروں کے حملہ کے مقابلہ میں ، جنہیں وہ قلمر وزمین میں داخل ہوتے ہی آگ لگاکر خاکستر کردیتاہے، ایک مضبوط اور قوی ڈھال بھی ہے ۔
اوراس طرح انسان کی پذیرائی اورمہمانی کے لیے خداکی طرف سے ( جو اس کرہ خاکی میں خدا کامہمان ہے ) آرام وآسائش کے تمام اسباب فراہم ہوئے ہیں ۔
آسمانوں اور زمین کی خلقت کے بعد آسمان اور زمین کے مختلف موجودات اورانواع واقسام کے نباتات وحیوانات کی نوبت آتی ہے ، اور اس سلسلے میں بعد والی آ یت میں فرماتاہے: ہم نے ہرچیز کے جوڑ ے جوڑے پیداکئے ہیں، تاکہ تم غور کرو سمجھو (وَ مِنْ کُلِّ شَیْء ٍ خَلَقْنا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون) ۔
بہت سے مفسرین نے یہاں زوج کومختلف اصناف کے معنی میں سمجھاہے، اور اوپر والی آ یت کواس جہان کے موجودات کے مختلف اصناف کی طرف اشارہ لیاہے جو زوج کی صورت میں آ ئے ہیں، مثلا رات اوردن نوراور ظلمت دریا اورصحرا سورج اور چاند نر اور مادہ وغیرہ ۔
لیکن جیساکہ ہم نے پہلے بھی مشابہ آ یات کے ذیل میں بیان کیاہے اس قسم کی آ یات میں ایک زیادہ دقیق معنی کی طرف اشارہ ہوسکتاہے ۔ کیونکہ عام طورپر لفظ زوجنرو مادہ کی دوجنسوں کوکہتے ہیں چاہے وہ عالم حیوانات میں ہویا عالم نباتات میں ، اوراگر ہم اسے تھوڑی سی وسعت اوردین ، تو یہ معنی تمام مثبت ومنفی قویٰ کوشامل ہوگا ۔
اوراس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے، کہ قرآن اوپر والی آ یت میں کہتاہے،: (من کل شیء) (تمام موجودات میں سے )نہ صرف موجودات زندہ ،بلکہ ممکن ہے کہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو ، کہ مثبت و منفی ذرات سے بنی ہوئی تمام اشیاء عالم ، اور آج کے علمی نکتہ نظر سے یہ بات مسلم ہے کہ ایٹم مختلف اجزاء سے مل کر بنے ہیں ،منجملہ ان کے وہ اجزاء جومنفی برقی بار کے حامل ہیں اورانہیں الکڑونکہاجاتا ہے اوروہ اجزء جومثبت برقی بار کے حامل ہوتے ہیں جو پرو ٹوںکہلاتے ہیں ۔
اس بناء پر شی ء کی حتمی طورپر حیوان یا نبات کے معنی میں تفسیر کرنالازم اور ضروری نہیں ہے ،اور نہ ہی زوج کوجنس یا صنف کے معنی میں سمجھنا،(اس سلسلہ میں ہم دوسری توضیحات جلد ٨ تفسیرنمونہ سورئہ شعراء کی آ یت ٧ کے ذیل میں اور جلد ٥ صفحہ ٦٢١ اورجلد ١٠ صفحہ ٣٤٤ میں بیان کرچکے ہیں ) توجہ رکھنا چاہیے کہ اس کے باوجود دونوں تفاسیر قابل جمع ہیں ۔
ضمنی طورپر لعلکم تذ کرون کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے ،کہ تمام اشیاء جہان میں زوجیت وکثرت اور دوگانکی ، انسان کواس مطلب سے آگاہ کرتی ہے ، کہ جہان کاخالق واحد ویگانہ ہے کیونکہ وہ گانگی مخلوقات کی خصوصیات میں سے ہے ۔
ایک حدیث میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے بھی اس معنی کی طرف اشارہ ملتاہے،جہاں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
بمضادتہ بین الاشیاء عرف ان لاضدلہ ، بمقار نتہ بین الا شیاء عرف ان لا قرین لہ، ضاد النور بالظلمة والیس بالبلل ، والخشن باللین، والصرد بالحرور ، مؤ لفا بین متعاد یا تھا،مفرقا بین متد انیاتھا، دالة بتغر یقھا علی مفر قھا، و بتا لیفھاعلی مؤ لفھا، وذالک قولہ ومن کل شی ء خلقنا زوجین لعلکم تذ کرون۔
اس نے دنیا جہان کی چیزوں کوایک دوسرے کی ضد پیدا کیاہے، تاکہ واضح ہوجائے کہ اس کے لیے کوئی ضد نہیں ہے اور انہیں ایک دوسرے کاقرین قرار دیاہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس کاکوئی قرین نہیں ہے، نور کوظلمت کی ضد ، خشکی کو تری کی ضد،سختی کونرمی کی ضد اور سردی کوگرمی کی ضد قرار دیا،اس کے باوجود ان اشیاء کوجوایک دوسرے کی ضد ہیں جمع کردیا، تاکہ یہ جدائی جدا کرتے والے پردلیل ہوا ور یہ پیوسگی ملانے والے پردلیل ہو، اوریہ ہے (وَ مِنْ کُلِّ شَیْء ٍ خَلَقْنا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ)(٥) ۔
بعد والی آیت میں گزشتہ توحیدی مباحث سے نتیجہ نکالتے ہوئے ،مزید کہتاہے: اس بناپرتم خداکی طرف دوڑو کیونکہ میں اس کی طرف سے تمہارے لیے واضح طورپر ڈرانے والاہوں (فَفِرُّوا ِلَی اللَّہِ ِنِّی لَکُمْ مِنْہُ نَذیر مُبین) ۔
یہاں فراز کی تعبیرایک عمدہ اورلطیف تعبیر ہے ،عام طورپرفرار ایسی جگہ کہاجاتاہے،جہاں انسان ایک طرف سے کسی موجود یاوحشتناک حادثہ سے روبر ہوگیا، اوردوسری طرف سے کسی جگہ کوئی پناہ گاہ رکھتاہو، لہٰذاپوری تیزی کے ساتھ جائے حادثہ سے دور ہوجاتاہے، اورامن وامان کے نقطہ کی طرف رخ کرتاہے،تم بھی شرک وبت پرستی سے ، جوایک وحشتناک عقیدہ ہے گریز کرو،اور توحید خالص کی طرف جوواقعی امن وامان کا علاقہ ہے تیزی سے رخ کرو۔
عذاب خداسے گریز کرو اس کی رحمت کی طرف جاؤ۔
اس کی نافر انیوں اورعصیاں سے فرار کرو اور توبہ وانابہ سے تو سل اختیار کرو ۔
خلاصہ یہ کہ قباحتوں، برائیوں ،بے ایمانی ،جہالت کی تاریکی اورعذاب جاودانی سے بھاگواور رحمت حق کی آغوش اورجا ودانی سعادت میں داخل ہو جاؤ۔
پھر مزید تاکید کے لیے وحد پرستی کے مسئلہ پرتکیہ کرتے ہوئے فر ماتاہے:
خدا کے ساتھ دوسرا معبود قرار نہ دو، کہ میں تمہارے لیے اس کی طرف سے واضح ڈ رانے والاہوں (وَ لا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّہِ ِلہاً آخَرَ ِنِّی لَکُمْ مِنْہُ نَذیر مُبین ) ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ گزشتہ آ یت اصل ایمان باللہ کی طرف دعوت کرتی ہو، اور یہ آ یت اس کی ذات پاک کی یکا نگت کی طرف دعوت ہو، لہٰذا ا ِنِّی لَکُمْ مِنْہُ نَذیر مُبین ایک وقع پر ایمان باللہ کے ترک کرنے پر ڈ رانے کے عنوان سے ہو، اور دوسرے موقع پرشرک اور دُوئی کے مقابلہ میں انذار ہو ، تو اس طرح سے ہرایک الگ الگ مطلب کی طرف اشارہ ہو ۔
بعض روایات میں جوامام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں خداکی طرف فرار سے مراحج اوراس کے گھر کی زیارت ہے ( ٦) یہ بات ظاہر ہے کہ اس سے مراد ،خداکی طرف فرار کے ایک واضح مصادیق میں سے ہوتاہے، کیونکہ حج انسان کوحقیقت توحید، اورتوبہ وانابہ سے آشنا کرتاہے، اور الطاف خداوندی کی پناہ میں جگہ دیتاہے۔
١۔یہاں ان چنداشتباہات کازکرجوبعض مفسرین یاغیر مفسرین کوہوئے.ضروری ہے۔
(۱)۔ بعض مفسرین نے "" اید"" کی دومعانی میں تفسیر کی ہے ، "" قدرت "" و "" نعمت "" جب کہ لغت کے لحاظ سے "" اید "" قدرت کے معنی میں ہے ، لیکن "" ید"" جس کی جمع "" ایدی "" اور جمع الجمع "" ایادی "" بنتی ہے ، وہ قدرت و نعمت دونوں معنی میں آ یاہے ،( ہم نے بھی سورئہ ص کی آ یت ١٧ کی تفسیر میں طبرسی کی مجمع البیان کی پیروی کرتے ہوئے "" اید"" کے لیے دومعانی ذکر کئے ہیں جس کی اب اصلاح کررہے ہیں) ۔
(۲)۔المعجم المفہرس ( محمد فواد عبدالباقی )میں زیربحث آ یت "" ایید"" کے مادہ میں (باد و"" یائ"" کے ساتھ )ذکر ہوا ہے اوراس کو "" اید"" کے مادہ سے الگ کیاہے یہ اشتباہ ظاہراً بعض قرآنوں کے رسم الخط سے پیدا ہواہے ، ورنہ سب مفسرین نے جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ زیر بحث آ یت میں وہی "" اید "" قددرت کے معنی میں ہے ۔
٢۔ "" مرزہادی نجوم"" ترجمہ "" رضا اقصی "" صفحہ ٣٣٨ تا٣٤٠۔
٣۔"" آغاز وانجام جہان"" صفحات ٧٤، ٧٧(تلخیص کے ساتھ ) ۔
٤۔"" آغازوانجام جہان "" صفحات ٧٤ ۔ ٧٧ (تلخیص کے ساتھ ) ۔
٥۔ "" توحید صدوق"" مطابق نقل "" نورالثقلین "" جلد ٥ صفحہ ١٣٠۔
۶۔اس سلسلہ میں امام باقر علیہ السلام اورامام صادق علیہ السلام سےچند احادیث تفسیرنورلثقلین ،جلد۵،صفحہ۱۳۰و ۱۳۱ پرنقل ہوئی ہیں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma